امام ابن ماجہ - محمد رفیع مفتی

امام ابن ماجہ

ان کا نام محمد ہے، ابو عبداللہ کنیت ہے اور ابن ماجہ لقب ہے۔ سلسلۂ نسب محمد بن یزید بن عبداللہ ہے۔ ماجہ ان کے والد کا لقب تھا۔ ۲۰۹ ہجری میں پیدا ہوئے ۔ امام صاحب کا وطن ایران کا شہر قزوین ہے۔ اسی شہر کے حوالے سے ان کو قزوینی بھی کہا جاتا ہے۔

تحصیل علم

امام ابن ماجہ نے جب شعور کی آنکھ کھولی تو آپ کے شہر قزوین میں بڑے بڑے علما مثلاً علی بن محمد طنافسی، عمرو بن رافع، اسماعیل بن ابو سہل، ہارون بن موسیٰ تمیمی وغیرہ موجود تھے۔ ظاہر ہے کہ امام ابن ماجہ نے ابتدائی تعلیم کے لیے انھی لوگوں سے استفادہ کیا ہو گا، لیکن افسوس ہے کہ اس پہلو سے امام صاحب کے تفصیلی حالات معلوم نہیں ہوتے۔

شیوخ و اساتذہ

امام صاحب کے مشہورشیوخ اور اساتذہ کے نام درج ذیل ہیں:
ابراہیم بن مندر حزامی ، ابوبکر بن ابی ثمبہ، جبارہ بن مغلس، صحدون بن عمارہ بغدادی، داؤد بن رشید، سہل بن اسحاق، ابراہیم واسطی، عبداللہ بن محمد ۔
امام صاحب کے زمانے میں محدثین اطراف عالم میں پھیلے ہوئے تھے ، اس لیے انھوں نے حصول حدیث کی خاطر مختلف ملکوں کے مثلاً خراسان، عراق، حجاز، مصر، شام، بصرہ، کوفہ، مکہ، رے اور بغداد وغیرہ سفر کیے۔ امام صاحب کے ان سفروں کی ابتدا تقریباً بائیس سال کی عمر میں ہوئی۔

مجلس درس

امام ابن ماجہ کی تدریسی خدمات کی تفصیلات ہمیں کتابوں میں نہیں ملتیں، لیکن ظاہر ہے کہ ان کے شاگردوں کی موجودگی ہمیں اس بات کا پتا دیتی ہے کہ انھوں نے اپنے دور میں تدریسی خدمات سر انجام دی ہیں۔

تلامذہ

امام صاحب سے کسب فیض کرنے والوں میں نمایاں نام یہ ہیں :
ابراہیم بن دینار جرشی، احمد بن ابراہیم قزوینی، ابو الطیب احمد بن روح شعرانی، احمد بن محمد مدنی ، اسحاق بن محمد قزوینی، جعفر بن ادریس ۔

تصنیف و تالیف

امام ابن ماجہ نے تین اہم کتابیں لکھی ہیں۔ پہلی سنن ابن ماجہ ہے۔ یہ ابن ماجہ کا سب سے بڑا علمی و تصنیفی اور دینی کارنامہ ہے، موجود کتب حدیث میں یہ ایک اہم اور متداول کتاب تصور کی جاتی ہے ۔ دوسری تصنیف تفسیر کی کتاب ہے۔ علامہ ابن کثیر اس کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ ابن ماجہ کی ایک ضخیم و جامع تفسیر ہے۔ علامہ سیوطی نے دور صحابہ اور دو رتابعین کے بعد کی تفاسیر کا ذکر کرنے کے بعد تفسیر ابن جریر کے ساتھ اس کا ذکر کیا ہے۔ بہرحال، یہ اب ناپید ہے ۔ امام ابن ماجہ کی تیسری تصنیف تاریخ کی ایک کتاب ہے، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ بھی میسر نہیں ہے۔

علما کی شہادت

امام ابن ماجہ کے فضل و کمال ، جلالت شان اور حفظ حدیث کا اعتراف ہر دور کے علما نے کیا ہے۔حافظ ابو یعلیٰ خلیلی فرماتے ہیں : وہ ایک بلند پایہ ،معتبر اور لائق حجت محدث تھے۔ ان کی عظمت و ثقاہت پر سب کا اتفاق ہے۔ ان کو فن حدیث سے پوری واقفیت تھی اور وہ اس کے جلیل القدر حافظ تھے۔ ابو القاسم رافعی بیان کرتے ہیں کہ آئمۂ مسلمین میں ابن ماجہ بھی ایک بڑے معتبر امام ہیں، ان کی قبولیت پر سب کا اتفاق ہے ۔ علامہ ابن جوزی کہتے ہیں کہ وہ حدیث ، تاریخ اور تفسیر کے ممتاز ماہر تھے۔ علامہ ابن خلکان کے نزدیک وہ حدیث کے امام تھے اور اس کے متعلقات پر بڑا عبور رکھتے تھے۔ علامہ ذہبی کا بیان ہے کہ ابن ماجہ عظیم الشان حافظ و ضابط، صادق القول اور وسیع العلم تھے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی نے لکھا ہے کہ وہ صاحب سنن ، حافظ حدیث اور امام فن تھے۔

وفات

امام ابن ماجہ نے ۲۲ رمضان المبارک ۲۷۳ ہجری کو ۶۴ سال کی عمر میں وفات پائی۔ آپ کی وفات پر بعض شعرا نے نہایت پر درد مرثیے کہے۔

مناقب

امام ابن ماجہ کے تفصیلی حالات زندگی اخفا میں ہیں۔ اس لیے ہم کتابوں میں ان کے اخلاق و اعمال کے حوالے سے زیادہ معلومات نہیں پاتے۔ حافظ ابن کثیر نے صرف اس قدر لکھا ہے کہ وہ علم و فضل کی طرح تدین و تقویٰ اور زہد و صلاح کے بھی جامع تھے ۔ احکام شریعت کی سختی سے پابندی کیا کرتے تھے اور اصول وفروع میں پورے طور پر متبع سنت تھے۔

_______

 

امام ابو داؤد سجستانی

سلیمان نام، ابو داؤد کنیت اور نسب نامہ سلیمان بن اشعث بن اسحاق بن بشیر بن شداد بن عمرو بن عمران ہے۔۲۰۲ ہجری میں پیدا ہوئے۔ خراسان کے مشہور علاقے سجستان (سیستان، ایران و افغانستان کی سرحدیں اس علاقے کوتقسیم کرتی ہیں) کو آپ کا مولد و موطن ہونے کا شرف حاصل ہے۔ البتہ امام ابو داؤد نے اپنی آخری عمر میں بصرہ میں جا کر مستقل سکونت اختیار کر لی تھی۔

تحصیل علم

امام ابوداؤد کی زندگی کے ابتدائی حالات ہمیں تاریخ کی کتابوں میں بہت کم ملتے ہیں، لیکن جس زمانے میں انھوں نے آنکھ کھولی تھی ، اس میں علم حدیث کا حلقہ بہت وسیع ہو چکا تھا۔ چنانچہ امام داؤد نے مختلف علاقوں میں جا کر علم حدیث حاصل کیا۔

شیوخ و اساتذہ

امام ابو داؤد کے نامور اساتذہ درج ذیل ہیں:
امام احمد بن حنبل، اسحاق بن راہویہ، ابو ثور ، یحییٰ بن معین، ہشام بن عبدالمالک طیالسی، ابو بکر بن ابی شیبہ ، عثمان بن ابی شیبہ۔

طلب علم کے لیے رحلات

ابو داؤد نے اپنے زمانہ کے دستور کے مطابق حصول حدیث کے لیے مختلف مقامات کا سفر کیا، وہ سجستان میں پیدا ہوئے تھے، لیکن علم حدیث کی غرض سے انھوں نے بصرہ جیسے شہر کو اپنا مسکن بنا لیا، جو اس زمانہ میں علم وفن کا اور محدثین کا بڑا مرکز تھا۔ آپ کئی بار علم حدیث ہی کی خاطر بغداد تشریف لے گئے، اس کے علاوہ آپ حجاز، عراق، خراسان، مصر، شام، جزیرہ، نیشا پور، مرو اور اصبہان وغیرہ کے محدثین سے استفادہ کرنے کے لیے ان علاقوں میں تشریف لے گئے۔

مجلس درس

امام ابوداؤد کی تدریسی خدمات کی تفصیلات ہمیں تاریخ کی کتابوں میں نہیں ملتیں۔ البتہ اُن کے شاگردوں کا وسیع حلقہ ہمیں اس کی خبر ضرور دیتا ہے کہ آپ نے تدریسی خدمات سر انجام دی ہیں۔

تلامذہ

اما م ابو داؤد کے تلامذہ میں سے مشہور درج ذیل ہیں:
ابو احمد بن علی بن حسن بصری، ابو علی محمد بن احمد عمرو لؤلؤی ، ابو الطیب احمد بن ابراہیم ، ابو سعید احمد بن محمد بن زیاد الاعرابی، ابوبکر محمد بن عبدالرزاق بن راشد ۔

تصنیفات

امام ابو داؤد کی چودہ تصنیفات کے نام ہمیں تاریخ کی کتابوں میں ملتے ہیں۔
آپ کی سب سے بڑی اور اہم کتاب سنن ابی داؤد ہے۔ یہ امام صاحب کی مشہور و مقبول، اور فن حدیث کی مستند کتاب ہے۔
اس کے علاوہ آپ کی بعض کتب کے نام یہ ہیں:
کتاب الرد علی اہل القدر، کتاب الناسخ و المنسوخ، کتاب المسائل، مسند مالک، کتاب المراسیل ۔
ان کے علاوہ بھی آپ کی بعض تصانیف ہیں۔ کل چودہ تصانیف کے نام آپ کی طرف منسوب کیے گئے ہیں۔

علما کی شہادت

محمد بن یٰسین ہروی فرماتے ہیں کہ حفاظ حدیث میں سے ابو داؤد بھی ایک مشہور حافظ ہیں، ابو حاتم کا بیان ہے کہ وہ حفظ کے اعتبار سے دنیا کے اماموں میں سے ایک امام تھے۔ جرح و تعدیل کے فن میں بھی ان کا پایہ نہایت بلند تھا۔ صحیح و سقیم، قوی و ضعیف، مشہور ومنکر اور حسن و شاذ ہر قسم کی روایتوں کو پرکھنے میں ان کو پورا ملکہ حاصل تھا۔ چنانچہ جرح و تعدیل کے بعض سخت گیر آئمہ بھی علل حدیث میں ان کی معرفت کا اعتراف کرتے ہیں۔

وفات

امام ابو داؤد نے ۱۶ شوال ۲۷۵ ہجری کو ۷۲ سال کی عمر میں عالم آخرت کا سفر اختیار کیا۔ عباس بن عبدالواحد نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی۔

مناقب

امام ابو داؤد علم و فن کی طرح زہد و تقویٰ کے بھی امام تھے۔ ابو حاتم فرماتے ہیں کہ امام موصوف فقہ و علم اور حفظ حدیث، زہد و عبادت اور یقین و توکل میں یکتاے روزگار تھے۔ ان کی زندگی کا مشہور واقعہ ہے کہ اُن کے کرتہ کی ایک آستین تنگ تھی اور ایک کشادہ، جب اس کا راز دریافت کیا گیا تو بتایا کہ ایک آستین میں اپنے نوشتے رکھ لیتا ہوں اس لیے اس کو کشادہ بنا لیا ہے اور دوسری کو کشادہ کرنے کی کوئی ضرورت نہ تھی، نہ اس میں کوئی فائدہ تھا ،اس لیے اس کو تنگ ہی رکھا ہے۔ ملا علی قاری فرماتے ہیں کہ ورع و تقویٰ اور عفت و عبادت کے حوالے سے ابو داؤد بہت اونچے مقام پر تھے۔ امام صاحب کو دنیا اور اس کے لذائذ و مرغوبات سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔آپ امرا و سلاطین کے دربار سے ہمیشہ کنارہ کش رہے اور دنیوی جاہ و حشمت اور اعزاز و اکرام کی کبھی پروا نہ کی۔

_______

 

امام ترمذی

ان کا نام محمد ہے، کنیت ابو عیسیٰ ہے اور نسب محمد بن سورہ بن موسیٰ بن ضحاک ہے ۔ آپ دریاے جیحوں کے کنارے واقع شہر ترمذ میں پیدا ہوئے۔

تحصیل علم

اس کی تفصیل نہیں ملتی کہ انھوں نے ابتدائی تعلیم کہاں حاصل کی تھی ، لیکن اس زمانہ میں خراسان اور ماوراء النہر کا علاقہ علم و فن کا مرکز بن چکا تھا ، امام بخاری جیسے جلیل القدر محدث کی مسند بچھ چکی تھی اور دو ر دور سے تشنگان علم یہاں کھنچے چلے آتے تھے۔ اس سے قیاس یہی ہے کہ امام ترمذی نے اپنی ابتدائی تعلیم خراسان ہی میں حاصل کی ہو گی۔

شیوخ و اساتذہ

امام ترمذی کے مشہور شیوخ و اساتذہ درج ذیل ہیں:
امام بخاری، امام مسلم، علی بن حجر مروزی، ابو کریب، محمد بن العلا،محمد بن موسیٰ الزمن، محمد بن بشار ۔

طلب علم کے لیے رحلات

طلب علم کے حوالے سے آپ کے اسفار کے بارے میں ہمیں پتا چلتا ہے کہ آپ نے خراسان ، عراق اور حجاز کے عظیم محدثین سے استفادے کے لیے ان علاقوں کا سفر کیا۔

مجلس درس

آپ کی مجلس درس کے حوالے سے ہمیں تاریخ سے کوئی معلومات نہیں ملتیں۔

تلامذہ

آپ کے مشہور تلامذہ درج ذیل ہیں:
ابو حامد احمد بن عبداللہ داؤد مروزی ، ہثیم بن کلیب شامی، محمد بن محبوب، ابو العباس محبوبی مروزی، احمد بن یوسف نسفی ۔

تصنیفات

تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ امام ترمذی نے کئی کتابیں لکھی تھیں ، مگر افسوس ہے کہ ان میں سے صرف تین کتابوں کے نام ہم تک پہنچ سکے۔ یہ تینوں کتابیں آج بھی موجود ہیں اور کتب حدیث میں بڑا مقام رکھتی ہیں۔
سنن ترمذی، شمائل ترمذی، کتاب العلل۔
اس کے علاوہ تاریخ میں آپ کی طرف ایک اور کتاب کو بھی منسوب کیا گیا ہے۔ اس کا نام ’’کتاب التاریخ‘‘ ہے۔

علما کی شہادت

سب علما آپ کی امامت و جلالت کے بارے میں متفق ہیں۔ محدث ابن حبان کہتے ہیں کہ آپ بہت بڑے حافظ حدیث اور عظیم مصنف و مولف تھے ۔ابو یعلیٰ خلیلی علماے فن کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے ، آپ کو ثقہ قرار دیتے ہیں۔ امام بخاری کے یہ قابل اعتماد شاگرد سمجھے جاتے ہیں۔ امام ذہبی میزان الاعتدال میں فرماتے ہیں کہ جامع ترمذی کے مولف ابو عیسیٰ ترمذی با تفاق علماثقہ ہیں۔

وفات

امام ترمذی عمر کے آخری حصے میں نابینا ہو گئے تھے۔ مشہور روایت کے مطابق آپ نے ۷۰ سال کی عمر میں ۲۷۹ ہجری میں اپنے مولد ترمذ ہی میں وفات پائی ہے۔

مناقب

امام ترمذی جس درجہ کے علم کے حامل تھے، اسی درجہ کا عمل اور زہد و تقویٰ بھی آپ میں موجود تھا۔ آپ زہد و تقویٰ میں امام بخاری کے جانشین سمجھے جاتے تھے۔ آپ کا دل خشیت الٰہی سے لبریز تھا۔ ہر وقت خدا کے خوف سے رویا کرتے تھے۔ حتیٰ کہ اس رونے ہی کی وجہ سے آخر ی عمر میںآپ کی آنکھوں کی بینائی جاتی رہی تھی۔

_______

 

امام نسائی

ان کا نام احمد ہے ، کنیت ابو عبدالرحمن اور نسب نامہ احمد بن علی بن شعیب بن علی ہے ۔ خراسان کا ایک شہر نساء ہے، یہ مرو کے قریب واقع ہے۔ اس شہر نساء کو امام نسائی کے مولد وطن ہونے کا شرف حاصل ہے۔ اسی کی طرف نسبت سے آپ نسائی کہلاتے ہیں۔ آپ ۲۱۵ ہجری میں پیدا ہوئے تھے۔ آپ ایک عرصہ یہیں مقیم رہے، لیکن بعد میں آپ نے مصر میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔

تحصیل علم

امام نسائی نے ابتدائی تعلیم کہاں سے حاصل کی، اس کی تفصیل نہیں ملتی ۔ لیکن اس زمانے میں خراسان کا علاقہ علم و فن کا مرکز بن چکا تھا، وہاں بہت سے ارباب فضل و کمال موجود تھے ، اس لیے قیاس یہی کہتا ہے کہ ابتدائی تعلیم امام نسائی نے یہیں سے حاصل کی ہو گی۔

شیوخ و اساتذہ

آپ کے مشہور شیوخ و اساتذہ درج ذیل ہیں:
اسحاق بن راہویہ، ابو داؤد سجستانی، محمود بن غیلان، قتیبہ بن سعید، علی بن خشرم۔

طلب علم کے لیے رحلات

امام نسائی ۱۵ سال کی عمر میں قتیبہ بن سعید بلخی کے پاس آئے اور ان کے ہاں ایک سال دو ماہ تک مقیم رہے تاکہ ان سے علم حدیث سیکھیں۔ پھر آپ مصر چلے گئے اور کافی عرصہ وہاں مقیم رہے اور علم سیکھتے رہے اور علم کی خدمت کرتے رہے۔ وہاں ان کی تصانیف کو بڑی شہرت حاصل ہوئی۔ مصر کے علاوہ آپ نے عراق، حجاز ، جزیرہ ، خراسان، شام وغیرہ کا سفر بھی کیا تھا، تاکہ وہاں کے شیوخ سے علم حدیث حاصل کریں۔

مجلس تدریس

امام نسائی کی مجلس تدریس کے حوالے سے ہمیں تاریخ سے کوئی باقاعدہ معلومات حاصل نہیں ہوتیں۔

تلامذہ

امام نسائی کے بعض تلامذہ کے نام درج ذیل ہیں:
ابراہیم بن محمد بن صالح، ابو بشیر دولابی، ابو علی حسین محمد نیشا پوری ، ابو القاسم طبرانی، ابو جعفر عقیلی، ابو علی محمد بن ہارون، عبدالکریم بن احمد (امام نسائی کے بیٹے)۔

تصنیفات

امام نسائی کی معلوم تصنیفات کی تعداد دس ہے:
خصائص سید نا علی، مسند علی، مسند مالک ، الضعفا والمتروکین ، کتاب الجمعہ، کتاب التمیز، کتاب المدلسین، فضائل صحابہ، سنن کبریٰ، سنن صغریٰ (یہ کتاب سنن نسائی کہلاتی ہے اور یہ صحاح ستہ میں شامل ہے)۔

علما کی شہادت

امام دارقطنی کا بیان ہے کہ امام نسائی اپنے دور کے تمام علماے حدیث میں یکتا اور سب سے افضل و برتر تھے۔ امام نسائی کی قوت حفظ کے حوالے سے امام ذہبی کی یہ رائے تھی کہ وہ امام مسلم سے بھی زیادہ حفظ کی قوت رکھتے تھے۔ جرح و تعدیل کے حوالے سے دار قطنی نے انھیں اپنے زمانے کے محدثین کے سرخیل قرار دیا ہے۔

وفات

۳۰۲ ہجری میں امام نسائی مصرسے دمشق تشریف لائے۔ وہاں آپ سے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل کے بارے میں سوال کیا گیا۔ آپ نے امیر معاویہ کے مقابل میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو افضل قرار دیا۔ لوگوں نے اس جرم کی پاداش میں ان کو اس قدر پیٹا کہ سخت مجروح ہو گئے اور پھر اسی حالت میں اپنے لوگوں سے تقاضا کیا کہ مجھے مکہ پہنچا دیں، مکہ جاتے ہوئے راستے میں آپ کی وفات ہو گئی۔

مناقب

امام نسائی کا اصل فن علم حدیث تھا۔ لیکن دوسرے علوم دینیہ میں بھی ان کو درک حاصل تھا۔ فقہ و اجتہادمیں ان کے کمال ہی کی بنا پر انھیں حمص کے قضاو ولایت کا عہدہ پیش کیا گیا تھا۔
امام نسائی کی عملی زندگی نہایت پاکیزہ تھی۔ ان کا دل خشیت الہٰی سے لبریز تھا اور خدا کی یاد اُن کے دل میں بسی ہوئی تھی۔ آپ بڑے عبادت گزار اور متبع سنت تھے۔ رد بدعت اور احیا سنت آپ کا خاص مشن تھا۔ تہجد کے پابند تھے اور صوم داؤدی کے مطابق ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن افطار کرتے تھے۔ ان میں جہاد کا ولولہ بھی تھا ایک مرتبہ امیر مصر کے ساتھ جہاد کے لیے نکلے تو میدان جنگ میں وہ شجاعت و بہادری دکھائی کہ لوگوں کے دلوں میں قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی یاد تازہ ہو گئی۔ طبیعت میں استغنا اور بے نیازی تھی۔ کبھی عزت نفس کا سودا نہیں کیا۔آپ امیر مصر کے ساتھ جہاد میں تو شریک ہوئے، لیکن ان کی مجلس اور ہم نشینی سے ہمیشہ دور رہے۔

____________

 

تاریخ: نومبر 2004
بشکریہ: محمد رفیع مفتی
مصنف : محمد رفیع مفتی
Uploaded on : May 28, 2016
5927 View