فکر فراہی - شخصیات اور خدمات - ابو یحییٰ

فکر فراہی - شخصیات اور خدمات

اسلام رہتی دنیا تک انسانوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی مرضی اور ہدایت جاننے کا واحد ذریعہ ہے۔ جب ایک شخص اسلام قبول کرتا ہے تو وہ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ یہ دین اللہ تعالیٰ کانازل کردہ ہے جو حاضر و غائب کا جاننے والا تنہا معبود ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے آخری نبی اور رسول ہیں جن کے ساتھ نبوت کا دروازہ بند کردیا گیا ہے۔ اس شہادت کا لازمی نتیجہ اس بات کو ماننا ہے کہ اسلام ہر زمانے کا دین ہے۔ اس کی تعلیمات جس طرح ہزار برس قبل کے زرعی معاشروں کے لیے قابل عمل تھیں، اسی طرح آج کے جدید صنعتی معاشروں کی رہنمائی کے لیے بھی کافی ہیں۔

تاہم دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دو رجدید میں انسانی تاریخ کا سب سے بڑاعلمی اور تمدنی انقلاب برپا ہوچکا ہے۔اس انقلاب نے تمام قدیم ادیان، افکار، علوم اور فنون پر اثر ڈالا ہے۔ عالم اسلام پر بھی اس انقلاب کے بہت گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ایک طرف بحیثیت مسلمان ہمارا یقین ہے کہ اسلامی تعلیمات ہر دور میں قابل عمل ہیں، دوسری طرف صورت حال یہ ہے کہ دین کے نام پر پیش کی جانے والی بہت سی آرا دور جدید میں عملاً ناقابل عمل اور ناقابل قبول ہوچکی ہیں۔مثال کے طور پر تصویر بنوانا ہماری قدیم دینی تعبیر کے مطابق حرام ہے، جبکہ زمینی حقیقت یہ ہے کہ تصویر کے بغیر آج کے جدید تمدن کا کوئی تصورممکن نہیں ہے۔

اسی طرح دور جدید میں معاشرتی تبدیلیوں، سماجی ارتقا اور علوم کی ترقی کی بنا پر اسلامی شریعت کے بعض پہلووں کے بارے میں کئی اعتراضات سامنے آرہے ہیں۔اسلام کے نام پر پیش کی جانے والی بہت سی آرا کے بارے میں لوگوں کے ذہنوں میں سوالات پیدا ہو رہے ہیں۔ مثلاً معاشرے میں خواتین کا کردار، مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان تعلقات، اسلامی سزائیں، موجودہ معاشی نظام میں بنکاری کا نظام اورجمہوریت وغیرہ ۔

تاہم، اسلام دین حق ہونے کے ساتھ دین محفوظ بھی ہے۔اللہ تعالیٰ نے ختم نبوت کے بعد اسلام کے پیغام اور اس کی تعلیمات کو قرآن و سنت کی شکل میں قیامت تک کے لیے محفوظ کرنے کا اہتمام کیا ہے۔ پھر اس کے ساتھ ہر دور میں وہ ایسے اہل علم پیدا کرتے رہتے ہیں جو اسلام کی حقانیت اور معقولیت کو اپنے زمانے کے تقاضوں کے لحاظ سے لوگوں کے سامنے واضح کرتے ہیں۔دور جدید میں اللہ تعالیٰ نے یہ خدمت امام فراہی اور ان کے شاگردوں سے لی ہے۔ ان اہل علم کے کام کے نتیجے میں اسلام کے پیغام اور اس کی شریعت پر کیے جانے والے سوالات کا معقول اور مدلل جواب دنیا کے سامنے آرہا ہے۔ نیز اسلام کی حقانیت کے ناقابل تردید پہلو لوگوں پر واضح ہورہے ہیں۔

اس تحریرمیں ہم امام فراہی، ان کے شاگرد امین احسن اصلاحی اور ان کے شاگرد جاوید احمد غامدی کا مختصر تعارف کرائیں گے اور ان کی بعض ایسی علمی خدمات کو اختصار کے ساتھ پیش کریں گے جو قرآن و سنت کی روشنی میں دور جدید کے مسائل کا حل فراہم کرتی ہیں۔

 

اسلام کے دور جدید کا پہلا عالم

امام حمید الدین فراہی اسلام کے دور جدید کے پہلے عالم تھے۔یہ الگ بات ہے کہ فراہی کو عام لوگ ہی نہیں، بلکہ دینی پس منظر رکھنے والے پڑھے لکھے لوگ بھی نہیں جانتے۔فراہی کے بارے میں اس حقیقت کوعلامہ شبلی نعمانی نے اس طرح بیان کیا تھا کہ عام قیاس یہ ہے کہ صاحب کمال کسی حالت میں گم نام نہیں رہ سکتا ... حمید الدین اس اصول سے استثنا کی ایک عمدہ مثال ہیں۔۱؂ فراہی کا مقام و مرتبہ کیا تھا، اس کے لیے ہم سید سلیمان ندوی کے وہ الفاظ نقل کرنا چاہیں گے جو انھوں نے فراہی کی وفات پر لکھے:

’’...اس عہد کا ابن تیمیہ ۱۱ نومبر ۱۹۳۰ (۱۹ جمادی الثانی ۱۳۴۹ ھ) کو اس دنیاسے رخصت ہوگیا، وہ جس کے فضل و کمال کی مثال آیندہ بظاہر حال عالم اسلامی میں پیداہونے کی توقع نہیں، جس کی مشرقی ومغربی جامعیت عہد حاضر کا معجزہ تھی، عربی کافاضل یگانہ اورانگریزی کا گریجویٹ، زہدوورع کی تصویر،فضل وکمال کامجسمہ،فارسی کابلبل شیراز، عربی کاسوق عکاظ، ایک شخصیت مفرد، لیکن ایک جہان دانش! ایک دنیاے معرفت!ایک کائنات علم،ایک گوشۂ نشین مجمع کمال، ایک بے نواسلطان ہنر، علوم ادبیہ کایگانہ، علوم عربیہ کاخزانہ،علوم عقلیہ کاناقد،علوم دینیہ کا ماہر، علوم القرآن کاواقف اسرار، قرآن پاک کاداناے رموز، دنیاکی دولت سے بے نیاز، اہل دنیا سے مستغنی، انسانوں کے رد و قبول اور عالم کی داد و تحسین سے بے پروا، گوشۂ علم کا معتکف اور اپنی دنیاکاآپ بادشاہ۔ وہ ہستی جوتیس برس کامل قرآن پاک اور صرف قرآن پاک کے فہم و تدبر اور درس وتعلیم میں محو،ہرشے سے بے گانہ اور شغل سے ناآشنا تھی، افسوس کہ ان کاعلم،ان کے سینہ سے سفینہ میں بہت کم منتقل ہوسکا ... یہ ہستی آئی اورچلی گئی،لیکن دنیاان کی قدرومنزلت کونہ پہچان سکی اور ان کے فضل وکمال کی معرفت سے ناآشنا رہی۔‘‘ (سید سلیمان ندوی، یاد رفتگاں۱۲۴)

حمید الدین فراہی ۱۸۶۲ء میں اعظم گڑھ ،ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ دس برس کی عمر میں قرآن کریم حفظ کیا ۔ پھر عربی فارسی کی تعلیم حاصل کی اور بیس برس کی عمر میں دینی علوم کی تحصیل سے فارغ ہوئے۔دینی علو م اور عربی زبان میں تخصص (Specialization) کے لیے ہندوستان کے بڑے بڑے علمی مراکز کا سفر کیا اور اپنے زمانے کے چوٹی کے علما سے کسب فیض کیا۔ ان کے اساتذہ میں علامہ شبلی نعمانی(جو فراہی کے پھو پھی زاد بھی تھے)، مولانا عبدالحئی فرنگی محلی اور مولانا فیض الحسن سہارنپوری جو اس وقت ہندوستان میں عربی زبان و ادب کے سب سے بڑے عالم تھے، شامل ہیں۔

قدیم علوم کی تکمیل کے بعد انگریزی اور جدید علوم کی تدریس مکمل کی اور علی گڑھ سے بی اے کی ڈگری لی۔یہاں آرنلڈ جیسے مشہور اسکالر سے فلسفہ پڑھا۔بعد میں جب علی گڑھ پڑھانے آئے تو عبرانی زبان بھی یہیں سیکھی۔علی گڑھ کے چار سالہ قیام میں فراہی کو ان مسائل کا ادراک ہواجو جدید علم اور تمدن کی پیداوار تھے۔عام مذہبی فکر ان مسائل کا جواب دینے سے قاصر تھا، جبکہ جدید فکر کے حاملین، علم، زبان اور ادب کا مطلوبہ پس منظر نہ ہونے کی بنا پر جواب دینے کی کوشش میں خود قرآن کریم کے معنی اور مدعا میں عملاً تحریف کے مرتکب ہو رہے تھے۔اس بات کو اصلاحی صاحب نے فراہی کے علی گڑھ کے قیام کے حوالے سے اس طرح بیان کیا ہے:

’’...یہ وہ زمانہ ہے جب سرسیدمرحوم مغربی نظریات سے مرعوبیت کے سبب سے قرآن مجید کی من مانی تاویلات کر رہے تھے اور مسلمانوں کا وہ طبقہ جوانگریزوں اورانگریزوں کے لائے ہوئے افکار و نظریات سے مرعوب تھا،بری طرح ان من مانی تاویلات کاشکار ہورہا تھا۔ مولانا کے اس فتنہ کو جہاں انگریزوں کے تسلط کاایک قدرتی نتیجہ خیال کیا، وہاں اس حقیقت پربھی ان کی نظرگئی کہ مذہبی علوم خصوصاًقرآن کے سمجھنے سمجھانے کاجوطریقہ مسلمانوں میں رائج اور مقبول رہاہے، وہ بالکل ہی غلط اورفرسودہ ہے۔ اور اس غلط اور فرسودہ طریقہ نے مسلمانوں کے تعلیم یافتہ طبقہ کو فکری اعتبار سے اس قدر کمزوراورمنفعل بنادیاہے کہ وہ بڑی آسانی سے ہرفتنہ کا شکار ہو سکتے ہیں۔ اس کاعلاج اللہ تعالیٰ نے مولاناکے دل میںیہ ڈالاکہ قرآن مجیدپرغورکرنے کا وہ صحیح طریقہ اختیار کیا جائے جس سے حکمت قرآن کے دروازے کھلیں تاکہ مسلمان مغرب کی فاسد عقلیت سے مرعوب ہونے کے بجاے قرآن کی صالح عقلیت سے اس کامقابلہ کرسکیں۔ چنانچہ مولانانے تفسیروں کے واسطہ سے قرآن کے سمجھنے کامقبول عام طریقہ چھوڑکر قرآن پر براہ راست غور کرنے کا طریقہ اختیار کیا اور آہستہ آہستہ اللہ تعالیٰ نے مولاناکی رہنمائی ان اصولوں تک فرمائی جو انھوں نے اپنے مقدمہ نظام القرآن میں بیان فرمائے ہیں۔‘‘(مجموعہ تفاسیر فراہی۳۰) 

فراہی نے عملی زندگی کا آغاز سندھ مدرسہ کراچی میں بحیثیت معلم کیا۔ کراچی میں ۱۸۹۷ء سے ۱۹۰۶ء تک دس سالہ قیام میں فراہی کو وہ فرصت میسر آگئی کہ وہ قرآن پر اپنے اس کام کا آغاز کریں جو ایک نئے دور کی نوید بننے والا تھا۔ قرآن کی تفسیر اور علم قرآن پر متعدد تصانیف آپ نے یہیں تحریر کیں۔ کراچی کے بعد وہ ایم اے او کالج علی گڑھ، میور سینٹرل کالج الٰہ آباد اورعثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد دکن جیسے نمایاں تعلیمی اداروں میں پڑھاتے رہے۔ ۱۹۱۹ء میں آپ اپنے آبائی وطن لوٹ آئے اور پھر آخری وقت تک مدرسۃ الاصلاح ، سرائے میر کی نظامت کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ ۱۱ نومبر ۱۹۳۰ کے دن حمید الدین فراہی کا انتقال ہوگیا۔

امام فراہی نے اپنے پیچھے بہت بڑا علمی کام چھوڑا۔ان میں سے کچھ ان کی زندگی میں اور کچھ بعد میں شائع ہوا۔ ان کابیش تر کام عربی میں تھا جن میں بہت سی کتابوں کا ترجمہ اردو میں ہوچکا ہے۔ ان میں سب سے مشہور ’’مجموعہ تفاسیر فراہی‘‘، ’’اقسا م القرآن‘ ‘اور ’’ذبیح کون ہے؟‘‘ ہیں، تاہم فراہی کا اصل سرمایہ وہ دو شاگرد تھے جو انھوں نے اپنی زندگی کے آخری عرصہ میں مدرسۃ الاصلاح میں تیار کیے۔ان میں سے ایک اختر احسن اصلاحی تھے جنھوں نے فراہی کے بعد مدرسۃ الاصلاح کی ذمہ داری سنبھالی۔ دوسرے شاگرد امین احسن اصلاحی تھے۔یہی وہ امین احسن تھے جو فراہی کے فکر کے امین بنے اور اگلی پون صدی تک اسے اپنی غیر معمولی علمی و ادبی صلاحیتوں سے سینچتے رہے۔ فراہی ، علم کا ایک پوشیدہ خزانہ تھے۔اللہ تعالیٰ نے اس خزانے کوامین احسن کے ذریعے سے زمانے پر آشکار کیا۔

 

اسلام کے دور جدید کا دوسرا عالم – امین احسن اصلاحی

فراہی اگر اسلام کے دورجدید کے پہلے عالم تھے تو امین احسن بلاشبہ، اس دور کے دوسرے عالم تھے۔امام فراہی کی عظمت کو لوگ اس لیے نہ جان سکے کہ وہ گوشہ نشین شخص تھے۔ امین احسن کی عظمت پر اس لیے پردہ پڑگیا کہ وہ اپنے زمانے سے بہت پہلے پیدا ہوگئے۔ وہ ایک ایسے دور میں پیدا ہوئے جب ایک عالم کی عظمت کااندازہ علم کی گہرائی سے نہیں، بلکہ معتقدین کی تعداد سے کیا جاتا ہے۔ ایک ایسے دور میں جب زمانے کے رواج سے ہٹ کر کچھ کہنااپنی کشتی طوفانوں کے حوالے کرنے کے مترادف تھا، امین احسن روش زمانہ سے بے نیاز ہو کر نئی دنیا ؤں کو دریافت کرتے رہے۔ اس کی قیمت انھیں اپنی تنہائی کی شکل میں ادا کرنی پڑی، لیکن علم کی جس شاہ را ہ کو انھوں نے کھولا،آنے والے دنوں میں یہی وہ راستہ بنا جس پر چل کر اسلام کی عظمت کو دنیا کے سامنے پیش کرنا ممکن ہوگیا۔یہ راستہ ’تدبر قرآن‘ کا تھا ، جس تک فراہی انھیں ہاتھ پکڑ کرلے آئے تھے۔

امین احسن اصلاحی ۱۹۰۴ء میں اعظم گڑھ یوپی کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ان کا تعلق ایک زمین دار گھرانے سے تھا۔ابتدائی تعلیم گاؤں کے ایک سرکاری مکتب میں پائی ۔ یہیں قرآن کریم اور فارسی کی تعلیم حاصل کی اور پھر مدرسۃ الاصلاح میں داخل ہوئے۔عربی زبان اور دینی علوم کی تحصیل اس مدرسے سے مکمل کی اور اسی نسبت سے اصلاحی کہلائے۔یہ مدرسہ علامہ شبلی نعمانی کی زیر نگرانی چلتا تھا۔ اس کا نصاب کسی مخصوص فقہی گروہ کے تحت نہیں بنا تھا، بلکہ اس میں فقہ اسلامی کی تعلیم دی جاتی تھی۔ اس زمانے میں فراہی مدرستہ الاصلاح میں موجود نہیں تھے ، مگر دیگر بڑے علما سے امین احسن نے کسب فیض کیا، جن میں مولانا شبلی متکلم اور مولانا عبدالرحمن بلگرامی قابل ذکر ہیں۔

۱۹۲۲ء میں امین احسن اس مدرسہ سے فارغ ہوئے۔ عملی زندگی کا آغاز صحافت سے کیا اور بجنور کے ایک اخبار ’’مدینہ‘‘ کے نائب مدیر مقررہوئے۔اخبار کے دفتر سے بچو ں کا ایک رسالہ ’’غنچہ‘‘ نکلتا تھا، اس کی نگرانی بھی ان کے ذمہ تھی۔ وہ کچھ عرصہ مشہور عالم دین مولانا عبدالماجد دریا بادی کے اخبار ’’سچ‘‘ سے بھی وابستہ رہے۔

اس دوران میں امام فراہی مدرسۃ الاصلاح کی ذمہ داری سنبھال چکے تھے۔ یہ ۱۹۲۵ء کا زمانہ تھا۔ فراہی علم کی جس دنیا کو دریافت کرچکے تھے، وہ بے مثل تھی، لیکن اسے جمود پسند اور روایت پرست زمانے کے سامنے پیش کرنا آسان نہ تھا، جبکہ ان کی دنیا میں جو بات دلیل اور علم کی بنیاد پر واضح ہو جائے، اسے سارے زمانے کی مخالفت کے باوجود اختیار کرلیا جاتا تھا۔ اس وقت فراہی عمر کے آخری دور میں تھے۔ ان کے لیے شایدتنہا یہ ممکن نہ تھا کہ قرآن فہمی کے اپنے ذوق کو زمانے میں روشناس کرانے کی جدو جہد کریں ۔ اس کے بجاے انھوں نے مدرستہ الاصلاح میں ایک ایسے تعلیمی ماحول کے قیام میں دل چسپی لی جہاں طالب علموں کو فقہی مسالک سے بالاتر ہوکر تعلیم دی جائے۔ ان کی یہ کوشش رائگاں نہیں گئی۔ آنے والے دنوں میں اس مدرسہ سے بڑے بڑے اہل علم پیدا ہوئے جنھوں نے ایک زمانے کو اپنے علم و فضل سے متاثر کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ فراہی نے اپنے علمی سرمائے کوکسی ایسے نوجوان تک منتقل کرنے کا فیصلہ کیا جسے نہ صرف علم و ادب کا غیر معمولی ذوق ہو، بلکہ وہ تحریر و تقریر کی غیر معمولی صلاحیتوں سے علم کو دوسروں تک موثرانداز میں منتقل کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہو۔ ان کی نگاہ انتخاب نے امین احسن کا انتخاب کیا اور وقت نے ثابت کردیا کہ ان کا انتخاب غلط نہ تھا۔

چنانچہ جب امین احسن، فراہی سے ملنے ان کے گاؤں ’’پھریہا‘‘ گئے تو اس موقع پر فراہی نے ان سے کہا کہ آپ اخبار نویسی کرتے پھریں گے یا ہم سے قرآن پڑھیں گے۔ اصلاحی نے بغیر کسی توقف کے جواب دیا کہ میں حاضر ہوں۔فراہی نے کہا کہ آپ ہمارے ساتھ قیام کریں گے۔وہ غالباً اصلاحی صاحب کو گھر پر تعلیم دینا چاہتے تھے، مگر بعد میں دیگر اساتذہ کے اصرار پر مدرستہ الاصلاح میں ان کا درس ہوتا رہا۔ فراہی کی وفات (۱۹۳۰ء) تک اصلاحی شب و روز ان کے ساتھ رہے۔ وہ مدرسے میں پڑھاتے بھی تھے اور فراہی سے کسب فیض بھی کرتے ۔ قرآن کے علاوہ انھوں نے فلسفے اور پولیٹیکل سائنس کی بعض مشہور کتابیں بھی فراہی سے پڑھیں۔

فراہی کے انتقال کے بعد امین احسن کی خواہش تھی کہ وہ حدیث کا علم بھی کسی بہت بڑے عالم سے حاصل کریں۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے اپنے علاقے کے ایک بڑے عالم او رمحدث مولانا عبد الرحمن مبارک پوری سے اصول حدیث اورحدیث کی کتاب ترمذی کو پڑھا۔اس طرح علم حدیث اور روایت و درایت پر تحقیق کے اصولوں کو بھی امین احسن نے ایک صاحب سند محدث سے سیکھا۔

۱۹۳۰ء کی دہائی کے عرصے میں وہ مدرسے کی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ فراہی کی تصنیفات کو عام کرنے کے مشن سے وابستہ رہے۔اس مقصد کے لیے ’’دائرہ حمیدیہ‘‘ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا۔ ۱۹۳۶ء میں ’’الاصلاح‘‘ کے نام سے ایک رسالہ جاری کیا جس میں فراہی کی تصانیف کے اردو تراجم شائع کیے۔

۱۹۴۱ء میں جماعت اسلامی قائم ہوئی تو مولانا امین احسن ، مولانامنظور احمد نعمانی کے اصرار پر اس کے بانی اراکین میں شامل ہوگئے۔ اس کے بعد ان کی زندگی کی اگلی دو دہائیاں جماعت اسلامی کی نذر ہوگئیں ۔اس عرصے میں وہ جماعت کی مجلس شوریٰ کے رکن اور نائب امیر بھی رہے۔ جماعت کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے وہ ہجرت کرکے لاہور آگئے، لیکن پروردگار کوان سے کوئی اور کام لینا مقصود تھا۔ چنانچہ ایسے حالات پیدا ہوگئے کہ جماعت اسلامی سے ا ن کا تعلق ختم ہوگیااوروہ قرآن مجید پر غور و فکر اور تدبرکے لیے بالکل یک سو ہوگئے۔

۱۹۵۸ء میں انھوں نے اپنی شہرۂ آفاق تصنیف ’’تدبر قرآن‘‘ لکھنا شروع کی۔ ۱۹۵۹ء میں ماہنامہ ’’میثاق‘‘ جاری کیا اور ۱۹۶۱ء میں حلقہ تدبر قرآن قائم کیا۔ ان کے ذریعے سے وہ پڑھے لکھے لوگوں تک قرآن و حدیث کا علم منتقل کرنے لگے۔ ۱۹۸۰ء میں وہ ’’تدبر قرآن‘‘ لکھ کر فارغ ہوگئے۔ اس کے بعد وہ علم حدیث کی طرف متوجہ ہوئے اور حدیث کی مشہور کتابوں موطا اور بخاری کے تفصیلی دروس دیے۔

اللہ تعالیٰ کومولانا سے جو خدمت لینی مقصود تھی، اس کے لیے اس نے انھیں طویل عمر عطا کی۔ وہ ۹۰ برس کی عمر تک چاق و چوبند انداز میں علمی خدمت سر انجام دیتے رہے۔ آخری تین برس وہ صاحب فراش رہے اور ۱۶ دسمبر ۱۹۹۷ کو رات تین بجے اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔

ان کی تصانیف میں سب سے نمایاں ’’تدبر قرآن‘‘ ہے جوتفسیر کے علم میں لکھی گئی چار بڑی اور بنیادی کتابوں میں سے ایک ہے۔ اس سے قبل تفسیر کے میدان میں تین اہل علم کی تفاسیر بنیادی حیثیت رکھتی تھیں، یعنی زمخشری، رازی اور طبری۔ ’’تدبر قرآن‘ ‘نے بلاشبہ، انھیں ان ائمۂ تفسیر کی صف میں لا کھڑا کیا ہے۔ اس کے علاوہ بھی مولانا نے تقریباً ڈیڑھ درجن تصانیف تحریرکیں جن میں ’’دعوت دین اور اس کا طریق کار‘‘، ’’تزکےۂ نفس‘‘اور ’’حقیقت شرک و توحید‘‘ بہت مقبول ہوئیں۔ آپ نے متعدد علمی مضامین لکھے جن کے مجموعے الگ سے شائع ہوچکے ہیں، جبکہ آپ کے دیے ہوئے درس حدیث اب تحریری شکل میں بھی دستیاب ہیں۔

مولاناسے اکتساب علم کرنے والوں کی ایک بہت بڑی تعداد اس وقت بھی موجود ہے۔ ان کے قائم کردہ حلقۂ تدبر قرآن میں شامل ان کے شاگردوں جناب خالد مسعود صاحب اور جناب ماجد خاور نے ان کی علمی تصانیف کو بہت عام کیا ہے، تاہم خدا کے دین کو دور جدید میں جو چیلنج درپیش تھا، اس کی شدت ان تصانیف سے کم نہیں ہوسکتی تھی۔ اصلاحی نے فراہی کے کام کو بلا شبہ، بہت آگے بڑھا دیا تھا، مگر ابھی تک یہ کام ایک اصولی کام تھا۔ قرآن وحدیث پر غور وتدبر کے دروازے بلاشبہ، کھل گئے تھے۔ اسلامی علوم میں پائے جانے والے بعض بنیادی مسائل بالکل واضح ہوچکے تھے اور ان میں سے کچھ کا حل بھی سامنے آگیا تھا۔ قدیم فقہی بنیاد پر قائم مسلم قانون کے بعض پہلو آج کی دنیا میں کس طرح ناقابل عمل ہوچکے ہیں، یہ بات حدود آرڈی نینس کے نفاذ کے بعدواضح ہوچکی تھی، مگردور جدید کے مسائل پر ان کی علمی روایت کا اطلاق کرکے ان کا حل پیش کرنے کی منزل ابھی بہت دور تھی۔خود اصلاحی صاحب کو یہ اندازہ تھا کہ کام ختم نہیں ہوا، اسی لیے وہ اپنے آخری دور میں اقبال کا یہ شعر اکثر پڑھاکرتے تھے:

 

سر آمد روزگارے ایں فقیرے

دگر دانائے راز آید کہ ناید

 

جاوید احمد غامدی

اصلاحی صاحب جب فراہی سے پڑھنے آئے تو فراہی ۶۷ برس کے اور وہ ۲۲ برس کے تھے۔ جب اصلاحی صاحب ۷۰ برس کے ہوئے تو انھیں بھی ۲۲ برس کا ایک نوجوان ملا جو ان کے طریقے پر قرآن کا طالب علم بننا چاہتا تھا۔یہ نوجوان جدید و قدیم علوم کی تعلیم حاصل کرچکا تھا، لیکن مکتب فراہی میں داخلے کی شرائط اور تھیں۔ مولانا نے جواب دیا کہ پہلے یہ فیصلہ کرو کہ تمھارا سایہ بھی ساتھ نہ دے تو حق پر قائم رہوگے۔ اگلے دن سے یہ نوجوان گورنمنٹ کالج لاہور کو چھوڑکر انھی کی راہ کا مسافر بن گیا اور اس نے آنے والے دنوں میں علم کی اس روایت کو اس مقام پر پہنچادیا جہاں فکر اسلامی ایک آفتاب کی طرح منور ہوکر دنیا کو اپنی کرنوں سے روشن کرنے کے راستے پر گام زن ہوچکی ہے۔

اس نوجوان کو دنیا آج جاوید احمد غامدی کے نام سے جانتی ہے۔ جاوید احمد غامدی ۱۸ اپریل ۱۹۵۱ کو ساہیوال (پنجاب) کے قریب واقع ایک گاؤں میں ایک صوفی منش بزرگ کے ہاں پیدا ہوئے۔ بچپن سے تعلیم اس طریقے پر ہوئی کہ جدید تعلیم اسکول میں حاصل کی اور اس کے ساتھ ساتھ عربی، فارسی اور علوم اسلامی کی تعلیم کے لیے مختلف بزرگوں سے استفادہ کرتے رہے۔ اس طرح اسکول کے زمانے ہی میں روایتی مذہبی تعلیم اور عربی زبان کی تعلیم کا عمل جاری رہا۔والد صاحب کے اثر سے تصوف اور فلسفہ اور دیگر علوم کے مطالعے کا ذوق ابتدا ہی سے رہا۔ہائی اسکول کے زمانے میں مولانا ابوالاعلیٰ مودودی سے متعارف ہوئے اور ان کے زیر اثر اسلامی انقلاب کی اس فکر سے واقف ہوگئے جس نے بیسویں صدی کے نصف آخر میں ہر درد مند اور باشعور مسلمان کو متاثر کیا تھا۔ اس کے بعد مولانا مودودی سے ایک بہت قریبی اور ذاتی تعلق قائم ہو گیا جو مولانا کی وفات تک قائم رہا۔

جاوید احمد غامدی نے میٹرک کاامتحان پاس کرنے کے بعد گورنمنٹ کالج میں داخلہ لیا جہاں فلسفہ اور انگریزی ادب ان کے اختیاری مضامین تھے۔ انگریزی ادب میں بی اے آنرز کے ساتھ ساتھ لاہور میں موجود اہل علم سے عربی اور علوم اسلامی کا اکتساب بھی کرتے رہے۔اسی دوران میں امام فراہی کی بعض تصانیف کا مطالعہ کیا جن میں اصلاحی صاحب کا تذکرہ پڑھ کر ان سے ملنے کا اشتیاق ہوا۔اتفاق سے مولانا لاہور آئے ہوئے تھے۔ چنانچہ دو ہفتے ان کی صحبت میں رہے اور اسی دوران میں یہ فیصلہ کیا کہ سب کچھ چھوڑ کر مولانا کے نقش قدم پر چلنا ہی کرنے کا اصل کام ہے۔یہ سن ۷۳ کی بات ہے جس کے بعد اگلے دس برس تک مولانا اصلاحی سے قرآن و حدیث پڑھتے رہے۔

یہ وہ دور تھا جب اصلاحی صاحب کی صحبت میں ان کی علمی تربیت ہورہی تھی ۔ قدیم علمی روایت اور اسلامی انقلاب پر مبنی تعبیر دین کے ہاتھوں تعمیر شدہ ان کے سارے تصورات ریت کے گھروندے کی طرح بکھر رہے تھے۔ دوسری طرف پاکستان میں ضیاء الحق کی ’’اسلامی حکومت‘‘ کا زمانہ تھا۔ ہر طرف اسلامی نظام کا شور تھا۔ لوگوں کے خیال میں نظام صلوٰۃ ، نظام زکوٰۃ اور شرعی سزائیں نافذ ہوچکی تھیں ، دستور ہمیشہ سے زیادہ اسلامی ہوچکا تھا، مگر حقیقت یہ تھی کہ اس ’نفاذ اسلام‘ نے عملاً یہ ثابت کردیا تھا کہ صنعتی دور (Industrial Age) میں زرعی دور (Agricultural Age)کی ’فقہی تعبیرات‘ کو نافذ کرنے سے اسلام کی کوئی خدمت تو نہیں ہوئی، البتہ خود اسلام کی حقانیت ضرور زیربحث آگئی ہے۔ اس بات کو ہم حدود آرڈی نینس کی روشنی میں بعض عملی مثالوں سے آگے چل کر واضح کریں گے۔

ان حالات میں جاوید احمد غامدی نے اپنے کام کی راہ متعین کی۔ وہ جدید اور قدیم علوم سے واقف تھے۔ اس کے ساتھ فکر فراہی کا وہ علمی پس منظر انھیں حاصل تھا جس میں قرآن ایک نور بن کر ہر ظلمت میں ان کے ساتھ تھا۔چنانچہ انھوں نے فلسفہ، ادب اور تصوف کی راہوں کو چھوڑ کر فقہ اور اسلامی قانون کی وادیوں میں قدم رکھا ۔فقہ، اصول فقہ، حدیث، اصول حدیث،تفسیر، اصول تفسیر، علم کلام ، تعبیر دین اور تصوف میں بکھرے ہوئے اسلامی تصورات میں سے ایک ایک کو لے کر اس کا جائزہ لیا۔ہر امام کے علم اور اس کے اصولوں کو سمجھا اور ہر فن کی امہات کتب اور بنیادی کتابوں کا مطالعہ کیا، یہاں تک کے ربع صدی کی محنت شاقہ کے بعد وہ اس قابل ہوگئے کہ دین و شریعت، قرآن و سنت اور حدیث و آثار کے بارے میں وہ نقطۂ نظر پیش کرسکیں جو دین کو مطلوب بھی ہو اور علم و عقل کے ہر مسلمہ پر پورا بھی اترتا ہو۔

جاوید احمد غامدی نے دین کو جس طرح سمجھا، اسے اپنی کتاب ’’میزان‘‘ میں بیان کیا ہے۔ ’’میزان‘‘ سے فارغ ہوکر ان کی پوری توجہ قرآن کریم کے بامحاورہ ترجمہ اور مختصر تفسیر کے اس کام پر ہوئی جس کا آغاز وہ ’’البیان‘‘ کے نام سے پہلے کرچکے تھے۔ یہ کام ابھی جاری ہے اور ان کے رسالے ’’اشراق‘‘ میں ماہانہ شائع ہورہا ہے۔ ’’برہان‘‘ ان کی تیسری تصنیف ہے جس میں انھوں نے ان مباحث کی تفصیل کی ہے جہاں ان کا نقطۂ نظر دوسرے اہل علم سے مختلف ہے۔ ’’مقامات‘‘ میں متفرق مضامین ہیں اور ’’خیال و خامہ‘‘ ان کی شاعری کا مجموعہ ہے۔قرآن کریم کی تفسیر سے فارغ ہوکر ان کا ارادہ ہے کہ علم حدیث کے موضوع پر ’’علم النبی‘‘، ’’فقہ النبی‘‘ اور ’’سیرۃ النبی‘‘ کے نام سے تین کتابیں تصنیف کی جائیں جن میں صحیح احادیث کو جمع کرکے ان کے متن کی وضاحت کی جائے۔

جاویداحمد غامدی کی زیرسرپرستی ایک اردو ماہنامہ ’’اشراق‘‘ اور انگریزی ماہنامہ ’’Rennaissance‘‘ لاہور سے شائع ہوتا ہے۔جاوید احمد غامدی کے رفقا اور تلامذہ میں ڈاکٹر خالد ظہیر،رفیع مفتی، معز امجد، طالب محسن، ساجد حمید،آصف افتخار، عامر گزدر، عمار ناصر، شہزاد سلیم، منظور الحسن اور کوکب شہزادکے نام نمایاں ہیں۔ یہ لوگ ان کے قائم کردہ ادارے ’’المورد‘‘ سے وابستہ ہیں جو علوم اسلامی کی تحقیق اور ان کی نشرو اشاعت کے لیے ۱۹۸۳ء سے کام کررہا ہے۔

 

بشکریہ: ریحان احمد یوسفی
مصنف : ابو یحییٰ
Uploaded on : May 25, 2016
7791 View