خارجہ بن زید - ڈاکٹر وسیم مفتی

خارجہ بن زید

 تاریخ اسلامی میں خارجہ بن زید نام کی دوشخصیتوں کا ذکرملتا ہے۔ اتفاق ہے کہ ایک ہی نام اور ایک ہی ولدیت والی ان دو شخصیتوں میں سے ایک کاتعلق دور صحابہ سے اور دوسری کا دور تابعین سے تھا ۔

خارجہ بن زید رضی اﷲ عنہ

خارجہ بن زیدکا شمار اکابرانصاری صحابہ میں ہوتا ہے۔ان کا تعلق بنو خزرج سے تھا۔بنو اغر ان کا لقب تھا۔وہ بیعت عقبہ میں شامل تھے۔ ہجرت کے بعدنبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے مہاجرین اور انصار کے درمیان مواخات قائم فرمائی تو حضرت ابو بکرخارجہ کے بھائی بنے اور انھی کے ہاں مقیم رہے۔خارجہ نے بدر اور احد کی جنگوں میں حصہ لیا اور احد کے دن شہید ہوئے۔ انھیں تیر اندازوں نے آن لیا،ان کو بارہ تیر ہ کاری زخم لگے ۔شہادت کے بعد صفوان بن امیہ نے ان کو دیکھ کر پہچان لیا اور پکارا: ’’ یہ ہے جس نے بدر کے دن ابو علی کو للکارا تھا۔‘‘صفوان کا باپ امیہ بن خلف قریش کابڑا سردار تھا ،وہ اسلام اور پیغمبر صلی اﷲعلیہ وسلم کی مخالفت میں پیش پیش تھا۔اس کی کنیت اپنے دوسرے بیٹے علی کے نام پر ابو علی تھی۔علی بن امیہ بھی اپنے باپ کے ساتھ جنگ بدر میں مارا گیاتھا۔پھرصفوان خارجہ کے لاشے پر لپکا اور مزید وار کرکے اس کا مثلہ کر دیااور بولا : ’’میں نے محمد کے بہترین صحابہ کو قتل کر کے اپنے دل کی پیاس بجھائی ہے، میں نے ابن قوقل ، اوس بن ارقم ، ابن ابو زہیر اور خارجہ بن زید کو قتل کیا۔‘‘ ابن ہشام کہتے ہیں: ’’امیہ بن خلف کو معاذ بن عفرا، خارجہ بن زیداورخبیب بن اضاف نے مل کر قتل کیا۔ ‘‘
خارجہ اور ان کے چچا زاد بھائی سعد بن ربیع کو ایک ہی قبر میں دفن کیا گیا۔احد کے شہدا اسی طرح دو دو، تین تین کر کے اکٹھے دفنائے گئے تھے۔ خارجہ کی بیٹی حبیبہ کی شادی حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے ہوئی تھی ۔جب حضرت ابو بکر کی وفات کا وقت قریب آیاتو انھوں نے اپنے ہاں بیٹی کی پیدایش کی پیشین گوئی کی۔ چنانچہ ان کی بیٹی ام کلثوم کی ولادت بعد میں ہوئی۔

خارجہ بن زید رحمۃ اﷲ علیہ

خارجہ بن زید انصار کے قبیلے بنو نجار سے تعلق رکھتے تھے۔ اس لیے نجاری بھی کہلاتے تھے۔ان کی کنیت ابو زید تھی۔ والد معروف صحابی زید بن ثابت تھے جن کے بارے میں پیغمبر صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ان (صحابہ)میں وراثت اور اس کے حصوں کاسب سے زیادہ علم زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس ہے۔‘‘(ترمذی، مسند احمد)
زید بن ثابت کہتے ہیں:
’’مجھے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے حکم ارشاد کیا تو میں نے یہودیوں کی زبان (سریانی) سیکھی۔ پندرہ دن نہ گزرے تھے کہ میں نے اس میں مہارت حاصل کر لی ۔جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہود سے خط کتابت فرماتے تو میں آپ کاخط تحریر کرتا،جب آپ کو(ان) کا خط آتا تو میں پڑھ کر سناتا۔‘‘ (ابو داؤد، رقم ۳۶۴۵)۔
گویاخارجہ امام ابن امام تھے۔ان کے دادا کا نام ضحاک اور والدہ کا نام جمیلہ رضی اللہ عنھا بنت سعد تھا۔ وہ اپنی کنیت ام سعدسے مشہورہیں۔ان کے نانا سعد رضی اللہ عنہ بن ربیع پہلی اور دوسری بیعت عقبہ میں شامل تھے۔ انھیں رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم نے نقباے مدینہ میں شامل فرمایا تھا۔ اسمٰعیل بن زید، سعد بن زید، سلیمان بن زید اور یحیےٰ بن زید ان کے بھائی تھے۔ان کا شمار مدینہ کے مشہور فقہاے سبعہ میں ہوتا تھا۔ یہ ساتوں فقہا مدینہ میں مقیم تھے ، یہ ہم عصر تھے اور انھی کے ذریعے سے فتوے اور فقہ کا علم پھیلا۔
کچھ لوگوں نے عبید اﷲ بن عبد اﷲ بن عتبہ اور ابو بکر بن عبد الرحمان کے بجائے قبیصہ بن ذؤیب اور عبد الملک بن مروان بن حکم کو فقہاے سبعہ میں شمار کیاہے۔
خارجہ بن زید ایک جلیل القدرتابعی تھے۔ انھوں نے حضرت عثمان کا زمانہ پایا،جب ان کی شہادت ہوئی تو یہ جوان تھے۔ انھوں نے اپنے والد زید بن ثابت سے حدیث سیکھی، ان کے علاوہ اپنے چچا یزید بن ثابت ، اسامہ بن زید، سہل بن سعد ساعدی،عبد الرحمان بن ابو عمرہ ، اپنی والدہ ام سعد بن ربیع اور ام علا انصاریہ سے احادیث رسول سنیں۔ ان سے مروی روایتیں بہت کم ہیں۔ پھر بھی ان سے استفادۂ حدیث کرنے والوں میں ان کے بیٹے سلیمان، ان کے دوبھتیجے سعید بن سلیمان بن زید اور قیس بن سعد بن زید، عبد اﷲ بن عمرو اور ان کے بیٹے محمد بن عبداﷲ ،ثابت بن قیس ،سالم ابو النضر، سالم بن عبد اﷲ بن عمر،سعید بن یسار،عبد اﷲ بن ذکوان ،عبد اﷲ بن کعب، مجالد بن عوف، ابن شہاب زہری ، کثیر بن زید،عثمان بن حکیم، عثمان بن عمر،مطلب بن عبد اﷲ ،یزید بن قسیط اور ابوبکر بن محمد بن عمرو بن حزم شامل ہیں ۔ابن سعد نے ان کا ذکر تابعین مدینہ کے دوسرے طبقہ میں کیا ہے۔ ابن حبان نے انھیں ثقہ مانا ہے ۔
خارجہ بن زید اپنے والد زید بن ثابت کی طرح مسائل وراثت کے ماہر تھے ۔مدینہ کے لوگ خارجہ اور طلحہ بن عبداﷲ بن عوف کے پاس اپنے گھروں،مال مویشی اور کھجوروں کے باغات کی تقسیم کے مسائل لاتے ۔یہ دونوں ان مسئلوں میں لوگوں کی عملی رہنمائی کرتے،اہل مدینہ کو ان کے فیصلوں پربھروسا ہوتا۔لوگ ان سے اپنی قانونی تحریریں اور وثیقے بھی لکھواتے ۔خارجہ درویش منش تھے ،اموی خلیفہ سلیمان بن عبد الملک نے انھیں کچھ مال بھیجاتو انھوں نے پاس رکھنے کے بجائے اسے بانٹ دیا۔
ایک موقع پر حضرت عمر بن عبد العزیز نے فرمان جاری کیا: ’’خارجہ کا بیت المال سے روکاجانے والا حصہ انھیں دے دیا جائے۔‘‘ خارجہ ابو بکر بن حزم کے پاس گئے اورکہا: ’’میں نہیں چاہتاکہ امیرالمومنین پر اس وجہ سے کوئی حرف آئے، کیونکہ میری طرح اور بھی لوگ ہیں( جن کا نام بیت المال کے رجسٹر سے کاٹا گیا ہے) ۔اگر امیر المومنین اس فرمان میں ان کو بھی شامل کر لیں تو میں عطیہ قبول کروں گا ، لیکن اگر وہ یہ نوازش خاص مجھ پر کریں گے تو مجھے یہ اچھا نہ لگے گا۔‘‘ عمر نے جواب لکھا: ’’بیت المال اس قدر عطیوں کی گنجایش نہیں رکھتا، اگر اس میں اتنی وسعت ہوتی تو میں کر گزرتا۔‘‘
خارجہ کی وفات۹۹ یا ۱۰۰ھ میں مدینہ ہی میں ہوئی ۔مرنے سے پہلے انھوں نے خواب دیکھا کہ وہ ۷۰ سیڑھیاں چڑھ چکے ہیں اور پھر نیچے لڑھک گئے ،اتنی ہی ان کی عمر ہوئی۔
ابو بکر بن محمد بن عمرو بن حزم نے ان کا جنازہ پڑھایا۔ رجا بن حیوہ نے عمر بن عبد العزیز کوخارجہ بن زید کی وفات کی خبر دی ، انھوں نے انا ﷲ وانا الیہ رٰجعون پڑھا ،افسوس سے ہاتھ پر ہاتھ مارا اور فرمایا: ’’بخدا،اسلام میں شگاف پڑ گیا ہے‘‘۔

-----------------------------

 

بشکریہ ماہنامہ اشراق

تحریر/اشاعت ستمبر 2005
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی
Uploaded on : Aug 25, 2016
2905 View