ایک سوال دو جواب - ابو یحییٰ

ایک سوال دو جواب

 پچھلے کئی برسوں سے عام طور پر پبلک اجتماعات میں خطاب سے احتراز کرتا ہوں۔ تاہم بعض مقامات پر تعلقات کی نوعیت ایسی ہوتی ہے کہ انکار کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ پچھلے دنوں ایسے ہی ایک موقع پر سیرت نبی کے حوالے سے منعقد ہونے والی تقریب میں گفتگو کرنے کا موقع ملا۔ یہ تجارت کی اعلیٰ تعلیم کا ایک ادارہ تھا جہاں پڑھے لکھے لوگ موجود تھے۔ میرے ساتھ ایک عالم دین بھی بطور مقرر شریک تھے۔

تقاریر کے اختتام پر سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا تو ایک خاتون نے مختلف پہلوؤں سے اہل علم پر تنقید کرتے ہوئے ایک سخت سوال کیا۔ تنقید کا ایک پہلو یہ تھا کہ مسلمان اہل علم میں باہمی فرقہ وارانہ اختلاف کیوں ہیں؟ یہ سوال اس طالب علم کے ساتھ ان عالم دین سے بھی تھا۔ میں نے اس سوال کے جواب میں یہ توجہ دلائی کہ ہمارے ہاں پاپائیت کا کوئی نظام نہیں ہے جس میں در آنے والی کسی خرابی سے دین کی اصل تعلیم پر پردے پڑ جائیں۔ اصل دین قرآن وسنت میں محفوظ ہے۔ اور اللہ تعالیٰ وقفے وقفے سے ایسے اہل علم پیدا کرتے رہتے ہیں جو صحیح دین کی طرف لوگوں کو متوجہ کرتے رہتے ہیں۔ اس سے قبل اپنی تقریر میں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی ایمان و اخلاق کی اس تعلیم کا بھی بیان کر دیا تھا جو دنیا وآخرت میں مسلمانوں کی فلاح کی ضامن ہے۔لوگ اس کو اختیار کریں گے تو سارے مسائل حل ہوجائیں گے ۔

میرے بعد جب ان عالم صاحب نے خاتون کے سوال کا جواب دیا۔ انھوں نے پورے اعتماد اور قوت سے کہا کہ علماء میں کوئی فرقہ وارانہ اختلاف نہیں پایا جاتا۔ خاتون کے سوال کا دوسرا پہلو دہشت گردی کے حوالے سے تھا۔ اس کے حوالے سے بھی انھوں نے فرمایا کہ مسلمانوں کی طرف سے کسی قسم کی دہشت گردی کا مظاہرہ نہیں ہوتا۔ یہ غیر مسلم ہیں جن کی طرف سے مسلمانوں پر ظلم ہو رہا ہے۔

یہ سوال اور ان کے یہ دو الگ الگ جواب صرف اسی نشست کا معاملہ نہیں۔ پوری قوم کے سامنے اس ایک سوال کے یہی دو الگ الگ جواب آ رہے ہیں۔ پہلا جواب وہ ہے جس میں اپنی غلطی کو تسلیم کر کے یہ توجہ دلائی جاتی ہے کہ اصل ماخذ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ ہمیں ان کی لائی ہوئی تعلیمات کی طرف لوٹنا چاہیے۔ دوسرا جواب وہ ہے جس میں یہ ماننے سے انکار کر دیا جاتا ہے کہ مسلمانوں سے کوئی غلطی بھی ہورہی ہے۔ چنانچہ ایک ایسے دور میں جب ہر دینی مدرسہ الگ الگ فرقے کے علماء تیار کر رہا ہے اور ہر مسجد کے دروازے پر فرقے کا نام نمایاں طور پر درج کیا جاتا ہے وہاں لوگ اطمینان سے کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں کوئی فرقہ واریت نہیں ہے۔

یہی وہ سوچ ہے جس نے پاکستان میں ہونے والی مسلسل دہشت گردی پر یہ کہہ کر پردہ ڈالا کہ کوئی مسلمان یہ کام نہیں کرسکتا اور یہ غیر مسلموں کی کارستانی ہے۔ یہی وہ سوچ تھی جوعرصہ تک بدترین دہشت گردی کو اگر اور مگر کی ڈھال فراہم کرتی رہی اور غیر مسلموں کے ظلم کی آڑ میں اس کو جواز فراہم کرتی رہی۔

یہ دوقسم کے جوابات کسی فقہی مسئلے سے متعلق نہیں ہیں جن کا دنیا و آخرت کی فلاح سے کوئی تعلق نہ ہو۔ یہ ایک انتہائی اہم سوال کے وہ دو مختلف جوابات ہیں جن کو اختیار کرنے پر ہماری دنیا اور آخرت موقوف ہے۔ مسلمان پہلے جواب کی روشنی میں اپنا لائحہ عمل بنائیں گے تو ان میں اپنے احتساب کی نفسیات پیدا ہو گی۔ وہ اپنے ایمان کو بہتر بنائیں گے۔ اپنی اخلاقی غلطیوں کی اصلاح کریں گے۔ جس کے بعد ان پر خدا کی رحمت متوجہ ہو گی۔

مگر بدقسمتی سے مسلمان مجموعی طور پر اس وقت دوسرے جواب کو قبول کیے ہوئے ہیں۔ اس کے نتیجے میں مسلمان فرقہ واریت کی زنجیر میں قید ہیں۔ ہم بدترین اخلاقی زوال کا شکار ہیں مگر ہمیں اس زوال کے خوفناک نتائج کا کوئی ادراک نہیں۔ ہم نرگسیت کے وہ مریض ہو چکے ہیں جسے خود میں ساری خوبیاں اور دوسروں میں ساری برائیاں نظر آتی ہیں۔ ہم غیر مسلموں کی نفرت کا شکار ہیں ۔ حالانکہ ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ اسلام کا پیغام  ان لوگوں تک پہنچائیں۔

پچھلے چالیس برسوں میں ہمارے سامنے صرف ایک جواب ہی آیا تھا جسے دوسرے جواب کی شکل میں پیچھے بیان کیا گیا ہے۔ مگر اب ایک اور جواب پوری قوت سے سامنے آ گیا ہے۔ جب یہ متبادل جواب سامنے آجائے تو قوم کے پاس اپنی بدعملی کا عذر ختم ہوجاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی قوم کی مہلت عمل ختم ہونے لگتی ہے۔ یہی معاملہ اب پاکستانی قوم کے ساتھ ہو چکا ہے۔ ان کے پاس دوسرا جواب آ گیا ہے۔ وہ اگر اب بھی عدم اعتراف، فرقہ واریت اور دہشت گردی کی اسیر رہتی ہے، جذباتی گفتگو کے فریب میں آتی رہے گی تو مکمل تباہی سے دنیا کی کوئی طاقت ہمیں نہیں بچا سکتی۔

لیکن قوم نے اگر ایمان و اخلاق کی دعوت کو قبول کر لیا تو انشاء اللہ یہ قوم دنیا کی ایک عظیم قوم بن جائے گی۔ اب فیصلہ قوم کو کرنا ہے کہ اسے کیا دعوت قبول کرنی ہے اور کسے رد کرنا ہے۔

بشکریہ ماہنامہ انذار، تحریر/اشاعت مارچ 2017
’’انذار مارچ 2017‘‘ پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
مصنف : ابو یحییٰ
Uploaded on : Mar 22, 2017
1785 View