فطرت کا حاسۂ اخلاق — علما کا نقطۂ نظر - سید منظور الحسن

فطرت کا حاسۂ اخلاق — علما کا نقطۂ نظر

 ہمارے علما کا موقف ہے کہ انسان نیکی اور بدی کو فطری طور پر جانتا ہے۔ خیر و شر کا شعور اُس کی شخصیت کا لازمی حصہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اُسے یہ احساس دے کر دنیا میں بھیجا ہے۔ اس کی بدولت وہ نیکی اور بدی کا اسی طرح ادراک کرتا ہے، جیسے سمع و بصر سے اشیا کو پہچانتا ہے۔ علما نے اس ضمن میں سورۂ شمس (۹۱) کی آیات ’وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰہَا، فَاَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَتَقْوٰہَا‘ (اور نفس گواہی دیتا ہے ، اور جیسا اسے سنوارا، پھر اس کی نیکی اور بدی اسے سجھا دی)، سورۂ بلد (۹۰) کی آیت ’وَہَدَیْنٰہُ النَّجْدَیْنِ‘ (ہم نے کیا اسے دونوں راستے نہیں سجھائے) اور سورۂ دہر (۷۶) کی آیت ’اِنََّا ہَدَیْنٰہُ السَّبِیْلَ‘ (ہم نے اسے راہ سجھا دی)سے استدلال کیا ہے۔ چند اہم حوالے یہ ہیں:
مولانا شبیر احمد عثمانی نے بیان کیا ہے کہ انسان کی فطرت میں ہدایت کی اساس اور حق کا شعور اس طریقے سے موجود ہے کہ اگروہ اپنی اصل طبیعت پر قائم رہے تو لازماً دین حق کو اختیار کرے گا۔ لکھتے ہیں:

’’اللہ تعالیٰ نے آدمی کی ساخت اور تراش شروع سے ایسی رکھی ہے کہ اگر وہ حق کو سمجھنا اور قبول کرنا چاہے تو کر سکے اور بدء فطرت سے اپنی اجمالی معرفت کی ایک چمک اس کے دل میں بطور تخم ہدایت کے ڈال دی ہے کہ اگر گردوپیش کے احوال اور ماحول کے خراب اثرات سے متاثر نہ ہو اور اصلی طبیعت پر چھوڑ دیا جائے تو یقیناً دین حق کو اختیار کرے، کسی دوسری طرف متوجہ نہ ہو۔‘‘(تفسیر عثمانی۵۲۸)

صاحب ’’معارف القرآن ‘‘مولانامفتی محمد شفیع نے لکھا ہے کہ خیر و شر کی پہچان ایک صلاحیت ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسان کے وجود کے اندر ودیعت کر رکھی ہے:

’’ اللہ تعالیٰ نے انسان کو خیر و شر اور بھلے برے کی پہچان کے لیے ایک استعداد اور مادہ خود اس کے وجود میں رکھ دیا ہے جیسا کہ قرآن کریم نے فرمایا: ’فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَتَقْوٰھَا‘ یعنی نفس انسانی کے اندراللہ تعالیٰ نے فجور اور تقویٰ، دونوں کے مادے رکھ دیے ہیں۔‘‘(معارف القرآن ۸/ ۷۵۱) 

مولانا امین احسن اصلاحی نے فطرت کے الہام کو نور یزدانی سے تعبیر کیا ہے اور بیان کیا ہے کہ خیر و شر کے اس الہام کا تعلق انسان کے مرحلۂ تخلیق سے ہے ۔ اس موقع پر انسان کو جہاں دیگر صلاحیتیں دی گئی ہیں، وہاں نیکی اور بدی کا شعور بھی ودیعت کیا گیا ہے۔ انھوں نے بیان کیا ہے:

’’انسان اگر خود اپنے نفس پر غور کرے تو یہ حقیقت واضح ہو گی کہ خالق نے اُس کی تشکیل اس طرح فرمائی ہے کہ اس کے اندر نیکی اور بدی دونوں کا شعور ودیعت کر دیا ہے۔... ’فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَتَقْوٰھَا‘۔ یہ عمل تسویہ کی تفصیل ہے۔ انسان کی تخلیق کا تکمیلی مرحلہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے اندر ایک نور یزدانی ودیعت فرمایا جس سے اس کے اندر یہ شعور بیدار ہوا کہ کیا چیز اُس کے لیے نیکی اور خیر ہے اور کیا چیز بدی اور شر۔‘‘ (تدبر قرآن۹/ ۳۸۸)

پیر کرم شاہ الازہری بیان کرتے ہیں کہ اللہ نے ہر انسان کو نیکی اور بدی میں امتیاز کا شعور بخشا ہے اور اسی کی بنا پر اُس میں نیکی اور بدی کو اختیار کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ ’فَاَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَتَقْوٰہَا‘ کی تفسیر میں انھوں نے لکھا ہے:

’’آیت کا مطلب یہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کو نیک و بد، حق باطل اور صحیح و غلط میں تمیز کرنے کا شعور عطا فرمایا ہے۔ وہ اچھی اور بری چیزوں میں پوری طرح امتیاز کر سکتا ہے۔اس کا یہ مفہوم بھی بتایا گیا ہے کہ انسان میں نیکی کرنے اور برائی کرنے کی دونوں صلاحیتیں موجود ہیں، اب اس کی مرضی کہ وہ نیکی کو پسند کرتا ہے یا برائی کو اختیار کرتا ہے۔‘‘ (ضیاء القرآن ۵/ ۵۷۲)

سید ابوالاعلیٰ مودودی کے نزدیک انسان کو نیکی اور بدی میں امتیاز کی حس دی گئی ہے۔ یہ اخلاقی حس اسے پیدایشی طور پر ودیعت ہے۔ سورۂ دہر کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

’’ہر انسان کو علم و عقل کی صلاحیتیں دینے کے ساتھ ایک اخلاقی حس بھی دی گئی ہے جس کی بدولت وہ فطری طور پر بھلائی اور برائی میں امتیاز کرتا ہے بعض افعال اور اوصاف کو برا جانتا ہے اگرچہ وہ خود ان میں مبتلا ہو، اور بعض افعال و اوصاف کو اچھا جانتا ہے اگرچہ وہ خود ان سے اجتناب کر رہا ہو۔‘‘ (تفہیم القرآن ۶/ ۱۸۸)

سورۂ شمس کے تحت بیان کرتے ہیں:

’’یہ تصورات انسان کے لیے اجنبی نہیں ہیں، بلکہ اس کی فطرت ان سے آشنا ہے اور خالق نے برے اور بھلے کی تمیز پیدایشی طور پر اس کو عطا کر دی ہے۔ ‘‘ (تفہیم القرآن ۶/ ۳۵۲)

شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ علیہ نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ میں متعدد مقامات پر مختلف زاویوں سے یہ بات بیان کی ہے کہ نیکی اور بدی کی اساسات فطرت انسانی میں راسخ ہیں اور انسان شریعت اور مذہب سے مقدم طور پر ان سے شناسا ہوتا ہے۔ ’باب اقتضاء التکلیف المجازاۃ‘ کے زیر عنوان انھوں نے اس مسئلے پر بحث کی ہے کہ انسانوں کو ان کے اعمال پر جزا وسزا ملنا کیوں ضروری ہے؟ اس ضمن میں انھوں نے چار اسباب بیان کیے ہیں: ایک سبب وہ ساخت ہے جس پر انسان کی تخلیق ہوئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ساخت بذات خود اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ انسان اعمال صالحہ کو انجام دے۔ دوسرا سبب ملاء اعلیٰ کی جہت سے ہے، چنانچہ جب انسان اچھاکام کرتا ہے تو فرشتوں کی جانب سے اس کے لیے مسرت اور سرور کی شعاعیں نکلتی ہیں اور جب وہ برا کام کرتا ہے تو ان سے نفرت اور بغض کی شعاعیں نکلتی ہیں۔ مجازات عمل کا تیسرا سبب شریعت کا نزول ہے جس کی پسندیدگی کا جذبہ اللہ کی طرف سے انسانوں کے دلوں میں ڈال دیا جاتا ہے۔ چوتھا سبب انبیا کی بعثت او ر ان کی طرف ہونے والی وحی کا مشخص اور ممثل ہو جاناہے ۔ یہ اسباب بیان کر کے انھوں نے لکھا ہے:

’’...پہلی دو جہتوں سے مجازات عمل تو عین وہ فطرت ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا فرمایا ہے اور فطرت الٰہی میں تم کسی قسم کی تبدیلی نہ پاؤ گے۔ لیکن یہ صرف بر و اثم کے اصول و کلیات میں ہوتا ہے نہ کہ ان کی فروعات و حدود میں، اور یہ فطرت ہی وہ دین ہے جو زمانوں کی تبدیلی سے تبدیل نہیں ہوتا اور جس پر تمام انبیا ے کرام کا اجماع و اتفاق ہے۔ ... (دین فطرت کی) اس مقدار پر مواخذہ اور داروگیر انبیا سے قبل بھی ثابت ہے اور ان کی بعثت کے بعد بھی۔‘‘(حجۃ اللہ البالغہ۱/ ۲۵)

قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی فطرت میں ودیعت کیا جانے والا یہ فطری شعور کسی خارجی رہنمائی کے بغیر بھی ازخود اپنے اظہار کے لیے بے تاب ہوتا ہے۔ چنانچہ جب جنت میں ممنوعہ پھل کھانے کے نتیجے میںآدم و حوا کے ستر ان پر کھل گئے تو انھوں نے فوراً اپنے آپ کو پتوں سے ڈھانپنے کی کوشش کی۔ قرآن مجید سے واضح ہے کہ ایسا انھوں نے کسی باقاعدہ ’حکم‘ کی تعمیل میں نہیں، بلکہ شرم وحیا کے اس فطری احساس کی بنا پر کیا تھا جو اللہ نے ان کی فطرت میں ودیعت کر رکھا تھا۔ مولانا امین احسن اصلاحی اور مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے سورۂ اعراف (۷) کی آیت ۲۲ کی تفسیر میں اسی بات کی وضاحت کی ہے۔ مولانا اصلاحی لکھتے ہیں:

’’’...وَطَفِقَا یَخْصِفٰنِ عَلَیْھِمَا مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّۃِ‘ کے اسلوب بیان سے اس گھبراہٹ اور سراسیمگی کا اظہار ہورہا ہے جو اس اچانک حادثے سے آدم وحوا پر طاری ہوئی۔ جوں ہی انھوں نے محسوس کیا کہ وہ ننگے ہو کر رہ گئے ہیں، فوراً انھیں اپنی ستر کی فکر ہوئی اور جس چیز پر ہاتھ پڑ گیا، اسی سے ڈھانکنے کی کوشش کی، چنانچہ کوئی چیز نہیں ملی توباغ کے پتے ہی اپنے اوپر گانٹھنے گوتھنے لگے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ستر کا احساس انسان کے اندر بالکل فطری ہے۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ چیزیں محض عادت کی پیداوار ہیں، ان کا خیال بالکل غلط ہے۔ جس طرح توحید فطرت ہے، شرک انسان مصنوعی طورپر اختیار کرتا ہے، اسی طرح حیا فطرت ہے، بے حیائی انسان مصنوعی طور پر اختیار کرتاہے۔‘‘ (تدبرقرآن۳/ ۲۳۶)

مولانا مودودی نے بیان کیا ہے:

’’انسان کے اندر شرم وحیا کا جذبہ ایک فطری جذبہ ہے اور اس کا اولین مظہر وہ شرم ہے جو اپنے جسم کے مخصوص حصوں کو دوسروں کے سامنے کھولنے میں آدمی کو فطرتاً محسوس ہوتی ہے۔ قرآن ہمیں بتا تا ہے کہ یہ شرم انسان کے اندر تہذیب کے ارتقا سے مصنوعی طور پر پیدا نہیں ہوئی ہے اور نہ یہ اکتسابی چیز ہے، جیسا کہ شیطان کے بعض شاگردوں نے قیاس کیا ہے، بلکہ درحقیقت یہ وہ فطری چیز ہے جو اول روز سے انسان میں موجود تھی۔‘‘ (تفہیم القرآن ۲/ ۱۵) 

علما کے اقتباسات سے درج ذیل نکات متعین ہوتے ہیں:
اولاً، نیکی اور بدی کا شعور انسان کے وجود کا جزو لازم ہے۔ جس طرح انسان کو پیدایشی طور پر سمع و بصر، نطق و کلام، فہم و ادراک اور عقل و دانش کی صلاحیتیں عطا فرمائی گئی ہیں، اسی طرح خیر و شر کا شعور بھی ودیعت کیا گیا ہے۔
ثانیاً، اس حقیقت واقعہ سے انسان خود بھی واقف ہے اور قرآن مجید نے بھی اسے پوری صراحت کے ساتھ واضح کیا ہے۔
ثالثاً، اس کا تعلق نہ انسان کے تہذیبی ارتقا سے ہے اور نہ اُس کے تجربے و مشاہدے اور اخذ و اکتساب سے ہے، بلکہ اُس کی خلقت سے ہے۔
رابعاً، فطرت کی یہ اصولی ہدایت پہلے دی گئی ہے اور اُس کے بعد انبیا کے ذریعے سے اس کی تفصیلات واضح کی گئی ہیں۔

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت دسمبر 2016
مصنف : سید منظور الحسن
Uploaded on : Feb 11, 2017
3108 View