خودکشیوں کے تجزیے

خودکشیوں کے تجزیے

 پچھلے دنوں انصاف نہ ملنے پر ایک اعلیٰ عدالت میں ایک خاتون سندس فاروق نے خودسوزی کرنے کی کوشش کی ۔ اسی طرح لاہور ہائی کورٹ نے ایک مفرور ملزم کے رشتے داروں کو بے جا پریشان کرنے کے خلاف ایک درخواست کا نوٹس لیتے ہوئے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ کسی ملزم کو گرفتار کرنا پولیس کی ذمہ داری ہے ۔ اس کے رشتے داروں پر دباؤ نہیں ڈالا جا سکتا کیونکہ کسی بھی شخص کے جرم کی سزا دوسرے کو نہیں دی جا سکتی۔
اس میں شبہ نہیں کہ اعلیٰ عدالتیں ایسے معاملات میں اس نوعیت کے ریمارکس پہلے بھی کئی مرتبہ دے چکی ہیں ، مگر پولیس کی زیادتیوں کا سلسلہ جوں کا توں قائم ہے ۔ اس صورتِِ حال پر ایک دانش ور نے لکھا ہے :

’’اگر ساڑھے تین لاکھ اہلکاروں کی پولیس فورس اور سینکڑوں ہزاروں وکیلوں اور ججوں کی جوڈیشل فورس مل کر سندس فاروق جیسے مظلوموں کو انصاف نہیں دے سکتی تو کم از کم یہ ادارے مل کر ان مظلوموں کو ایک ایک پستول اور مٹی کے تیل کی ایک ایک بوتل ہی دے دیں کہ جو مظلوم آگے بڑھ کر اپنا حق وصول کر سکتے ہیں ، وہ کر لیں اور جو اس کی اہلیت نہیں رکھتے وہ کسی کونے ، کسی گوشے میں بیٹھ کر اپنے اوپر تیل چھڑکیں اور چپ چاپ جل مریں، اگر آپ کسی حق دار کو حق نہیں دے سکتے تو آپ اس کو مرنے کا حق تو دیں ۔‘‘ (جنگ ۹ دسمبر ۲۰۰۰)

اس سے انکار نہیں کہ ہمارے ہاں عدالتوں میں حصولِ انصاف کے ناقص انتظام اور پولیس کے ظلم کے مسائل بہت سنگین صورت اختیار کر چکے ہیں ، مگر ضروری ہے کہ اس صورتِ حال کی حکمت اور دانائی کے ساتھ اصلاح کرنے کی کوشش کی جائے اور اس معاملے میں جذباتیت سے گریز کیا جائے۔ لوگوں کو اسلحہ پکڑنے، قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی ترغیب دینا مسئلے کا حل نہیں، بلکہ مزید اور سنگین تر مسائل پیدا کرنے کی غیر شعوری کوشش ہے ۔
اسی طرح ہم نے دیکھا ہے کہ حالات کی سختی سے تنگ آ کر خودکشی کرنے والوں کے بارے میں ہمارے دانش ور جب لکھتے ہیں تو خودکشی کرنے والوں کی حمایت کرتے ، ان سے ہمدردی کا اظہار کرتے ، ملکی نظام کو کوستے اور حکومت کو برا بھلا کہتے ہیں ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ایک غیر متوازن رویہ ہے ۔ ضروری ہے کہ ایسے موقعوں پر خودکشی کرنے اور ایسی کوشش کرنے والوں پر بھی تنقید کی جائے ، ان کی بزدلانہ روش کی ملامت کی جائے اور حالات کا مردانہ وار مقابلہ نہ کرنے پر مذمت کی جائے۔
اگر نبیوں کی زندگی کا مطالعہ کیاجائے تو معلوم ہو گا کہ ان کے اوپر بے پناہ ظلم ڈھائے گئے ، ان کے ساتھیوں کی زندگی اجیرن کر دی گئی ، مگر انھوں نے صبر کیا اور اپنے ساتھیوں کو بھی صبر کرنے کی تلقین کی ، حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی نصیحت کی ، زندہ رہ کر زندگی کے مسائل سے نبرد آزما ہونے کی تعلیم دی اور آخرت کی جزا و سزا کی تذکیر کی ۔
یہ بات بڑے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ جو لوگ خودکشی کرتے ہیں وہ لازمی طور پر دینی شعور سے عاری ہوتے ہیں ۔ اگر وہ اس شعور سے بہرہ یاب ہوں تو کبھی خودکشی جیسی بزدلانہ حرکت نہ کریں ۔ کیونکہ اگر وہ دینی شعور سے بہرہ یاب ہوتے تو ان پر یہ حقیقت بالکل واضح ہوتی کہ یہ دنیا ایک آزمایش گاہ ہے ۔ اس دنیا میں مصیبتیں اور تکلیفیں آنی ہی ہیں۔ یہ خدا کی اسکیم کا لازمی حصہ ہیں ۔ اسی طرح انھیں یہ بھی معلوم ہوتا کہ یہ دنیا جزا اور سزا کے اصول پر نہیں چل رہی ۔ اس وقت خدا نے سب کو ڈھیل دے رکھی ہے ، اس لیے یہاں کبھی کامل عدل وجود میں نہیں آنا ۔ کبھی ہر ظالم کو سزا نہیں ملنی ۔ کبھی ہر مظلوم کی مکمل تلافی نہیں ہونی ۔ یہ سب مسائل آخرت میں حل ہوں گے ۔ کامل عدل روزِ عدل ہی میں وجود میں آئے گا ۔ ظالم کو اس کے ہر ظلم کی سزا قیامت ہی میں ملے گی ۔ مظلوم کی مکمل تلافی خدا ہی کے ہاتھوں سے ہو گی ۔
چنانچہ دینی شعور کے حامل لوگ دین اور ملکی قانون کے حدود میں رہ کر ظالم کو سزا دینے کی کوشش کرتے ہیں ، اپنا حق حاصل کرنے کی سعی کرتے ہیں ، مگر اس کوشش میں ناکام ہونے کی صورت میں ڈپریشن کا شکار نہیں ہوتے ۔ ہمت نہیں ہارتے ۔ بزدلی کا مظاہرہ نہیں کرتے ۔ وہ روزِ عدل پر اپنے ایمان پر قائم رہتے ہیں اور زندہ رہ کر زندگی کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں ۔
کاش ! ہمارے دانش ور حضرات مسائل کے حل کے لیے عالم کے پروردگار کی اتاری ہوئی ہدایت سے استفادہ کرنا شروع کر دیں ۔ کاش !ان لوگوں کی سمجھ میں یہ بات آ جائے کہ خالق کو نظر انداز کر کے مخلوق کے مسائل حل نہیں کیے جا سکتے ۔ کاش ! مسائل و مصائب میں پیغمبروں نے جو طریقہ اختیار کیا ، وہ اسے عام کرنے کا سلسلہ شروع کر دیں تو ہمارے مسائل میں کچھ کمی ہو سکتی ہے ۔ بصورتِ دیگر امکان ہے کہ ان لوگوں کے تجزیوں کے باعث مسائل کی تعداد میں بھی اضافہ ہو گا اور ان کی سنگینی میں بھی ۔ 

-----------------------------

 

بشکریہ ماہنامہ اشراق

تحریر/اشاعت جنوری 2001
Uploaded on : Aug 25, 2016
1555 View