نظم اجتماعی سے علیحدگی کا حکم

نظم اجتماعی سے علیحدگی کا حکم

 رُوِیَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ رَاٰی مِنْ أَمِیْرِہِ شَیْءًا یَکْرَہُہُ فَلْیَصْبِرْ عَلَیْہِ،

فَإِنَّہُ مَنْ خَرَجَ مِنَ السُّلْطَانِ شِبْرًا وَمَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَۃَ شِبْرًا فَمَاتَ عَلَیْہِ، إِلَّا مَاتَ مَیْتَۃً جَاہِلِیَّۃً وَخَلَعَ رِبْقَۃَ الْإِسْلَامِ مِنْ عُنُقِہِ.
وَرُوِیَ أَنَّہُ قَالَ: مَنْ خَلَعَ یَدًا مِّنْ طَاعَۃٍ لَقِیَ اللّٰہَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ لَا حُجَّۃَ لَہُ. وَمَنْ مَاتَ وَلَیْسَ فِیْ عُنُقِہِ بَیْعَۃٌ، مَاتَ مَیْتَۃً جَاہِلِیَّۃً.
وَرُوِیَ أَنَّہُ قَالَ: مَنْ خَرَجَ مِنَ الطَّاعَۃِ وَفَارَقَ الْجَمَاعَۃَ فَمَاتَ، مَاتَ مَیْتَۃً جَاہِلِیَّۃً. وَمَنْ قَاتَلَ تَحْتَ رَأْیَۃٍ عِمِّیَّۃٍ یَغْضَبُ لِعَصَبَۃٍ أَوْ یَدْعُوْ

إِلٰی عَصَبَۃٍ أَوْ یَنْصُرُ عَصَبَۃً فَقُتِلَ، فَقِتْلَۃٌ جَاہِلِیَّۃٌ. وَمَنْ خَرَجَ مِنْ أُمَّتِیْ عَلٰی أُمَّتِیْ، یَضْرِبُ بَرَّہَا وَفَاجِرَہَا وَلَا یَتَحَاشٰی مِنْ مُؤْمِنِہَا وَلَا یَفِیْ لِذِیْ عَہْدٍ عَہْدَہُ، فَلَیْسَ مِنِّیْ وَلَسْتُ مِنْہُ.
روایت کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس شخص نے اپنے حکمران میں کوئی ناپسندیدہ چیز دیکھی تو اسے چاہیے کہ اس پر صبر کرے، کیونکہ جو شخص ایک بالشت برابر بھی حکومت (کی اطاعت)سے نکلا۱اور جس نے ایک بالشت برابر بھی (اپنے آپ کو) نظم اجتماعی سے علیحدہ کر لیا۲، پھر وہ اسی حالت میں مر گیا تو وہ جاہلیت کی موت مرا۳اور اس نے اسلام کا قلادہ اپنے گلے سے اتار دیا۴۔
اور روایت کیا گیا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم)نے ارشاد فرمایا:جس شخص نے حکمران کی اطاعت سے (جس کی وہ بیعت کر چکا تھا)ہاتھ کھینچ لیا،۵ وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے اس حالت میں ملے گا کہ اس کے پاس (اپنے عمل کے لیے)کوئی عذر نہیں ہوگا۶۔اور جو شخص اس حال میں مرا کہ اس نے کسی حکمران کی بیعت نہیں کی ہوئی تھی۷، وہ جاہلیت کی موت مرا۔
اور روایت کیا گیا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم)نے ارشاد فرمایا:جو شخص (حکمران کی)اطاعت سے نکل گیا اور (اپنے آپ کو) نظم اجتماعی سے علیحدہ کر لیا، پھر (اسی حالت میں)مر گیا، وہ جاہلیت کی موت مرا۔اور جو شخص کسی ایسی گمراہی میں لڑا۸ وہ اپنی ہی کسی عصبیت کے لیے غصے میں آیا اور اپنی ہی عصبیت کے لیے لوگوں کو دعوت دی اور اپنی ہی کسی عصبیت کی مدد کی (قطع نظر اس کے کہ وہ غلط ہو یا صحیح) اور (اس لڑائی میں) وہ قتل کر دیا گیا، اس کی موت جاہلیت کی موت ہو گی۔میرے پیروکاروں میں سے جس شخص نے میرے پیروکاروں پر حملہ کیا۹اور ان کے نیک و بد کو (اندھا دھند) مارنے لگا اور امت کے مومنوں اور معاہدوں کے عہد کی پروا نہ کی۱۰، اس شخص کا نہ مجھ سے کوئی تعلق ہے اور نہ میرا اس سے کوئی تعلق ہے۱۱۔

ترجمے کے حواشی

۱۔ جیسا کہ گذشتہ روایات میں وضاحت ہو چکی ہے کہ آدمی کو صرف اسی صورت میں حکمران کے احکامات نہیں ماننے چاہییں، جب وہ اسے ایسی بات کا حکم دے جس سے خالق حقیقی کی معصیت لازم آتی ہو۔ ہر شخص سے اس بات کا مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ریاست کے حکمرانوں کے فرماں بردار بن کر رہیں، سواے اس صورت کے کہ آدمی کو ایسی بات کا حکم دیا جائے جو خالق حقیقی کے حکم کے خلاف ہو۔
۲۔جماعت سے علیحدہ ہونا، گویا ریاست کا فرماں بردار رہنے سے انکار کرنا ہے اور حکومت پر اپنا تسلط جمانے کے لیے ریاست کو غیر مستحکم کرنے کی ایک سعی ہے۔
۳۔ ’’جاہلیت‘‘ کی اصطلاح زمانۂ قبل از اسلام میں عربوں کی سماجی و اخلاقی حالت کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ ’’وہ جاہلیت کی موت مرا‘‘ سے مراد ہے کہ وہ شخص ایسے ہی مرا جیسے وہ اسلام قبول کرنے سے پہلے تھا۔بہ الفاظ دیگر، ایسا شخص اسلام کے عائد کردہ فرائض کی ادائیگی سے انکار کرتا ہے اور اپنے آپ کو اسی حالت میں لے جاتا ہے، جس میں وہ اسلام قبول کرنے سے پہلے تھا۔
۴۔ ’’اس نے اسلام کا قلادہ اپنے گلے سے اتار دیا‘‘ اور ’’وہ جاہلیت کی موت مرا‘‘، دونوں جملے ایک ہی معنی میں استعمال ہوئے ہیں۔ایسا شخص اس سماجی ضابطے کو نظر انداز کرنے کا مجرم ہے جس کا اسلام نے اسے پابند کیا ہے۔
۵۔ یعنی جو شخص اپنی بیعت اطاعت کو پورا کرنے سے انکار کرتا ہے۔
۶۔ اس نے ایسے گناہ کا ارتکاب کیا ہے جس کے نتیجے میں وہ روز قیامت میں اپنے آپ کو بچا نہ پائے گا۔
۷۔ جب ریاست کا قیام عمل میں آجائے، کسی شہری کو اس کے حکمرانوں کی بیعت سے پیچھے نہیں رہنا چاہیے۔ روایتی معاشروں میں، یہ بیعت قبیلے اور خاندان کے بزرگوں یا افراد کی طرف سے در آئی تھی۔تاہم عصر حاضر میں مقننہ کے احکامات کو ماننا ایسے ہی ہے، جیسے ان کی بیعت اطاعت کرنا۔
۸۔ اس طرح کہ وہ اپنے کسی گروہ کے حق میں یا کسی دوسرے گروہ کے خلاف اپنے تعصبات کی وجہ سے اندھا ہو جائے، اوراس بات کی طرف توجہ نہ دے کہ انصاف اور اسلام اس سے کیا تقاضا کرتے ہیں۔
۹۔ یہ ایک فتنہ انگیزی کی طرف واضح اشارہ ہے، بہ ایں صورت کہ ایک مسلم ریاست کی قائم کردہ حکومت کے خلاف ایک فرد یا ایک گروہ مسلح تصادم کھڑا کر دے۔تعلیمات اسلامیہ سے یہ بات بالکل واضح ہوتی ہے کہ جب زمین میں حکومت قائم ہو جائے تو اس کے پیرو کاروں کو اس کو عزت کی نگاہ سے دیکھنا چاہیے اور ہر حال میں اس کا فرماں بردار بن کر رہنا چاہیے۔اس ضابطے سے مستثنیٰ، البتہ تین شرائط کا پایا جانا لازمی ہے:
ا۔ قائم حکومت اسلام کا کھلا اور واضح انکار کرے۔
ب۔ قائم حکومت کو عوام کی اکثریت کی حمایت حاصل نہ ہو۔
ج۔ لوگوں کا ایک گروہ ایسے حکمران کا تختہ الٹ دینے کی کوشش کرے جسے عوام کی اکثریت کی حمایت حاصل ہو۔
تاہم، ان تین شرائط کے بعد مسلمانوں کو صرف اس قدر اجازت ہے کہ وہ قائم حکومت کے خلاف مسلح تصادم کے بغیر حکومت تبدیل کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔قائم حکومت کے خلاف مسلح تصادم سے قبل ایک اضافی شرط، جس کو پورا کرنا ضروری ہے،یہ ہے کہ مسلح تصادم کا سہارا لینے والے ایسے گروہ کو اس خطۂ زمین میں خود حکومت کی زمام سنبھالنی چاہیے۔
۱۰۔ معاہدین یا مسلم ریاست کے وہ غیر مسلم شہری تھے جنھوں نے ایک معاہدے کے تحت ریاست کی شہریت کو اپنی رضامندی سے اختیار کیا۔اس طرح کے شہریوں کے حقوق و فرائض ان کے اور مسلم ریاست کے مابین متفقہ ایک مخصوص معاہدے کے ذریعے سے مقرر کیے جاتے، جس کی رو سے وہ مسلم ریاست کے شہری بن جاتے۔مسلم ریاست اور تمام مسلمان شہری ہر حال میں اس معاہدے کے احترام اور اس کی پاس داری کے پابند ہیں۔
۱۱۔ یعنی اس عمل کے سبب اس طرح کے افراد یا گروہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مابین تمام تعلقات منقطع ہو جائیں گے۔بہ الفاظ دیگر، اس طرح کے لوگوں کو اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروکاروں میں سے نہیں گرداننا چاہیے۔

خلاصہ

ریاست اسلامی اور اس کی حکومت کے قیام کے بعد ریاست کے تمام شہریوں کو سماجی وسیاسی نظم وضبط کی زندگی بسر کرنی چاہیے، اور ریاست کے قوانین اور حکمرانوں کے احکامات کی اطاعت کے انکار سے باز رہنا چاہیے، یہاں تک کہ حکمرانوں اور ان کے کسی حکم کی ناپسندیدگی میں بھی۔وہ فرد (یا افراد کا ایک گروہ) جو اپنے آپ کو سماجی وسیاسی نظم سے علیحدہ کر لے اور مسلم ریاست کو غیرمستحکم کرنے کی کوشش کرے، وہ گویا اسلام کی عائد کردہ پابندیوں سے اپنے آپ کو آزاد کر لیتا ہے اور روز قیامت اس کے پاس اپنے اس عمل کے لیے کوئی عذر باقی نہیں ہو گا۔ مزید براں، اگر کوئی فرد مسلم ریاست کی حکومت کو غیرمستحکم کرنے کے لیے نظم کو درہم برہم کرتے، زمین میں فساد برپا کرتے اور ریاست کے معصوم شہریوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالتے ہوئے ایک سماجی نظم کے خلاف مسلح جد وجہد کرتا ہے، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی تعلیمات کے ساتھ تمام تعلقات منقطع کر لیتا ہے۔
یہ روایات واضح طور پر قرآن مجید پر مبنی ہیں جو، اولاً مسلمانوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ حکمرانوں کے اطاعت گذار رہیں (النساء ۴: ۵۹)، ثانیاً فساد فی الارض پھیلانے والوں کے لیے سخت سزا مقرر کرتا ہے (المائدہ۵:۳۳)۔

متون

پہلی روایت بخاری، رقم۶۶۴۵۔۶۶۴۶؛مسلم، رقم۱۸۴۹ ا،۱۸۴۹ب؛دارمی، رقم۲۵۱۹؛ابوداؤد، رقم۴۷۵۸؛ احمد،رقم۲۴۸۷،۲۷۰۲،۲۸۲۶۔۲۸۲۷،۱۵۷۱۹،۱۵۷۳۱،۲۱۶۰۰؛بیہقی،رقم۱۶۳۹۱،۱۶۳۹۳؛عبدالرزاق،رقم ۳۷۷۹ اور ابویعلیٰ، رقم۲۳۴۷،۷۲۰۳میں روایت کی گئی ہے۔
دوسری روایت مسلم، رقم۱۸۵۱ا، ۱۸۵۱ب،۱۸۵۱ج؛ احمد، رقم۵۵۵۱، ۵۷۱۸، ۵۸۹۷، ۶۱۶۶،۶۴۲۳، ۱۵۷۳۴، ۱۶۹۲۲؛بیہقی، رقم۱۶۳۸۹؛ابن حبان، رقم۴۵۷۳،۴۵۷۸؛ابن ابی شیبہ، رقم۳۷۲۰۰اور ابویعلیٰ، رقم ۷۳۷۵میں روایت کی گئی ہے۔
تیسری روایت مسلم، رقم۱۸۴۸ا، ۱۸۴۸ب، ۱۸۴۸ج، ۱۸۴۸د؛نسائی، رقم۴۱۱۴؛احمد، رقم۷۹۳۱، ۸۰۴۷، ۱۰۳۳۸۔۱۰۳۳۹؛ابن حبان، رقم۴۵۷۹۔۴۵۸۰؛بیہقی، رقم۱۶۳۸۸،۲۰۸۶۴؛سنن النسائی الکبریٰ، رقم ۳۵۷۹۔ ۳۵۸۰؛ابن ابی شیبہ، رقم۳۷۲۴۳اور عبدالرزاق، رقم۲۰۷۰۷میں روایت کی گئی ہے۔

پہلی روایت

من رأی من أمیرہ شیءًا یکرہہ فلیصبر علیہ‘ (جس شخص نے اپنے حکمران میں کوئی ناپسندیدہ چیز دیکھی تو اسے چاہیے کہ اس پر صبر کرے)کے الفاظ بخاری، رقم۶۶۴۶میں روایت کیے گئے ہیں۔
بعض روایات، مثلاً بخاری، رقم۴۶۴۵میں ’من رأی من أمیرہ شیءًا یکرہہ‘ (جس شخص نے اپنے حکمران میں کوئی ناپسندیدہ چیز دیکھی)کے الفاظ کے بجاے ’من کرہ من أمیرہ شیءًا‘ (جس شخص نے اپنے حکمران میں کوئی چیز ناپسند کی) کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں؛ بعض روایات، مثلاً احمد، رقم۲۸۲۶میں ان الفاظ کے مترادف الفاظ ’أیما رجل کرہ من أمیرہ أمرًا‘ (جس شخص نے اپنے حکمران میں کوئی معاملہ ناپسند کیا)روایت کیے گئے ہیں۔
فإنہ من خرج من السلطان شبرًا‘ (کیونکہ جو شخص بالشت برار بھی حکومت (کی اطاعت)سے نکلا) کے الفاظ بخاری، رقم۶۶۴۵میں روایت کیے گئے ہیں۔
بعض روایات، مثلاً مسلم، رقم۱۸۴۹ب میں ’فإنہ من خرج من السلطان‘ (کیونکہ جو شخص حکومت (کی اطاعت) سے نکلا)کے الفاظ کے بجاے ’فإنہ لیس أحد من الناس خرج من السلطان‘ (کیونکہ وہ شخص لوگوں میں سے نہیں ہے جو حکومت (کی اطاعت) سے نکلا)کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں؛بعض روایات، مثلاً احمد، رقم۲۸۲۶میں یہ الفاظ ’فإنہ لیس أحد من الناس یخرج من السلطان‘(کیونکہ وہ شخص لوگوں میں سے نہیں ہے جو حکومت (کی اطاعت)سے نکلتا ہے) روایت کیے گئے ہیں۔
من فارق الجماعۃ شبرًا فمات إلا مات میتۃ جاہلیۃ‘ (جس نے ایک بالشت برابر بھی (اپنے آپ کو) نظم اجتماعی سے علیحدہ کر لیا، پھر وہ اسی حالت میں مر گیا تو وہ جاہلیت کی موت مرا)کے الفاظ بخاری، رقم۶۶۴۶میں روایت کیے گئے ہیں، جبکہ لفظ ’فمات‘(پھر وہ مر گیا)کے بعد لفظ ’علیہ‘(اسی حالت میں)مسلم، رقم ۱۸۴۹ب میں روایت کیا گیا ہے۔
بعض روایات، مثلاً احمد، رقم۲۱۶۰۰ میں ’من فارق الجماعۃ‘ (جس شخص نے اپنے آپ کو نظم اجتماعی سے علیحدہ کر لیا) کے الفاظ کے بجاے ’من خالف الجماعۃ‘ (جس شخص نے نظم اجتماعی کی مخالفت کی)کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں؛بعض روایات، مثلاً ابویعلیٰ، رقم۲۳۴۷میںیہ الفاظ’ من یفارق الجماعۃ‘ (جو شخص اپنے آپ کو نظم اجتماعی سے علیحدہ کر لیتا ہے)روایت کیے گئے ہیں؛بعض روایات، مثلاً بیہقی، رقم ۱۶۳۹۳ میں یہ الفاظ ’لیس أحد یفارق الجماعۃ‘ (کوئی شخص نہیں جو(اپنے آپ کو) نظم اجتماعی سے علیحدہ کر لیتا ہے) روایت کیے گئے ہیں؛ بعض روایات، مثلاً دارمی، رقم۲۵۱۹میں یہ الفاظ ’لیس من أحد یفارق الجماعۃ‘ (کوئی شخص نہیں جو (اپنے آپ کو) نظم اجتماعی سے علیحدہ کر لیتا ہے)روایت کیے گئے ہیں؛بعض روایات، مثلاً احمد، رقم ۲۷۰۲ میں یہ الفاظ ’ما أحد یفارق الجماعۃ‘ (کوئی شخص نہیں جو(اپنے آپ کو) نظم اجتماعی سے علیحدہ کر لیتا ہے) روایت کیے گئے ہیں۔
بعض روایات، مثلاً بیہقی، رقم۱۶۳۹۳میں لفظ ’شبرًا‘(بالشت)کے بجاے’ قید شبر‘(بالشت کے برابر) کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں۔
بعض روایات، مثلاً بیہقی، رقم۱۶۳۹۳میں لفظ ’فمات‘(پھر وہ مر گیا)کے بجاے اس کا مترادف لفظ ’فیموت‘ (پھر وہ مر جاتا ہے)روایت کیا گیا ہے۔
بعض روایات، مثلاً مسلم، رقم۱۸۴۹ ا میں ’إلا مات میتۃ جاہلیۃ‘(تو وہ جاہلیت کی موت مرا)کے الفاظ کے بجاے’ فمیتۃ جاہلیۃ‘ (پھر یہ جاہلیت کی موت ہو گی)کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں؛بعض روایات، مثلاً احمد، رقم۲۴۸۷میں یہ الفاظ’ فمیتتہ جاہلیۃ‘(پھر اس کی موت جاہلیت کی موت ہو گی)روایت کیے گئے ہیں۔
خلع ربقۃ الإسلام من عنقہ‘(اس نے اسلام کا قلادہ اپنے گلے سے اتار دیا)کے الفاظ ابوداؤد، رقم ۴۷۵۸میں روایت کیے گئے ہیں۔
بعض روایات، مثلاً احمد، رقم۱۵۷۱۹میں راویوں نے اوپر مذکورہ متن میں بعض اضافے بھی کیے ہیں۔اضافے والی روایت درج ذیل ہے:

إنہا ستکون من بعدی أمراء، یصلون الصلٰوۃ لوقتہا ویؤخرونہا عن وقتہا فصلیتموہا معہم فلکم وعلیہم. من فارق الجماعۃ مات میتۃ الجاہلیۃ ومن نکث العہد ومات ناکثًا للعہد، جاء یوم القیامۃ لا حجۃ لہ.
’’بے شک، میرے بعد ایسے حکمران آئیں گے جو (بعض اوقات)اپنے(مقررہ)وقت پر نماز ادا کریں گے اور (بعض اوقات)ان کے (مقررہ)وقت سے مؤخر کریں گے۔چنانچہ تم (ہر حال میں، یہاں تک کہ وہ اسے مؤخر بھی کریں تو)ان کے ساتھ نماز ادا کرو، تمھیں اس کی جزا ملے گی اور (اسے مؤخر کرنے کا) بوجھ ان پر ہو گا۔جس شخص نے (اپنے آپ کو) نظم اجتماعی سے علیحدہ کر لیا، وہ جاہلیت کی موت مرا اور جس نے عہد توڑا اور عہد توڑنے کی حالت میں وہ مر گیا، وہ روز قیامت میں (اللہ تعالیٰ کے پاس)اس حالت میں آئے گا کہ (اپنے اس رویے کے لیے) اس کے پاس کوئی عذر باقی نہیں ہو گا۔‘‘

اس اضافے کے ساتھ یہ روایت احمد، رقم۱۵۷۱۹،۱۵۷۳۱؛عبدالرزاق، رقم۳۷۷۹اور ابویعلیٰ، رقم۷۲۰۳میں روایت کی گئی ہے۔
روایت کا یہ اضافی حصہ الگ بھی روایت کیا گیا ہے اور اس تالیف میں اسے ایک الگ روایت کے طور پر لیا گیا ہے۔تاہم، اضافی متن والی روایت صرف عاصم بن عبیداللہ کے ذریعے سے روایت کی گئی ہے جن کو ضعف حفظ وفہم والے راوی کے طور پر گردانا گیا ہے۔

دوسری روایت

بعض روایات، مثلاً احمد، رقم ۵۵۵۱ میں ’من خلع یدًا من طاعۃ‘ (جس شخص نے اپنا ہاتھ اطاعت سے کھینچا)کے الفاظ کے بجاے ’نزع یدًا من طاعۃ اللّٰہ‘ (جس شخص نے اپنا ہاتھ اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے کھینچا) کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں؛بعض روایات، مثلاً احمد، رقم۵۸۹۷میں ان الفاظ کے بجاے’ من مات علی غیر طاعۃ اللّٰہ‘(جو شخص غیر اللہ کی اطاعت میں مرا)کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں۔
بعض روایات، مثلاً احمد، رقم ۵۵۵۱ میں ’لقی اللّٰہ یوم القیامۃ‘ (وہ اللہ تعالیٰ سے روز قیامت میں ملے گا) کے الفاظ کے بجاے ’فإنہ یأتی یوم القیامۃ‘ (بے شک، وہ روز قیامت میں آئے گا)کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں؛بعض روایات، مثلاً احمد، رقم۵۸۹۷میں ان الفاظ کے بجاے ’مات‘(وہ مر گیا)کا لفظ روایت کیا گیا ہے۔
بعض روایات، مثلاً احمد، رقم ۵۷۱۸میں ’لقی اللّٰہ یوم القیامۃ لا حجۃ لہ‘ (وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے اس حالت میں ملے گا کہ اس کے پاس (اپنے عمل کے لیے)کوئی عذر نہیں ہوگا)کے الفاظ کے بجاے’ لم تکن لہ حجۃ یوم القیامۃ‘(روز قیامت میں اس کے پاس (اپنے عمل کے لیے)کوئی عذر نہیں ہوگا)کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں۔
بعض روایات، مثلاً بیہقی، رقم ۱۶۳۸۹ میں ’لا حجۃ لہ‘ (اس کے پاس کوئی عذر نہیں ہو گا)کے الفاظ کے بجاے ’ولا حجۃ لہ‘(اور اس کے پاس کوئی عذر نہیں ہو گا)کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں۔
بعض روایات، مثلاً احمد، رقم۵۵۵۱میں ’ولیس فی عنقہ بیعۃ‘(اور اس نے کسی حکمران کی بیعت نہیں کی ہوئی تھی)کے الفاظ کے بجاے ’وہو مفارق للجماعۃ‘(جبکہ وہ (اپنے آپ کو) نظم اجتماعی سے علیحدہ کرنے والا ہو)کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں؛بعض روایات، مثلاً احمد، رقم۵۸۹۷میں ان الفاظ کے بجاے ’وقد نزع یدہ من بیعۃ‘ (جبکہ وہ (کسی حکومت کی) بیعت سے ہاتھ کھینچ چکا ہو) کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں؛بعض روایات، مثلاً احمد، رقم۵۷۱۸میں ان الفاظ کے بجاے ’مفارقًا للجماعۃ‘ (نظم اجتماعی سے علیحدگی کی حالت میں) کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں؛بعض روایات، مثلاً ابن حبان، رقم۴۵۷۸میں یہ الفاظ ’مفارق الجماعۃ‘ ((اپنے آپ کو) نظم اجتماعی سے علیحدہ کرتے ہوئے)روایت کیے گئے ہیں؛بعض روایات، مثلاً احمد، رقم۱۶۹۲۲میں یہ الفاظ ’ولیس علیہ إمام‘ (اس پر کسی حکمران کے بغیر)روایت کیے گئے ہیں؛ بعض روایات، مثلاً ابن ابی شیبہ، رقم ۳۷۲۰۰ میں یہ الفاظ ’ولا طاعۃ علیہ‘(جبکہ وہ (کسی حکومت کی)بیعت کا پابند نہیں ہے)روایت کیے گئے ہیں۔
بعض روایات، مثلاً احمد، رقم۵۵۵۱ میں ’مات میتۃ جاہلیۃ‘ (وہ جاہلیت کی موت مرا)کے الفاظ کے بجاے ’فإنہ یموت میتۃ جاہلیۃ‘ (کیونکہ وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے)کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں؛ بعض روایات، مثلاً احمد، رقم۵۷۱۸میں ان الفاظ کے بجاے ان کے مترادف الفاظ ’فإنہ یموت موت الجاہلیۃ‘ (کیونکہ وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے)روایت کیے گئے ہیں؛بعض روایات، مثلاً ابن حبان، رقم۴۵۷۸میں ان الفاظ کے بجاے ان کے مترادف الفاظ ’فإنہ یموت موتۃ الجاہلیۃ‘ (کیونکہ وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے) روایت کیے گئے ہیں؛بعض روایات، مثلاً احمد، رقم۵۸۹۷میں یہ الفاظ ’کانت میتتہ میتۃ ضلالۃ‘ (اس کی موت گمراہی کی موت ہو گی)روایت کیے گئے ہیں۔
احمد، رقم۶۱۶۶میں روایت کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

من نزع یدًا من طاعۃ أو فارق الجماعۃ مات میتۃ الجاہلیۃ.
’’جس شخص نے اطاعت سے ہاتھ کھینچا یا (اپنے آپ کو) نظم اجتماعی سے علیحدہ کیا، وہ جاہلیت کی موت مرا۔‘‘

ابن ابی شیبہ، رقم۳۷۲۰۰میں روایت کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

من مات ولا طاعۃ علیہ، مات میتۃ جاہلیۃ. ومن خلعہا بعد عقدہ إیاہا فلا حجۃ لہ.
’’ جو شخص اس حال میں مرا کہ اس نے (کسی حکومت کی)بیعت نہیں کی ہوئی تھی، وہ جاہلیت کی موت مرا۔ اور جس شخص نے حلف اٹھانے کے بعد اسے اتار دیا، اس کے پاس (اپنے عمل کے لیے)کوئی عذر باقی نہیں ہو گا۔‘‘

احمد، رقم۱۵۷۳۴میں ایک اضافہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

من مات ولیست علیہ طاعۃ مات میتۃ جاہلیۃ، فإن خلعہا من بعد عقدہا فی عنقہ لقی اللّٰہ تبارک وتعالی ولیست لہ حجۃ. ألا لا یخلون رجل بإمرأۃ لا تحل لہ فإن ثالثہما الشیطان إلا محرم. فإن الشیطان مع الواحد وہو من الإثنین أبعد. من ساء تہ سیئتہ وسرتہ حسنتہ فہو مؤمن. قال حسن: بعد عقدہ إیاہا فی عنقہ.
’’جو شخص اس حال میں مرا کہ اس نے (کسی حکومت کی)بیعت نہیں کی ہوئی تھی، وہ جاہلیت کی موت مرا۔ اور جس شخص نے حلف اٹھانے کے بعد اسے اتار دیا، وہ اللہ تبارک و تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اس کے پاس (اپنے عمل کے لیے)کوئی عذر باقی نہیں ہو گا۔ آگاہ رہو، کسی شخص کو سوائے محرم کے کسی ایسی عورت کے پاس نہیں بیٹھنا چاہیے جو اس کے لیے حلال نہ ہو، کیونکہ ان دونوں کے ساتھ تیسرا شیطان ہو گا۔ بے شک، شیطان تنہا شخص کے قریب ہے اور دو اشخاص سے دور ہے۔جس شخص کو اس کی برائی بری لگے اور نیکی خوش کرے، وہ مومن ہے۔حسن نے ’بعد عقدہ إیاہا فی عنقہ‘ کے الفاظ روایت کیے ہیں۔‘‘

اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ راویوں میں سے کسی کی طرف سے غلطی ہوئی ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی متفرق احادیث کو ایک ہی حدیث کے طور پر روایت کیا گیا ہے۔

تیسری روایت

بعض روایات، مثلاً احمد، رقم۱۰۳۳۹ میں ’من خرج من الطاعۃ وفارق الجماعۃ‘ (جو شخص (حکمران کی)اطاعت سے نکل گیا اور (اپنے آپ کو) نظم اجتماعی سے علیحدہ کر لیا)کے الفاظ کے بجاے ’من فارق الجماعۃ وخالف الطاعۃ‘ (جس شخص نے (اپنے آپ کو) نظم اجتماعی سے علیحدہ کر لیا اور (حکومت کی) اطاعت سے انکار کر دیا) کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں؛بعض روایات، مثلاً احمد، رقم۸۰۴۷میں یہ الفاظ ’من فارق الجماعۃ وخرج من الطاعۃ‘ (جس شخص نے (اپنے آپ کو) نظم اجتماعی سے علیحدہ کر لیا اور (حکومت کی)اطاعت سے نکل گیا) روایت کیے گئے ہیں؛بعض روایات، مثلاً عبدالرزاق، رقم۳۷۲۴۳میںیہ الفاظ ’من ترک الطاعۃ وفارق الجماعۃ‘ (جس شخص نے (حکومت کی)اطاعت ترک کر دی اور نظم اجتماعی سے علیحدہ ہو گیا)روایت کیے گئے ہیں۔
بعض روایات، مثلاً مسلم، رقم۱۸۴۸ج میں لفظ ’فمات‘ (پھر وہ مر گیا)کے بجاے اس کا مترادف ’ثم مات‘ (پھر وہ مر گیا)کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں۔
بعض روایات، مثلاً بیہقی، رقم۲۰۸۶۴میں ’فمات، مات میتۃ جاہلیۃ‘(پھر وہ اسی حالت میں مر گیا تو وہ جاہلیت کی موت مرا)کے الفاظ کے بجاے ’فمات میتۃ جاہلیۃ‘ (تو وہ جاہلیت کی موت مرا)کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں؛بعض روایات، مثلاً احمد، رقم۱۰۳۳۸میں یہ الفاظ ’فمات، فمیتتہ جاہلیۃ‘(پھر وہ (اسی حالت میں)مر گیا، تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہے)روایت کیے گئے ہیں۔
بعض روایات، مثلاً مسلم، رقم۱۸۴۸ج میں ’یغضب لعصبۃ أو یدعو إلی عصبۃ أو ینصر عصبۃ‘(وہ اپنی ہی کسی عصبیت کے لیے غصے میں آیا اور اپنی ہی عصبیت کے لیے لوگوں کو دعوت دی اور اپنی ہی کسی عصبیت کی مدد کی)کے الفاظ کے بجاے ’یغضب للعصبۃ ویقاتل للعصبۃ‘(اپنے خاندان کے لیے غصے میں آئے اور اپنے خاندان کے لیے لڑے)کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں۔
بعض روایات، مثلاً بیہقی، رقم۱۶۳۸۸میں لفظ ’عصبۃ‘(خاندان)کے بجاے ’عصبیۃ‘(قبیلہ)کا لفظ روایت کیا گیا ہے۔
بعض روایات، مثلاً مسلم، رقم۱۸۴۸ج میں ’فقتل فقتلۃ جاہلیۃ‘(وہ قتل کر دیا گیا تو اس کا قتل ایک جاہلیت کا قتل ہو گا)کے الفاظ کے بجاے ’فلیس من أمتی‘(تو وہ میرے پیروکاروں میں سے نہیں ہے)کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں؛بعض روایات، مثلاً بیہقی، رقم۲۰۸۶۴میں یہ الفاظ ’فقتل، فقتلتہ جاہلیۃ‘ (وہ (اس لڑائی میں) قتل کر دیا گیا تو اس کا قتل جاہلیت کا قتل ہو گا)روایت کیے گئے ہیں۔
من خرج من أمتی علی أمتی‘ (میرے پیروکاروں میں سے جس شخص نے میرے پیروکاروں پر حملہ کیا) کے الفاظ مسلم، رقم۱۸۴۸ج میں روایت کیے گئے ہیں۔ بعض روایات، مثلاً مسلم، رقم۱۸۴۸ ا میں یہ الفاظ ’ومن خرج علی أمتی‘ (اور جس شخص نے میرے پیروکاروں پر حملہ کیا)روایت کیے گئے ہیں؛ بعض روایات، مثلاً احمد، رقم ۱۰۳۳۸میں یہ الفاظ ’ومن خرج من أمتی‘ (اور میرے پیروکاروں میں سے جس شخص نے حملہ کیا)روایت کیے گئے ہیں؛بعض روایات، مثلاً احمد، رقم۸۰۴۷میں یہ الفاظ’ من خرج علی أمتی بسیفہ‘(جس شخص نے تلوار کے ساتھ میرے پیروکاروں پر حملہ کیا)روایت کیے گئے ہیں۔
ولا یتحاشی من مؤمنہا‘ (اور ان کے مومن کی پروا نہ کرتے ہوئے)کے الفاظ مسلم، رقم ۱۸۴۸ا میں روایت کیے گئے ہیں۔بعض روایات، مثلاً مسلم، رقم۱۸۴۸ا میں یہ الفاظ ’لا یتحاش من مؤمنہا‘ (اور ان کے مومن کی پروا نہ کرتے ہوئے)روایت کیے گئے ہیں؛بعض روایات، مثلاً احمد، رقم۸۰۴۷میں یہ الفاظ ’لا یتحاشی مؤمنًا لإیمانہ‘(کسی مومن کے ایمان کی پروا نہ کرتے ہوئے)روایت کیے گئے ہیں؛جبکہ بعض روایات، مثلاً احمد، رقم۷۹۳۱میں یہ الفاظ ’لا یتحاشی لمؤمنہا‘(ان کے مومن کی پروا نہ کرتے ہوئے)روایت کیے گئے ہیں۔
بعض روایات، مثلاً مسلم، رقم ۱۸۴۸ ج میں ’ولا یفی لذی عہد عہدہ‘ (اور کسی معاہد سے اپنا عہد پورا نہیں کرتا)کے الفاظ کے بجاے ’ولا یفی بذی عہدہا‘(اور اپنے معاہد سے عہد پورا نہیں کرتا)کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں؛بعض روایات، مثلاً بیہقی، رقم۱۶۳۸۸میں یہ الفاظ ’ولا یفی لذی عہدہا‘ (اور اپنے معاہد سے عہد پورا نہیں کرتا)روایت کیے گئے ہیں؛ بعض روایات، مثلاً احمد، رقم۸۰۴۷میں یہ الفاظ ’ولا یفی لذی عہد بعہدہ‘ (اور کسی معاہد سے اپنا عہد پورا نہیں کرتا)روایت کیے گئے ہیں۔
بعض روایات، مثلاً بیہقی، رقم۲۰۸۶۴میں’ فلیس منی ولست منہ‘(اس شخص کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں اور میرا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے)کے الفاظ کے بجاے’فلیس من أمتی‘(تو وہ میرے پیروکاروں میں سے نہیں ہے)کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں۔

--------------------------------------------------

بشکریہ ماہنامہ اشراق

تحریر/اشاعت مئی 2014
ترجمہ شاہد رضا
Uploaded on : May 26, 2016
2121 View