افغانستان میں مجسموں کا انہدام - سید منظور الحسن

افغانستان میں مجسموں کا انہدام

 

گزشتہ ماہ سے افغانستان کی حکومت نے اپنے علاقے میں موجود بدھ مت اور ہندو مت سے تعلق رکھنے والے مجسموں کو منہدم کرنے کا سلسلہ شروع کیاہے۔ دنیا کی سبھی غیر مسلم اقوام نے اس اقدام کی پرزور مذمت کی ہے ۔ اہلِ اسلام کے مؤثر اور کارفرما طبقات نے اس اقدام کے بارے میں ملا جلا ردِ عمل ظاہر کیا ہے۔ بعض لوگوں نے اسے دین کے منشا کے عین مطابق قرار دیا ہے ،بعض نے اسے غیر مستحسن کہا ہے اور بعض نے خاموشی کا رویہ اختیار کیا ہے۔ غالباً، اسی بنا پرعام مسلمان اس اقدام کی صحت یا عدمِ صحت کے حوالے سے تذبذب کا شکار ہیں ۔ اس ضمن میں ہم اپنا نقطۂ نظر ،اس اقدام کے سیاسی محرکات سے تعرض کیے بغیر، محض تعلیمِ دین کی روشنی میں پیش کرنا زیادہ موزوں سمجھتے ہیں۔
ذیل میں ہم اپنے نقطۂ نظر کی وضاحت میں ان نکات کوبیان کریں گے جو کسی نہ کسی پہلو سے موضوعِ زیرِ بحث سے متعلق ہیں:
۱۔ اسلام کی اساس توحید کے عقیدے پر قائم ہے۔ توحید کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات میں، اس کی صفات میں اور اس کے حقوق میں کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے۔ توحید کا ضد شرک ہے،اسے قرآنِ مجید نے مظالم میں سے سب سے بڑا ظلم قرار دیا ہے۔وہی شخص مسلمان ہے جو توحید کا اقرار کرتا ہے اور شرک کا انکار کرتا ہے۔ اسلام کی دعوت اگر ایک لفظ میں بیان کی جائے تو وہ توحید اور آخرت کی منادی ہے۔ قرآنِ مجید کا بیشتر حصہ انھی مباحث کی تعلیم و تذکیر پر مشتمل ہے۔ ہر مسلمان کی سلامتیِ ایمان اور اخروی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ وہ مشرکانہ عقائد و نظریات ،مشرکانہ رسوم و رواج اور مشرکانہ مظاہر و مقامات سے اپنے آپ کو محفوظ رکھے ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:

’’بے شک، اللہ اس چیز کو نہیں بخشے گا کہ اس کا شریک ٹھہرایا جائے ، اس کے نیچے جس کے لیے چاہے گا بخش دے گا۔ اور جو اللہ کا شریک ٹھہرائے گا وہ بہت دور کی گمراہی میں جا پڑا۔‘‘ ( النساء ۴: ۱۱۶)

۲۔ اسلام دینِ فطرت ہے ۔ وہ رنگ ، نسل، زبان ، علاقہ اور مذہب کی عصبیتوں سے بلند ہو کر ہر انسان کو اپنا مخاطب بناتا ہے۔ وہ دلوں کے دروازوں پر دستک دیتا ہے۔ وہ ذہنوں کو اپیل کرتا ہے۔ جبرو اکراہ اور دھونس و زبردستی کے الفاظ سے اس کی لغت خالی ہے۔ اس کی نواے دل سوز پر اگر کوئی کان نہیں دھرتا تو وہ اسے بالجبر اپنے حریم میں داخل نہیں کرتا، بلکہ اس کا معاملہ عالم کے پروردگار پر چھوڑ دیتا ہے۔
۳۔ اسلام کی دعوت کا طریقِ کار حکمت و نصیحت ہے۔ جبر و اکراہ اورتحقیر و تذلیل کاطرزِ عمل اس راہ میں رکاوٹ ہی بن سکتا ہے ، مفید ہر گز نہیں ہو سکتا۔اس بارے میں اللہ تعالیٰ کا واضح ارشاد ہے کہ:

’’اپنے پروردگار کے راستے کی طرف حکمت کے ساتھ دعوت دو اور اچھی نصیحت کے ساتھ اور ان سے بحث کرو اس طریقے سے جو پسندیدہ ہو ۔‘‘ (النحل۱۶: ۱۲۵)

استاذِ گرامی جناب جاوید احمد صاحب غامدی ’’قانونِ دعوت‘‘ میں اس آیت کے تحت لکھتے ہیں:

’’داعی جو بات بھی کہے وہ دلیل وبرہان اور علم و عقل کی روشنی میں کہے اور اس کا انداز چڑھ دوڑنے اور دھونس جمانے کا نہیں ، بلکہ خیر خواہی اور شفقت و محبت کے ساتھ توجہ دلانے کا ہونا چاہیے ، یہاں تک کہ بحث و مباحثہ کی نوبت بھی اگر آجائے تو اس کے لیے پسندیدہ طریقے اختیار کیے جائیں اور اس کے جواب میں حریف اشتعال انگیزی پر اتر آئے تو اس کی اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کے بجائے داعیِ حق ہمیشہ مہذب اور شایستہ ہی رہے۔‘‘ (اشراق،اگست۹۹،ص۳۲)

۴۔ قرآنِ مجید نے واضح طور پر اس بات سے منع فرمایا ہے کہ بتوں یا اس نوعیت کے معبودوں کو برا کہا جائے۔ارشاد ہے:

’’اور اللہ کے سوا یہ جن کو پکارتے ہیں، تم ان کو گالی نہ دوکہ (اس کے نتیجے میں) وہ تجاوز کر کے بے خبرانہ اللہ کو گالیاں دینے لگیں۔‘‘(الانعام۶: ۱۰۸)

اس سلسلے میں دو باتیں قابلِ لحاظ ہیں ۔ ایک یہ کہ عام انسان جب کسی باطل عقیدے کو مان رہا ہوتا ہے یا کسی لغو چیزکی پرستش کر رہا ہوتا ہے تو ، بالعموم اس کے اس عمل کے پیچھے نسلوں کا تعامل اورصدیوں کی روایات کارفرما ہوتی ہیں۔ وہ اس کے دل و دماغ کا اس طرح احاطہ کیے ہوئے ہوتی ہیں کہ ان کے باطل ہونے کے باوجود ان سے چھٹکارا پانا بہت مشکل ہوتا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اس طرح کے سب و شتم کے نتیجے میں جیسا کہ قرآن نے ارشاد فرمایا ہے ، مخاطب مشتعل ہو کر پروردگارِ عالم کے بارے میں بھی بدزبانی کر سکتاہے۔ ہم مسلمانوں کو ظاہر ہے، ایسی صورتِ حال کی نوبت ہی نہیں آنے دینی چاہیے۔
مولانا امین احسن اصلاحی سورۂ انعام کی اسی آیت کی وضاحت میں لکھتے ہیں:

’’دعوت کے نقطۂ نظر سے بابرکت اور نتیجہ خیز طریقہ یہی ہے کہ بات اصول و عقائد ہی تک محدود رہے تاکہ مخاطب کے اندر کسی بے جا عصبیت کا جذبۂ جاہلی ابھرنے نہ پائے۔ اگر توحید کا تقاضاے عقل وفطرت ہونا اور شرک کا بالکل بے ثبات و بے بنیاد ہونا ثابت ہو جائے تو ان مزعومہ معبودوں کی خدائی آپ سے آپ ختم ہو جاتی ہے، ان کو سب و شتم کا ہدف بنانے کی سرے سے کوئی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی۔ برعکس اس کے کہ اگر بحث کے جوش میں ان چیزوں کو لوگ برا بھلا کہنا شروع کر دیتے جن کی عقیدت پشت ہا پشت سے مشرکین کے دلوں میں رچی بسی ہوئی تھی تو اس کا نفسیاتی اثر ان پر یہی پڑ سکتا تھا کہ وہ مشتعل ہو کر نعوذ باللہ خدا کو گالیاں دینے لگتے اور پھر کوئی بات بھی سننے کے لیے تیار نہ ہوتے۔۔۔ ۔ ہر قوم کو اپنی روایات ، اپنے رسوم اور اپنے معتقدات عزیز ہوتے ہیں ،اس وجہ سے ان کی علانیہ تحقیر و توہین سے وہ مشتعل ہوتی ہے۔ اس طرح کی کسی چیز پر تنقید کرتے ہوئے ناقد کو لازماً یہ بات ملحوظ رکھنی چاہیے کہ معاملے کے وہی پہلو زیرِ بحث آئیں جو آنے چاہییں اور اسی انداز میں آئیں جو شایستہ بحث و تنقید کے شایانِ شان ہے۔وہ انداز نہیں ہونا چاہیے جو جذبات کو مجروح کرنے والا اور دلوں کو دکھانے والا ہو۔‘‘(تدبرِ قرآن، جلد۳، ص۱۳۵)

۵۔ خلافتِ راشدہ جو نظمِ اجتماعی کے حوالے سے منشاے خداوندی کا بہترین نمونہ تھی ، اس نے غیر مسلموں کے جان و مال اورعزت و آبرو کو مسلمانوں کے جان و مال اور عزت و آبرو کے برابر قرار دیا۔ انھیں مذہبی امور میں پوری آزادی دی ۔ مذہبی تحفظ میں یہ شان قائم رکھی کہ مصر میں اسکندریا کا پیٹر یارک بنیامین اپنے ہم مذہب رومیوں کے خوف سے ۱۳ برس تک پناہ کے لیے مارا مارا پھرتا رہا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں، جب حضرت عمرو بن العاص نے مصر فتح کیا تو بنیامین کو تحریری امان دی گئی اور اسے بلا کر پیٹر یارک کی مسند دوبارہ فراہم کی گئی۔فلسطین کا علاقہ جب سیدنا عمر کے زیرِ نگیں آیا تو انھوں نے اہلِ بیت المقدس کے لیے یہ تحریری پروانہ جاری کیا:

’’یہ وہ امان ہے جو خدا کے غلام ، امیرالمومنین، عمر ابنِ خطاب نے ایلیا کے لوگوں کو دی۔ یہ امان ان کی جان و مال ،کلیسا، صلیب، ان کے تندرست، ان کے بیمار اور ان کے تمام مذہب والوں کے لیے ہے ۔ اس طرح کہ ان کلیساؤں میں نہ سکونت اختیار کی جائے گی ، نہ وہ ڈھائے جائیں گے، نہ ان کو، نہ ان کے احاطے کو کچھ نقصان پہنچایا جائے گا۔ نہ ان کی صلیبوں اور ان کے مال میں کچھ کمی کی جائے گی۔ مذہب کے بارے میں ان پر جبر نہ کیا جائے گا ۔ ۔ ۔ ۔ اس تحریر پر خدا کا، رسولِ خدا کا، خلفا کا اور مسلمانوں کا ذمہ ہے۔‘‘ (الفاروق، شبلی نعمانی، ص۲۷۹)

۶۔ گزشتہ چودہ صدیوں پر مشتمل مسلمانوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ مسلمانوں نے اپنے ہر دور میں غیر مسلموں پر کوئی مذہبی پابندی نہیں لگائی ۔ انھیں عبادت گاہیں قائم کرنے ، ان میں عبادت کرنے اور اپنے مذہب کے مطابق زندگی بسر کرنے کی بھرپور آزادی حاصل رہی ہے ۔
درجِ بالا نکات کی روشنی میں ہمارا نقطۂ نظر یہ ہے کہ بلا شبہ، شرک سب سے بڑا گناہ ہے۔ مسلمانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس کی شناعت کوانسانوں پرپورے علم و استدلال سے واضح کریں، توحید کی دعوت کو پوری شان کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کریں۔مگر یہ ذمہ داری انجام دیتے ہوئے ان سے کوئی ایسا فعل صادر نہیں ہونا چاہیے جو شریعت کے حدود سے متجاوز اور دعوتِ دین کی حکمت سے متصادم ہو۔ اسلام غیر مسلموں کو وہ تمام تحفظات اور وہ تمام حقوق فراہم کرتا ہے جو علم و اخلاق اور عقل و فطرت کے مسلمات سمجھے جاتے ہیں۔ چنانچہ، وہ اسلام جو غیرمسلموں کے مذہبی مراسم کی انجام دہی پر کوئی پابندی عائد نہیں کرتا اور انھیں اپنے مذہب پر عمل پیرا ہونے کے ساتھ ساتھ، اس کی دعوت و تبلیغ کی بھی پوری آزادی دیتا ہے ، اس کی اقلیم میں عبادت گاہوں کے انہدام کا سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا۔ اوروہ اسلام جس نے بتوں کو زبان تک سے برا کہنے سے منع فرمایا ہے، وہ انھیں مسمارکرنے کی اجازت ہرگز نہیں دے سکتا۔ اس وجہ سے ، ہمارے نزدیک ، مذکورہ اقدام کی کم سے کم اسلام میں کوئی گنجایش نہیں ہے اور سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے اسلام کو اس طریقے سے استعمال کرنا بھی درست روش نہیں ہے۔
ہماری اس بحث اور اس سے اخذ کیے گئے نتائج پر دوقابلِ ذکر سوال،بہرحال پیدا ہوتے ہیں۔
ایک یہ کہ اس بحث کا اطلاق افغانستان پر کیوں کر کیا جا سکتا ہے، جبکہ افغانستان میں نہ ان مجسموں کے پیرو موجود ہیں اور نہ ان کی وہاں پر باقاعدہ عبادت کی جاتی ہے؟
دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بت شکنی کے ان واقعات کی کیا تو جیہہ ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے تاریخی طور پر مسلم ہیں؟
پہلے سوال کے جواب میں ہمارا نقطۂ نظر یہ ہے کہ اگر یہ واقعہ سو، ڈیڑھ سو سال پہلے رونما ہوا ہوتا تو پھر ہماری بات کا اطلاق اس پر نہ کیا جا سکتا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت اس طرح کے اقدام کی بیرونی دنیا میں کسی کو خبر بھی نہ ہوتی۔ مگر اب صورتِ حال یکسر مختلف ہے۔ ذرائع ابلاغ کی وسعت نے اقصاے عالم کو بہت محدود کر دیا ہے۔ہم جس طرح اپنے ملک کے معاملات سے واقف ہوتے ہیں، اسی طرح دوسرے ملک کے حالات سے بھی پوری طرح آگاہ ہوسکتے ہیں ۔یہ آگاہی محض مطالعے اور سماعت ہی تک محدود نہیں ہوتی، بلکہ اکثر اوقات ہم اپنی آنکھوں سے ایک ایک عمل کا مشاہدہ کر رہے ہوتے ہیں۔ مذکورہ واقعے میں بھی یہی صورتِ حال رونما ہوئی ہے۔ اخبارات، ریڈیو، ٹی وی اور انٹرنیٹ کے ذریعے سے انہدام کی لحظہ بہ لحظہ رپورٹیں بدھ مت کے پیرووں تک مسلسل پہنچتی رہی ہیں۔ ان رپورٹوں ہی کی بنا پرانھوں نے ہر سطح پر اپنا ردِ عمل ظاہر کیا ہے اور دیگراقوامِ عالم نے بھی غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔ اس تناظر میں ، ہمارے نزدیک، ان تمام اصولوں کا انعقاد اس صورتِ حال پر ہوتا ہے جو حکمتِ دعوت اورغیر مسلموں کے حقوق کے حوالے سے قرآن و سنت میں موجود ہیں، خلافتِ راشدہ میں پوری شان سے قائم رہے ہیں اور آج بھی اجماعِ امت کی حیثیت سے پیش کیے جا سکتے ہیں۔
دوسرے سوال کے حوالے سے، ہمارے خیال میں، چونکہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اقداماتِ بت شکنی مختلف تناظر میں ہوئے ہیں، اس لیے ان کو الگ الگ سمجھنا زیادہ مناسب ہو گا ۔
قرآنِ مجید میں مذکورسیدنا ابراہیم علیہ السلام سے متعلق مختلف واقعات کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ جب ان کا مخاطب اپنے کسی زعمِ باطل کی بنا پر،ان کے بیانِ حقیقت کو جھٹلانے پر کمر بستہ ہو جاتا ہے تو وہ اتمامِ وضاحت کے لیے ایک خاص اسلوب اختیار کرتے ہیں ۔ اس اسلوب میں اس قدر اعلیٰ استدلال ہوتا ہے کہ مخاطب کے لیے کٹ حجتی اور بات بنانے کی کوئی گنجایش باقی نہیں رہتی، اور ایسا لطیف اور واضح طنز ہوتاہے کہ مخاطب کے پاس سوائے خفت کے اور کوئی چارہ نہیں ہوتا ۔ اس کی نہایت دل نشین مثال نمرود کے ساتھ آپ کا مکالمہ ہے۔قرآنِ مجید کے مطابق،جب سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ میرا رب تو وہ ہے جو زندگی بخشتا ہے اور موت دیتا ہے تو اس پر نمرود نے کٹ حجتی کرتے ہوئے کہا کہ میں بھی زندگی اور موت دے سکتا ہوں۔ اس لغو جواب کو سن کر سیدنا ابراہیم نے یہ لافانی جملہ بولا کہ: ’’میرا اللہ تو سورج کو مشرق سے نکالتا ہے ،تو اسے ذرا مغرب سے نکال کر دکھا!‘‘ اس طرزِ استدلال کے بعد نمرود کے لیے شرمندگی کے سوا کوئی راستہ نہیں رہاتھا ۔
بت شکنی کا واقعہ بھی اس طرزِ استدلال کی ایک نہایت خوب صورت مثال ہے۔قرآنِ مجید نے سورۂ انبیا میں اسے پوری صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ہم اس مقام کا مطالعہ کریں تومعلوم ہوتا ہے کہ بت خانے کے اندر کسی اجتماع کے موقع پر، سیدنا ابراہیم نے اپنی قوم کے لوگوں سے کہا کہ ان بتوں اور ان مورتوں کی کیا حیثیت ہے جن پر تم دھرنا دیے بیٹھے ہو! اس پر لوگوں نے جواب دیا کہ ہم نے تو اپنے باپ دادا کو انھی کی عبادت کرتے ہوئے پایا ہے۔ اس آغازِ کلام کے بعد آپ اور ان لوگوں کے مابین ایک مکالمہ ہوا۔ آپ نے ان کی اس پرستش کو گمراہی قرار دیا اور پروردگارِ عالم کی شان بیان کی۔خاتمۂ کلام میں آپ نے لوگوں سے فرمایا کہ جب تم لوگ اس بت خانے سے رخصت ہو گے تو میں ان بتوں کے ساتھ ایک تدبیر کروں گا۔ گویا ان کی قلعی کھول کر رکھ دوں گا۔ ان کے جانے کے بعد آپ نے اس بت خانے میں موجود سبھی بتوں کو توڑ ڈالا ، مگر سب سے بڑے بت کو قائم رکھا۔ اہلِ قوم کو جب اس واقعے کی خبر ہوئی تو انھوں نے سیدنا سے پوچھا کہ ہمارے بتوں کے ساتھ یہ معاملہ کس نے کیا ہے؟ اس موقع پر آپ نے اپنے مخصوص اسلوب میں جو استدلال و استدراج، طنز واستہزااور اتمامِ حجت کا جامع تھا فرمایا: ’’بلکہ ان کے اس بڑے نے یہ حرکت کی ہے ، تو انھی سے پوچھ لو اگر یہ بولتے ہوں!‘‘ اس جملے کا وہی نتیجہ نکلا جو سیدنا ابراہیم کے پیشِ نظر تھا ۔ یعنی انھوں نے اپنی قوم کے لوگوں کو اس جگہ پر لا کھڑا کیا کہ ان کے پاس اعترافِ حق کے سوا کوئی چارہ ہی نہ رہا ۔ چنانچہ وہ کچھ متنبہ ہوئے اور آپس میں ایک دوسرے کوباطل اور ظالم گرداننے لگے۔مگر فوراً ہی انھوں نے اپنے ضمیر کی اس آواز پر توجہ دینے سے گریز کیا اور کسی قدر شرمندگی سے بولے کہ :’’تمھیں تو معلوم ہی ہے کہ یہ بولتے نہیں۔‘‘ یہی وہ موقع تھا ، جس کے لیے سیدنا ابراہیم نے منصوبہ بندی کی تھی۔ آپ نے پوری شان سے فرمایا :

’’کیا اللہ کے ماسوا تم ایسی چیزوں کی پرستش کرتے ہو جو تم کو نہ تو کوئی نفع پہنچا سکیں ، نہ کوئی ضرر! تف ہے تم پر بھی اور ان چیزوں پر بھی جن کو اللہ کے سوا تم پوجتے ہو! کیا تم لوگ سمجھتے نہیں!‘‘(انبیا ۲۱ : ۶۶۔۶۷)

اس بیانِ واقعہ سے ہم یہ باتیں اخذ کر سکتے ہیں کہ:

ا۔سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے اقدامِ بت شکنی کا اصل مقصد اپنی قوم کے لوگوں کی غلطی اس سطح پر واضح کرنا تھا کہ ان کے پاس اعترافِ حق یا اعترافِ شکست کے سوا کوئی چارہ باقی نہ رہے۔ یہ مقصد انھوں نے پوری خوبی سے حاصل کیا۔
ب۔ اس اقدام کا اصل مقصد اگر بت شکنی ہوتا تو آپ بڑے بت کو ہر گز نہ چھوڑتے ، بلکہ سب سے پہلے اسے ہی مسمار کرتے۔
ج۔ یہ ایک پیغمبر کا اقدام تھا ، جس کا کوئی بھی دینی اقدام اللہ تعالیٰ کی براہِ راست رہنمائی کے بغیر نہیں ہو سکتا۔
جہاں تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بیت اللہ کو بتوں سے پاک کر دینے کے اقدام کا تعلق ہے ، تو اس کے بارے میں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ یہ اقدام بحیثیتِ رسول ، حضور کی منصبی ذمہ داری کا اظہار تھا۔ خدائی اسکیم کے تحت، رسول کی حیثیت سے آپ کی بعثت کا مقصد یہ تھا کہ دینِ حق کو تمام ادیانِ عرب پر غالب کیا جائے، پیغمبر کے مخاطب مشرکینِ عرب اگر ایمان نہ لائیں تو انھیں تہِ تیغ کیا جائے اورسرزمینِ عرب کو صرف اللہ کی عبادت کے لیے خاص کیا جائے ۔ارشاد ہے:

’’وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا کہ اسے وہ(سر زمینِ عرب) کے تمام ادیان پر غالب کر دے، اگرچہ یہ بات (عرب کے) ان مشرکوں کو کتنی ہی ناگوار ہو۔‘‘ (الصف۶۱: ۹)

’’اور (ان مشرکینِ عرب) سے جنگ کرو، یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہ جائے اور دین اللہ کا ہو جائے۔‘‘ (البقرہ ۲: ۱۹۳)

مولانا امین احسن اصلاحی سورۂ بقرہ کی مذکورہ آیت کی تفسیر کرتے ہوئے ’’تدبرِ قرآن‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’ ’و یکون الدین للہ‘ (اور دین اللہ کا ہو جائے) کا صحیح موقع و محل اور اس کا اصلی زور سمجھنے کے لیے یہاں، بالاجمال اس سنت اللہ کو سمجھ لینا ضروری ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کے باب میں پسند فرمائی ہے۔ وہ سنت اللہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کی طرف اپنا رسول بھیجتا ہے تو وہ رسول اس قوم کے لیے خدا کی آخری اور کامل حجت ہوتا ہے، جس کے بعد کسی مزید حجت و برہان کی اس قوم کے لیے ضرورت باقی نہیں رہ جاتی ۔ اس کے بعد بھی اگر وہ قوم ایمان نہیں لاتی ، بلکہ تکذیبِ رسول اور عداوتِ حق ہی پر اڑی رہ جاتی ہے تو وہ فنا کر دی جاتی ہے۔عام اس سے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے کسی عذاب کے ذریعہ سے فنا ہو یا حق کے اعوان و انصاراور رسول کے ساتھیوں کے ہاتھوں ۔ اور عام اس سے کہ یہ واقعہ رسول کی زندگی ہی میں ظہور میں آئے یا اس کی وفات کے بعد۔ ’لاغلبن انا و رسلی‘، ’جاالحق و زھق الباطل ان الباطل کان زھوقا‘، اور اس مضمون کی دوسری آیات میں اسی سنت اللہ کی طرف اشارہ ہے اور اس کے ظہور کے لیے قرآن میں ایک مخصوص ضابطہ بیان ہوا ہے۔ (یہ ملحوظ رہے کہ یہاں جس سنت اللہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ، اس کا تعلق خاص طور پر رسولوں سے ہے، ان انبیا سے نہیں ہے جو صرف نبی تھے، رسول نہیں تھے)۔
اسی سنت اللہ کی طرف یہ آیت اشارہ کر رہی ہے کہ اس آخری رسالت کے مقصد کی تکمیل اس بات پر ہونی ہے کہ سرزمینِ حرم پر دینِ حق کے سوا اور کوئی دین باقی نہیں رہنے پائے گا ۔ چنانچہ اسی بنیاد پر قرآن نے کفارِ عرب کے سامنے ، جن کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت براہِ راست تھی اور جو بیت اللہ پر بالکل ناجائز طور پر قابض تھے ، صرف دو ہی راہیں باقی رکھی تھیں۔یا تو اسلام قبول کریں یا تلوار۔دوسرے کفار کی طرح ان کے لیے جزیہ کی گنجایش نہیں تھی۔ چنانچہ جب اتمامِ حجت کا تقاضا پورا ہو گیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ پر فوج کشی کی اور بیت اللہ پر قبضہ کر کے اس کو کفر وشرک کی تمام آلایشوں سے پاک کر دیا اور ’جا الحق و زھق الباطل‘ کا اعلان فرما دیا۔
پھر حرمِ الٰہی کو مستقل طور پر کفر و شرک کے غلبہ سے پاک رکھنے کے لیے یہ بھی ضروری ہوا کہ اس پورے علاقہ کو غیر اسلامی قبضہ یا مداخلت سے بالکل محفوظ کر دیا جائے جس میں یہ حرم واقع ہے۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پورے جزیرۂ عرب کے متعلق یہ ہدایت دے دی کہ ’لا یجتمع فیہ دینان‘ یعنی اس میں دینِ حق کے ساتھ کوئی اور دین جمع نہیں ہو سکتا۔ اور آخر وقت میں آپ نے یہود و نصاریٰ کو بھی اس سرزمین سے نکال دینے کی نصیحت فرمائی ، جس کی تعمیل حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانے میں کی۔ یہ تدبیر مرکزِ اسلام کے سیاسی تحفظ کے لیے ضروری تھی اور یہ مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ اس گھر کے تحفظ کے لیے ہمیشہ بیدار رہیں اور کسی بھی غیر اسلامی طاقت کے قدم اس سرزمین پر جمنے نہ دیں۔‘‘( ج۱، ص۴۷۸)

اس تفصیل سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ اقدام نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا فرضِ منصبی ادا کرتے ہوئے ، سرتاسر حکمِ خداوندی کی تعمیل میں کیا۔چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اور سرزمینِ عرب سے باہر اس طرح کے کسی اقدام کے لیے دین میں کوئی گنجایش نہیں ہے۔

 -----------------------------

 

بشکریہ ماہنامہ اشراق

تحریر/اشاعت مئی 2001
مصنف : سید منظور الحسن
Uploaded on : Aug 23, 2016
1409 View