’’قاسم بن محمد‘‘ ایک تنقید کا جائزہ - ڈاکٹر وسیم مفتی

’’قاسم بن محمد‘‘ ایک تنقید کا جائزہ

 ماہنامہ’’ اشراق‘‘ کے جون ۲۰۰۵ کے شمارے میں مشہور تابعی فقیہ قاسم بن محمد رحمتہ اللہ علیہ کے بارے میں ہمارا ایک مضمون چھپا تھا۔ اس میں ہم نے لکھاتھا:

’’دوسرے خلیفۂ راشد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں ایران کے جنگی قیدی مدینہ لائے گئے، آخری ایرانی بادشاہ یزدگرد کی تین بیٹیاں بھی ان میں شامل تھیں۔ اس زمانے کے جنگی قانون کے مطابق قیدیوں کی فروخت ہوئی تو حضرت عمر نے ان تینوں کو بھی بیچنے کا حکم دیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا: شاہ زادیوں سے عام عورتوں والا سلوک نہ کیا جائے۔ خلیفۂ ثانی نے سوال کیا: تو ان کے ساتھ کیسا سلوک کیا جائے؟حضرت علی کا جواب تھا، ان کی قیمت لگوائی جائے اور جو قیمت بھی ہو دے کر وہ شخص ان کا نگران بن جائے جو انھیں پسند کر لے۔ چنانچہ ان کی قیمت لگی اورخود حضرت علی نے ان کی ذمہ داری اٹھا لی۔ اپنی تحویل میں آنے کے بعد انھوں نے ایک شہزادی عبداللہ بن عمر کو ہبہ کر دی، دوسری اپنے بیٹے حضرت حسین کو دی اور تیسری کو اپنے پاس پرورش پانے والے محمد بن ابو بکر صدیق کی ملکیت میں کر دیا۔ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ تینوں کے ہا ں پیدا ہونے والے بیٹے ناموراور نمایاں حیثیت کے حامل ہوئے۔ عبداللہ بن عمر کے ہاں سالم نے جنم لیا ، حضرت حسین کے بیٹے علی امام زین العابدین کے نام سے مشہور ہوئے اور محمد بن ابو بکر صدیق کے ہاں قاسم کی پیدایش ہوئی ۔ یہ تینوں نام ور تابعی جو خالہ زاد بھائی تھے اور جن کی مائیں یزد گرد کی بیٹیاں تھیں فہم دین اور تقویٰ میں مثال سمجھے جاتے ہیں۔‘‘(۶۴)

اس عبارت کے بارے میں ہمارے بعض احباب نے اعتراض اٹھایا ہے کہ یزد گرد ۱۶سال کی عمر میں تخت نشین ہوا اور فتح ا یران کے وقت اس کی عمر ۱۸سال تھی۔اس کی بیٹیاں اگر تھیں بھی تو اتنی عمر کی نہیں ہو سکتیں کہ جنگی قیدیوں میں ان کی تقسیم عمل میں آجاتی۔ہم نے کوشش کی ہے کہ مستند بات ہی لکھی جائے ،تقریر میں لغزش زباں کا بہت خدشہ ہوتا ہے جب کہ تحریر میں اپنی غلطی دور کرنے کے لیے وقت میسر آ جاتا ہے ۔بعض اوقات متضاد روایتوں یا مختلف فیہ مسائل میں ترجیح قائم کرتے ہوئے غلطی ہو جاتی ہے یا اعتراض کا محل پیداہو جاتا ہے ،تب درست تحقیق ہی کشادگی کی راہیں وا کرتی ہے۔
پہلے ہم ان تاریخی مآخذ کا ذکر کرنا چاہتے ہیں جن سے ہم نے اپنا مضمون ترتیب دیا۔مسئلۂ معترض علیہ میں اصل مدار زمخشری کی کتاب ’’ربیع الابرا ر ‘‘پر ہے۔یہ اخلاقیات کی کتاب ہے ، ضمناًاس میں تاریخ ،آثار اور روایات کاذکر بھی آجاتا ہے ۔ ہم نے اس روایت کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اس کا راوی ثقہ ہے اور اسے ابن خلکان، ابن کثیراور ذہبی جیسے بڑے مورخین نے قبول کیاہے ۔ ’باب العبید و الاماء و الخدم والأمربالاستیصاء بالممالیک خیراً و النہی عن سوء الملکۃ و نحو ذلک‘ (باب غلاموں ،باندیوں ،خادموں کے بارے میں ،مملوکوں سے اچھے سلوک کے حکم کا معاملہ، بری ملکیت سے روکنا اوراس جیسی دوسری باتیں ) میں زمخشری کی اصل عبارت یوں ہے:

ابو الیقضان : ان قریشالم تکن ترغب فی امہات الاولاد حتی ولدن ثلاثا ہم خیر أہل زمانہم : علی بن الحسین والقاسم بن محمد و سالم بن عبداﷲ ۔ وذلک ان عمر رضی اﷲ عنہ أتی بنات یزدجرد بن شہریار بن کسری سبیات، فأراد بیعہن ، فقال لہ علی: ان بنات الملوک لایبعن ، ولکن قوموہن ، فأعطاہ أثمانہن ، فقسمہن بین الحسین بن علی ومحمدبن أبی بکر الصدیق و عبد اﷲ بن عمر، فولدن الثلاثۃ.(ربیع الابرار و نصوص الاخبار،دار الذخائر ۳/ ۵۴۵)
’’ابو یقضان کی روایت :قریش باندیوں سے اولاد پیدا کرنا پسند نہ کرتے تھے حتیٰ کہ(ان میں یہ رغبت پیدا ہوئی جب) ان باندیوں نے تین ایسے بچوں کوجنم دیا جو اپنے وقت کے بہترین لوگ ثابت ہوئے :علی بن حسین،قاسم بن محمد اور سالم بن عبداﷲ۔اس کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ کے پاس یزدگرد بن شہر یار بن کسریٰ (خسرو پرویز) کی بیٹیاں قیدی بنا کر لائی گئیں۔انھوں نے ان کو فروخت کرنا چاہا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا :شاہ زادیوں کو بیچا نہیں جاتا،اس کی بجائے ان کی قیمت طے کر لیں۔ پھر انھوں نے ان کی مقررہ قیمت ادا کی اور شاہ زادیاں حسین بن علی ،محمد بن ابو بکر اور عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنھم کے حوالے کر دیں تب ان سے یہ تینوں ( علی بن حسین،قاسم بن محمد اور سالم بن عبداﷲ) پیدا ہوئے۔ ‘‘

زمخشری نے یہ بات ابو یقضان کے حوالے سے نقل کی ہے۔ابن ندیم نے ابویقظان نسابۃکے عنوان سے لکھا ہے :

’’سحیم لقب اور نام عامر بن حفص تھا ۔ واقعات ، حسب ونسب، آثار اور عیوب کے عالم تھے، اپنی روایت میں ثقہ تھے۔‘‘ (الفہرست،دار المعرفہ،بیروت۱۳۸)

ابن خلکان نے الفاظ کی کچھ تبدیلی کے ساتھ اسی روایت کو زمخشری ہی کے حوالے سے نقل کیاہے:

’’زین العابدین کی والدہ کا نام سلافہ بنت یزد گرد تھا۔ عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانۂ خلافت میں ایران کے جنگی قیدی مد ینہ لائے گئے ،ان میں یزدگرد کی تین بیٹیاں بھی تھیں۔انھوں نے قیدیوں کو فروخت کے لیے پیش کیااور حضرت عمر نے یزدگرد کی بیٹیوں کو بھی بیچنے کا حکم دیا ۔ علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیاکہ شاہ زادیوں سے عام عورتوں والا سلوک نہ کیاجائے۔حضرت عمر نے سوال کیا: تو ان کے ساتھ کیسے معاملہ کیا جائے؟ علی رضی اللہ عنہ کا جواب تھا: ان کی قیمت لگوائی جائے اور جو قیمت بھی ہو دے کر وہ شخص ان کا نگران بن جائے جو انھیں پسند کر لے ۔ چنانچہ ان کی قیمت لگی اورانھیں حضرت علی نے خرید لیا ۔پھرانھوں نے ایک عبداﷲ بن عمرکودے دی،دوسری اپنے بیٹے حسین رضی اللہ عنہ کو دی اور تیسری کواپنے پاس پرورش پانے والے محمدبن ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ملکیت میں کر دیا۔عبداﷲ کی باندی سے سالم پیدا ہوئے، حسین کے ہاں زین العابدین اور محمدکے گھر قاسم کی پیدایش ہوئی۔ یہ تینوں خالہ زاد بھائی،ان کی مائیں یزد گرد کی بیٹیاں تھیں۔‘‘(وفیات الاعیان ۳/ ۲۶۷)

یہ روایت یزدگرد کی تفصیل کے بغیران تینوں تابعین کے تذکرے میں مزی نے بھی نقل کی ہے:

’’مدینہ کے باشندے لونڈیوں کو امہات اولاد بنانا پسند نہ کرتے، یہاں تک کہ ان میں روشن رو ،عالی مرتبت علما علی بن حسین، قاسم بن محمداور سالم بن عبد اﷲ پیدا ہوئے اورعلم وتقویٰ میں مدینہ والوں پر چھا گئے تب لوگوں نے اولاد کی خاطر باندیوں میں دل چسپی لی۔‘‘( تہذیب الکمال فی اسماء الرجال ۱۰/ ۱۵۰)

حافظ ذہبی کہتے ہیں :

’’ابو زناد کی روایت ہیکہ اہل کوفہ لونڈیوں سے اولاد پیدا کرنااچھا نہ سمجھتے تھے حتیٰ کہ ان میں علی بن حسین، قاسم اور سالم فقہا کی حیثیت میں پروان چڑھے اورعلم ،پرہیزگاری اور عبادت میں مدینہ والوں سے سبقت لے گئے تب انھوں نے اولاد کی خاطر باندیوں میں دل چسپی لی۔‘‘ (تاریخ الاسلام،حوادث و وفیات ۱۰۱۔۱۲۰ھ، ۹۰)

محمد بن سعد علی بن حسین زین العابدین کے حالات بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:

’’ان کی والدہ ام ولد تھیں ،غزالہ ان کانام تھا۔حضرت حسین کی شہادت کے بعد وہ ان کے آزاد کردہ غلام زیید (ابن قتیبہ نے زبیدلکھا ہے) کی زوجیت میں آئیں،ان سے عبد اﷲ بن زیید پیدا ہوئے تو وہ علی بن حسین کے ماں جائے بھائی ہوئے۔‘ ‘ (طبقات ابن سعد۳/ ۴۱۸)

مزی تحریر کرتے ہیں:

’’ان کی والدہ باندی تھیں،ان کا نام سلّامہ یا غزالہ تھا۔‘‘( تہذیب الکمال فی اسماء الرجال ۲۰/ ۳۸۲)

ابن کثیر علی بن حسین کے حالات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’ان کی ماں ام ولدتھیں ،سلافہ ان کا نام تھا۔‘‘(البداےۃ و النہا ےۃ ، دار الفکر، بیروت۱۹۹۶ء ، ۶/ ۲۲۹)

پھر انھوں نے ابن خلکان اور زمخشری کے حوالے سے اسی روایت کا تذکرہ کیا۔ابن قتیبہ کہتے ہیں :

’’زین العابدین کی والدہ سندھ کی تھیں،ان کا نام سلافہ یا غزالہ تھا۔‘‘(المعارف ،المکتبۃ الحسینیہ،مصر ،۱۹۳۴ء ، ۱۱۰)

یعقوب بن اسحاق کلینی کا کہنا ہے :

’’علی بن حسین رضی اللہ عنہ کی والدہ کا نام سلامہ بنت یزدگردبن شہر یار بن شیرویہ بن کسریٰ پرویز تھا...حضرت علی نے مشورہ دیا:اسے مسلمانوں میں سے کوئی آدمی خود چن لینے دیجیے... چنانچہ اس نے اپنا ہاتھ حضرت حسین کے سرپررکھ دیا۔ حضرت علی نے پوچھا: تمھارا نام کیا ہے ؟اس نے جواب دیا: جہاں شاہ۔ آپ نے کہا:نہیں ، بلکہ شہربانو۔‘‘ (الاصول من الکافی ۱/ ۴۶۷)

کلینی نے ان دونوں سے علی بن حسین کے تولد ہونے کے بارے میں ابو اسود دؤلی کا شعر بھی نقل کیا ہے:
وان غلاماً بین کسریٰ وہاشم
لأکرم من نیطت علیہ النمائم

’’خسرو کی اولاد اور ہاشم کی اولاد کے ملاپ سے پیدا ہونے والا بچہ (علی بن حسین) تعویذ لٹکائے ہوؤں (بچوں)میں سب سے بڑھ کر عزت کا حامل ہے۔ ‘‘

ذہبی کہتے ہیں :

’’زین العابدین کی والدہ باندی تھیں۔ان کا نام سلافہ بنت یزد گردتھاجو ایران کاآخری بادشاہ تھا۔‘‘(تاریخ الاسلام،حوادث و وفیات ۸۱۔۱۰۰ھ، ۴۳۹)

’’ اردو دائرۂ معارف اسلامیہ ‘‘میں ہے:

’’یزدگرد کی ایک شہزادی شہربانونے خلیفۂ چہارم حضرت علی کے صاحب زادے حضرت حسین سے شادی کر لی۔‘‘ ( ۱۰/ ۶۰۳)

قاسم بن محمد کے بارے میں ابن سعدنے لکھاہے :

’’ان کی والدہ ام ولد تھیں ، سودہ ان کا نام تھا۔‘‘ (طبقات:۳/ ۳۹۹)

یہی عبارت مزی نے ابن سعد ہی کے حوالے سے نقل کی۔ابن سعد سالم بن عبداﷲ بن عمر کی بابت لکھتے ہیں:

’’ان کی والدہ ام ولد تھیں۔‘‘ (طبقات ۳ /۴۰۶)

مزی کہتے ہیں:

’’ان کی والدہ ام سالم ام ولد تھیں۔‘‘( تہذیب الکمال فی اسماء الرجال ۱۰/ ۱۴۵)

رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانے میں نوشیرواں کا پوتا خسرو پرویز تخت نشین تھا ۔اس کے مرنے کے بعد آپ کی پیشین گوئی کے مطابق ایرانی سلطنت کا شیرازہ بکھر گیا۔پہلے اس کا بیٹا شیرویہ تخت پر بیٹھا،اس نے سب بھائیوں کو قتل کرا دیا،لیکن صرف ۸ماہ حکومت کر سکا۔پھراس کے نوعمربیٹے شہریارنے راج گدی سنبھالی،اسے ایک درباری نے قتل کر دیا۔شاہی خاندان میں ایک چھوٹے بچے یزد گرد کے سوا کوئی نہ بچا تو ایک عورت بوران دخت کو یہ سنگھاسن اس شرط پر سونپ دیا گیا کہ خاندان کامرد بالغ ہونے پر اس کا حق اس کو دے دیا جائے گا۔(تاریخ اسلام:شاہ معین الدین ندوی ) مسلمانوں کے ساتھ ایرانیوں کی کشمکش خسرو پرویز کے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا خط پھاڑنے کے بعد ہی شروع ہوگئی تھی۔حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں منکرین زکوٰۃ کی سرکوبی کے بعد حیرہ فتح ہوا تھا کہ ان کی وفات ہو گئی۔حضرت عمررضی اللہ عنہ کوخلافت ملی ،آپ کا زمانۂ خلافت ۱۳ھ (۶۳۴ء)سے شروع ہو کر ۲۳ھ (۶۴۴ء)میں آپ کی شہادت تک۱۱ سالوں تک محیط رہا ۔اس تمام عرصے میں اور خلیفۂ ثالث حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے اکثر دور حکومت میں ایرانی مسلمانوں سے بر سر پیکار رہے۔جسر کی فتح کے بعد ایرانیوں کو جنگ بویب(۱۳ھ) میں شکست ہوئی ، انھیں سعد بن ابو وقاص کے لشکر کی آمد کی خبرملی تو ان کے اعیان سلطنت اکٹھے ہوئے۔ انھوں نے دو بڑے کمانڈروں رستم اور فیرزان کو بلایااور ان کو متنبہ کیاکہ اگر تم نے صحیح طریقے سے جنگ نہ کی تو ہم تم دونوں کو قتل کر کے اپنا غصہ ٹھنڈا کریں گے ۔پھر انھوں نے فیصلہ کیا کہ خسرو کی بیویوں کو ڈھونڈیں،ان میں جس کے پاس بھی خسرو کی نر اولاد ہوئی، اسے ایرانیوں کا بادشاہ بنا دیں۔اس طرح وہ یزدگرد کی والدہ تک پہنچے، یزدگرد بن شہر یار بن کسریٰ(خسرو) بادشاہ بنا تو اس کی عمر ۲۱ سال تھی۔یہ ۱۳ھ کا واقعہ ہے، اسے بادشاہ بنا کرایرانی خوش تھے۔ ۱؂ ۱۴ھ میں قادسیہ کی جنگ ہوئی ،۱۶ھ میں سعد بن ابو وقاص نے ایران کے دار الخلافہ مدائن پر قبضہ کیا تو یزدگردحلوان منتقل ہو گیا۔مسلمان حلوان کامحاصرہ کرنے پہنچے ۔۱۹ھ میں جلولا کی جنگ ہوئی تو وہ مہران جا پہنچا۔ وہاں سے رے آیا۔ رے کا محاصرہ ہوا تو وہ اصفہان پہنچ گیا۔ ۲۱ھ میں معرکۂ نہاوند ہوا جس نے ایرانیوں کی کمر توڑ دی۔اصفہا ن مفتوح ہونے کے بعد یزد گرد کرمان جا پہنچا۔مسلمانوں نے کرمان کو فتح کر لیا تواس نے خراسان میں ڈیرہ جما لیا ، وہ آگ جس کی یہ پرستش کرتا تھا اس کے ساتھ شہر شہر گرد ش کرتی رہی۔۲؂ اسی دوران میں جب وہ کچھ افراد خانہ کے ساتھ کرمان سے مرو جا رہا تھاکہ ترکوں نے حملہ کر کے اس کے ساتھیوں کو مار ڈالا۔ اس نے بھاگ کر ایک چکی والے کے ہاں پناہ لی۔ یہاں اسے پہچان لیا گیا اور خود چکی کے مالک نے یا فوجیوں نے اسے مار ڈالا۔۳؂ یہ واقعہ ۳۱ھ میں پیش آیا، اس طرح یزدگرد کی عمر۴۰ سال بنتی ہے ۔اس نے قریباً ۲۰ سال حکو مت کی،اسے صرف پہلے ۴ سال اطمینان کا سانس لینا نصیب ہوا،بقیہ سال مسلمانوں کے خوف سے ایک شہر سے دوسرے شہر تک بھاگتا رہا۔وہ اس روئے زمین پر آخری ساسانی بادشاہ ہوا ۔ اس خاندان کا ۴۱۶ سالہ دور اس پر ختم ہو گیا ۔نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ فرمان سچا ثابت ہوا: ’ذا ہلک کسری فلا کسری بعدہ واذا ہلک قیصر فلا قیصر بعدہ‘ ۴؂ ،(جب کسریٰ (خسر و)مرے گاتو بعد ازاں کوئی کسریٰ ( خسرو)نہ آئے گا اور جب قیصر کی موت ہو گی تواس کے بعد کوئی قیصر پیدا نہ ہو گا ۔) ۵؂
ابن قتیبہ نے’’ المعارف‘‘میں ’’ملوک العجم‘‘ کے عنوان سے حضرت سلیمان علیہ السلام کے عہد سے لے کر یزدگرد تک، تمام ایرانی بادشاہوں کی فہرست تحریر کی ہے۔ خسرو پرویز کے بعد تخت نشین ہونے والے بادشاہوں کی ترتیب انھوں نے اس طرح بیان کی:شیرویہ بن پرویز،اردشیر بن شیرویہ،خوہان،کسریٰ بن قباذ،بوران بنت خسرو،خسرو کا چچازاد(نام نہیں لکھا)،ارزمیدخت بنت خسرو اور یزدگرد ۔یزدگرد کے بارے میں کہتے ہیں:

’’ایرانیوں نے اسے بادشاہ بنایا تب وہ ۱۵ سال کا تھا۔اس نے پاےۂ تخت مدائن میں۸سال انتشار میں گزارے اور پورے ۲۰ سال حکومت کی۔‘‘(ا لمعارف: ۲۹۳۔۲۹۴)

’’تاریخ اسلام ‘‘کے مصنف شاہ معین الدین ندوی نے تخت نشینی کے وقت یزدگرد کی عمر ۱۷ سال بتائی ہے۔۶؂ جب کہ اکبر شاہ خاں نجیب آبادی نے طبری،ابن کثیر اور ابن اثیرکے تتبع میں اس موقع پر اس کی عمر ۲۱ سال ہی لکھی ہے۔۷؂
واقعات کی ترتیب سے پتا چلتا ہے کہ باندیوں کی فروخت کا واقعہ دور فاروقی کے آخر میں پیش آیا ہوگا ، اس لیے کہ یزد گرد کا قتل ۴۰ سال کی عمر میں خلیفۂ ثانی کی شہادت کے ۹ سال بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانۂ خلافت میں ہوا۔ ۸؂ اس دوران میں ایرانیوں سے کئی معرکے پیش آئے، یزد گرد ایک کے بعد دوسری جگہ بھاگتا رہا ۔ اس اتھل پتھل میں کسی وقت اس کی بیٹیاں مسلمانوں کی قید میں آئیں اور پھر مدینہ پہنچیں تو مذکورہ واقعہ پیش آیا۔تاریخ وقت کا تعین کرنے سے عاجز ہے۔ ۱۳ھ میں اپنی تاج پوشی کے وقت یزد گردکی عمر ۲۱ سال تھی تو اس واقعے کے وقت اندازاً ۳۰ سال تو رہی ہو گی۔اس زمانے کے رواج کے مطابق اس کی شادی صحیح وقت پر ہوئی ہو تو اس کی بیٹیاں اس موقعے پر ۱۲ سے ۱۵ سال کی ہو سکتی ہیں۔ اگر شاہ زادیوں کی عمر کم ہو تو بھی ان کی کم عمری ان کی تقسیم میں حائل نہیں ہو سکتی کیوں کہ اس زمانے میں جنگی قیدیوں (POWs )کو فاتح معاشرے میں کھپانے کا یہی طریقہ تھا۔ان تینوں تابعین کی پیدایش کی تاریخیں بھی ان کے ایرانی شاہ زادیوں کے بطن سے پیدا ہونے کی تائید کرتی ہیں۔ قاسم بن محمد کی پیدایش کم وبیش ۱۳ سال بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ہوئی ۔ ۹؂ ذہبی ہی کا کہنا ہے کہ وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانۂ خلافت میں پیدا ہوئے۔۱۰؂ ان کی زیادہ سے زیادہ عمر ۷۷ سال بتائی گئی ہے۔ ۱۱؂ اس حساب سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانۂ خلافت میں ان کی پیدایش والی روایت درست لگتی ہے۔ علی بن حسین زین العابدین سانحۂ کربلا میں اپنے والد حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے ۔اس وقت ان کی عمر ۲۳ سال تھی، انھیں ان کی بیماری کی وجہ سے چھوڑ دیا گیا ۔۱۲؂ یہ سانحہ ۶۱ھ میں پیش آیا، حساب لگایا جائے تو ان کی تاریخ پیدایش باندیوں والے واقعے کے قریباً۱۵ سال بعد ۲۷ ھ یا۲۸ھ بنتی ہے ۔حافظ ذہبی نے ۳۴ھ کا تعین کیاہے۔ ۱۳؂ کلینی نے ان کی تار یخ پیدایش ۳۸ھ بتائی ہے ۔۱۴؂ سالم بن عبد اللہ بن عمر کے سن پیدایش کے بارے میں ہمیں کوئی رہنمائی نہیں مل سکی ۔ وہ ۱۰۶ھ میں فوت ہوئے۔ اگر ان کی عمر ۷۵سال سمجھ لی جائے جو اس زمانے کی اوسط عمر تھی تو غالباً وہ ۳۰ھ میں پیدا ہوئے ہوں گے۔
اس بحث کو سمیٹا جائے تو کچھ نتائج نکلتے ہیں۔
تمام مورخین متفق ہیں کہ ان تینوں بزرگوں کی مائیں ام ولد تھیں۔ام ولد اس لونڈی کو کہتے ہیں جس سے آقا کی اولاد ہو۔یہ آقا کی وفات کے بعد آزاد ہوجاتی ہے۔ زیادہ مورخین ان کی ماؤں کے تفصیلی حالات نہیں بتاتے۔ کچھ تفصیل میں گئے تو وہی روایت بیان کی ہے جو ہم نے نقل کی۔ صرف ابن قتیبہ کی روایت مختلف ہے اس کے مطابق ان میں سے صرف ایک بزرگ علی بن حسین زین العابدین کی والدہ سندھی تھیں۔
ایک طرف طبری ،ابن کثیر،ابن اثیراورذہبی جیسے مورخین ہیں جنھوں نے امہات کتب لکھیں،یہ وہ لوگ ہیں جو سند کے بغیر بات نہیں کرتے ۔دوسری طرف اکیلے ابن قتیبہ ہیں جو اگرچہ طبری سے تقدم رکھتے ہیں( ۲۷۶ ھ میں فوت ہوئے جب کہ طبری کی وفات ۳۱۰ھ میں ہوئی)اور ادب و نحو کے ساتھ انھوں نے تاریخ پر بھی لکھاہے ، لیکن انھوں نے ’’المعارف ‘‘ میں اپنی روایات کے مآخذ بیان نہیں کیے۔ سکہ بند اہل تاریخ کااس روایت سے تعرض نہ کرنا اسے چھوڑنے کی دلیل بن سکتا ہے۔ غور سے دیکھا جائے تو ان کی مذکورہ عبارت ابن سعد (وفات:۲۳۰ھ) کی طبقات (۳؍۴۱۸)کی عبارت سے ملتی جلتی ہے ، لیکن ’ ان امہ سندےۃ‘ کے الفاظ اس میں موجودنہیں یوں ابن قتیبہ اس روایت میں تنہارہ جاتے ہیں۔
کلینی اور شاہ معین الدین ندوی نے یزدگرد کا شجرۂ نسب یزدگرد بن شہریار بن شیرویہ بن کسریٰ لکھاہے جب کہ زمخشری ،طبری اور ابن کثیر نے شیرویہ کے ذکر کے بغیر یزدگرد بن شہریار بن کسریٰ تحریر کیا ہے ۔یہی قرین قیاس ہے۔ ایسا ماننے سے ابن قتیبہ اورشاہ معین الدین کی تفصیل میں خلل آ جائے گا۔
تخت نشینی کے وقت یزدگرد کی عمر۲۱ سال ہونا درست لگتا ہے۔۱۵ سا ل والی روایت شاذ بھی ہے اور ایک نو عمر لڑکے کا اس طرح اسلامی افواج سے بر سر پیکار رہتے ہوئے امور مملکت کا چلانامشکل نظر آتا ہے۔شاہ معین الدین کی بتائی ہوئی ۱۷سال کی عمر جمہور مورخین کی معروف روایت سے مطابقت رکھتی ہے نہ ابن قتیبہ کی شاذ روایت سے۔
ایسا لگتا ہے تقسیم غنائم کے وقت شہزادیاں ان نوجوانوں کے سپرد تو کر دی گئیں ، لیکن انھیں ام ولدبنانے کا موقع بعد میں آیا۔
یہ ساری بحث قاسم بن محمد کے سوانح بیان کرنے کے نتیجے میں پیدا ہوئی۔ان کا جلیل القدر تابعی اور فقیہ ہونا سب مانتے ہیں ۔ہر تاریخی شخصیت کے سن پیدایش اور سن وفات میں اختلاف ضرور نقل ہوا ہے ۔اسی طرح ان کی اولادوں ،والدین ، حتیٰ کہ ان سے متعلق اہم واقعات میں بھی کچھ نہ کچھ اختلاف رہا ہے ۔ یہ اختلاف اس شخصیت کے مجموعی تاثر کو ختم نہیں کرتا جو تاریخ ہی ہم تک منتقل کرتی ہے۔ قاسم بن محمد کی والدہ کے معاملے سے صرف نظرکر لیا جائے تونفس مضمون میں ہمارا اور ہمارے معترض احباب کا کو ئی اختلاف نہیں رہتا۔

____________

۱؂ تاریخ الامم والملوک ،طبری،دار الفکر بیروت،۱۹۷۹ ء،۴/۸۱۔ البداےۃ والنہا ےۃ،ابن کثیر،دار الفکر بیروت،۱۹۹۶ء ، ۵ /۷ ۹،۹۸۔الکامل فی التاریخ،ابن اثیر،دار صادر ،بیروت، ۱۹۶۵ء ۲/۴۴۸۔
۲؂ تاریخ الامم والملوک ۴/۲۶۳۔ البداےۃ والنہا ےۃ ۵ / ۲۰۵۔
۳؂ تاریخ الامم والملوک ۵/۷۱۔البداےۃ والنہا ےۃ ۵/ ۲۴۰۔فتو ح البلدان،بلاذری، دار الکتب العلمیہ،بیروت ۳۱۲۔ الکامل فی التاریخ،ابن اثیر ۳/۱۱۹۔۱۲۳۔
۴؂ بخاری ، رقم ۳۱۲۱ ۔
۵؂ البداےۃ والنہا ےۃ ۵ / ۲۴۲ ۔
۶؂ تاریخ ۱سلام ، اسلامی اکادمی ، لاہور ،۱/ ۱۵۱۔
۷؂ تاریخ ۱سلام، اکبر شاہ خاں نجیب آبادی ، نفیس اکیڈیمی، کراچی ،۱۹۸۶ء ، ۱/۲۸۸۔
۸؂ تاریخ الامم والملوک ۵/۷۱۔
۹؂ سیر اعلام النبلاء، ذہبی ،مؤسسۃ الرسالۃ ، بیروت ، ۱۹۹۲ء ،۵/۵۲۔
۱۰؂ تاریخ الاسلام حوادث ووفیات ۱۰۱۔ ۱۲۰ھ ،۲۱۷۔
۱۱؂ الطبقات الکبریٰ، محمد بن سعد ، دارالفکر ، بیروت، ۱۹۹۴ء ،۳/ ۴۰۵۔
۱۲؂ البدایہ و النہایہ ۶/ ۲۳۰۔
۱۳؂ تاریخ الاسلام،عہد الخلفاء الراشدین، دار الکتاب العربی ، بیروت، ۱۹۸۷ء، ۴۲۸۔
۱۴؂ الاصول من الکافی۱/۴۶۶۔

-----------------------------

 

بشکریہ ماہنامہ اشراق

تحریر/اشاعت مئی 2007
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی
Uploaded on : Aug 25, 2016
2662 View