جوابی بیانیہ: مولانا مفتی منیب الرحمٰن کے تاثرات کا جائزہ - سید منظور الحسن

جوابی بیانیہ: مولانا مفتی منیب الرحمٰن کے تاثرات کا جائزہ

 جناب جاوید احمد غامدی گذشتہ بیس پچیس سالوں سے اِس بات پر زور دے رہے ہیں کہ مذہبی انتہا پسندی کا اصل سبب وہ فکر ہے جو ہمارے مدارس میں پڑھایا جاتا ہے اور جسے انتہا پسند مذہبی جماعتیں اپنے اقدامات کی بنیاد بناتی ہیں۔اُن کے نزدیک یہ فکر سیاست، دعوت اور جہاد کے حوالے سے قرآن و حدیث کی بعض غلط تعبیرات کا نتیجہ ہے ، لہٰذا جب تک اِس کی غلطی واضح نہیں ہو جاتی اور اِس کے مقابل میں اسلام کے صحیح فکر کو پیش نہیں کر دیا جاتا ، انتہا پسندی سے چھٹکارا پانا ممکن نہیں ہے۔اپنے فہم کے مطابق دین کے صحیح فکر کو اُنھوں نے اپنی کتاب ’’میزان‘‘ میں تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ ’’اسلام اور ریاست ایک جوابی بیانیہ‘‘ اُسی کے بعض مباحث کا خلاصہ ہے۔ اِس میں اُنھوں نے دعوت، جہاد،تکفیر، ارتداداور نفاذ شریعت جیسے مذہبی اور ریاست، قومیت، جمہوریت اور شہریت جیسے سیاسی موضوعات کے حوالے سے رائج مذہبی بیانیے کے مقابل میں ایک جوابی بیانیہ (counter narrative) پیش کیا ہے۔

دو سال قبل جب یہ مضمون اخبارات و جرائد میں شائع ہوا تو مفتی تقی عثمانی، مفتی منیب الرحمٰن، مولانا زاہدالراشدی، مولانا حنیف جالندھری اور علامہ ابتسام الٰہی ظہیر جیسے ممتاز علماے کرام نے اِس کے بعض نکات پر تنقیدی مضامین تحریر کیے۔ غامدی صاحب نے اِن تنقیدوں کے جواب میں چندتوضیحی مضمون لکھ کر اپنے موقف کی وضاحت کی ۔ دو مختلف نقطہ ہاے نظر کے یہ مضامین ملک کے مذہبی، سیاسی اور صحافتی حلقوں میں کچھ عرصہ تک زیر بحث رہے اور بالآخر تاریخ کے اوراق کا حصہ بن گئے۔

گذشتہ دنوں جب اِس مکالمے کی بازگشت اقتدار کے ایوانوں سے بلند ہوئی اور وزیر اعظم پاکستان نے ایک متبادل بیانیے کی ضرورت کا اظہار کیا تو ایک مرتبہ پھر یہ موضوع اہمیت اختیار کر گیا۔ اِسی ضمن میں ایک ٹی وی پروگرام میں بذریعہ فون مولانا مفتی منیب الرحمٰن اور جناب جاوید احمد غامدی سے یہ استفسار کیا گیاکہ انتہا پسندی سے نجات کے لیے متبادل بیانیہ تشکیل دینا ریاست کی ذمہ داری ہے یا علما کی اور ریاست پاکستان کو اِس معاملے میں کیا اقدامات کرنے چاہییں؟ اِس کے جواب میں دونوں حضرات نے مختصر طور پر اپنے اپنے موقف کا اظہار کیا۔غامدی صاحب نے کہا کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ جن بنیادی تصوارت پر ہمارا مذہبی فکر کھڑا ہے،اُنھیں کوئی موضوع بحث بنانے کے لیے تیار نہیں ہے۔ مثلاًیہ کہ کیا پاکستان ایک قومی ریاست ہے اور قومی ریاست اسلام کی رو سے جائز ہے؟ کیا مسلمانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ دنیا میں خلافت کے نام سے ایک ہی حکومت قائم کریں؟ کیا مسلمانوں کو شرک اور کفر کو دنیا سے مٹانے پر مامور کیا گیا ہے؟ مسلمانوں کا غیر مسلموں کے ساتھ کیا معاملہ ہے، اُن کے ساتھ مل جل کر رہنا ہے یا برسر جنگ ہو کر رہنا ہے؟لوگوں پر دین کے نفاذ کا کیا مطلب ہے،کیا اِس کا یہ مطلب ہے کہ تمام اخلاقی معاملات میں دین کے احکام کو ریاست کی طاقت سے لوگوں پر لاگو کر دیا جائے؟ یہ وہ سوال ہیں جن کا جواب ملنا ضروری ہے۔ فکری سطح پر تو اِن کا جواب علما ہی کو دینا چاہیے، لیکن اگر وہ نہ دیں تو پھر یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ آگے بڑھے اور اِس معاملے میں اپنا نقطۂ نظر واضح کرے۔اِس کے علاوہ اُ نھوں نے ریاستی سطح پردو اقدامات کو ضروری قرار دیا: ایک یہ کہ تمام بچوں کے لیے ابتدائی ۱۲ سال کی تعلیم عمومی (general) اور وسیع بنیاد (broad based) ہونی چاہیے اور دوسرے یہ کہ جامع مسجدکا انتظام ریاست کے کنٹرول میں ہونا چاہیے۔ اُنھوں نے کہا کہ جو ریاست یہ دو نسبتاً آسان کام کرنے کی ہمت نہیں کر سکی، اُس سے یہ توقع کیسے کی جا سکتی ہے کہ وہ متبادل بیانیہ پیش کرے اور لوگوں کو یہ بتائے کہ قومی ریاست قائم کرنا جائز ہے اور شرک، کفر اور ارتداد کے خلاف جنگ و جدال اسلام کا مطالبہ نہیں ہے!

جناب جاوید احمد غامدی کی یہ وہ گفتگو ہے جس کے بعض اجزا کو مفتی منیب الرحمٰن صاحب نے اپنے کالم کا موضوع بنایا ہے اور ’’علامہ جاوید احمد غامدی کا بیانیہ‘‘ کے زیر عنوان دو اقساط پر مشتمل ایک تنقیدی مضمون تحریر کیا ہے۔ مولانا کا یہ مضمون ایک الزامی جواب ہے جس میں غامدی صاحب کے تجزیے، موقف اور استدلال پر اصولی بحث کے بجاے متعلق اور غیر متعلق واقعاتی شواہد پیش کر نے پر اکتفا کی گئی ہے اور بعض ایسے نتائج اخذ کیے گئے ہیں جوغامدی صاحب کے موقف کے بالکل برعکس ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی شخص اِس مضمون کو غامدی صاحب کی گفتگو اور تحریر کے تناظر میں پڑھے تو وہ بادی النظر میں اِس تاثر کا شکار ہو جاتا ہے کہ مفتی صاحب نے غامدی صاحب کے موقف کو پڑھے، سنے اور سمجھے بغیر ہی اِس پر تبصرہ ارشاد فرما دیا ہے ۔

مفتی صاحب نے غامدی صاحب کی چار باتوں کو موضوع تنقیدبنایا ہے: ایک یہ کہ پاکستان کوئی مذہبی ریاست نہیں، بلکہ ایک قومی ریاست ہے، دوسرے یہ کہ خلافت کے نام سے مسلمانوں کی ایک حکومت کا قیام کوئی دینی ذمہ داری نہیں ہے، تیسرے یہ کہ دینی تعلیم کے مدارس میں بچوں کو اس وقت داخل کرنا چاہیے جب وہ ۱۲ سال کی عمومی تعلیم حاصل کر چکے ہوں اور چوتھے یہ کہ پاکستان کی جامع مساجد ریاست کے کنٹرول میں ہونی چاہییں۔

آئیے اِن چاروں نکات کے بارے میں غامدی صاحب کے موقف اور اُس پر مفتی صاحب کی تنقید کا جائزہ لیتے ہیں۔

قومی ریاست کے حوالے سے غامدی صاحب نے اپنی گفتگو میں یہ سوال اٹھایا ہے کہ کیا پاکستان ایک قومی ریاست ہے اور کیا قومی ریاست اسلام کی رو سے جائز ہے اور اِس حوالے سے اپنے جوابی بیانیے میں لکھا ہے:

’’اسلام کی دعوت اصلاً فرد کے لیے ہے۔ وہ اُسی کے دل و دماغ پر اپنی حکومت قائم کرنا چاہتا ہے۔ اُس نے جو احکام معاشرے کو دیے ہیں، اُس کے مخاطب بھی درحقیقت وہ افراد ہیں جو مسلمانوں کے معاشرے میں ارباب حل و عقد کی حیثیت سے اپنی ذمہ داری پوری کر رہے ہوں۔ لہٰذا یہ خیال بالکل بے بنیاد ہے کہ ریاست کا بھی کوئی مذہب ہوتا ہے اور اُس کو بھی کسی قرارداد مقاصد کے ذریعے سے مسلمان کرنے اور آئینی طور پر اِس کا پابند بنانے کی ضرورت ہوتی ہے کہ اُس میں کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بنایا جائے گا۔‘‘ (مقامات ۱۹۶)

مفتی منیب الرحمٰن صاحب کو اگر اِس موقف پر تنقید مقصود تھی تو اُنھیں بس اِس ایک بات کو قرآن و سنت سے ثابت کرنا تھا کہ اسلام کی رو سے جس طرح فرد کا مذہب ہوتا ہے، اُسی طرح ریاست کا بھی مذہب ہوتا ہے ۔ وہ اگر یہ ثابت کر دیتے تو غامدی صاحب کے موقف کی اساس ہی ختم ہو جاتی، مگر اُنھوں نے اِس کے بجاے تحریک پاکستان کے بعض شواہد اور دستور پاکستان کی بعض شقوں کو بطور دلیل پیش کیا ہے۔ اُن کے جملے ملاحظہ کیجیے:

’’ہند کی تقسیم کا مطالبہ مسلمانوں نے جداگانہ مسلم قومیت کی بنیاد پر کیا تھا، اگرچہ آج کل بعض دانش ور اسے متنازع بنا رہے ہیں۔ اِس لیے یہ حقیقت تھی یا فریب، بہرصورت نعرہ تو یہی لگایا گیا تھا: پاکستان کا مطلب کیا: ’’لاالٰہ الا اللہ‘‘ اور آج بھی مقبوضہ کشمیر میں تحریک حریت کشمیر کے رہنماؤں کو ہم نے ٹیلی ویژن پر بارہا یہ نعرہ لگاتے ہوئے سنا ہے: ’’پاکستان سے رشتہ کیا: لا الٰہ الا اللہ‘‘ ... تحریک آزادی کی آدرش اور ہمارے دستوری میثاق کی رو سے پاکستان ایک اسلامی جمہوری ریاست ہے ... اگر علامہ جاوید غامدی دستور پاکستان کا مطالعہ فرمائیں، تو اس میں ریاست کو قرآن وسنت کے مطابق قانون سازی کا پابند کیا گیا ہے ۔ پس اگر کوئی سیاسی جماعت جمہوری طریقے سے نفاذ اسلام یا نفاذ شریعت کا مطالبہ کرتی ہے تو یہ دستور پاکستان کا تقاضا ہے۔‘‘ (روزنامہ دنیا، زاویۂ نظر: علامہ جاوید احمد غامدی کا بیانیہ ۱۸ مارچ ۲۰۱۷ء)

یہ اصول کے مقابلے میں واقعے سے استدلال ہے جسے علمی لحاظ سے درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ ایسی ہی بات ہے کہ ایک شخص کہے کہ امامت کا نظریہ قرآن وحدیث کے منافی ہے اوردوسرا اِس کے رد میں فقہ جعفریہ کی کتابوں سے حوالے پیش کر دے یا ایک مسلمان یہ دعویٰ کرے کہ غلامی خلاف اسلام ہے اور کوئی مستشرق اِس کی تردید میں خلافت راشدہ کے زمانے سے غلامی کے شواہد سامنے لے آئے۔ غامدی صاحب قرار داد مقاصد اور دستور پاکستان کی مذکورہ دفعات ہی پر تو تنقید کر رہے ہیں اور مولانا اُنھی کو بنیاد بنا کر اُن کی بات کو غلط ثابت کر رہے ہیں۔ غالباً یہی وہ اسلوب بحث ہے جسے منطق کی اصطلاح میں دوری استدلال سے تعبیر کیا جاتا ہے۔برسبیل تنزل اگر اِن دلائل کو قبول بھی کر لیا جائے تب بھی دینی استدلا ل کی سیاسی استدلال سے تردید کا مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے جسے مولانا سمیت کوئی مسلمان بھی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہو سکتا۔

ریاست پاکستان کے بارے میں غامدی صاحب کا موقف یہ ہے کہ یہ نہ اُس طرح کی مذہبی ریاست ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے جزیرہ نماے عرب میں قائم کی تھی اور جس میں کسی غیر مسلم کو شہریت کا حق حاصل نہیں تھا اور نہ یہ کسی فرد یا گروہ کی مقبوضہ ریاست ہے جس میں بادشاہ یا حکمران کا مذہب ہی ریاست کا مذہب قرار پاتا ہے۔ اِس کا شمار جدید دور کی قومی ریاستوں میں ہوتا ہے جو بین الاقوامی معاہدوں کی بنا پر قائم ہوتی ہیں ۔ اِن میں قومیت کی اساس رنگ و نسل یا نظریہ اور مذہب نہیں ، بلکہ ملک ہوتا ہے۔ چنانچہ ہندوستان میں رہنے والے مسلمان ہندوستانی کہلاتے ہیں اور شہریت کے معاملے میں ہندوؤں کے مساوی حقوق کے حامل ہوتے ہیں اور پاکستان میں رہنے والے ہندو پاکستانی کہلاتے ہیں اور ملک کے مسلمان باشندوں کی طرح اول درجے کے شہریوں میں شمار ہوتے ہیں۔ہندوستانی ہونے سے نہ اُن کے مسلمان ہونے پر حرف آتا ہے اور نہ پاکستانی ہونے سے اِن کے ہندو ہونے پر۔ اُن کے نزدیک یہی وہ حقیقت ہے جسے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے پہلی دستور ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے اِن الفاظ میں بیان کیا تھا:

’’اب ہمیں اِس بات کو ایک نصب العین کے طور پر اپنے پیش نظر رکھنا چاہیے اور پھر آپ دیکھیں گے کہ جیسے جیسے زمانہ گزرتا جائے گا نہ ہندو ہندو رہے گا، نہ مسلمان مسلمان۔ مذہبی اعتبار سے نہیں، کیوں کہ یہ ذاتی عقائد کا معاملہ ہے، بلکہ سیاسی اعتبار سے اور ایک مملکت کے شہری کی حیثیت سے۔‘‘ (قائد اعظم: تقاریر و بیانات ۴/ ۳۵۹)

اِس تفصیل سے واضح ہے کہ غامدی صاحب کے نزدیک مسلم تشخص اور پاکستانی تشخص نہ باہم مغائر ہیں اور نہ لازم و ملزوم۔ ایک مسلمان، مسلمان ہوتے ہوئے جس طرح عرب بھی ہو سکتا ہے اور امریکی ، ایرانی اور افغانی بھی ہو سکتا ہے، اُسی طرح پاکستانی بھی ہو سکتا ہے ، لیکن پاکستانی ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ لازماً مسلمان بھی ہو گا۔ پاکستان کے مسلمان مذہبی اعتبار سے تقسیم ہند سے پہلے بھی مسلمان تھے اور بعد میں بھی مسلمان رہے۔ تاہم ، قومی اعتبار سے وہ پہلے ہندوستانی تھے اور بعد میں پاکستانی ہو گئے۔ چنانچہ غامدی صاحب کے موقف سے اِس طرح کا تاثر قائم کرنا صحیح نہیں ہے کہ وہ تحریک پاکستان کے تناظر میں دو قومی نظریے کو درست نہیں سمجھتے ۔ ایسا ہر گز نہیں ہے ، وہ مذہبی تشخص کی بنیاد پر جداگانہ قومیت کے تصور اور اُس کے نتیجے میں علیحدہ وطن کے مطالبے کو بالکل جائز قرار دیتے ہیں۔ البتہ ، وہ اِسے ایک خالص سیاسی مطالبہ سمجھتے ہیں جس کا دین و شریعت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ چنانچہ اُن کے نزدیک یہی وجہ ہے کہ نہ بانی پاکستان نے اِسے دین کے مطالبے کے طور پر پیش کیا ہے اور نہ کانگرس کے مسلمان علما نے اِسے شریعت کے منافی قرار دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’... تحریک پاکستان کے زمانے میں اگر مسلمانوں کا اصرار تھا کہ وہ ہندوؤں کے مقابل میں الگ قوم ہیں اور اِسی بنیاد پر ہندوستان میں اپنے لیے الگ ملک کا مطالبہ کرتے ہیں تو اِس میں بھی کوئی غلطی نہیں تھی اور پاکستان بننے کے اگلے ہی دن اگر اُنھوں نے اپنے لیے پاکستانی قومیت کا اعلان کر دیا تو دین و شریعت کی رو سے اِس پر بھی کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔ سیاسی نقطۂ نظر سے تو کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ اُس کے نزدیک مولانا ابوالکلام آزاد اور قائداعظم محمد علی جناح میں سے ایک کا موقف صحیح اور دوسرے کا غلط تھا اور ہم اُس سے اتفاق یا اختلاف بھی کر سکتے ہیں، لیکن مذہبی نقطۂ نظر سے دونوں کے موقف پر کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ مولانا ابوالکلام آزاد کے موقف پر قائد اعظم نے بھی اِس لحاظ سے کبھی کوئی اعتراض نہیں کیا۔‘‘ (مقامات۲۲۳)

یہ ریاست اور اُس کی قومی شہریت کے حوالے سے جناب جاوید احمد غامدی کا موقف ہے کہ ان کو مذہبی تشخص کا حامل نہیں ہوناچاہیے، لیکن جہاں تک حکومت کا تعلق ہے تو اگر وہ مسلمانوں کی منتخب حکومت ہے تو وہ نہ صرف اسلامی تشخص کی آئینہ دارہے ، بلکہ اُن تمام احکام کی پابندی کی مکلف ہے جنھیں شریعت نے اُس کے لیے ضروری قرار دیا ہے ۔ یعنی اُس کا نظام ’اَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ‘ کے اصول پر مبنی ہو گا۔ وہ اپنے مسلمان شہریوں سے نماز کا مطالبہ کرے گی اور جمعہ اور عیدین کی نمازوں کا خود اہتمام کرے گی، زکوٰۃ کا نظام قائم کرے گی، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ دار ہو گی اور اِس مقصد کے لیے ادارے قائم کرے گی، ریاست کے مسلمان شہریوں پر اسلام کے حدود و تعریزات کو نافذ کرے گی، اسلام کی دعوت دنیا تک پہنچانے کے لیے اپنے وسائل بروے کار لائے گی اور اگر اِس دعوت میں دنیا کی کوئی طاقت رکاوٹ پیدا کرے گی تواُس کو اپنی استطاعت کے مطابق دور کرے گی اور اِس مقصد کے لیے اگر جہاد و قتال کی ضرورت پیش آ جائے تو اُس سے بھی دریغ نہیں کرے گی۔ غامدی صاحب نے دین و شریعت کے اِن تمام نکات کو اپنے جوابی بیانیے میں پوری صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے اورتاکید کے طور پر سورۂ مائدہ کی یہ تنبیہ بھی نقل کی ہے کہ جو حکمران اِن شرعی احکام کو نافذ نہیں کریں گے، وہ اللہ کے حضور ظالم، فاسق اور کافر قرار پائیں گے۔ لکھتے ہیں:

’’نظم اجتماعی سے متعلق یہ شریعت کے احکام ہیں اور اِس تنبیہ و تہدید کے ساتھ دیے گئے ہیں کہ جو لوگ خدا کی کتاب کو مان کر اُس میں خدا کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلے نہیں کرتے، قیامت کے دن وہ اُس کے حضور میں ظالم، فاسق اور کافر قرار پائیں گے۔‘‘ (مقامات ۲۰۸)

خلافت کے بارے میں غامدی صاحب کا موقف یہ ہے کہ یہ ایک سیاسی اصطلاح ہے۔ اِسے نہ دینی اصطلاح قرار دیا جاسکتا ہے اور نہ مسلمانوں کو اِس کامکلف ٹھہرایا جا سکتاہے کہ وہ خلافت کے نام پر دنیاکے تمام مسلمانوں کی ایک حکومت قائم کرنے کی سعی کریں۔ اُن کے نزدیک دنیا بھر کے مسلمانوں کا کسی ایک ریاست یا ایک حکومت کے تحت جمع ہونا ایک محمود خواہش ہو سکتی ہے اور اِس کے لیے پرامن جدوجہد بھی بالکل بجا ہے، لیکن اِس تمنا کو ایک دینی مطالبے کے طور پر پیش کرنادرست نہیں ہے۔ اُنھوں نے بیان کیا ہے:

’’جن ملکوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے، وہ اپنی ایک ریاست ہاے متحدہ قائم کر لیں۔ یہ ہم میں سے ہر شخص کا خواب ہو سکتا ہے اور ہم اِس کو شرمندۂ تعبیر کرنے کی جدوجہد بھی کر سکتے ہیں، لیکن اِس خیال کی کوئی بنیاد نہیں ہے کہ یہ اسلامی شریعت کا کوئی حکم ہے جس کی خلاف ورزی سے مسلمان گناہ کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ ہرگز نہیں، نہ خلافت کوئی دینی اصطلاح ہے اور نہ عالمی سطح پر اِس کا قیام اسلام کا کوئی حکم ہے۔‘‘ (مقامات۱۹۷)

مفتی منیب الرحمٰن صاحب نے اِس موقف پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: ’’نظریاتی اعتبار سے خلافت کی بات کرنا نہ معیوب ہے اور نہ ممنوع۔‘‘ سوال یہ ہے کہ غامدی صاحب نے خلافت یا مسلمانوں کی متحدہ ریاست کو کب معیوب یا ممنوع قرار دیا ہے؟ اُن کی بات فقط اِس قدر ہے کہ یہ دین و شریعت کا تقاضا نہیں ہے۔مفتی صاحب نے دلیل کے طور پر صحیح مسلم کی ایک حدیث بھی نقل کی ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ ’’میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، میرے بعد خلفا ہوں گے۔‘‘ اِس حدیث کے بارے میں غامدی صاحب پہلے ہی اپنا موقف تحریر کر چکے ہیں کہ اِس سے مسلمانوں کی واحد متحدہ حکومت کاحکم اخذ کرنا حدیث کے مدعا سے تجاوز ہے۔ مولانا اگر اِس معاملے میں غامدی صاحب کے تصور کو غلط اور رائج تصور کو صحیح سمجھتے ہیں تو اُنھیں واضح طور پر اِس کا اظہار کرنا چاہیے اور کسی اینچ پینچ کے بغیر یہ بتانا چاہیے کہ مسلمانوں کی عالم گیر خلافت کا قیام قرآن و سنت کے نصوص پر مبنی ایک دینی اور شرعی مطالبہ ہے۔

جامع مسجد کے بارے میں غامدی صاحب کا موقف ہے کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں جمعہ اور عیدین کی نمازوں کا اہتمام ہوتا ہے۔ اِن نمازوں کا انتظام و انصرام چونکہ حکومت کی ذمہ داری ہے ، اِس لیے اِن مساجد کے معاملات کو حکومت کے کنٹرول میں ہونا چاہیے۔ اپنے جوابی بیانیے میں اُنھوں نے لکھا ہے:

’’نماز جمعہ اور نماز عیدین کا اہتمام حکومت کرے گی۔ یہ نمازیں صرف اُنھی مقامات پر ادا کی جائیں گی جو حکومت کی طرف سے اُن کے لیے مقرر کر دیے جائیں گے۔ اِن کا منبر حکمرانوں کے لیے خاص ہو گا۔ وہ خود اِن نمازوں کا خطبہ دیں گے اور اِن کی امامت کریں گے یااُن کی طرف سے اُن کا کوئی نمایندہ یہ ذمہ داری ادا کرے گا۔ ریاست کے حدود میں کوئی شخص اپنے طور پر اِن نمازوں کا اہتمام نہیں کر سکے گا۔‘‘ (مقامات۲۰۶)

اِس سے واضح ہے کہ غامدی صاحب شریعت کی رو سے تین باتوں کو ضروری قرار دیتے ہیں:اول یہ کہ جمعہ اور عیدین کی نمازوں کا اہتمام حکومت کی ذمہ داری ہے۔ دوم یہ کہ یہ نمازیں حکومت کے زیر انتظام جامع مساجد میں یا دیگر مقررہ مقامات ہی پر ادا ہونی چاہییں ۔ سوم یہ کہ ان نمازوں میں خطبے کا فریضہ حکمران یا ان کا نمایندہ انجام دے۔

مفتی منیب الرحمٰن صاحب کے نزدیک غامدی صاحب کا یہ موقف اگر خلاف شریعت تھا تو اُن کو بدلائل یہ بیان کرنا چاہیے تھا کہ شریعت کی رو سے جمعہ اور عیدین کی نمازوں کا اہتمام حکومت کی ذمہ داری نہیں، بلکہ علما کی ذمہ داری ہے۔ اِن کا اہتمام کسی گلی محلے میں کوئی بھی شخص کر سکتا ہے اور اِن میں خطبہ دینے کے ذمہ دار حکمران نہیں،بلکہ علماے کرام ہیں۔ مفتی صاحب نے اِن میں سے کوئی بات کہنے کے بجاے یہ فتویٰ صادرفرمایا ہے کہ غامدی صاحب مذہب کو ریاست کی ملازمت میں لا ناچاہتے ہیں اور پاکستان کوایک سیکولر ریاست بنانا چاہتے ہیں۔ اُن کے الفاظ ملاحظہ کیجیے:

’’علامہ صاحب کی خواہش یہ ہے: ’’مذہب ریاست کی ملازمت میں آ جائے، ظل الٰہی کے خطبے پڑھے جائیں اور راوی ہر سُو چین لکھے‘‘۔ ہمیں بھی معلوم ہے کہ ملائشیا، عرب ممالک، ترکی حتیٰ کہ وسطی اشیا میں بھی مذہب ریاست کے کنٹرول میں ہے، تو پھر سوال یہ ہے کہ القاعدہ اور داعش نے تو عرب ممالک میں جنم لیا ہے، جہاں مذہب ریاست کی ملازمت میں ہے ، خطبے دربار سرکار سے لکھے ہوئے آتے ہیں ، پھر یہ انہونی کیسے ہو گئی، ... ہماری نظر میں مذہب کو ریاست کے کنٹرول میں لینے کی خواہش نہایت سطحی ہے۔جناب غامدی کے موقف میں ایک تضاد یہ ہے کہ وہ ریاست کو سیکولر بنانا چاہتے ہیں اور پھر مذہب کو سیکولر ریاست کی ملازمت میں رکھنا چاہتے ہیں، یہ بیّن تضاد ہے، کیونکہ مذہب اور سیکولرازم دو متضاد چیزیں ہیں۔... علامہ غامدی صاحب کی مذہب کو ریاست کا ملازم بنانے کی خواہش بجا، لیکن موجودہ حالات میں میری اور ان کی زندگی میں پوری ہوتی نظر نہیں آ رہی۔‘‘ (روزنامہ دنیا، زاویۂ نظر: علامہ جاوید احمد غامدی کا بیانیہ ۲۰ مارچ ۲۰۱۷ء)

سوال یہ ہے کہ مفتی منیب الرحمٰن صاحب کیا امام اعظم ابو حنیفہ، امام سرخسی، امام احمد رضا خاں ، یا الدرالمختار، الہدایہ اور فتاویٰ عالمگیری کے مولفین کے لیے بھی یہی حکم لگاتے ہیں کہ یہ حضرات بھی مذہب کو حکومت کا ملازم بنانا چاہتے تھے؟ جمعہ مصر جامع میں منعقد ہو گا اور اس کا منبر حکمرانوں کے لیے خاص ہو گا ، یہ فقط غامدی صاحب کا موقف نہیں ہے، امام ابو حنیفہ اوردیگر ائمۂ احناف اسی موقف کے قائل ہیں۔ اُنھوں نے اِسے جمعے کے لازمی شرائط میں شامل کیا ہے۔ ائمۂ ثلاثہ تو اِس معاملے میں مختلف راے رکھتے ہیں، مگر فقہ حنفی کا معلوم و معروف اور مسلمہ موقف یہی ہے ۔ اِس بات کا اندازہ فقہ حنفی کے ایک جید عالم مولانا زاہد الراشدی کے درج ذیل اقتباس سے کیا جا سکتا ہے ۔ یہ اقتباس ’’برصغیر کے فقہی اور اجتہادی رجحانات کا ایک جائزہ‘‘ کے زیر عنوان ان کے ایک مفصل مضمون سے اخذ کیا گیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’۱۸۵۷ء کے بعد ایک علمی مسئلہ یہ درپیش ہوا کہ حنفی فقہ میں جمعہ کی نماز اجتماعی طور پر ادا کرنے کے لیے یہ شرط ہے کہ امام حکومت کی طرف سے مقرر کردہ ہوجبکہ دہلی کے اقتدار پر تاج برطانیہ کا قبضہ ہو جانے کے بعد کوئی مجاز حکومت موجود نہیں رہی تھی جو امام و خطیب کا تقرر کر سکے یا جس کا باضابطہ نمائندہ نماز جمعہ میں خطبہ و امامت کا فریضہ سرانجام دے سکے تو اب نماز جمعہ کی ادائیگی کیسے ہو گی؟ اس پر علماے کرام نے اجتماعی طور پر یہ راستہ اختیار کیا کہ کسی امام پر مسلمانوں کی اکثریت کی رضا مندی کو اسلامی حکومت کی طرف سے تقرری کا قائم مقام قرار دیتے ہوئے اس شرط میں لچک پیدا کی اور جمعۃ المبارک کو ساقط کرنے کے بجائے اس کا تسلسل باقی رہنے دیا۔ یہ بلاشبہ ایک اجتہادی عمل تھا جو ۱۸۵۷ء کے بعد سامنے آیا جبکہ بعض حلقوں میں اس صورت میں جمعہ کی ادائیگی کے ساتھ احتیاطاً ظہر کی نماز کی ادائیگی کو بھی ضروری سمجھا جاتا ہے۔‘‘ (ماہنامہ الشریعہ، اکتوبر۲۰۱۳ء)

’’جامع مسجد کو ریاست کے کنٹرول میں ہونا چاہیے‘‘ اور ’’نماز جمعہ اور نماز عیدین کا اہتمام حکومت کرے گی‘‘ جیسے غامدی صاحب کے جملوں کو جس طرح ’’علامہ غامدی صاحب کی مذہب کو ریاست کا ملازم بنانے کی خواہش‘‘ سے تعبیر کیا ہے، اِس طرح کسی بھی صاحب علم کی بات کو کوئی بھی معنی پہنائے جا سکتے ہیں۔ مولانا مفتی منیب الرحمٰن کی اپنی تحریر سے ایک مثال پیش خدمت ہے۔ اپنے بیانیے میں بارھویں نکتے کے تحت اُنھوں نے لکھا ہے: ’’مفتی کا کام صرف شرعی حکم بتانا ہے، اِس سے آگے ریاست و حکومت اور عدالت کا دائرۂ اختیار ہے۔‘‘ اگر کوئی شخص اِس بات سے یہ نتیجہ اخذ کرے کہ ’’مفتی منیب الرحمٰن صاحب کی خواہش یہ ہے کہ شریعت ریاست و حکومت اور عدالت کی ملازمت میں آ جائے‘‘ تو مفتی صاحب اپنے منصب کے لحاظ سے اُس کے بارے میں کیا شرعی حکم ارشاد فرمائیں گے؟

پاکستان کے مذہبی مدارس کے حوالے سے جناب جاوید احمد غامدی کا موقف یہ ہے کہ یہ مذہبی تعلیم کے اختصاصی ادارے ہیں جو میڈیکل اور انجینئرنگ یونیورسٹیوں کی طرح پانچ سے سات سال تک متعین اور مخصوص میدان میں تعلیم و تربیت کا اہتمام کرتے ہیں ۔ مذہبی علوم و فنون میں اِس طرح کی تعلیم و تربیت مسلمان معاشرے کی ناگزیر ضرورت ہے، مگر مسئلہ یہ ہے کہ اِن مدارس میں طلبا کا داخلہ ابتدائی ۱۲ سال کی عمومی تعلیم کے بغیر ہوتا ہے۔ اِس سے ایک مسئلہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ بچوں کی صلاحیت ، دل چسپی اور افتاد طبع کو جانچے بغیر ہی اُن کے کیرئیر کا فیصلہ کر دیا جاتا ہے۔ دوسرا مسئلہ یہ پیدا ہوتا کہ وہ عمومی تعلیم سے محرومی کی وجہ سے اپنے معاشرے سے کٹ جاتے ہیں اور اُس کی ضرورتوں سے ناواقف رہ جاتے ہیں۔ غامدی صاحب نے لکھا ہے:

’’ہم کسی شخص کو یہ اجازت تو نہیں دیتے کہ بارہ سال کی عمومی تعلیم کے بغیر وہ بچوں کو ڈاکٹر، انجینئر یا کسی دوسرے شعبے کا ماہر بنانے کے ادارے قائم کرے، مگر دین کا عالم بننے کے لیے اِس طرح کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ اِس مقصد کے لیے طلبہ ابتدا ہی سے ایسے مدرسوں میں داخل کر لیے جاتے ہیں، جہاں اُن کے مستقبل کا فیصلہ ہو جاتا ہے۔ قدرت نے، ہو سکتا ہے کہ اُنھیں ڈاکٹر، انجینئر، سائنس دان یا شاعر و ادیب اور مصور بننے کے لیے پیدا کیا ہو، مگر یہ مدارس اُن کی اہلیت، صلاحیت اور ذوق و رجحان سے قطع نظر اُنھیں عالم بناتے اور شعور کی عمر کو پہنچنے کے بعد زندگی کے کسی دوسرے شعبے کا انتخاب کر لینے کے مواقع اُن کے لیے ختم کر دیتے ہیں۔ پھر جن کو عالم بناتے ہیں، بارہ سال کی عمومی تعلیم سے محرومی کے باعث اُن کی شخصیت کو بھی ایک ایسے سانچے میں ڈھال دیتے ہیں جس سے وہ اپنے ہی معاشرے میں اجنبی ہو کر رہ جاتے ہیں۔‘‘ (مقامات۴۰۷)

اس تجزیے کی بنا پر انھوں نے تجویز کیا ہے کہ:

’’طب اور انجینئرنگ کی طرح دینی تعلیم کے اداروں کو بھی اختصاصی تعلیم کے اداروں کی حیثیت سے قومی تعلیمی نظام کا حصہ بنایا جائے۔ نیز پابند کیا جائے کہ بارہ سال کی عمومی تعلیم کے بغیر وہ کسی طالب علم کو اپنے اداروں میں داخل نہیں کریں گے۔ اِن میں سے جو ادارے اعلیٰ تعلیم کے لیے مسلمہ معیارات کے مطابق ہوں، اُن کی ڈگریاں اِن اصلاحات کے بعد بی اے، ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی کے لیے تسلیم کر لی جائیں۔‘‘ (مقامات ۴۰۸)

مذہبی تعلیم کے بارے میں یہ غامدی صاحب کا موقف ہے۔ اِس پر تنقید کرنے کے لیے یہ ثابت کرناضروری ہے کہ تعلیم وتدریس کے مسلمات اور تجربات کی روشنی میں اختصاصی تعلیم سے پہلے ۱۲ سال کی عمومی تعلیم کا طریقہ درست نہیں ہے، صحیح طریقہ وہی ہے جو مذہبی مدارس میں اختیار کیا جاتا ہے ۔چنانچہ مذہبی مدارس کے ساتھ ساتھ میڈیکل کالجوں ، انجینئرنگ یونیورسٹیوں اور دیگر فنی اداروں میں بھی طلبا کو پانچ سال کی عمر میں داخل کرنا چاہیے اور سات آٹھ سال کی اختصاصی تعلیم کے بعد اُنھیں معاشرے کے حوالے کر دینا چاہیے تاکہ وہ لوگوں کی سرجری کر سکیں اور سڑکوں اورپلوں کی تعمیر کی خدمات انجام دے سکیں۔ یہ تفنن طبع کے جملے نہیں ہیں،غامدی صاحب کے موقف کی تردید کے لیے یہی ایک راستہ ہے۔ مگر مفتی صاحب نے اِس کو اختیار کرنے کے بجاے اِن تاثرات کے اظہار کو کافی سمجھا ہے:

’’مدارس کے تین فی صد بچوں کو تو ایک طرف رکھیں، کیا پاکستان میں ریاست نے آج تک یہ انتظام کیا ہے کہ ہر بچہ اسکول جائے اور قوم کے تمام بچوں کو ایک نصاب پر مشتمل اعلیٰ معیاری تعلیم دی جائے ... غریب کا بچہ بالفرض ملک کا سب سے ذہین ترین ہے، کیا یہ تعلیم خرید سکتا ہے، جواب یہ ہے کہ ہر گز نہیں،سو پہلے ازراہِ کرم اس پر بات کیجیے۔ کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ دینی مدارس میں جانے والے چند لاکھ بچے بھی کسی ورک شاپ پر کاکے اور چھوٹے بن کر استاذ کے پھینکے ہوئے سگریٹ کے کش لگائیں اورگالیاں سن کر اخلاق سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں ... غامدی صاحب یہ بتائیں کہ کیا لوگوں کے بچوں کو جبراً دینی مدارس میں لایا جاتا ہے یا وہ اپنی خواہش پر آتے ہیں۔حکومتی تعلیمی اداروں میں تعلیم کا حال کیا ہے، ...عمارت بھی موجود اور رجسٹر رول پر اساتذہ کی طویل فہرست بھی نظر آئے گی، مگر کلاسیں ویران نظر آئیں گی۔‘‘ (روزنامہ دنیا، زاویۂ نظر: علامہ جاوید احمد غامدی کا بیانیہ ۲۰ مارچ ۲۰۱۷ء)

یہ ہے وہ مبلغ تنقید جس پر احباب داد و تحسین کے نذرانے پیش کر رہے ہیں۔ یہ اُن کا حسن طلب ہے کہ اُنھوں نے مفتی منیب الرحمٰن جیسی ملک کی ممتاز علمی شخصیت سے اِس سطح کی تنقید کو کافی سمجھاہے۔

وگرنہ ہم تو توقع زیادہ رکھتے تھے

اِس تاثراتی نقد و جرح کے ساتھ مفتی صاحب نے ایک مسئلے میں غامدی صاحب سے اتفاق اور اُن کے ہم آواز ہونے کا اظہار بھی کیا ہے۔یہ کفر اور شرک کے خلاف برسر جنگ ہونے کا معاملہ ہے۔ اُنھوں نے لکھا ہے :

’’علامہ غامدی کا ایک مطالبہ یہ ہے کہ ریاست واضح طور پر یہ موقف اختیار کرے کہ ’’کفر اور شرک کے خلاف جنگ برپا کرنا اسلام کا مطالبہ نہیں ہے‘‘، ہم اس حوالے سے ان کے ساتھ یک آواز ہیں، کیونکہ یہ فساد کا راستہ ہے اور اسلام کا شعار اصلاح ہے۔‘‘ (روزنامہ دنیا، زاویۂ نظر: علامہ جاوید احمد غامدی کا بیانیہ ۱۸ مارچ ۲۰۱۷ء)

مفتی صاحب نے یہ بات اگر روا روی میں بیان نہیں کی ،بلکہ سوچ سمجھ کر بیان کی ہے اورحالات کے دباؤ میں آ کر کسی وقتی مصلحت کے تحت نہیں کہی، بلکہ پورے عزم اور جذبۂ ایمانی کے ساتھ کہی ہے تو یہ رائج بیانیے سے اُن کی دست برداری کا اعلان ہے، کیونکہ یہ ماننے کے نتیجے میں کہ کفر اور شرک کے خلاف جنگ اسلام کا مطالبہ نہیں ہے، رائج مذہبی بیانیے کی اساس ہی ختم ہو جاتی ہے۔ چنانچہ مفتی صاحب کا یہ اتفاق اگر علمی اور فکری بنیادوں پر ہے تو یقیناً حوصلہ افزا ہے، لیکن اگر اِس کاسبب حالات کی سنگینی ہے تو پھر یہ لائق تشویش ہے، کیونکہ حالات کی تبدیلی اتفاق کو پھر اختلاف میں بدل سکتی ہے۔ لہٰذا اُن کو ایک مرتبہ رک کر یہ سوچ لینا چاہیے کہ وہ رائج مذہبی بیانیے کی کس بات کی تردید کر رہے ہیں اور اِس کے مقابل میں غامدی صاحب کے جوابی بیانیے کی کس بات کے موید ہیں؟

اِس معاملے میں رائج بیانیہ یہ ہے کہ شرک اور کفر کے استیصال کے لیے دنیا پر اسلام کے غلبے کی جدوجہد شریعت کا حکم ہے اور یہ مسلمانوں کا مذہبی فریضہ ہے کہ وہ دعوت و جہاد کا علم اٹھائیں اور اقوام عالم کی سرحدوں پر کھڑے ہو کر یہ اعلان کریں کہ ’’اسلام لاؤ، جزیہ دو یا لڑنے کے لیے تیار ہو جاؤ۔‘‘ گویا دنیا کے غیر مسلم جو اِس بیانیے کی رو سے کافر اور مشر ک ہیں،اگر اسلام قبول نہیں کرتے تو اُن کے لیے زندگی کی گنجایش صرف اِس صورت میں ہے کہ وہ مسلمان ریاست میں ذمی یا محکوم ہو کر رہنے کا فیصلہ کریں۔ مزید یہ کہ اگر کوئی مسلمان دین سے منحرف ہوکر کوئی دوسرا مذہب اختیار کرے تو اُسے محکوم ہو کر بھی زندہ رہنے کا حق نہیں ہے، شریعت میں اُس کے لیے موت کی سزا مقرر ہے جو ہر حال میں اُس پر نافذ ہونی چاہیے۔شرک، کفر ، ارتداد کے معاملے میں رائج مذہبی بیانیہ یہ ہے۔

جناب جاوید احمد غامدی اِس کو ناحق سمجھتے اور دین و شریعت کے خلاف قرار دیتے ہیں ۔ اُن کے نزدیک اِس کی تائید میں پیش کیے جانے والے قرآن و حدیث کے نصوص اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام کے بعض اقدامات کا تعلق اللہ تعالیٰ کے قانون اتمام حجت سے ہے، اسلامی شریعت سے اِن کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہمارے جلیل القدر علما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بحیثیت رسول بعض خصوصی ذمہ داریوں کی تعمیم کر کے یہ نقطۂ نظر مرتب کیا ہے اور کچھ ایسے احکام کو شریعت میں داخل کر دیا ہے جو شریعت کا حصہ نہیں تھے۔ اپنے جوابی بیانیے میں انھوں نے لکھا ہے :

’’شرک، کفر اور ارتداد یقیناً سنگین جرائم ہیں، لیکن اِن کی سزا کوئی انسان کسی دوسرے انسان کو نہیں دے سکتا۔ یہ خدا کا حق ہے۔ قیامت میں بھی اِن کی سزا وہی دے گا اور دنیا میں بھی، اگر کبھی چاہے تو وہی دیتا ہے۔ قیامت کا معاملہ اِس وقت موضوع بحث نہیں ہے۔ دنیامیں اِس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم میں اپنی عدالت کے ظہور کا فیصلہ کر لیتے ہیں تو اُس کی طرف اپنا رسول بھیجتے ہیں۔ یہ رسول اُس قوم پر اتمام حجت کرتا ہے، یہاں تک کہ کسی کے پاس خدا کے حضور میں پیش کرنے کے لیے کوئی عذر باقی نہیں رہتا۔ اِس کے بعد خدا کا فیصلہ صادر ہوتا ہے اور جو لوگ اِس طرح اتمام حجت کے بعد بھی کفر و شرک پر اصرار کریں، اُنھیں اِسی دنیا میں سزا دی جاتی ہے۔ یہ ایک سنت الٰہی ہے جسے قرآن نے اِس طرح بیان فرمایا ہے کہ ’’ہر قوم کے لیے ایک رسول ہے۔ پھر جب اُن کا رسول آ جاتا ہے تو اُن کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دیا جاتا ہے اور اُن پر کوئی ظلم نہیں کیا جاتا۔‘‘ (یونس: ۴۷) اِس کی نوعیت بالکل وہی ہے جو اسمٰعیل علیہ السلام کی قربانی اور واقعۂ خضر میں ہمارے سامنے آتی ہے۔ اِس کا عام انسانوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہم جس طرح کسی غریب کی مدد کے لیے اُس کی اجازت کے بغیر اُس کی کشتی میں شگاف نہیں ڈال سکتے، کسی بچے کو والدین کا نافرمان دیکھ کر اُس کو قتل نہیں کر سکتے، اپنے کسی خواب کی بنیاد پر ابراہیم علیہ السلام کی طرح اپنے بیٹے کے گلے پر چھری نہیں رکھ سکتے، اُسی طرح کسی شخص کو اُس کے شرک، کفر یا ارتداد کی سزا بھی نہیں دے سکتے، الاّ یہ کہ وحی آئے اور خدا اپنے کسی رسول کے ذریعے سے براہ راست اِس کا حکم دے۔ ہر شخص جانتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اِس کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہو چکا ہے۔‘‘(مقامات ۲۰۰)

چنانچہ اُن کے نزدیک شرک،کفر اور ارتداد کے حوالے سے قرآن و حدیث کے احکام کا تعلق زمانۂ رسالت کے مشرکین عرب اور یہود و نصاریٰ سے ہے، جن پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے براہ راست انکار کی پاداش میں عذاب الٰہی نازل کیا گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کفر، شرک اور ارتداد کے مرتکبین اور دنیاکے باقی انسانوں سے اب اِن احکام کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’منکرین حق کے خلاف جنگ اور اس کے نتیجے میں مفتوحین پر جزیہ عائد کر کے انھیں محکوم اور زیردست بنا کر رکھنے کا حق اس کے بعد ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا ہے۔ قیامت تک کوئی شخص اب نہ دنیا کی کسی قوم پر حملہ کر سکتا ہے اور نہ کسی مفتوح کو محکوم بنا کر اُس پر جزیہ عائد کرنے کی جسارت کر سکتا ہے۔‘‘ (میزان ۵۹۹)

اِس ضمن میں یہ بھی ملحوظ رہے کہ مفتی صاحب نے اپنے اتفاق کا اظہار کرتے ہوئے شرک اور کفر کا ذکر تو کیا ہے، مگر ارتداد کا ذکر نہیں کیا، جبکہ غامدی صاحب نے شرک اور کفر ہی کی بات نہیں کی، اِس کے ساتھ ارتداد کی بات بھی کی ہے۔ ٹی وی پروگرام کی گفتگو میں بھی اُنھوں نے اِس کا ذکر کیا ہے اور اپنے جوابی بیانیے میں بھی پوری صراحت کے ساتھ لکھا ہے ۔ چنانچہ مفتی صاحب کو شرک اور کفر کے ساتھ ساتھ ارتداد کے معاملے میں بھی اپنے اتفاق یا اختلاف کا اظہار کرنا چاہیے۔ فکری اعتبار سے تو یہ تینوں مسئلے اہم ہیں، لیکن عملی لحاظ سے ارتداد کا مسئلہ زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمان علما اللہ اور رسول کے انکار اور مشرکانہ عقائد کو توحقیقت واقعہ کے طور پر قبول کررہے ہیں، مگر اِس بات کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ کوئی مسلمان اپنے دین کو چھوڑنے کا فیصلہ کرے۔

خاتمۂ کلام کے طور پرمفتی صاحب کے بعض تبصروں پر تبصرہ بھی بے محل نہ ہو گا۔فرماتے ہیں:

’’علامہ غامدی سے پروگرام اینکر نے سوال کیا: ’’ریاست اپنی ہی ماضی کی پالیسیوں کا شکار (victim) بن جاتی ہے‘‘۔ علامہ صاحب نے اس سوال کا جواب گول کر دیا، یہی سوال مولانا فضل الرحمٰن نے ایک ٹیلی ویژن پروگرام میں کیا: ’’ہمیں بتایا جائے کہ ہمارے مدارس کے بچوں کو ہتھیار کس نے پکڑائے؟‘‘ یہ ایک ملین ڈالر کا سوال ہے، لیکن اس سوال کا جواب دینے کے لیے کوئی تیار نہیں ہے۔ اگر ریاستی اداروں نے یہ کام کیا ہے، تو پھر انھیں سب کچھ معلوم ہو گااور قوم کو سچ بتا دینا چاہیے۔‘‘ (روزنامہ دنیا، زاویۂ نظر: علامہ جاوید احمد غامدی کا بیانیہ ۱۸ مارچ ۲۰۱۷ء)

مولانا کا فرمان بالکل بجا ہے کہ یہ ایک ملین ڈالر کا سوال ہے ، لیکن یہ سوال جتنا ریاستی ادار وں کے لیے اہم ہے، اتنا ہی مذہبی اداروں کے لیے بھی اہم ہے۔قابل غور یہ ہے کہ یہ ہتھیار اُن بچوں کے ہاتھوں میں کیوں نہیں پکڑائے جا سکے جوا سکولوں اور کالجوں میں پڑھتے ہیں، وہ کیوں خود کش بمبار نہیں بن پائے اور جب پشاورکے آرمی پبلک اسکول میں ظلم و بربریت کا بازار گرم کیا گیا تو تب بھی اُنھیں اسلحہ نہیں دیا گیا ، بلکہ اِس کے برعکس اُن کی زبان پر یہ ترانہ جاری کر دیا گیا کہ:

بڑا  دشمن  بنا  پھرتا  ہے  جو  بچوں  سے  لڑتا  ہے

میں ایسی قوم سے ہوں جس کے وہ بچوں سے ڈرتا ہے

اِسی طرح یہ سوال بھی اہم ہے کہ اگر ہم اپنے مذہبی اداروں میں مغربی لباس، آلات موسیقی اور اِس طرح کی دوسری چیزوں کو داخل ہونے سے روک سکتے ہیں تو اسلحے کو کیوں نہیں روک سکتے؟ اصل میں یہی وہ مسئلہ ہے جس کی جانب غامدی صاحب متوجہ کر رہے ہیں ۔ اُن کے نزدیک اِس کا سبب ہمارے مذہبی طبقے کا وہ بیانیہ ہے جو ایک جانب ہمارے بچوں کو انتہا پسندی کے لیے فکری بنیادیں فراہم کرتا ہے، دوسری جانب ریاستی اداروں کے لیے یہ گنجایش پیدا کرتا ہے کہ وہ اپنے ریاستی مقاصدکے لیے اُنھیں استعمال کریں اور تیسری جانب ملک دشمن قوتوں کو یہ موقع دیتا ہے کہ وہ معصوم اور سادہ لوح بچوں کو اپنے مذموم مقاصد کی بھٹی میں جھونک سکیں۔

مفتی صاحب نے سوال کیا ہے کہ غامدی صاحب بتائیں کہ داعش اور القاعدہ کے بارے میں اُن کے اور ہمارے موقف میں کیا فرق ہے؟ اِس سے مولانا کا مقصود غالباً یہ ہے کہ دہشت گردی کی مذمت کے معاملے میں اُن کے اور غامدی صاحب کے موقف میں کوئی فرق نہیں ہے۔ جہاں تک انتہا پسندی کے نتائج کا تعلق ہے تو مولانا کی بات بالکل بجا ہے۔دھماکوں اورخود کش حملوں سے انسانی جانوں کے زیاں پر ہمارے علما کے دل اُسی طرح تڑپتے ہیں جیسے غامدی صاحب یا دیگر محب وطن لوگوں کے تڑپتے ہیں ، لیکن جہاں تک انتہا پسندی کی حقیقت کا تعلق ہے تو غامدی صاحب اور اُن کے ہم عصر علما کے موقف میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ غامدی صاحب انتہا پسند تنظیموں کی فکری اساسات ہی کو غلط قرار دیتے ہیں، جبکہ ہمارے علما اُن کی فکری اساسات کو درست سمجھتے ہوئے اُن کے طریق کار سے اختلاف کا اظہار کرتے ہیں۔غامدی صاحب کے نزدیک یہ عمل کا نہیں، فکر کا مسئلہ ہے، اِس لیے یہ اطوار کوبدلنے سے نہیں، نظریات کی قلب ماہیت سے حل ہو گا۔

تری دعا ہے کہ ہو تیری آرزو پوری

مری  دعا  ہے  تری آرزو بدل جائے

____________

 

بشکریہ دلیل ڈاٹ پی کے
مصنف : سید منظور الحسن
Uploaded on : Apr 11, 2017
8797 View