امام ابو حنیفہ کی شخصیت کے چند علمی پہلو موجودہ حالات کے تناظر میں - ڈاکٹر محمد فاروق خان

امام ابو حنیفہ کی شخصیت کے چند علمی پہلو موجودہ حالات کے تناظر میں

[’’سیر و سوانح ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین
کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں، ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے’’۔}

سرزمین افغانستان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ عالم اسلام کے بطل جلیل اور سب سے بڑے فقیہ امام ابو حنیفہؒ ، جن کو ساری دنیا ’’امامِ اعظمؒ ‘‘ کے نام سے جانتی ہے، کے آباؤاجداد کا تعلق اسی ملک سے تھا۔ یہ بات قابلِ صد مبارک ہے کہ ’’اکادمی علوم افغانستان، معاونیت بخش علوم اسلامی، مرکز تفسیروحدیث‘‘ نے امام صاحب کی شخصیت سے متعلق ایک بین الملی علمی وتحقیقی سیمینار کا اہتمام کیا، جو 24تا 27اگست 2008ء کو کابل میں منعقد ہوا۔ جس میں میں نے اپنی گفتگو میں امام صاحب کی علمی شخصیت کے چند پہلوؤں کا ذکر کیا۔

امام اعظمؒ اپنی ساری علمی زندگی کے دوران میں مکالمے پر مکمل یقین رکھتے تھے۔ اُن کے شاگرد ہرزیرِ بحث مسئلے میں اُن سے بہت تفصیلی بحث مباحثہ کرتے تھے۔ بعض مسائل پر کئی کئی دن بحث جاری رہتی تھی اور اُس کے بعد کہیں جاکر کسی راے پر اتفاق ہوجاتا تھا۔ یہ اتفاق بھی ہمیشہ کے لیے نہیں ہوتا تھا، بلکہ امام صاحب غوروفکر کے نتیجے میں مسلسل اپنی آرا میں تبدیلیاں لاتے رہتے تھے۔ اُن کی محفل میں ہر راے، موقف اور نقطۂ نظر کو ٹھنڈے دل سے سُنا جاتا تھا اور تنقید کوخندہ پیشانی سے برداشت کیا جاتا تھا۔ امام صاحب نے کبھی بھی اپنی کسی راے کو حرفِ آخر نہیں کہا۔ آپ فرمایا کرتے تھے:
’’قولنا ھٰذارای وھواحسن ماقدرناعلیہ فمن جاء نا باحسن من قولنا فھواولیٰ بالصواب مناّ‘‘
’’یہ ہماری راے ہے ۔ اتنی بات ہمارے بس میں تھی۔ جو کوئی بھی ہم سے بہتر قول لائے گا، اُس کی بات صحت سے زیادہ قریب ہوگی‘‘۔ (تاریخ بغداد، جلد،13،صفحہ352)
ایک دفعہ امام ابو حنیفہؒ سے پوچھا گیا کہ کیا آپ کے فتاویٰ حق ہوتے ہیں اور شک وشبہ سے بالاتر ہوتے ہیں؟۔ اس کے جواب میں امام صاحب نے فرمایا:
’’مجھے نہیں معلوم۔ ممکن ہے کہ ان کا باطل ہونا زیادہ یقینی ہو‘‘
امام زخرف کی روایت کے مطابق ایک دن امام صاحب نے اپنے شاگرد ابو یوسف سے مخاطب ہوکر کہا:
’’یعقوب!میری ہر بات نہ لکھا کیجئے۔ بعض اوقات ایک بات مجھے آج سوجھتی ہے اور کل اُسے چھوڑ دیتا ہوں۔ اسی طرح کل میں ایک بات کو درست تصور کروں گااور پرسوں اُس سے اجتناب کروں گا‘‘۔
(تاریخ بغداد جلد13صفحہ نمبر402بحوالہ حیات حضرت امام ابو حنیفہؒ ، مولف شیخ محمد ابوزہرہ، مترجم پروفیسر غلام احمد حریری صفحہ 114،115)
امام صاحب کی شخصیت کا ایک اور پہلو یہ تھا کہ آپ سنت اور حدیث کے درمیان میں فرق کرتے تھے۔ خطیبِ بغدادی نے اپنی کتاب ’’الکفایہ فی علم الروایہ‘‘ میں اس نکتے کو واضح طور پر بیان کیا ہے۔ مختلف حنفی علما اسے سُنت معلومہ، سُنت مشہورہ، سُنت متواترہ اور تواتر عملی جیسے ناموں سے یاد کرتے ہیں۔ اس سے اُن کی مراد یہ ہوتی ہے کہ روزمرہ معاملات کی کوئی بات جس پر حضور اور صحابہ ساری زندگی عمل پیرا رہے، اور اُس کے متعلق ہمارا یقین ہے کہ پچھلی دہائیوں میں اس پر متواتر عمل کیا جاتا رہا ہے، تو اس عمل کو ہم سُنت متواترہ کا درجہ دیں گے اور اگر کوئی خبرواحد بظاہر اس عمل سے ٹکراتی ہے تو ہم اُس خبرواحد کی تاویل کریں گے۔ مناقب مکی میں مذکور ہے کہ:
’’ابو حنیفہ اپنے شہر والوں کے مسلک کا شدید اتباع کرتے تھے‘‘۔ (المناقبالمکی،جلد1،صفحہ90)
گویا امام صاحب کا نقطۂ نظر یہ تھا کہ جس بات پر حضور اور صحابہ کرام نے مسلسل عمل کیا ہے، اُس پر ابھی تک سارے عالم اسلام میں عمل جاری ہے۔ لہٰذا یہی عمل اجماع کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ یہی وہ چیز ہے جسے فقہ مالکی میں’’عمل اہل مدینہ‘‘ کہا گیا ہے۔ گویا امام ابوحنیفہؒ اور امام مالکؒ دونوں اس بات کے قائل تھے۔
میرے نزدیک رفع یدین سے متعلق ان دونوں عظیم فقہا کا مسلک سُنت وحدیث کے اسی فرق پر مبنی تھا۔ یعنی چونکہ اُس وقت مدینہ اور کوفہ دونوں میں نماز کے وقت پہلی تکبیر پر رفع یدین کیا جاتا تھا، اس لیے اُن کا نقطۂ نظر یہ بنا کہ تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین سُنت ہے اور اس کے علاوہ باقی اوقات میں رفع یدین مباحات کے درجے میں ہے۔
امام صاحب کی شخصیت کا تیسرا اہم پہلو یہ تھا کہ وہ احادیث کے متعلق نہایت متوازن نقطۂ نظر رکھتے تھے۔ وہ اخبارِآحاد کو قرآن وسُنت اور عقلِ عام کی روشنی میں دیکھتے تھے اور یہ بھی دیکھتے تھے کہ آیا حضور نے کوئی بات بحیثیتِ پیغمبر کہی ہے اور یا پھر بحیثیت حکمران، قاضی یا انسان ہونے کے ناطے سے کہی ہے۔ گویا امام صاحب کے نزدیک یہ ممکن نہیں تھا کہ کوئی حدیث، قرآن مجید یا عقلِ عام کے تقاضوں کے خلاف ہو۔ سہل نے کہا کہ:
’’ابو حنیفہ کا علم ایک عامی علم ہے‘‘(المناقب المکی جلد 1صفحہ 82)
درج بالا فقرے کا مطلب یہ ہے کہ امام صاحب دین کے معاملے میں عقل عام (Common sense)پر یقین رکھتے تھے۔ امام ابو حنیفہؒ پر یہ اعتراض کیا جاتا تھا کہ آپ قیاس اور استحسان کے مقابلے میں حدیث کو چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ اعتراض علی الاطلاق صحیح نہیں ہے۔ کسی بھی حدیث سے کوئی حکم مستنبط کرتے وقت یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اس کا سیاق وسباق کیا تھا، یہ بات حضورنے کون سے وقت میں ارشاد فرمائی تھی، کیا اُس وقت کوئی مخصوص صورت حال تو نہیں بنی ہوگی، کیا روایت اتنی مختصر ہے کہ روایت سے ان سب امور کا پتہ چل سکتا ہے یا نہیں۔ چنانچہ امام صاحب نے مختلف معاملات میں قیاس کو اس وجہ سے ترجیح دی ہے کہ قیاس کی بنیاد قرآن مجید اور عقل وفطرت کی مسلمہ اُصولوں پر ہوتی ہے۔ کسی تفصیلی روایت کا قیاس سے تعارض ممکن ہی نہیں، البتہ اُن معاملات میں قیاس کو ترجیح دی جائے گی جہاں روایت میں درج بالا کوئی خلا پایا جاتا ہو۔تقریباً یہی نقطۂ نظر امام مالک کا بھی تھا۔ جس طریقے کو امام ابو حنیفہؒ قیاس اور استحسان کہتے ہیں، اُسی کو امام مالکؒ ’’مصالح مرسلہ‘‘،’’استصلاح‘‘ یا ’’رفع دج‘‘ قرار دیتے ہیں۔ مثلاً جن روایات میں یہ بات بیان ہوئی ہے کہ اگر کسی برتن میں کتا منہ ڈال لے تو اُس کو سات مرتبہ دھویا جائے، اس کے متعلق امام مالکؒ نے کہا’’جب کتے کا کیا ہوا شکار حلال ہے تو اس کا لُعاب کیسے مکروہ ہوسکتا ہے‘‘ ۔چنانچہ امام مالکؒ نے اس روایت کی یہ تاویل کی کہ یہاں دراصل بیمارکتا مُراد ہے۔ واضح رہے کہ امام مالکؒ اس حدیث کو خود بھی اپنی کتاب ’موطا‘ کے باب جامع الوضو میں لائے ہیں۔ اس کے باوجودانھوں نے یہ ضروری سمجھا کہ قرآن مجید کی روشنی میں اس حدیث کی تحدید کی جائے۔
اسی طرح یہ بھی کہا جاتا ہے کہ امام صاحب کو کچھ احادیث کا علم نہ تھا، اس لیے اُن معاملات میں امام صاحب نے بظاہر اُن روایات کے مطابق فتویٰ نہیں دیا۔ میرے نزدیک یہ بات صحیح نہیں، اس لیے کہ امام صاحب نے بکثرت حج کیے تھے۔ اُموی دور میں جب ابنِ حبیرہ کوفہ کا حاکم تھا، امام صاحب کسی حکومتی منصب کو قبول کرنے سے بچنے کے لیے مکہ معظمہ چلے گئے اور اندازاً چھ برس تک وہاں مقیم رہے۔ ظاہر ہے کہ اس پورے وقت کے دوران میں امام صاحب کو مکے اور مدینے کے بہت سارے علما سے استفادے اور مکالمے کا موقع ملا ہوگا، چنانچہ یہ ممکن نہیں کہ کوئی اہم حدیث اُن کی نظروں سے اوجھل ہوگئی ہو۔ میرے نزدیک اصل حقیقت یہی ہے کہ آپ ایک طرف سُنت اور حدیث میں فرق کرتے تھے اور دوسری طرف آپ کسی روایت سے حکم اخذ کرتے وقت درج بالا سب پہلوؤں کا خیال کرتے تھے اور ان سب پہلوؤں کو سامنے رکھ کر کسی حدیث کی تعبیر وتاویل کرتے تھے۔
امام صاحب کی شخصیت کا چوتھا پہلو اُس وقت کے سیاسی معاملات میں اُن کا طرزِ عمل تھا۔ امام صاحب نے اپنی زندگی کے باون برس بنو اُمیہ کے دور میں بسر کیے اور اٹھارہ برس بنو عباس کے دور میں بسر کیے ۔ گویا آپ نے عالم اسلام کا ایک نہایت پُرآشوب دور دیکھا جس میں ہر طرف جنگیں، بغاوتیں اور شورشیں تھیں۔ آپ کے وقت میں خارجی بھی کوفہ پر قابض ہوئے اورمعتزلہ بھی اس دور میں نمودار ہوئے۔ سیاسی معاملات میں امام ابوحنیفہؒ کے نقطۂ نظر سے متعلق روایات میں باہم بہت تضاد ہے، تاہم متفق علیہ باتیں یہ ہیں کہ آپ اُموی حکمرانوں کو بہت بُرا سمجھتے تھے۔ اُموی حکمرانوں کے وقت میں زید بن علی اور اُن کے فرزند یحییٰ کی بغاوت سے آپ کو ہمدردی تھی۔ بنی اُمیہ کے دور میں آپ نے سرکاری عہدہ قبول کرنے سے انکار کردیا اور مکہ معظمہ تشریف لے گئے۔ آپ بنو عباس کی حکومت قائم ہونے کے بعد واپس کوفہ آگئے۔ آپ نے شروع میں عباسی حکومت کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا، تاہم جب بنو عباس نے آمرانہ استبداد سے کام لینا شروع کیا تو آپ نے بنو عباس پر تنقید کی۔ اگرچہ خلیفہ منصور سے ایک لمبے عرصے تک آپ کے دوستانہ مراسم قائم رہے تاہم جب نفسِ زکیہ نے 145ہجری میں مدینہ منورہ میں منصور کے خلاف بغاوت کی تو امام صاحب کی ہمدردی نفسِ زکیہ کے ساتھ تھی۔ منصور نے امام صاحب کو اپنے حلقۂ دام میں لانے کے لیے اُن کو قاضی القضاۃ کا منصب پیش کیا۔ چونکہ امام صاحب کے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ آپ بطورِ قاضی القضاۃ منصور کے مظالم پر خاموش رہیں، اس لیے آپ نے یہ منصب قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اس کے نتیجے میں منصور کو یہ موقع ملا کہ وہ آپ کو قیدکردے۔بعدمیں آپ کو اپنے گھر میں نظر بند کردیا گیا اور اسی حالت میں آپ کی وفات ہوئی۔
یہ بات بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ ان تمام پُرآشوب ادوار میں آپ نے مسلسل تعلیم وتدریس کا سلسلہ جاری رکھا، آپ نے حکومت کے خلاف بغاوتوں میں کوئی عملی حصہ نہیں لیا اور آپ نے کسی حکومت کے خلاف کوئی مہم نہیں چلائی، بلکہ صرف اپنے درس وتدریس کے دوران میں کبھی کبھی اپنے نقطۂ نظر کا اظہار کرتے تھے۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں تھا۔میرے نزدیک اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ امام صاحب کے نزدیک ایک عالم کا اصل کام یہ ہے کہ وہ مسلسل محاشرے کی تعلیم وتربیت کرتا رہے۔ اگر یہ تعلیم وتربیت مسلسل جاری رہے تو بُرے حکمرانوں کے باوجود مسلمانوں کا معاشرہ دین کی بنیادوں پر قائم رہتا ہے۔ یہ بڑی اہم بات ہے کہ اُس زمانے میں امام مالک نے بھی بالکل یہی طرزِعمل اپنایا یہ بات سورہ توبہ کی آیت نمبر122کے بھی عین مطابق ہے۔ پچھلے چودہ سو برس میں علما کی ایک بہت بڑی تعداد اسی طرزِ عمل پر کاربند رہی ہے۔ جب بھی علما نے اصولی بات کہنے کے بجاے سیاسی جدوجہد یا کسی مسلح بغاوت میں حصہ لیا، اُس کے نتائج عمومی طور پر اُمت مسلمہ کے لیے اچھے نہیں نکلے۔
جیسا کہ میں نے عرض کیا امام ابوحنیفہؒ کے اُس زمانے میں موقف کے متعلق روایات میں تضاد موجود ہے۔ اُن میں سے کچھ روایات ایسی ہیں جو امام صاحب کی شخصیت سے لگاّ نہیں کھاتیں۔ مثال کے طور پر ’المناقب لابن البزازی‘جلد 1صفحہ 55کے مطابق امام صاحب نے کہا کہ زید بن علی کا جہاد جنگ بدر کے مشابہ ہے، تاہم چونکہ آپ کے پاس لوگوں کی امانتیں تھیں اس لیے آپ نے اس جنگ میں عملی شرکت نہیں کی۔ ایک اور روایت کے مطابق چونکہ آپ کو یہ خدشہ تھا کہ زید بن علی کے ساتھی اُن کو چھوڑ دیں گے اس لیے آپ اس جنگ میں شریک نہیں ہوئے۔ میرے نزدیک درج بالا روایت صحیح نہیں ہے۔ اس لیے کہ امام صاحب کی پوری زندگی ہمیں یہ بتاتی ہے کہ آپ کا ظاہر وباطن ایک دوسرے سے مختلف نہیں تھا۔ آپ بڑے بہادر تھے، مشکلات میں کبھی ہمت نہ ہارتے اور مسائل ومصائب کا بڑی خندہ پیشانی سے سامنا کرتے۔ اس لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ آپ ایک ایسی جنگ میں شریک نہ ہوں جس کو آپ خود جنگ بدر سے مشابہت دیتے تھے اور شرکت نہ کرنے کے لیے ایسی وجوہات بیان کریں جو بڑی کمزور ہیں۔
اسی طرح یہ روایت بھی بیان کی جاتی ہے کہ آپ کے مطابق خلیفہ منصور کے خلاف نفسِ زکیہ کی بغاوت کا ساتھ دینے میں پچاس نفلی حجوں سے زیادہ ثواب ہے۔ میرے نزدیک یہ روایت بھی صحیح نہیں ہے، اس لیے کہ اگر ایسا ہوتا تو امام صاحب بنفسِ نفیس اس خروج میں حصہ لیتے۔ امام صاحب نے عزیمت سے بھرپور زندگی گزاری۔ آپ ایک عالم باعمل تھے۔ چنانچہ یہ ممکن نہیں کہ ایسی بات کہنے کے باجود آپ اور آپ کے شاگرد اطمینان سے اپنے درس وتدریس میں مشغول رہتے۔ حقیقت یہ ہے کہ امام صاحب نے ’’افضل الجہاد من قال کلمتاًحقاعند سُلطانٍ جاءِرٍ‘‘ کے مطابق زندگی بسر کی اور ایک عالم کے لیے اسی روایت کے مطابق حق بات کہنے کو عملی جدوجہد کی آخری حد قرار دیا۔
آج کیا ہونا چاہیے؟
امام صاحب کی عملی زندگی اور طرزِ عمل سے آج بھی ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ مثلاً امام صاحب نے دین کی تحقیق میں مکالمے کا جو رواج ڈالا تھا اُس کو آج پھر زندہ ہونا چاہیے۔ بدقسمتی یہ ہوئی کہ امام صاحب ہی کے پیروکاروں نے بعد میں فقہ حنفی کی ہر بات کو حرفِ آخر قرار دے کر تقلید کا ڈول ڈالا۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ سب اہم مسائل پر ایک دفعہ پھر سنجیدہ مکالمہ شروع کیا جائے۔ اس طرح مختلف مسالک آپس میں ایک دوسرے کے قریب آسکیں گے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ عالم اسلام کم ازکم چھ بظاہر ناقابل عبور حصوں (Water tight compartments) میں تقسیم ہوچکا ہے جن کے درمیان مناظرہ ومجادلہ تو موجود ہے مگر مکالمہ نہیں ہے۔ حالانکہ یہ ضروری ہے کہ قرآن مجید سے اَخذ کردہ اُصولوں کی بنیاد پر، اُمت مسلمہ کے لیے آسانی اور مصلحت کو سامنے رکھتے ہوئے کھلے ذہن کے ساتھ مکالمہ شروع کیا جائے۔ بہت مناسب ہوگا کہ اہلِ علم مسالک کی تنگ نائیوں سے بالاتر ہوجائیں۔ خود یہ عاجز بحیثیت ایک طالب علم کے جمع بین الصلاتین میں حنفی مسلک کو تیسیر کے اُصولوں کے مطابق نہیں سمجھتا۔ میرے نزدیک فاتحہ خلف الامام میں امام احمد بن حنبل کا نقطۂ نظر نماز کی روح اور ارتکازِ توجہ سے قریب تر ہے۔ اسی طرح طلاق ثلاثہ درمجلسِ واحد میں امام ابن یتمیہؒ کے نقطۂ نظر میں اُمت مسلمہ کے لیے وسعت اور آسانی ہے۔
یہ بھی ضروری ہے کہ سنت کی ایک جامع اور واضح تعریف کی جائے۔ سنت کے تحت جتنے عملی اُمور آتے ہیں اُن کی بنیادوں پر اُمت کے تمام مسالک کا آپس میں اتفاق ہے۔ اگر ان کو نمایاں کیا جائے اور لوگوں کو یہ تعلیم دی جائے کہ یہی متفق علیہ دائرہ ہی واجب اتباع ہے، تو اس طرح مختلف مسالک ایک دوسرے کے بہت قریب آسکیں گے اور اختلا ف کے بجاے اتفاق کو ترجیح حاصل ہوجائے گی۔ میرے اُستاد جاوید احمد غامدی نے اِس ضمن میں ایک جامع فہرست مرتب کی ہے۔ اُس کو بنیاد بناکر اہل علم اس پر مزید غوروفکر کرسکتے ہیں۔ تیسرا اہم کام یہ ہے کہ علم فقہ سے متعلق نئی درسی کتب تحریر کی جائیں۔ فقہ کی پرانی کتابوں سے ہم رہنمائی ضرور حاصل کرسکتے ہیں مگر وہ ہمارے لیے تین وجوہات سے زیادہ فائدہ مند نہیں رہیں۔ پہلی وجہ یہ کہ ان کتابوں میں دین اور اجتہاد میں فرق نہیں کیا گیا۔ حالانکہ یہ ضروری ہے کہ علمی کتابوں میں ہر مسئلے سے متعلق پہلے قرآن مجید کے سارے متعلقہ حصے نقل کیے جائیں۔ پھر اس ضمن میں ساری احادیث کو بیان کیا جائے۔ یہی اصل دین ہے۔ اس کے بعد تعبیر اور اجتہاد کا دائرہ شروع ہوجاتا ہے۔ چونکہ اجتہاد، وقت اور حالات اور مزید غوروفکر کے ساتھ بدلتا رہتا ہے اس لیے یہ مستقل دین کا حصہ نہیں ہے۔ اجتہاد وتعبیر کے دائرے میں ہر مسلک کا نقطۂ نظر اور اُس کے دلائل بیان کرنے سے ہر طالب علم اور صاحب علم کے ذہن میں وسعت پیدا ہوگی۔
فقہ کی پرانی کتابیں ایسے مسائل اور مثالوں سے بھری پڑی ہیں جن کا آج کے حالات سے کوئی تعلق نہیں ہے اور ان میں بے شمار فرضی مسائل پر بحث مباحثہ کیا گیا ہے۔ مثلاً وضو جیسی سادہ چیز کی مثال لے لیجئے، جس کو قرآن مجید نے ایک آیت میں بیان کردیا ہے، جس کے متعلق صحیح احادیث کی تعداد چند ایک ہے، اور جس کو اربوں مسلمان روزانہ کرتے ہیں۔ اتنی آسان چیز کو فقہی کتابوں میں اتنا مشکل بنا دیا گیا ہے اور اُن میں ایسے ایسے مسائل سے بحث کی گئی ہے جن کا عملی زندگی سے دور دور کا کوئی تعلق بھی نہیں۔ مثلاوضو کی بحث عبدالرحمان الجزیری نے اپنی کتاب ’’کتاب الفقہ علیٰ مذاہب الاربعہ‘‘میں سینکڑوں صفحات میں کی ہے اور اُس میں اس طرح کے مسائل پر بحث کی گئی ہے جیسے یہ کہ چہرے کا حدوداربعہ کیا ہے، یا پیشانی سے کیا مراد ہے، یا یہ کہ گنجے آدمی کی پیشانی کہاں ختم ہوجاتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ ایک اہم سوال جس پر ایک لمبی بحث کی گئی ہے یہ ہے کہ اگر کوئی انسان وضو کرنے کے بعد مُرتد ہوجائے، اس کے بعد وہ پھر اسلام قبول کرلے تو کیا اُس کا پرانا وضو قائم رہے گا یا نہیں۔ معلوم نہیں اُمت مسلمہ کی پچھلی چودہ سو سالہ تاریخ میں ایسا کوئی واقعہ پیش آیا بھی ہوگا یا نہیں۔
میرے نزدیک کرنے کا تیسرا کام یہ ہے کہ اُن مسائل کی طرف توجہ دی جائے جن پر عالم اسلام کا تعلیم یافتہ طبقہ بہت بڑے خلجان کا شکار ہے۔ آج انھی مسائل پر توجہ ہماری سب سے بڑی ضرورت ہے۔ مثلاً یہ کہ اسلام اور جمہوریت کا آپس میں کیا رشتہ ہے۔ اسلامی اخوت اور ’’نیشن سٹیٹ‘‘ کے درمیان کہاں حد فاصل ہے۔ کیا اسلام میں آزادئ راے اور مذہب کے ردوقبول کی گنجائش ہے۔ قتال وجہاد کا تصور کیا ہے۔ خواتین کے حقوق کیا ہیں اور وہ آج کل جن مشکلات سے دوچار ہیں اُن کا مداوا کس طرح ہوسکتا ہے۔ دین کی کون سی ہدایات ریاستی طاقت کے ذریعے سے نافذ کی جا سکتیں ہیں۔ کیا اسلام فنونِ لطیفہ کی اجازت دیتا ہے۔ کیا اسلام میں غلامی بحیثیت ادارہ موجود ہے۔ آج کے زمانے میں اسلام کے قانون جرائم وسزا کو کس طرح نافذ کیا جائے اور اس ضمن میں زمینی حقائق اور دینی احکامات میں کس طرح ہم آہنگی پیدا کی جائے۔ اسلام کے مقامی کلچر اور گلوبلائزیشن میں کیا اصولی رشتہ ہے۔ یہی وہ علمی سوالات ہیں جن کے جواب پر اُمت مسلمہ کے مستقبل کا انحصار ہے۔ اہل علم کو سب سے بڑھ کر انھی کی طرف توجہ دینی چاہیے۔

-------------------------------

 

بشکریہ ماہنامہ اشراق

تحریر/اشاعت فروری 2009
مصنف : ڈاکٹر محمد فاروق خان
Uploaded on : Oct 15, 2016
13231 View