اہل دنیا اور اہل تقویٰ - سید منظور الحسن

اہل دنیا اور اہل تقویٰ

زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّھَوٰتِ مِنَ النِّسَآءِ وَالْبَنِیْنَ وَالْقَنَاطِیْرِ الْمُقَنْطَرَۃِ مِنَ الذَّھَبِ وَالْفِضَّۃِ وَالْخَیْلِ الْمُسَوَّمَۃِ وَالْاَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ذٰلِکَ مَتَاعُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَاللّٰہُ عِنْدَہٗ حُسْنُ الْمَاٰبِ قُلْ اَؤُنَبِّءُکُمْ بِخَیْرٍ مِّنْ ذٰلِکُمْ لِلَّذِیْنَ اتَّقَوْا عِنْدَ رَبِّھِمْ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا وَاَزْوَاجٌ مُّطَھَّرَۃٌ وَّرِضْوَانٌ مِّنَ اللّٰہِ وَاللّٰہُ بَصِیْرٌ بِالْعِبَادِ اَلَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اِنَّنَآ اٰمَنَّا فَاغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ اَلصّٰبِرِیْنَ وَالصّٰدِقِیْنَ وَالْقٰنِتِیْنَ وَ الْمُنْفِقِیْنَ وَالْمُسْتَغْفِرِیْنَ بِالْاَسْحَارِ.(آل عمران ۳ : ۱۴۔۱۷)
’’لوگوں کی نگاہوں میں مرغوبات دنیا، عورتیں، بیٹے، سونے چاندی کے ڈھیر، نشان زدہ گھوڑے، چوپائے اور کھیتی کھبا دی گئی ہیں۔ یہ دنیوی زندگی کے سرو سامان ہیں اور اللہ کے پاس اچھا ٹھکانا ہے۔ان سے کہو: کیا میں تمھیں ان چیزوں سے بہتر چیز کا پتا دوں؟جو لوگ تقویٰ اختیار کریں گے، ان کے لیے ان کے رب کے پاس باغ ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، ان میں ہمیشہ رہیں گے اور پاکیزہ بیویاں ہوں گی اور اللہ کی خوشنودی ہو گی۔اللہ اپنے بندوں کی خبر رکھنے والا ہے۔ جو یہ دعا کرتے ہیں: اے ہمارے پروردگار، ہم ایمان لائے ،پس تو ہمارے گناہوں کو بخش اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا۔ جو صابر، راست باز، فرماں بردار، (راہ خدا میں) خرچ کرنے والے اور اوقات سحر میں مغفرت چاہنے والے ہیں۔‘‘
مضمون کے لحاظ سے اس مجموعۂ آیات کے تین حصے ہیں:
۱۔مرغوبات دنیا اور ان کی کم تری کا ذکر۔
۲۔اہل تقویٰ کے انعامات کا تذکرہ۔
۳۔اللہ کے بندوں کی صفات کا بیان۔
۱۔مرغوبات دنیا اور ان کی کم تری کا ذکر
اس حصے میں دنیا کی نمایاں مادی اشیا کا ذکر ہے۔یہ چیزیں بعض اوقات انسان کی ساری توجہ کو اپنی جانب مبذول کر لیتی ہیں۔ان کی تفصیل یہ ہے:
عورتیں
اللہ تعالیٰ نے مرد کے اندر عورت کے لیے اور عورت کے اندرمرد کے لیے فطری میلان رکھا ہے۔ اسی بنا پر وہ رشتۂ ازدواج میں منسلک ہو کر خاندان کو وجود بخشتے اور اس طرح سلسلۂ معاشرت کو قائم کرتے ہیں۔دونوں ایک دوسرے کے ذریعے سے اپنی نفسیاتی، ازدواجی،معاشی اور سماجی ضرورتوں کی تکمیل کرتے ہیں،اس لیے ان کے مابین محبت اور تعلق خاطر کے جذبات قدرتی طور پر پیدا ہوتے ہیں۔ بعض اوقات ان کے یہ جذبات اللہ کے قائم کردہ حدود سے اس قدر تجاوز کر جاتے ہیں کہ وہ اپنے رفیق حیات کو زندگی کا اصل اثاثہ سمجھنے لگتے اور اسی کی محبت میں غلطان ہو کر اپنے مالک حقیقی کو بھول جاتے ہیں۔
یہاں ’النِّسَآء‘ (عورتیں) کا لفظ عرب کی تہذیب و تمدن کے تناظر میں استعمال ہوا ہے۔ اس معاشرت میں مردوں کی زیادہ شادیوں کا رواج تھا۔ زیادہ بیویاں دولت و ثروت اور مقام و مرتبہ کی علامت ہوتی تھیں،اس وجہ سے وہ مردوں کی خاص توجہ کا مرکز تھیں۔
بیٹے
اولاد نرینہ ہر زمانے میں انسان کی محبت کا مرکز رہی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ بیٹے جاہ و حشمت اور قوت و اقتدار کا اظہارہوتے ہیں ۔یہ اس وقت انسان کی شان و شوکت کا باعث بنتے ہیں جب بڑھاپا اس پر اضمحلال طاری کر دیتا ہے۔ اسی طرح سلسلۂ نسب بھی بالعموم بیٹوں ہی سے آگے چلتا ہے، اس لیے ہر شخص یہ محسوس کرتا ہے کہ بیٹوں سے اس کا نام اس کی موت کے بعد بھی دنیا میں زندہ رہے گا۔عرب میں کثرت اولادبالخصوص اولاد نرینہ کے حامل کو خاص فضیلت حاصل ہوتی تھی۔
سونے چاندی کے ڈھیر
سونا چاندی ہمیشہ سے مال و دولت کی علامت رہے ہیں۔یہ نعمت اگر ہاتھ میں ہو تو انسان کے لیے سخاوت وخیرات کے ذریعے سے اپنا نام پیدا کرنے کے بڑے مواقع ہوتے ہیں اور اپنی خواہشات کی تکمیل کے بھی بے شماراسباب موجود ہوتے ہیں۔
نشان زدہ گھوڑے
ان کا ذکر عربوں کے خاص تمدن کے حوالے سے ہے۔اس زمانے میں سفر ، تجارت اور شکار وغیرہ کی ضرورتوں کے لیے گھوڑے استعمال کیے جاتے تھے۔ اہل عرب ان کے ذریعے سے اپنی قوت و شوکت کا اظہار کرتے تھے ۔ میدان جنگ میں بھی انھیں بنیادی حیثیت حاصل ہوتی تھی۔ اسی بنا پر اہل عرب کو گھوڑوں سے بہت لگاؤ تھا۔ جو گھوڑے بہت اعلیٰ نسل کے اور کارکردگی میں بہترین ہوتے ، عرب ان پر خاص طرح کے نشان لگا دیا کرتے تھے تاکہ وہ دوسروں سے ممتاز ہو جائیں۔
چوپائے اور کھیتی
عرب تمدن میں معیشت کا دارومدار دو ہی چیزوں پر تھا : ایک گلہ بانی اور دوسرے کھیتی باڑی۔ اس وجہ سے ان کے ہاں ان دونوں شعبوں کوبنیادی اہمیت حاصل تھی۔یہی چیزیں خوش حالی کی علامت تھیں۔ جس کے پاس ان چیزوں کی فراوانی ہوتی، وہ معاشرے کا فعال اور نمایاں فرد ہوتاتھا۔
یہ اور ان جیسی دوسری مادی اشیا کی طلب فطری طور پر ہر انسان کے اندر موجود ہوتی ہے۔یہ چیزیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعام ہوتی ہیں ۔ انسان کو ان کی قدر کرنی چاہیے اور ان کے ملنے پر اپنے پروردگار کا شکر ادا کرنا چاہیے،مگر عام طور پر انسان ان چیزوں کا اس قدر اسیر ہو جاتا ہے کہ اسے ان کے سوا کچھ اور نظر نہیں آتا۔ بعض اوقات یہ مقام بھی آجاتا ہے کہ وہ ان کے ساتھ اپنی محبت کو ان کے دینے والے پروردگار کی محبت پر غالب کر لیتا ہے۔ اگر کبھی اسے یہ توجہ دلائی جائے کہ ایک روز اسے قیامت کا سامنا کرنا ہے تو وہ یہ سوچ کر خود کو مطمئن کر لیتا ہے کہ جس طرح یہ چیزیں دنیا میں اس کے کام آتی ہیں ،اسی طرح آخرت میں بھی وہ انھی کے سہارے کامیابی کے منازل طے کر لے گا۔
ان چیزوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ چیزیں متاع دنیا ہیں ۔ جو لوگ انھیں اپنی زندگی کا اصل ہدف بناتے،انھی کے لیے جیتے ، انھی کے لیے مرتے ، اپنی تمام ذہنی و جسمانی صلاحیتیں ان کے حصول کے لیے صرف کر دیتے اور اپنے دلوں کوان کی تمناؤں سے آباد کر لیتے اور اس کے نتیجے میں پروردگار عالم کی ہدایت سے صرف نظر کرلیتے ہیں،انھیں آخرت میں ناکامی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو گا۔
۲۔اہل تقویٰ کے انعامات کا تذکرہ
اہل دنیا کے برعکس جولوگ تقویٰ اختیار کریں گے، یعنی اپنی زندگی رضاے الٰہی کے مطابق بسر کرنے کی کوشش کریں گے اور اپنے طرز عمل سے دنیوی زندگی کو اخروی زندگی پر ترجیح نہیں دیں گے ، وہی لوگ جنت کے حق دار ہوں گے۔ یہاں مرغوبات دنیا کے مقابلے میں جنت کی تین نمایاں نعمتوں کا ذکر کیا گیا ہے:
ایسے باغ جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی
جب انسان کے پاس مال و دولت کی فراوانی ہو تو وہ اپنے لیے پر آسایش زندگی کے سامان فراہم کرتا ہے۔ ایسے باغ جن کے نیچے نہریں جاری ہوں، زندگی کے حسن وجمال اور آسایش کی بہترین تمثیل ہے۔سایہ، ٹھنڈک، خوشبو،سبزہ، ہوا،پھولوں کی رنگینی، تازہ پھلوں کی فراوانی، پرندوں کی نغمگی، پانی کا تموج اورفرصت کے لمحات، یہ سب چیزیں مل کر جو کیف و سرور پیدا کرتی ہیں ، اس کا اندازہ ہر صاحب ذوق کر سکتا ہے۔یہ تمثیل صحراے عرب کے باسیوں کے لیے اور بھی دل نواز ہے، کیونکہ یہ حسن فطرت انھیں کم ہی میسر تھا۔
پاکیزہ بیویاں
پہلے حصے میں دنیا کی نعمتوں میں سب سے اوپر بیویوں کا ذکر کیا گیا ہے،اس کی وجہ یہ ہے کہ انھی سے انسان کے جذبات کی تسکین ہوتی اور انھی سے خاندانی زندگی کی بنیاد پڑتی ہے۔انسان کی اسی فطرت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے جنت کے پاکیزہ جوڑوں کا ذکر کیا ہے۔
اللہ کی خوشنودی
یہ تمام انعامات کی جامع تعبیر ہے ۔ گویا جنت کا سب سے بڑا انعام ہی اللہ کا راضی ہونا ہے۔ اللہ تعالیٰ دنیا میں صالح زندگی گزارنے کی بنا پر جس سے راضی ہو جائیں گے، اس کے لیے نعمتوں کا کوئی ٹھکانا نہیں ہو گا۔ اسے وہ نعمتیں بھی ملیں گی جن کا وہ تصور رکھتا تھا اور وہ بھی ملیں گی جن کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتا تھا،گویا اسے جنت کی ابدی بادشاہی حاصل ہو جائے گی۔
ان نعمتوں کے ذکر کے بعد تسلی دینے کے اسلوب میں فرمایا ہے کہ’’اللہ اپنے بندوں کی خبر رکھنے والا ہے۔‘‘یعنی جو لوگ دنیوی نعمتوں سے محروم ہو کراللہ کے لیے صبر کرتے ہیں، جو لوگ دنیوی نعمتوں سے فیض یاب ہو کر اللہ کا شکر ادا کرتے اور انھیں اللہ کی راہ میں صرف کرتے ہیں اور جو لوگ ہر حال میں اللہ کا تقویٰ اختیار کرتے ہیں،وہ تسلی رکھیں کہ اللہ ان کے ہر عمل کو دیکھ رہا ہے اور وہ ان کے اچھے اعمال کا بھرپورصلہ دے گا۔
۳۔اللہ کے بندوں کی صفات کا بیان
اہل دنیا اوراہل جنت کے اس تقابل کے بعد اہل تقویٰ کی چندنمایاں صفات کا ذکر کیا گیاہے:
مغفرت کی دعا مانگنے والے
ایک صفت یہ بیان کی ہے کہ اہل تقویٰ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں، اپنے گناہوں پر پشیمان رہتے ہیں اور اللہ پر اپنے پختہ ایمان کا حوالہ دے کر اس سے اپنی لغزشوں کی معافی مانگتے ہیں اور اس کے سامنے دوزخ کے عذاب سے محفوظ رکھنے کی درخواست پیش کرتے رہتے ہیں۔
صابر
دوسری صفت یہ بیان ہوئی ہے کہ وہ ہر تکلیف کو اللہ کی طرف سے آزمایش جان کر صبر کا رویہ اختیار کرتے ہیں۔وہ انعامات سے محروم ہوں یا مصیبتوں سے معمور، ہر حال میں صبروبرداشت اور اللہ کی راہ میں ثابت قدمی کا طرز عمل اپناتے ہیں۔ جو شخص حق کی راہ پر چلنا چاہتا ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ صبر کی صفت کو اپنے اندر پیدا کرے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر آدمی صابر ہو گا تو کوئی لالچ، کوئی غم، کوئی خوف، کوئی تکلیف اور کوئی آزمایش اسے راہ حق سے ہٹانے میں کامیاب نہیں ہوسکے گی۔
صادق اور راست باز
تیسری صفت ان کا صادق اور راست باز ہونا بیان ہوئی ہے۔صادق اور راست باز وہ شخص ہوتا ہے جوسچائی کو کسی حال میں نظر انداز نہیں کرتا، جس کے قول وفعل میں کوئی تضاد نہیں ہوتا، جو حقیقت کا متلاشی ہوتا ہے۔متقی شخص ایک سچا اور کھرا انسان ہوتا ہے۔مال و دولت، شان و شوکت، حکومت و اقتداراور رشتے ناتے بھی اس کے لیے قبول حق کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتے۔
فرماں بردار
قرآن مجید میں اس کے لیے ’قٰنِتِیْن‘ کا لفظ استعمال ہواہے۔ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے آگے عاجزی اور انکساری کا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ ان کے دل اوردماغ پورے جذبے اور پورے شعور کے ساتھ اپنے پروردگار کے سامنے جھکے ہوئے ہوتے ہیں۔اپنے مالک کے منشا کے آگے وہ سراپا فرماں بردا رہوتے ہیں۔
اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے
اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے ،یعنی انفاق کرنے والے وہ لوگ ہیں جن کی نظریں دنیا کے بجاے آخرت پر ہوتی ہیں۔ وہ مال ودولت کو اللہ کا انعام اور اس کی امانت سمجھتے اور اس کی طرف سے کوئی تقاضا سامنے آ جانے کے بعدپوری آمادگی دل کے ساتھ اسے راہ خدا میں لٹانے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔
اوقات سحر میں مغفرت چاہنے والے
انسان کا اپنے آپ کو گناہوں سے بالکل محفوظ کر لینا کم و بیش ناممکن ہے،اس کی وجہ یہ ہے کہ نفسانی خواہشات انسان کے وجود کا لازمی حصہ ہوتی ہیں۔ ان پر قابو تو پایا جا سکتا ہے، ان سے چھٹکارا حاصل نہیں کیا جا سکتا۔اصل مسئلہ اپنے آپ کو گناہوں سے پاک کر لینا نہیں ہے ،بلکہ گناہوں کے معاملے میں خدا سے ڈرنا اور گناہ سر زد ہوجانے کے بعداپنے پروردگار سے توبہ و استغفار کرنا ہے۔جب کسی بندۂ مومن سے گناہ کا ارتکاب ہوتا ہے تو وہ بے چین ہو جاتا ہے اور اپنے مالک کے حضور میں اپنے سر کو ڈال دیتا ہے اور پورے خلوص نیت کے ساتھ مغفرت کا طلب گار بن جاتا ہے۔اس حضوری کے لیے صبح کا وقت نہایت موزوں ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اسی وقت بندہ اپنے رب کے سامنے یک سوئی، دل جمعی اور شعور کی بیداری کے ساتھ اپنی درخواست پیش کر سکتا ہے۔
یہی وہ صفات ہیں جو کسی انسان کو اللہ کی ہدایت کا حامل بناتی ہیں۔کفار عرب نے مرغوبات دنیا کو اپنے اوپراس قدر طاری کر لیا تھا کہ وہ ان صفات سے بالکل محروم ہو کر رہ گئے تھے۔ظاہر ہے کہ ایسے لوگوں کو قرآن مجید کی نعمت کیسے دی جا سکتی تھی۔

------------------------------

 

بشکریہ سید منظور الحسن
تحریر/اشاعت اکتوبر 2001 

مصنف : سید منظور الحسن
Uploaded on : Aug 30, 2016
2422 View