عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ - ڈاکٹر وسیم مفتی

عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ

 عبید اﷲبن عبدا ﷲ بن عتبہ بن مسعودبنو ہذیل سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ قبیلہ اپنے جد ہذیل بن مدرکہ کے نام سے موسوم تھا اور قریش کی شاخ بنو زہرہ کا حلیف تھا۔ مدرکہ پر عبید اﷲ کا شجرہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے شجرۂ مبارک سے جا ملتا ہے۔ خزیمہ بن مدرکہ آپ کے جد تھے ۔عبید اﷲ کے دادا عتبہ بن مسعودجلیل القدر صحابی عبداﷲبن مسعودکے بھائی تھے ،ان دونوں کوغزوۂ بدر میں آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہونے کا اعزاز حاصل ہے ۔عتبہ کے تیسرے بھائی عثبہ بن مسعود بھی صحابی رسول تھے، لیکن وہ جنگ بدر میں شریک نہ تھے۔عتبہ بن مسعود کے بیٹے اور عبیداﷲ کے والد عبداﷲ نیک سیرت مسلمان تھے ،خلیفۂ ثانی عمر بن خطاب نے انھیں عامل مقرر کیااور ان کی ستایش کی۔ عون اور عبد الرحمان عبید اﷲ کے بھائی تھے ۔عون بن عبداﷲ فقیہ اور ادیب تھے،کچھ دیر مروان بن حکم کے ساتھ رہنے کے بعدایک طویل عرصہ عمر بن عبد العزیز کے ساتھ گزارا۔عبد الرحمان فقیہ تھے نہ ادیب ،ان کا زیادہ ذکر نہیں ملتا۔ عبید اﷲ بن عبداﷲ بن عتبہ کی کنیت ابو عبد اﷲ تھی۔
عبیداﷲ فقہاے سبعۂ مدینہ میں سے ایک تھے۔ فقہ و حدیث کے ان ماہرین کے نام یہ ہیں؛قاسم بن محمد ،عروہ بن زبیر،ابو بکر بن عبدالرحمان مخزومی،سعید بن مسیب ،عبید اﷲ بن عبد اﷲ بن عتبہ،خارجہ بن زیداور سلیمان بن یسار ۔
عبید اﷲ بن عبداﷲنے زفر بن اوس ،زید بن خالد جہنی،سہل بن حنیف ، شبل بن حامد مزنی ،عبد اﷲ بن زمعہ، عبداﷲ بن عتبہ(عبید اﷲ کے والد)،عبداﷲ بن عمر، عبد اﷲ بن عباس،عبد اﷲ بن مسعود(ان کے دادا کے بھائی )، عبدالرحمان بن عبد القاری،عثمان بن حنیف، عروہ بن زبیر( ہم عصر فقیہ)،مسور بن مخرمہ ، نعمان بن بشیر،ابو سعید خدری،ابو طلحہ انصاری،ابوہریرہ،ابو واقد لیثی،سیدہ عائشہ،سیدہ میمونہ،فاطمہ بنت قیس اور ام قیس بنت محصن سے احادیث روایت کیں۔
اس فقیہ مدینہ سے حدیث روایت کرنے والوں میں شامل ہیں؛خصیف بن عبد الرحمان ،سالم ابو النضر،سعد بن ابراہیم، سعید بن ابو ہند،صالح بن کیسان ،ضمرہ بن سعید،طلحہ بن یحییٰ،ابو زناد،عبد اﷲ بن عبیدہ،عبد الرحمان بن محمد، عبد المجیدبن سہیل،عراک بن مالک ،عون بن عبداﷲ(ان کے بھائی)،ابن شہاب زہری،موسیٰ بن ابو عائشہ،ابوبکر بن ابو جہم اور ابو زعرا جشمی۔
ابن سعد نے عبیداﷲ بن عبداﷲ بن عتبہ کو تابعین مدینہ کے طبقۂ ثانیہ میں شامل کیا ہے۔واقدی کہتے ہیں: ’’عبیداﷲ ثقہ عالم اور فقیہ تھے۔کئی احادیث کے راوی ہونے کے ساتھ شاعر بھی تھے۔‘‘اہل رجال نے ان کے تقویٰ اور کردا ر کو سراہا ہے ۔ عثمان بن سعید نے یحییٰ بن معین سے پوچھا ، ’’ عبدا ﷲ بن عباس کے بعد ان کو عکرمہ زیادہ پسند ہیں یا عبید اﷲ بن عبداﷲ ؟‘‘ان کا جوا ب تھا ،’’دونوں ایک جیسے ہیں۔‘‘انھوں نے ان میں کوئی فرق نہ کیا۔
زہری عبید اﷲ بن عبد اﷲکی خدمت میں رہے،انھیں پانی بھر کر دیتے حتیٰ کہ یہ اپنی باندی سے کوئی چیز مانگتے تو کہتی ،’’اپنے غلام (زہری)سے(مانگیں)۔‘‘وہ کہتے ہیں ،’’میں نے (علم کے)چار سمندروں کو دیکھا ہے ،ان میں سے ایک عبید اﷲ بن عبداﷲ تھے۔ میں علم دین کا سماع کر چکاتھا،جب عبید اﷲ سے میری ملاقات ہوئی تو یوں لگا جیسے میں گھاٹی میں پھنسا تھااور وادی میں گر گیا ہوں،لگتا تھا میں نے کچھ علم نہیں سیکھا ۔میں نے بارہا چاہا ،ایسے فقہی مسائل کا کھوج لگاؤں جو عبید اﷲ بن عبد اﷲہی کے ہاں مل سکتے ہوں،مجھے ہمیشہ اس میں کامیابی ہوئی۔‘‘ زہری بیان کرتے ہیں،’’ابو سلمہ عبداﷲ بن عباس سے سوالات کرتے تھے تو وہ کھل کر جواب نہ دیتے ۔ عبید اﷲ بن عبدا ﷲ نرمی اور ملائمت سے پوچھتے تو ان کی عزت افزائی کرتے۔‘‘
عبد العزیززہیٰ کا کہنا ہے،’’ میں کسی عالم کی صحبت میں بیٹھتا تو میرا یہی خیال ہوتا کہ میں اس کے پاس والا علم پہلے سے جانتاہوں۔ عروہ بن زبیر کے ہاں جاتا رہا ان سے جو باتیں سنتا مکرر ہوتیں۔عبید اﷲ بن عبداﷲ کا معاملہ دوسرا ہے ، جب بھی ان کے پاس آتاان کے ہاں نیا علم ملتا۔‘‘خلیفۂ خامس عمر بن عبدالعزیز ا ن کے شاگرد رہے۔ انھوں نے خلافت کا احیا کیا تو عبید اﷲ وفات پا چکے تھے، اکثر کہا کرتے،’’کاش میری عبیداﷲبن عبداﷲسے دیت کے مسئلے پر ایک نشست ہو جاتی۔‘‘ حمزہ بن عبداﷲ کی روایت کے مطابق انھوں نے اپنے زمانۂ خلافت میںیہ بھی فرمایا:’’اگر عبیداﷲ بن عبداﷲ بن عتبہ زندہ ہوتے تو انھی کی رائے سے فیصلے کرتا۔میری بڑی خواہش ہے، مجھے خون بہا اور تاوانوں کے مسائل پر گفتگو کے لیے عبید اﷲ کا ایک دن مل جاتا ۔‘‘یہ ان کا تجربہ تھا کیوں کہ عبید اﷲ امارت حجاز کے دور میں ان کی مجلس مشاورت میں شریک رہ چکے تھے۔ اس مجلس میں مذکو رہ فقہاے سبعہ کے علاوہ ابو بکر بن سلیمان ، سالم بن عبداللہ اور عبد اللہ بن عامربن ربیعہ شامل تھے۔
عبید اﷲ کا حافظہ خوب تیز تھا۔خودفرماتے ہیں،’’میں نے جب بھی حدیث سن کر یادکرنا چاہی تو یاد ہو جاتی۔‘‘ ابو بکر بن عبدالرحمان مخزومی کی طرح عبید اﷲ بن عبداﷲ بن عتبہ بھی نا بینا تھے ۔ مورخین صراحت نہیں کرتے کہ وہ پیدایشی نابینا تھے یا ان کی بینائی بیماری سے زائل ہوئی البتہ، الذاہب البصر اور الضریر کے الفاظ سے اندازہ ہوتا ہے کہ قاسم بن محمد کی طرح کسی عارضے سے ان کی نظر جاتی رہی ہوگی ۔آخری عمر میں اکثر علما و محدثین کی نظر خراب ہو جاتی تھی اس لیے کہ ان دنوں موتیا Cataract)) اور ناخنے (Corneal opacity)کا تسلی بخش علاج نہ ہوتاتھا۔ عبیداﷲ کی مونچھیں پست ہوتیں نہ بہت بڑی۔
ابن عباس عبیداﷲ کوپسند کرتے تھے اور ان کی تعلیم کا خاص خیال رکھتے تھے ،ان کاحضرت عائشہ، عبداﷲ بن عمراور عبداﷲ بن عباس سے بیک وقت تلمذ رکھنا ظاہر کرتا ہے کہ وہ تمام فقہا صحابہ کی آرا اورفتاویٰ کو مد نظر رکھ کر فتوےٰ دیتے تھے کیوں کہ صحابہ کے دنیا سے چلے جانے کے بعد مدینہ کے فقہاے سبعہ ہی سے استفتا کیا جاتا تھا اور عبیداﷲبن عبداﷲ بن عتبہ انھی میں شامل تھے۔پانچویں خلیفۂ راشد عمر بن عبد العزیز کا دیت کے بارے میں عبیداﷲ سے مشورے کی خواہش کرنا ظاہر کرتا ہے کہ عبیداﷲ کو دیت وتاوان کے مسائل کی خصوصی مہارت حاصل تھی۔
عبید اﷲ جذبات کے اظہار کے لیے اپنی شعری صلاحیت کا بھرپور استعمال کرتے تھے۔ ایک دفعہ وہ گورنر حجاز عمربن عبد العزیز سے ملاقات کو گئے،وہ حضرت عثمان کے پوتے عبد اﷲ بن عمرو سے بات چیت میں مصروف تھے،دربان نے انھیں لوٹا دیا۔عبید اﷲکوغصہ آیا اورعمر بن عبدالعزیز کو خطاب کرتے ہوئے یہ اشعار کہہ ڈالے۔

ابن لی فکن مثلی او ابتغ صاحباً
کمثلک انی تابع صاحباً مثلی
عزیز اخائی لا ینال مودتی
من الناس الا مسلم کامل العقل وما
یلبث الفتیان ان یتفرفوا
اذا لم ےؤلف روح شکل الی شکل

’’مجھ سے جدا ہو کر میری طرح تنہا ہو جاؤ یا کوئی ساتھی ڈھونڈ لومیں بھی تمھاری طرح اپنے جیسے دوست کی پیروی کروں گا۔مجھ سے بھائی چارہ دشوار ہے ،کوئی انسان میری محبت نہیں پا سکتا ہاں پوری عقل رکھنے والا مسلمان (اس کے لیے یہ ممکن ہے) ۔تھوڑی ہی دیر لگتی ہے کہ جوا ن بکھر جاتے ہیں جب ایک صورت کا اندرون دوسری صورت کے اندرون سے جڑا نہ ہو۔‘‘

عمر بن عبد العزیز کو ان اشعار کاپتاچلا تو انھوں نے ابوبکر بن سلیمان اور عراک بن مالک کو ان کے پاس معذرت کرنے کے لیے بھیجا یوں بات رفع دفع ہوئی۔ابو بکر بن محمد بن حزم،عراک بن مالک اور عبید اﷲبن عبداﷲ طویل عرصہ مدینہ میں اکٹھے اٹھتے بیٹھتے رہے پھر ابن حزم مدینہ کے گورنر اور معاملات حج کے منتظم بن گئے جب کہ عراک قاضی ہو گئے۔ دونوں مدینہ آتے، عبیداﷲ کے پاس سے ہو کر چلے جاتے، انھیں سلام کرنے آتے نہ ان سے ملتے۔ عبیداﷲ نابینا ہو چکے تھے، انھیں خبر ہوئی تو یہ شعر کہے۔ 

الا ابلغا عنی عراک بن مالک
و لا تدعا ان تثنیا بابی بکر فقد
جعلت تبدو شواکل منکما
کانکما بی موقران من الصخر
وطاوعتما بی داعکا ذا معاکۃ
لعمری لقد ازری وما مثلہ یزری
و لو لا اتقائی ثم بقیای فیکما
للمتکما لوما احر من الجمر

’’سنو !میری طرف سے عراک بن مالک کو پہنچا دو اور تمھارا ابو بکر بن سلیمان کی طرف جانا رہ نہ جائے۔ تمھارے طور طریقے ظاہر کرنے لگے ہیں گویا تم مجھ پر چٹان سے بڑھ کر بوجھل ہو۔ تم دونوں نے میرے بارے میں ایک بے وقوف، احمق کی بات مانی۔ قسم میرے دین و ایمان کی اس نے تہمت لگائی، (اس نے وہ عیب جوئی کی) جو اس جیسا ہی کر سکتا ہے۔ میں نے تم دونوں کو برا کہنے کی روش چھوڑی نہ ہوتی اور مجھے تم پر ترس نہ ہوتا تو تمھیں ضرور انگاروں سے زیادہ دہکتی گرم ملامت کرتا۔ ‘‘

اخلاق حمیدہ پر کہے ہوئے اشعار میں سے ہے۔

اذا کان لی سر فحدثتہ العداء
وضاق بہ صدری فللناس اعذر
وسرک ما استودعتہ و کتمتہ
و لیس بسر حین یفشو و یظہر

’’جب میرا کوئی راز ہو اور میں دشمنوں کو اس کی خبر کر دوں پھر اس کے افشا کی تکلیف اٹھانے کی طاقت نہ رکھوں تو یہ دشمن لوگ تو معذور ہیں۔تمھارا بھید وہی ہے جو تجھے سونپا جائے اور تو اسے چھپا کر رکھے۔راز نہ رہا جب پھیل گیا اور مشہور ہو گیا ۔‘‘

عبیداﷲ کے قبیلے ہذیل کی ایک حسین و جمیل عورت مدینے آئی، کئی لوگوں نے اسے شادی کا پیغام بھیجا ۔عبیداﷲ نے بھی کچھ اشعار کہے اور باقی فقہاے سبعہ کو اپنی فریفتگی کا گواہ بنا ڈالا ،سعید بن مسیب کو پتا چلا تو کہا، ’’عبیداﷲ نے ہم سے پوچھنے کی زحمت گوارا نہ کی، انھیں معلوم تھا کہ اس عورت نے اگر ہماری گواہی مانگی تو ہم اسے ہر گز جھوٹی بات نہ بتائیں گے۔‘‘ انھوں نے اپنی بیوی عثمہ کے بارے میں بھی کئی شعر کہے۔
عبد اﷲ بن ذکوان کہتے ہیں: ’’عبید اﷲ بن عبد اﷲ شعر کہتے تھے، جب ان پر اعتراض کیا جاتاتو جواب دیتے، ’’تمھارا کیا خیال ہے، جس کے سینے میں جلن اور درد ہو، اگر نہ تھوکے مر نہیں جائے گا؟‘‘زہری نے اپنے استاد عبیداﷲ سے کہا، اﷲ آپ پر رحم فرمائے! کیا آپ اپنے فضائل اور اپنی عبادات کے بارے میں بھی شعر کہہ ڈالتے ہیں تو بھی انھوں نے یہی جواب دیا۔ بنو ہذیل کی عورت اوراپنی بیوی عثمہ کے بارے میں ان کے اشعار کو رکیک قرار دیا گیا تو معترضین کی یوں تشفی کی ’ فی اللدود راحۃ المفؤد‘بیمارئ دل میں مبتلا شخص کو لڑ جھگڑ کرزبردستی منہ میں انڈیلی جانے والی دواسے آرام آتا ہے۔
عبید اﷲ صحابہ سے بہت محبت رکھتے تھے کیوں کہ دین حق اسلام پیغمبر صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد انھی کے ذریعے سے مسلمانوں تک پہنچا تھا۔ ایک شخص عبیدا ﷲ کے پاس آکر بیٹھتا تھا۔انھیں معلوم ہوا، یہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے ایک صحابی کو برا کہتا ہے۔ اگلی بار وہ آیا تو عبید اﷲ نے اس کی طرف التفات نہ کیا۔ اسے محسوس ہوا تو کہا، ’’اگر آپ میرا کوئی قصور سمجھتے ہیں تو معاف فرمائیں۔‘‘ عبیداﷲ نے پوچھا، ’’کیا تمھیں اﷲ کے علم میں شک ہے؟‘‘ جواب ملا، ’’اعوذ باﷲ، ایسا ہو۔‘‘ پھر سوال کیا، ’’کیا تمھیں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی خبر میں شبہ ہے؟‘‘ اس شخص نے کہا، ’’ایسا سمجھنے سے اﷲ کی پناہ۔‘‘ عبیداﷲ نے کہا، ’’فرمان الٰہی ہے،’لقد رضی اﷲ عن المومنین اذ یبایعونک تحت الشجرۃ‘ (اﷲ اہل ایمان سے راضی ہو گیا جب وہ(کیکرکے) درخت کے نیچے تمھاری بیعت کر رہے تھے )(سورۂ فتح: ۱۸) تمھارا حال یہ ہے کہ تم فلاں صحابی (حضرت علی )کو برا کہتے ہو جب کہ وہ بیعت کرنے والوں میں شامل ہے۔کیا تمھارے پاس اطلاع آئی ہے کہ اﷲ اس سے راضی ہونے کے بعد نا راض ہو گیا ہے؟‘‘ اس شخص نے کہا ،’’بخدا،میں ایسا ہر گز نہ کروں گا۔‘‘یہ شخص عبید اﷲ بن عبد اﷲ بن عتبہ بن مسعود کے شاگرد ،خلافت راشدہ کا احیا کرنے والے عمر بن عبد العزیز تھے،بنو امیہ سے تعلق رکھنے کی وجہ سے وہ ایسا کرتے تھے۔
عبید اﷲ کے مرض الموت کے متعلق معلوما ت نہیں ملتیں۔بخاری کہتے ہیں وہ علی بن حسین زین العابدین کی وفات سے کچھ عرصہ پہلے ۹۴ھ میں فوت ہوئے ۔ ترمذی اور واقدی کے خیال میں ان کا سن وفات ۹۸ھ ہے ۔ابن سعد نے ۹۸ھ اور ۹۹ھ دو سن بتائے ہیں۔ یحیےٰ بن معین نے ۱۰۲ھ والی روایت کو ترجیح دی۔
مطالعۂ مزید: طبقات ابن سعد،تہذیب الکمال (مزی)، وفیات الاعیان(ابن خلکان)،تہذیب التہذیب (ابن حجر)،تاریخ الاسلام (ذہبی)، سیراعلام النبلا(ذہبی)۔الاغانی(ابوالفرج اصفہانی)

-----------------------------

 

بشکریہ ماہنامہ اشراق

تحریر/اشاعت اکتوبر 2005
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی
Uploaded on : Aug 25, 2016
1992 View