گزشتہ دنوں کراچی میں نامعلوم دہشت گردوں نے پانچ علماے کرام کو برسرِ عام قتل کر دیا۔ اس سانحے کی خبر سن کر لوگ مشتعل ہو گئے اور انھوں نے کئی عمارتوں اور بہت سی گاڑیوں کو جلا ڈالا۔ملک کے سربر آوردہ مذہبی رہنماؤں، سیاست دانوں ، دانش وروں اور عوام الناس نے اس قتلِ ناحق کوایک بڑا حادثہ قرار دیا ہے۔ بے گناہ انسانوں کے اس مظلومانہ قتل کو ہم بھی ایک عظیم سانحہ تصور کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ وہ مقتولین کی مغفرت فرمائے اور ان کے لواحقین کو صبرِ جمیل عطا فرمائے۔مگر ہمارے خیال میں اس روز ایک نہیں ،بلکہ دوحادثے رونما ہوئے ہیں۔ ایک حادثہ پانچ بے گناہ انسانوں کا قتل ہے اور دوسرا حادثہ قومی املاک کی تباہی ہے۔ ایک حادثہ اقدام کی دہشت گردی کا نتیجہ ہے۔ دوسراحادثہ ردِ عمل کی دہشت گردی کاثمر ہے۔ ایک دہشت گردی کے مجرم غیر ہیں اور دوسری دہشت گردی کے مجرم اپنے ہیں۔
۲۸ جنوری کی شام کو جب ایک طرف پانچ انسانوں کے اجسادِ خاکی کی میتیں اٹھ رہی تھیں اور دوسری طرف سیکڑوں انسانوں کے وجودِ اخلاقی کا جنازہ نکل رہا تھا، تو یہ طے کرنا مشکل تھا کہ ہمارے احساسات پر کس حادثے کا زیادہ اثر ہے۔ احساسِ غم اورشدتِ تاثر کو تقسیم کرنے کا یہ خیال تو جلد دل سے نکل گیا، لیکن ایک الجھن بدستور موجود ہے ۔اور وہ یہ کہ پانچ انسانوں کے قلوب بند ہوئے توسیکڑوں آنکھیں اشک بار ہوئیں، سیکڑوں انسانوں کے ضمیرمردہ ہوئے تو ایک آنسو بھی نہیں ٹپکا۔ پانچ افراد وجودِ جسمانی سے محروم ہوئے تو ہزاروں الفاظ قرطاس ہاے جرائد پر بکھر گئے، سیکڑوں افراد وجودِ اخلاقی سے محروم ہوئے تو ایک لفظ بھی نہیں لکھا گیا۔
بہرحال یہ دونوں حادثے ناقابلِ فراموش ہیں۔ پہلے حادثے کی ذمہ داری اربابِ اقتدارپر عائدہوتی ہے ، وہ اربابِ اقتدار جو ہمارے وجودِ اجتماعی کا حقیقی اظہار ہیں۔ دوسرے حادثے کے ذمہ دار ہمارے رہنما اور ہمارے عوام ہیں، وہ رہنما جو ہمارے دلوں پر حکومت کرتے ہیں اور وہ عوام جن میں ہم اور آپ سب شامل ہیں۔
اربابِ اقتدارپرذمہ داری اس لیے عائد ہوتی ہے کہ امن و امان اور عدل و انصاف کا قیام ان کے بنیادی فرائض میں شامل ہے۔ کوئی حکومت خارجی محاذوں پر خواہ بہت کامیاب ہو، لیکن اس کی کارکردگی اس وقت تک صفرہو گی جب تک وہ اپنے شہریوں کے جان و مال کی حفاظت نہیں کر پاتی۔ گزشتہ عشرے میں ایسی ہی دہشت گردی کے نتیجے میں سیکڑوں بے گناہ شہری مارے گئے ہیں اور کروڑوں کی املاک تباہ ہوئی ہیں ۔ یہ سلسلہ مسلسل جاری ہے ۔ ہماری حکومتیں اول تو مجرمین پر گرفت ہی نہیں کر پاتیں اور اگر وہ کسی نہ کسی طرح قابومیں آ ہی جائیں تو انھیں کیفرِ کردار تک نہیں پہنچایا جاتا ۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ وہ انسانی جان جس کی حرمت کعبے کی حرمت جیسی ہے ، وہ اتنی ارزاں ہو گئی ہے کہ اسے بارود کے چند ٹکڑوں سے خریدا جا سکتا ہے۔دہشت گردی کے یہ مظاہر یہی تاثر دیتے ہیں کہ ہمارے حکمرانوں کو شہریوں کے جان و مال کی حفاظت سے کچھ خاص دلچسپی نہیں ہے۔یہ رویہ صرف موجودہ حکمرانوں کا نہیں ہے ، بلکہ ہمارے تمام حکمرانوں نے امن وامان کے معاملے میں ایسی ہی غفلت اور ایسی ہی بے پروائی کا مظاہرہ کیا ہے۔
دہشت گردی کے مرتکبین کا تعین اور ان پر گرفت نہ ہونے کی وجہ سے مختلف گروہوں کے مابین شکوک و شبہات کی فضا پیدا ہو جاتی ہے۔ ہر جرم ایک معما بن جاتا ہے۔ اس فضا میں مختلف گروہ اپنے مخالفین کو مجرم گردانتے اور ان کے خلاف انتقامی کارروائی کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ ابہام کی اسی فضا سے فائدہ اٹھا کر دشمن قوتیں سیاسی ، مذہبی یانجی اختلاف رکھنے والے افراد اور گروہوں کے مابین جنگ کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ قائم کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں۔
اگر مجرمین کی گرفت اور سرکوبی کا نظام قوی اور سریع ہو تو غلط فہمیوں کی فضا بھی پیدا نہیں ہوتی اور جرم کا شکار ہونے والوں میں انتقامی جذبات بھی بے قابو نہیں ہونے پاتے۔اس طرح ملک میں امن و امان کا قیام ممکن ہو جاتا ہے ۔ گویا اس منزل کے حصول کا واحد راستہ انتظامیہ اور عدلیہ کا استحکام ہے۔ انتظامیہ اگر مضبوط اور چاک و چوبند ہو اور عدلیہ شفاف اور سریع العمل ہو تواس منزل کا حصول بعید از قیاس نہیں۔اگر ہماری حکومتیں ان اداروں کے استحکام اور ترقی کو اپنا مسئلہ بنا لیں تو ملک میں فساد، بد امنی اور قتل و غارت گری کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔
رہنماؤں پر ذمہ داری اس لیے عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے پیروؤں کی تربیت ہی جلا دو، مٹا دو، چھین لو اور مار ڈالو کے نعروں سے کرتے ہیں ۔ یہ رہنما اقتدار کی مسند پر ہوں، سیاست کی بساط پر ہوں یا مذہب کے منبر پر، اپنے مختلف چہروں کے ساتھ ایک ہی زبان بولتے ہوئے نظرآتے ہیں۔ یہ زبان اصلاح و دعوت کی نہیں ،بلکہ اشتعال و احتجاج کی ہوتی ہے۔ یہ زبان فتنوں کو دباتی نہیں، بلکہ ابھارتی ہے۔ یہ زبان امن و سلامتی کی فضا قائم نہیں کرتی، بلکہ فتنہ و فساد برپا کرتی ہے۔ یہ زبان دلوں کو جوڑتی نہیں، بلکہ ان میں نفاق پیدا کرتی ہے۔ ان رہنماؤں کا منصب یہ تھا کہ وہ ملک اور قوم کی تعمیر میں بنیادی کردار ادا کریں ،لیکن ان سے آج جو کچھ صادر ہو رہا ہے ، اسے تخریب کے علاوہ شایدکسی اور لفظ سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا ۔وہ اس کے نوجوانوں کوعالم اور سائنس دان بنانے کے بجائے جنگ جو اور سیاست دان بنانے پر مصر ہیں ؛ وہ اس کے افراد میں قانون کی پاس داری کا رویہ پیدا کرنے کے بجائے انھیں قانون شکنی پر ابھارتے ہیں؛ وہ اس کے اربابِ اقتدار کو تذکیر و نصیحت کرنے کے بجائے ان کے حریف بن کر کھڑے ہو جاتے ہیں ؛ وہ لوگوں کو دین کی اساسات پر مجتمع کرنے کے بجائے فروعی اختلافات کو ہوا دیتے ہوئے نظر آتے ہیں؛ وہ نئی نسل کوحقیقت پسندی کا درس دینے کے بجائے اسے خوابوں کی دنیا میں مگن رکھتے ہیں؛ وہ اس کے عوام میں تحمل ، برداشت اور بردباری کے بجائے احتجاج ، اشتعال اور ردِ عمل کے رویوں کو پروان چڑھاتے ہیں۔اس کے بعد کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم اپنے ان رہنماؤں سے احتجاج کریں، ان سے خدا کی پناہ مانگیں یا ان کی اصلاح کے لیے پروردگار کے سامنے گڑگڑائیں۔
عوام پر ذمہ داری اس لیے عائد ہوتی ہے کہ انھوں نے اپنی باگیں اپنی عقل اور اپنے ضمیر کے بجائے اپنے جذبات کے سپرد کر دی ہیں۔ مذکورہ واقعے کے حوالے سے اخبار کی یہ خبر اسی صورتِ حال کی عکاسی کر رہی ہے:
’’ شاہ فیصل کالونی کراچی میں خان گڑھ پل کے نزدیک جامعہ فاروقیہ کی ہائی ایس وین پر دو موٹر سائیکل سوار دہشت گردوں کی فائرنگ سے تین اساتذہ شیخ الحدیث سمیت پانچ افراد ہلاک اور چار زخمی ہو گئے۔ جبکہ بعد میں علاقے میں ہونے والی ہنگامہ آرائی اور فائرنگ کے نتیجے میں مزید ایک درجن افراد زخمی ہو گئے۔ ڈی ایس پی کی گاڑی اور پولیس کی موبائل گاڑیوں سمیت ۲۰ گاڑیوں کو نذرِ آتش کر دیا گیا ۔ مسلح افراد نے ایدھی ٹرسٹ کی ایمبولینسیں چھین لیں۔ ایک مال گاڑی پر حملہ کیا گیا۔ ایک پٹرول پمپ تباہ کیا گیا۔ ہنگاموں کے نتیجے میں کاروبارِ زندگی مفلوج ہو گیا۔ دکانیں اور ہوٹل بند ہو گئے۔ لوگ گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے۔ مین شاہراہِ فیصل پر بھی ٹریفک کی آمد و رفت معطل ہو گئی جس کی وجہ سے ائیر پورٹ سے آنے اور جانے والے مسافروں کو سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ ہنگامہ آرائی جنازے کی روانگی کے وقت مزید شدت اختیار کر گئی ۔ جلوس کے شرکا نے ۲ سینماؤں کو آگ لگا دی جس کے نتیجے میں وہاں کھڑی ہوئی آٹھ گاڑیاں اور دو موٹر سائیکلیں بھی جل گئیں۔ اس کے علاوہ ایک آئس کریم پارلر اور ایک دکان کو بھی آگ لگائی گئی جس سے قریب واقع مسجدِ رہگزر کو بھی نقصان پہنچا۔ جلوس کے شرکا نے ایک تھانے پر حملے کی بھی کوشش کی اور ایک ڈسپنسری کو آگ لگانے کے علاوہ ۲ بینکوں پر پتھراؤکیا۔ ‘‘(روزنامہ ’’نواے وقت‘‘ ، ۲۹ جنوری ۲۰۰۱)
ظلم و زیادتی کے خلاف احتجاج ہر انسان کا حق ہے ،لیکن وہ احتجاج کہاں کا احتجاج ہے جو بجائے خود ظلم و زیادتی کا عنوان بن جائے۔ہمارا معاشرہ ایک کھلا معاشرہ ہے۔ یہاں اظہارِ رائے پر کوئی پابندی ہے نہ نقد و جرح پر۔ اپنا احتجاج عوام اور حکومت تک پہنچانے کے لیے اخبارات و جرائد کو استعمال کیا جا سکتا ہے ، الیکٹرانک میڈیا کے ذرائع بروے کار لائے جا سکتے ہیں ، سیمینار ، جلسے، جلوس اور ریلیاں منعقدکی جا سکتی ہیں۔اس سب کچھ کے ہوتے ہوئے ہمارے عوام نہ جانے کیوں توڑ پھوڑ اور ہنگامہ آرائی ہی کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہمارے عوام ردِ عمل کی ایک خاص نفسیات میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ انھیں اشتعال دلانے اورآپے سے باہر کرنے کے لیے کبھی تردد نہیں کرنا پڑتا ۔ کسی کٹھن صورتِ حال میں تحمل اور بردباری تو دور کی بات ہے ، کوئی معمولی سا واقعہ بھی ان کی آتشِ جذبات کو انگیخت کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔
ان سادہ لوحوں سے کوئی یہ پوچھے کہ پانچ انسانی جانوں کا نقصان تو خیر تمھارا نقصان تھا ہی، مگر تمھارے ہاتھوں جلنے والی گاڑیوں کا نقصان کس کا نقصان ہے؟ عمارتوں کی تباہی کس کی تباہی ہے؟ بیسیوں گھنٹوں کے لیے کاروبارِ زندگی کا تعطل کس کا خسارہ ہے؟ ان سوالوں کے دو ہی جواب دیے جا سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ اب ہمارے عوام بے حسی کی ایسی کیفیت میں مبتلا ہو گئے ہیں کہ وہ اپنے ملک اور اپنے ہم وطنوں کے نقصان کو اپنا نقصان سمجھنے ہی سے قاصر ہیں اور دوسرا یہ کہ وہ اس قدر جذباتی ہو گئے ہیں کہ غم و غصے کی حالت ان کے حواس کو بے قابو اور ان کی عقل کو ماؤف کر دیتی ہے۔جواب اگر پہلا ہے تو پھر نہ کوئی گلہ ہے اور نہ کوئی سوال ۔ لیکن اگر دوسرا جواب ہے تو پھر ایسا کیوں نہیں ہوتا کہ لوگ غم و اندوہ کی کیفیت میں مبتلا ہو کر کبھی اپنا ہی گھر جلا ڈالیں، کسی وقت سراپا احتجاج ہو کراپنی ہی دکان کو نذرِ آتش کر دیں، کسی موقع پر مشتعل ہو کر اپنی ہی گاڑی کو تباہ و برباد کر دیں، کسی کے دکھ درد میں شریک ہونے کے لیے اپنے ہی بیوی بچوں کو پیٹ ڈالیں۔ وہ اگر ایسا کریں گے تو یہ بھی سراسر غلط ہو گا ، مگر اس کے بعد وہ جذباتی ، دیوانے اور مجنون تو کہلائیں گے ، لیکن انھیں ظالم، حاسد اور فتنہ پرداز کوئی نہیں کہہ سکے گا۔
-----------------------------
بشکریہ سید منظور الحسن
ماہنامہ اشراق مارچ 2001