قاسم بن محمد - ڈاکٹر وسیم مفتی

قاسم بن محمد

 دوسرے خلیفۂ راشد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں ایران کے جنگی قیدی مدینہ لائے گئے، آخری ایرانی بادشاہ یزدگرد کی تین بیٹیاں بھی ان میں شامل تھیں۔ اس زمانے کے جنگی قانون کے مطابق قیدیوں کی فروخت ہوئی تو حضرت عمر نے ان تینوں کو بھی بیچنے کا حکم دیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا: شاہ زادیوں سے عام عورتوں والا سلوک نہ کیا جائے۔ خلیفۂ ثانی نے سوال کیا، تو ان کے ساتھ کیسا سلوک کیا جائے؟حضرت علی کا جواب تھا، ان کی قیمت لگوائی جائے اور جو قیمت بھی ہو دے کر وہ شخص ان کا نگران بن جائے جو انھیں پسند کر لے۔ چنانچہ ان کی قیمت لگی اورخود حضرت علی نے ان کی ذمہ داری اٹھا لی۔ اپنی تحویل میں آنے کے بعد انھوں نے ایک شہزادی عبداللہ بن عمر کو ہبہ کر دی، دوسری اپنے بیٹے حضرت حسین کو دی اور تیسری کو اپنے پاس پرورش پانے والے محمد بن ابو بکر صدیق کی ملکیت میں کر دیا۔ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ تینوں کے ہا ں پیدا ہونے والے بیٹے ناموراور نمایاں حیثیت کے حامل ہوئے۔ عبداللہ بن عمر کے ہاں سالم نے جنم لیا ، حضرت حسین کے بیٹے علی امام زین العابدین کے نام سے مشہور ہوئے اور محمد بن ابو بکر صدیق کے ہاں قاسم کی پیدایش ہوئی ۔ یہ تینوں نام ور تابعی جو خالہ زاد بھائی تھے اور جن کی مائیں یزد گرد کی بیٹیاں تھیں فہم دین اور تقویٰ میں مثال سمجھے جاتے ہیں۔
قاسم بن محمد حضرت علی کے دور خلافت میں مدینہ میں پیدا ہوئے۔ یہ بیان ہو چکا ہے کہ وہ خلیفۂ اول حضرت ابو بکر صدیق کے پوتے تھے۔ ان کی والدہ کا اسلامی نام سودہ تھا۔ ۶۳ھ میں قاسم کے والد محمد بن ابو بکر کو قتل کر دیا گیا تو وہ اپنی پھوپھی ام المومنین حضرت عائشہ کی پرورش میں آگئے ۔ قاسم کی کنیت ابو محمد اور ابو عبدالرحمان تھی۔ قاسم بن محمد کا شمار عالی قدر تابعین میں ہوتا ہے۔ ابن سعد نے ان کو تابعین مدینہ کے دوسرے طبقہ میں شمار کیا ہے۔ آسمان علم کے یہ چمکنے والے ستارے مدینے کے فقہاے سبعہ میں سے ایک تھے۔
قاسم بن محمد نے بہت سے صحابہ سے حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم روایت کی اور خود ان سے بڑے بڑے تابعین نے درس حدیث لیا۔ جن اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم اورتابعین کرام سے قاسم نے خوشہ چینی کی، ان کے نام یہ ہیں: حضرت عمر کے آزاد کردہ غلام اسلم ، رافع بن خدیج ، صالح بن خوات، عبداللہ بن جعفر بن ابو طالب، عبداللہ بن زبیر بن عوام، عبداللہ بن عباس، عبداللہ بن عمر اور ان کے بیٹے عبداللہ بن عبداللہ بن عمر ، عبداللہ بن عبدالرحمان بن ابو بکر صدیق، عبداللہ بن عمرو بن عاص ، عبدالرحمان بن یزید، مجمع بن یزید،معاویہ بن سفیان، ابوہریرہ، ام المومنین زینب بنت جحش، فاطمہ بنت قیس، قاسم کے والد محمد بن ابو بکر صدیق ، اور ان کی پھوپھی ام لمومنین عائشہ صدیقہ۔
قاسم سے استفادۂ حدیث کرنے والوں کی فہرست خاصی طویل ہے۔ کتب احادیث کی اسناد سے معلوم ہونے والے نام حسب ذیل ہیں: اسامہ بن زید بن اسلم، اسامہ بن زید لیثی، اسماعیل بن ابو حکیم ، افلح بن حمید ، انس بن سیرین، ایمن بن نابل، ایوب سختیانی، ثابت بن عبید، جعفر صادق، حمید طویل، حنظلہ بن ابو سفیان، حضر می بن لاحق، خالد بن ابو عمران، ربیعہ بن ابو عبدالرحمان، ربیعہ بن عطا، سالم بن عبداللہ بن عمر ، سعد بن ابراہیم ، سعد بن سعید، سلیمان بن عبدالرحمان، سلیمان بن موسیٰ ، شیبہ بن نصاح، عامر شعبی، صالح بن کیسان ، محمد بن منکدر، صالح بن ابو مریم ، طلحہ بن عبدالملک ، عاصم بن عبیداللہ، عباد بن منصور ، ابو زناد، عبداللہ بن عبیداللہ، عبداللہ بن عون ، عبد بن علا، عبدالرحمان بن عمار، عبدالرحمان بن قاسم بن محمد، عبیداللہ بن ابو زیاد، عبیداللہ بن عبدالرحمان ، عبید اللہ بن عمر ، عبیداللہ بن مقسم ، عبیس بن میمون ، عثمان بن مرہ، عکرمہ بن عمار ، عمارہ بن غزیہ، عمر بن سعید، عمر بن عبداللہ ، عمرو بن عثمان، عمران بن عبداللہ عیسیٰ بن میمون ، ابو نہیک، مالک بن دینار، محمد بن عبدالرحمان، محمد بن عثمان ، محمد بن عقبہ، ابن شہاب زہری ، مظاہر بن اسلم ، منذر بن عبید ، موسیٰ بن سرجس، نافع، یحییٰ بن سعید ، ابو بکر بن محمد، ابو عبید ، ابو عثمان انصاری اور ابن سخبرہ۔
امام بخاری کہتے ہیں کہ قاسم سے دو سو حدیثیں مروی ہیں ۔ عبداللہ بن عون کہتے ہیں کہ قاسم بن محمد ، ابن سیرین اور رجابن حیوہ الفاظ کی صحت کا خیال کرتے ہوئے احادیث رسول روایت کرتے تھے جبکہ حسن ، ابراہیم اور شعبی روایت بالمعنی سے کام لیتے تھے۔ سفیان بن عیینہ فرماتے ہیں : ’’حضرت عائشہ کی بیان کردہ روایات کو تین افراد بخوبی جانتے تھے، قاسم بن محمد ، عروہ بن زبیر اور عمرہ بنت عبدالرحمان۔‘‘علم روایت کے مشہور نقاد یحییٰ بن معین کا کہنا ہے : ’’عن عبیداللہ بن عمر عن قاسم بن محمد عن عائشہ روایت کی سنہری کڑی ہے۔‘‘
قاسم خود بتاتے ہیں: ’’ حضرت عائشہ نے خلفاے راشدین کے زمانے سے فتویٰ دینا شروع کیا، ان کی وفات تک یہ سلسلہ جاری تھا۔ میں اس عرصہ میں ان کے ساتھ رہا، میں بحر علوم عبداللہ بن عباس کے ہم نشین رہا اور ابو ہریرہ اور عبداللہ بن عمر کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا رہا۔ ابن عمر بہت پرہیز گار تھے، وسیع علم رکھنے کے باوجود اسی معاملے میں بولتے جس کا انھیں بخوبی علم ہوتا۔‘‘ابو زناد کہتے ہیں: ’’میں نے ان سے بڑا عالم سنت نہیں دیکھا ، اس زمانے میں عالم اسے ہی سمجھتے تھے جوعالم سنت ہوتا۔ قاسم بن محمد کا ذہن بہت تیز تھا، وہ مسائل میں شبہ ڈالنے والوں کا جواب مزاحیہ انداز میں دیتے ۔‘‘ خلیفۂ حجاز عبداللہ بن زبیر کے بھائی خالد ان کے پاس بیٹھے تھے کہ کسی کام سے قاسم بن محمد ان کے پاس آئے، اپنی بات کر کے پلٹے تو عبداللہ نے خالد سے کہا: ’’میرے خیال میں ابو بکر کا کوئی بیٹا اس نوجوان سے زیادہ اپنے باپ سے مشابہ نہیں۔‘‘یحییٰ بن سعید کہتے ہیں: ’’ہمیں کوئی شخص ایسا نہیں ملا جسے ہم قاسم بن محمد پر ترجیح دے سکیں ۔‘‘ امام مالک فرماتے ہیں: ’’قاسم اس امت کے فقہا میں سے ہیں۔‘‘ابن سیرین کا جسم بھاری ہوگیا اور ان کے لیے حج پر جانا ممکن نہ رہا۔ جو حج پر جاتا اسے کہتے : ’’قاسم بن محمد کے طور طریقوں ، ان کے لباس اور رہن سہن کو دیکھنا۔‘‘ لوگ ان کو آکر بتاتے تو وہ قاسم کی پیروی کرتے ۔امام مالک کی روایت ہے کہ مدینے کا کوئی حاکم قاسم کے پاس آیا اور کوئی مسئلہ دریافت کیا۔ انھوں نے جواب دیا : ’’ انسان اپنی عزت تبھی بنا سکتا ہے ، اگر وہی بات کرے جو جانتا ہو۔‘‘ قاسم کا ایک شخص سے کسی شے میں جھگڑا ہو گیا تو انھوں نے اس کو جواب دیا: ’’تم اس چیز کی ملکیت کے بارے میں مجھ سے جھگڑا کرنا چاہتے ہو۔ اگر حقیقت میں یہ تمھاری ہے تو تم لے لو ، میرا شکریہ ادا کرنے کی ضرورت نہیں۔ اگر یہ میری ہے تو میں تمھارے لیے حلال قرار دیتا ہوں ، تم اسے اپنی ملکیت سمجھو۔‘‘ قاسم مجلس میں کسی کی بات رد کرتے ،نہ اس کی عیب جوئی کرتے۔ وہ خوش لباس تھے، باریک قمیض اور ریشمی چغہ بھی پہن لیتے ، سر پر سفید عمامہ رکھتے ،ان کی مونچھیں قدرے بڑی تھیں ، سر اور داڑھی پر مہندی لگاتے۔ ان کے پاس ایک انگوٹھی تھی جس پر ان کا نام قاسم بن محمد نقش تھا۔
اگر چہ تاریخ میں قاسم بن محمد کے تفقہ کی تفصیل ملتی ہے ،نہ اس بات کاپتا چلتاہے کہ ان کا امتیازی وصف کیا تھاجس کی بنیاد پر ان کو فقہاے سبعۂ مدینہ میں شمار کیا گیا ، لیکن قیاس ہے کہ عروہ بن زبیر کی طرح قاسم بھی فقہی مسائل پر عمومی گرفت کے ساتھ حضرت عائشہ کی روایات اور ان کے فتاویٰ پر عبور رکھتے تھے اور یہی ان کا تخصص رہا ہوگا ۔ اپنے اس ظن کی تائید کے لیے مولف کے پاس اس کے سوا کوئی دلیل نہیں کہ عروہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھانجے جبکہ قاسم بن محمد ان کے بھتیجے تھے اور یہ دونوں براہ راست ان کی تربیت میں رہے۔ لامحالہ دونو ں پر حضرت عائشہ کے تفقہ کا اثر رہا ہوگا اور یہی ان کے فتاویٰ میں جھلکتا ہوگا۔ البتہ ، عروہ کو یہ فوقیت حاصل ہے کہ انھوں نے مغازی کے بارے میں کتاب تحریر کی، وہ مسجد نبوی میں درس دیتے جس میں کثیر حاضری ہوتی اور کئی بار صحابہ نے بھی ان سے فقہی استفسارات کیے۔ سیدہ عائشہ کے بعد قاسم پر عبدلین ابن عمر اورابن عباس کے خیالات کا اثر نمایاں محسوس ہوتا ہے۔ قاسم صبح سویرے اپنے گھر سے مسجد میں آتے ، دو رکعت نماز پڑھ کر لوگوں کے بیچ بیٹھ جاتے جو ان سے اپنے استفسارات کرتے ، عشا کی نماز کے بعد دوستوں اور شاگردوں کے حلقے میں بیٹھنا بھی ان کامعمول تھا۔ مسجد نبوی میں ان کی نشست آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر اور قبر کے درمیان ہوتی۔ یہیں سالم بن عبداللہ ، عبدالرحمان بن قاسم ، عبیداللہ بن عمر اور پھر امام مالک بیٹھتے رہے۔سعید بن مسیب کی طرح قاسم کی دل چسپی بھی فقہی آرا و روایات سے خاص تھی، تفسیر قرآن ان کا مضمون نہ تھا، اس پر گفتگو نہ کرتے ۔ کوئی مسئلہ پوچھتا تو اپنی رائے ضرور ظاہر کرتے ، لیکن اسی کے حق ہونے پر اصرار نہ کرتے۔قدریوں کو اچھا نہ سمجھتے، کچھ لوگوں کو تقدیر پر بحث کرتے دیکھا تو کہا: ’’ جس مسئلے پر اللہ نے کلام نہیں کیا،تم بھی اس پر گفتگو کرنے سے باز رہو۔‘‘قاسم بن محمد عمر بن عبدالعزیز کی دس افراد پر مشتمل مجلس مشاورت میں بھی شامل تھے۔ حجاز کی گورنری کے زمانے میں امور مملکت چلانے کے لیے انھوں نے یہ مجلس ترتیب دی تھی۔ اس میں فقہاے سبعہ (سعید بن مسیب ، عروہ بن زبیر، خارجہ بن زید، عبیداللہ بن عبداللہ ، قاسم بن محمد ، ابو بکر بن عبدالرحمان اور سلیمان بن یسار) کے علاوہ ابو بکر بن سلیمان ، سالم بن عبداللہ اور عبداللہ بن عامر شامل تھے۔ پانچویں خلیفۂ راشد ہونے کے بعد اکثر اس خواہش کا اظہار کرتے: ’’کاش خلافت قاسم کو ملی ہوتی۔‘‘
قاسم کے والد محمد بن ابو بکر نے خلیفۂ ثالث ،شہید مظلوم حضرت عثمان بن عفان ذوالنورین کی شہادت میں شریک ہو کر ان کے ساتھ جو سلوک روارکھا تھا ، اس کا قلق قاسم کو عمر بھر رہا ۔ وہ اکثر سجدے میں گر کردعا مانگتے : ’’اے اللہ ، میرے باپ کا گناہ معاف کر دے جو اس نے حضرت عثمان کے باب میں کیا تھا۔‘‘ قاسم کی شادی اپنی چچا زاد قریبہ بنت عبدالرحمان بن ابو بکر سے ہوئی ۔ ان کی اولاد میں سے عبدالرحمان ، ام فروہ ، ام حکیم اور عبدہ کے نام معلوم ہیں۔ عبدالرحمان نے بھی روایت حدیث میں اہم حصہ لیا۔ آخر ی عمر میں قاسم کمزور ہو گئے تھے، ایام حج میں مسجد بھی سواری پر آتے پھر ان کی بینائی زائل ہوگئی۔ ان کا انتقال عمربن عبد العزیز کی وفات کے ایک سال بعد مکہ اور مدینہ کے راستے میں قدید کے مقام پر ہوا ۔ ان کا سن وفات متعین کرنے میں مورخین نے اختلاف کیا ہے ، کچھ نے ۱۰۵ھ، کچھ نے ۱۰۷ھ اور باقیوں نے ۱۰۸ھ تحریر کیا ہے۔ قاسم نے وصیت کی: ’’مجھے ا نھی کپڑوں میں دفن کیا جائے جن میں میں نماز پڑھا کرتا تھا، میری قمیض، میرا پاجامہ اور میری چادر۔‘‘ ان کے بیٹے نے پوچھا: ’’کیا ہم دو کپڑوں سے زیادہ نہ کرلیں؟‘‘ انھوں نے جواب دیا: ’’(میرے دادا) ابو بکر اسی طرح تین کپڑوں میں دفنائے گئے تھے۔ مردے سے زیادہ زندہ انسانوں کو نئے کپڑوں کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘ ان کی عمر ستر یا بہتر برس ہوئی۔
مطالعۂ مزید: طبقات ابن سعد، تہذیب الکمال(مزی)، وفیات الاعیان(ابن خلکان)،ربیع الابرار (زمخشری)، سیر اعلام النبلا(ذہبی)۔

-----------------------------

 

بشکریہ ماہنامہ اشراق

تحریر/اشاعت جون 2005
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی
Uploaded on : Aug 25, 2016
2388 View