’’ شاہ فیصل کالونی کراچی میں خان گڑھ پل کے نزدیک جامعہ فاروقیہ کی ہائی ایس وین پر دو موٹر سائیکل سوار دہشت گردوں کی فائرنگ سے تین اساتذہ شیخ الحدیث سمیت پانچ افراد ہلاک اور چار زخمی ہو گئے۔ جبکہ بعد میں علاقے میں ہونے والی ہنگامہ آرائی اور فائرنگ کے نتیجے میں مزید ایک درجن افراد زخمی ہو گئے۔ ڈی ایس پی کی گاڑی اور پولیس کی موبائل گاڑیوں سمیت ۲۰ گاڑیوں کو نذرِ آتش کر دیا گیا ۔ مسلح افراد نے ایدھی ٹرسٹ کی ایمبولینسیں چھین لیں۔ ایک مال گاڑی پر حملہ کیا گیا۔ ایک پٹرول پمپ تباہ کیا گیا۔ ہنگاموں کے نتیجے میں کاروبارِ زندگی مفلوج ہو گیا۔ دکانیں اور ہوٹل بند ہو گئے۔ لوگ گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے۔ مین شاہراہِ فیصل پر بھی ٹریفک کی آمد و رفت معطل ہو گئی جس کی وجہ سے ائیر پورٹ سے آنے اور جانے والے مسافروں کو سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ ہنگامہ آرائی جنازے کی روانگی کے وقت مزید شدت اختیار کر گئی ۔ جلوس کے شرکا نے ۲ سینماؤں کو آگ لگا دی جس کے نتیجے میں وہاں کھڑی ہوئی آٹھ گاڑیاں اور دو موٹر سائیکلیں بھی جل گئیں۔ اس کے علاوہ ایک آئس کریم پارلر اور ایک دکان کو بھی آگ لگائی گئی جس سے قریب واقع مسجدِ رہگزر کو بھی نقصان پہنچا۔ جلوس کے شرکا نے ایک تھانے پر حملے کی بھی کوشش کی اور ایک ڈسپنسری کو آگ لگانے کے علاوہ ۲ بینکوں پر پتھراؤکیا۔ ‘‘(روزنامہ ’’نواے وقت‘‘ ، ۲۹ جنوری ۲۰۰۱)

ظلم و زیادتی کے خلاف احتجاج ہر انسان کا حق ہے ،لیکن وہ احتجاج کہاں کا احتجاج ہے جو بجائے خود ظلم و زیادتی کا عنوان بن جائے۔ہمارا معاشرہ ایک کھلا معاشرہ ہے۔ یہاں اظہارِ رائے پر کوئی پابندی ہے نہ نقد و جرح پر۔ اپنا احتجاج عوام اور حکومت تک پہنچانے کے لیے اخبارات و جرائد کو استعمال کیا جا سکتا ہے ، الیکٹرانک میڈیا کے ذرائع بروے کار لائے جا سکتے ہیں ، سیمینار ، جلسے، جلوس اور ریلیاں منعقدکی جا سکتی ہیں۔اس سب کچھ کے ہوتے ہوئے ہمارے عوام نہ جانے کیوں توڑ پھوڑ اور ہنگامہ آرائی ہی کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہمارے عوام ردِ عمل کی ایک خاص نفسیات میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ انھیں اشتعال دلانے اورآپے سے باہر کرنے کے لیے کبھی تردد نہیں کرنا پڑتا ۔ کسی کٹھن صورتِ حال میں تحمل اور بردباری تو دور کی بات ہے ، کوئی معمولی سا واقعہ بھی ان کی آتشِ جذبات کو انگیخت کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔
ان سادہ لوحوں سے کوئی یہ پوچھے کہ پانچ انسانی جانوں کا نقصان تو خیر تمھارا نقصان تھا ہی، مگر تمھارے ہاتھوں جلنے والی گاڑیوں کا نقصان کس کا نقصان ہے؟ عمارتوں کی تباہی کس کی تباہی ہے؟ بیسیوں گھنٹوں کے لیے کاروبارِ زندگی کا تعطل کس کا خسارہ ہے؟ ان سوالوں کے دو ہی جواب دیے جا سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ اب ہمارے عوام بے حسی کی ایسی کیفیت میں مبتلا ہو گئے ہیں کہ وہ اپنے ملک اور اپنے ہم وطنوں کے نقصان کو اپنا نقصان سمجھنے ہی سے قاصر ہیں اور دوسرا یہ کہ وہ اس قدر جذباتی ہو گئے ہیں کہ غم و غصے کی حالت ان کے حواس کو بے قابو اور ان کی عقل کو ماؤف کر دیتی ہے۔جواب اگر پہلا ہے تو پھر نہ کوئی گلہ ہے اور نہ کوئی سوال ۔ لیکن اگر دوسرا جواب ہے تو پھر ایسا کیوں نہیں ہوتا کہ لوگ غم و اندوہ کی کیفیت میں مبتلا ہو کر کبھی اپنا ہی گھر جلا ڈالیں، کسی وقت سراپا احتجاج ہو کراپنی ہی دکان کو نذرِ آتش کر دیں، کسی موقع پر مشتعل ہو کر اپنی ہی گاڑی کو تباہ و برباد کر دیں، کسی کے دکھ درد میں شریک ہونے کے لیے اپنے ہی بیوی بچوں کو پیٹ ڈالیں۔ وہ اگر ایسا کریں گے تو یہ بھی سراسر غلط ہو گا ، مگر اس کے بعد وہ جذباتی ، دیوانے اور مجنون تو کہلائیں گے ، لیکن انھیں ظالم، حاسد اور فتنہ پرداز کوئی نہیں کہہ سکے گا۔

-----------------------------

 

بشکریہ سید منظور الحسن
ماہنامہ اشراق مارچ 2001