سلیمان بن یسار - ڈاکٹر وسیم مفتی

سلیمان بن یسار

 سلیمان بن یسار کی ولادت ایرانی نژاد یسار کے ہاں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانۂ خلافت کے اواخر میں ہوئی ۔وہ ام المومنین حضرت میمونہ ہلالیہ رضی اﷲ عنہا کے غلام تھے اور ان کو بدل کتابت ادا کر کے آزادہوئے اس لیے ہلالی کہلاتے تھے ۔ابن حبان کہتے ہیں کہ سیدہ میمونہ نے سلیمان کی ولایت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو سونپ دی تھی۔ سلیمان مدینہ کے مفتی تھے اور ان کا شمار اس شہر کے سات بڑے فقیہوں( فقہاے سبعہ) میں ہوتا تھا، اس اعتبارسے ان کی نسبت مدنی تھی ۔ ان کی کنیت ابو ایوب ،ابو عبدالر حما ن اور ابو عبد اﷲ بیان کی گئی ہے۔ سلیمان کے تین بھائی عطا،عبد الملک اور عبد اﷲ تھے،سب نے حدیث رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام روایت کی،ان میں سے عطا بن یسار زیادہ مشہور ہوئے ۔
سلیمان کثیر الحدیث تھے ۔ انھوں نے امہات المومنین سیدہ عائشہ،سیدہ ام سلمہ اورسیدہ میمونہ سے، جلیل القدر صحابہ حضرت جابر بن عبداﷲ،حسان بن ثابت ،حمزہ بن عمرو ، رافع بن خدیج، زیدبن ثابت ،عبد اﷲبن حارث بن نوفل،عبدا للہ بن عمر،مقدادبن اسود ، ابو سعید خدری ،عبداللہ بن عباس ، ابو ہریرہ،مسعو د بن حکم، ابوواقد لیثی، ربیع بنت معوذ ،سلمہ بن صخر،فاطمہ بنت قیس ،عبداﷲ بن عباس اورابو رافع سے اورتابعین میں سے عبد اﷲ بن عیاش، عبدالرحمان بن جابر،عبدالملک بن یسار،جعفر بن عمرو، عراک بن مالک ، عروہ بن زبیر،کریب،مالک بن ابوعامر، مسلم بن سائب، ابوعبد اﷲ مدنی،ابو مرواح اور عمرہ بنت عبد الرحمان سے حدیث روایت کی ۔
ان سے حدیث رسول سیکھنے والوں میں یہ بڑے بڑے نام ہیں:ان کے بھائی عطا بن یسار،اسامہ بن زید،بکیر بن اشج ،ربیعہ الراے، جعفر بن عبد اﷲ ، حارث بن عبد الرحمان ،حاضر بن مہاجر،خالد بن ابو عمران،خثیم بن عراک، ربیعہ بن ابو عبد الرحمان،زید بن اسلم،سالم ابو النضر،سعید بن زیاد ، صالح بن سعید، صالح بن کیسان،عبد اﷲ بن فضل،عبد اﷲ بن ابو بکر،عبد اﷲ بن دینار ،عبد اﷲ بن ذکوان، عبداﷲ بن سعد ، عبد اﷲ بن فیروز، عبد اﷲ بن یزید،عبد الرحمان بن یزید، عمرو بن دینار،عمرو بن شعیب،عمرو بن میمون ، عمران بن ابو انس،محمد بن ابوحرملہ ، محمد بن عبدالرحمان بن عبید ،محمد بن عبدالرحمان بن نوفل،محمد بن عمرو،ا بن شہاب زہری،محمد بن یوسف،مکحول،نافع،یحییٰ بن ابو اسحاق ،یحییٰ بن سعید،یزید بن ابوحبیب ،یعقوب بن عتبہ ، یعلیٰ بن حکیم ، یونس بن یوسف اور سلیمان کے بیٹے عبد اﷲ بن سلیمان۔
سلیمان بن یسار کو ثقہ اورحجت مانا جاتا تھا ۔زہری کہتے ہیں : ’’ان کا شمار (بڑے) علما میں ہوتا تھا‘‘۔ ابو زناد کے والد ذکوان کہتے ہیں : ’’میری ملاقات مدینے کے جن عالموں اور فقیہوں سے ہوئی ، ان میں حسب ذیل لوگ ایسے تھے جنھیں پسند کیا جاتا اور ان کے قول کو سند مانا جاتا تھا : سعید بن مسیّب ، عروہ بن زبیر، قاسم بن محمد ، ابو بکر بن عبد الرحمان مخزومی ، خارجہ بن زید ، عبید اﷲ بن عبد اﷲ بن عتبہ اورسلیمان بن یسار۔یہ اصحاب جو فقہاے سبعۂ مدینہ کے نام سے جانے جاتے ہیں ، شرف و مرتبے میں ہم عصرعلما ، فقہااورصلحا سے ممتاز تھے ۔‘‘
سلیمان بن یسار علم وفضل میں اس درجہ فائق تھے کہ کچھ اصحاب رجال نے انھیں سعید بن مسیب پر فوقیت دی ہے۔حسن بن محمد کا کہنا ہے : ’’ہمارے خیال میں سلیمان سعید بن مسیب سے زیادہ فہم و قیاس رکھتے تھے ‘‘۔سلیمان اور سعید کی باہمی قدر دانی سے لگتا ہے کہ دونوں ہی بلند پائے کے عالم وفاضل تھے۔ عبداﷲ بن یزید ہذلی بیان کرتے ہیں: ’’میں نے سلیمان بن یسار کو یہ کہتے ہوئے سناکہ ’’سعیدبن مسیّب زندہ لوگوں میں سب سے بڑھ کر فضیلت رکھتے ہیں۔‘‘دوسری طرف میرا یہ مشاہدہ بھی ہے کہ ایک آدمی سعیدبن مسیّب سے فتویٰ لینے آیا تو انھوں نے فرمایا: ’’سلیمان بن یسار کے پاس جاؤ ، وہ آج کے زندہ لوگوں میں سب سے بڑے عالم ہیں۔‘‘ امام مالک فرماتے ہیں : ’’سعید بن مسیّب کے بعد سلیمان بن یسار بڑے علما میں سے تھے ۔ ان کی رائے عام طور پر سعید کی رائے سے موافق ہوتی ۔ سعید بن مسیّب سے تو کم ہی اختلاف کیا جاتا۔‘‘ قتادہ بیان کرتے ہیں : ’’میں مدینہ گیا اور وہاں کے شہریوں سے در یافت کیا ،یہاں طلاق کے معاملات کا سب سے بڑا ماہر کون ہے ؟جواب تھا سلیمان بن یسار ‘‘۔
جب ولید بن عبد الملک نے عمر بن عبد العزیز کو مدینے کا گورنر مقرر کیا تو انھوں نے ظہر کی نماز پڑھاتے ہی شہر کے دس فقہاسعید بن مسیّب،عروہ بن زبیر ، عبید اﷲ بن عبداﷲ بن عتبہ،ابوبکر بن عبد الرحمان محزومی،ابو بکر بن سلیمان ، سلیمان بن یسار،قاسم بن محمد، سالم بن عبد اﷲ،عبداﷲ بن عامربن ربیعہ اور خارجہ بن زید کو بلایا۔حمد و ثنا کے بعدانھوں نے فرمایا: ’’میں نے آپ سب کو ایک ایسے کام کے لیے بلایا ہے جس کا آپ کو اجر ملے گا اورآپ حق کے مددگار بھی بن جائیں گے۔میں چاہتا ہوں آپ کے مشورے اور آپ میں سے موجود لوگوں کی رائے کے بغیر کوئی فیصلہ نہ کروں۔ اگر آپ میں سے کوئی کسی اہل کار کو ظلم کرتا دیکھے یا اسے کسی عامل کی زیادتی کی شکایت ملے تو میں اس اطلاع پانے والے کو اﷲ کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ مجھے ضرور خبر کرے۔‘‘ابن سعدکی روایت کے مطابق عمر ثانی نے سلیمان کو مدینے کے بازار کے امور کا نگران مقرر کیا۔
سلیمان مونچھیں اتنی چھوٹی کر دیتے کہ لگتا کہ منڈائی ہوئی ہیں۔ انتہائی خوبرو جوان تھے۔ایک عورت نے ان کو بہکانے کی کوشش کی تو اسے گھر میں چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے۔وہ کہتی رہ گئی کہ میں تجھے رسوا کر دوں گی۔ حامل علم ہونے کے ساتھ سلیمان عابد وپرہیزگا ر بھی تھے ۔ اکثر روزے سے رہتے۔ انھوں نے دمشق کا سفر بھی کیا اور یزید بن جابر کے مہمان ہوئے ۔
ہیثم بن عدی کہتے ہیں کہ سلیمان ۱۰۰ھ میں فوت ہوئے۔حاجی خلیفہ کا کہنا ہے کہ ان کا انتقال ۱۰۴ھ میں ہوا۔ کچھ مورخین نے سلیمان کا سن وفات ۹۴ھ متعین کیا ہے ،اسی سال سعید بن مسیّب ،علی بن حسین زین العابدین اور ابوبکر بن عبد الرحمان مخزومی نے وفات پائی، اس لیے یہ عام الفقہا کے نام سے مشہور ہے ۔ حافظ ذہبی نے اسے قطعاً غلط قرار دیا ہے،انھوں نے سلیمان کی تاریخ پیدایش ۳۴ھ اور ان کی عمر ۷۳ برس متعین کر کے ابن سعد ،یحیےٰ بن معین اور بخاری کی رائے کو اختیار کیا ،یوں سن وفات ۱۰۷ھ بنتا ہے۔ابن حبان کا کہنا ہے کہ سلیمان کی تاریخ پیدایش ۲۴ھ ہے۔
امام بخاری نے سلیمان بن یسار نامی دو اور اصحاب کا ذکر’ ’تاریخ کبیر‘‘ میں کیا ہے ۔ایک مدنی جنھوں نے ابن بلال اور ابن ابو ذئب سے حدیث روایت کی ، دوسرے حضرمی جن سے صفوان بن عمرو نے روایت کی۔
مطالعۂ مزید : طبقات ابن سعد،تاریخ البخاری الکبیر،تہذیب الکمال (مِزِی)،وفیات الاعیان(ابن خلکان)، تہذیب التہذیب(ابن حجر)، تاریخ الاسلام، سیراعلام النبلا(ذہبی)۔

-----------------------------

 

بشکریہ ماہنامہ اشراق

تحریر/اشاعت جون 2005
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی
Uploaded on : Aug 25, 2016
2142 View