سازش اغیار کا فلسفہ - خورشید احمد ندیم

سازش اغیار کا فلسفہ

 

مقدمہ یہ ہے کہ اسلام اور مسلمان ایک سازش کی زد میں ہیں جس کا تانا بانا اغیار نے کمال مہارت کے ساتھ بنا ہے۔ آج مسلمان معاشرے داخلی اور خارجی طور پر جن مسائل کا شکار ہیں وہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ اسی سازش کے مختلف مظاہر ہیں۔ یہ فرقہ واریت، مساجد اور امام بارگاہوں پر حملے،مذہبی انتہا پسندی، یہ سب ہمارے دشمنوں کا کمال ہے۔ اب یہ کہا جا رہا ہے کہ اعتدال پسند اسلام ( Moderate Islam )کے نام سے جو تعبیر دین پیش کی جا رہی ہے ، یہ بھی دراصل سی آئی اے کی سازش ہے۔ اس مقدمے کے حق میں سب دلائل بھی وہیں سے آ رہے ہیں، جہاں اس سازش کا منبع ہے، یعنی انھی لوگوں کے بیانات اور تحریریں جو یہ سازش تیار کرنے والے ہیں۔ گویا ہم سازش کے اثبات کے ساتھ ان کی صداقت کی بھی گواہی دے رہے ہیں۔
یہ مقدمہ کچھ ایسا نیا نہیں۔ مسلمانوں کی صدیوں پر پھیلی تاریخ سے اس کے بے شمار شواہد اس سے پہلے بھی پیش کیے جاتے رہے ہیں۔ اگر مسلمانوں کے باہمی اختلافات پر نظر ڈالیے تو ہر فرقہ دوسرے کے وجود کو کسی ایرانی ، عجمی یا یہودی سازش کا نتیجہ قرار دیتا ہے۔ اس مقدمے میں صحت کتنی ہے، اس سے تھوڑی دیر کے لیے صرف نظر کرتے ہوئے، آئیے، اس نقطۂ نظر کا اس پہلو سے جائزہ لیں کہ اس کو صحیح مان لینے کے نتیجے میں مسلمانوں کی نفسیات پر اس کے کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر ہر واقعہ اور ہر حادثہ کسی سازش کا نتیجہ ہے تو اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا دشمن اتنا طاقت ور اور ذہین ہے کہ ہم عملاً اس کے سامنے بے بسی کی تصویر بن گئے ہیں۔ دنیا کی عسکری قوت اس کے پاس ہے۔ تمام میڈیا اس کی دسترس میں ہے۔ وہ چاہے تو طاقت سے ہمیں نیست و نابود کر دے اور وہ ہماری شکل جیسی چاہے، دنیا کو دکھا دے۔ لہٰذا ہمارے پاس اب دو راستے ہیں : ہم کہیں سے وسائل جمع کریں اور طاقت کے ان ایوانوں کو آگ لگا دیں یا پھر دنیا کی سیاست و معیشت سے لاتعلق ہو جائیں اور لوگوں کو محض رجوع الا اللہ کی وہ دعوت دیں جس کا ایک مظہر ہماری تبلیغی جماعت ہے۔ اگر یہ بات درست ہے تو پھر اس مسئلے کا کیا حل ہے کہ بعض لوگوں کے نزدیک یہ انتہا پسندی دشمنوں کی سازش ہے اور بعض کا کہنا یہ ہے کہ امور دنیا سے مسلمانوں کو لاتعلقی کی تعلیم دینا بھی دراصل دشمن ہی کی ایک چال ہے۔ اللہ کے یہ سادہ دل بندے اب کدھر جائیں؟
دوسری بات یہ ہے کہ سازش کا یہ نظریہ مسلمانوں کو رد عمل کے مقام پر لا کھڑا کرتا ہے۔ وہ اپنے زوال کا اگر کوئی حل تلاش کرتے ہیں تو وہ رد عمل اور دفاعی حکمت عملی پر مبنی ہوتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کھیل کے قواعد و ضوابط کا تعین کبھی مسلمانوں کے ہاتھ میں نہیں آ سکتا۔اسی طرح یہ انداز فکر انھیں مثبت رویے سے محروم کر دیتا ہے۔ وہ یہ فرض کر لیتے ہیں کہ ہمیں تو مرنا ہی ہے، کیوں نہ دشمن کے چند لوگ لے مریں۔ یہ مایوسی کی انتہائی شکل کا ظہور ہے۔ اسامہ بن لادن کی تحریک اور پھر خود کش حملوں کے رحجان میں اسی نفسیات کا دخل ہے۔ جو لوگ بحیثیت قوم اس موقف کو اپنا لیں، ان کے لیے کسی اچھے مستقبل کی پیش گوئی مشکل ہو جاتی ہے۔
تیسری بات یہ ہے کہ سازش کا فلسفہ پورے معاشرے پر شک کی ایک ایسی چادر تان دیتا ہے، جس کے بعد ہر آدمی دوسرے آدمی کو مشکوک نظروں سے دیکھتا ہے۔ ہر فرد کو دوسرا فرد دشمن کا ایجنٹ دکھائی دیتا ہے۔ ذرا غور کیجیے، اگر اسلام کی انتہاپسندانہ تعبیر سازش ہے، ماڈریٹ اسلام سازش ہے، معاشرے کو سیکولر بنانے کی کو ششیں تو ہیں ہی سازش تو پھر اس کے بعد ہمارے معاشرے میں آخر وہ کون ہے جو کسی نہ کسی سازش کا شکار نہیں۔ اگر دینی مدارس میں بھی ایک سازش کے تحت لوگ داخل کیے جا رہے ہیں تو ان اداروں کے فارغ التحصیل لوگوں میں سے کس کے بارے میں یہ یقین سے کہا جا سکے گا کہ اس کا وجود کسی سازش کا مظہر نہیں ہے۔ این جی اوز کے بارے میں ہمیں پہلے ہی حق الیقین ہے کہ وہ اغیار کی سازش ہے۔ اب اس معاشرے میں کون ہے جو سازشی نہیں یا کسی سازش کا شکار نہیں؟ شک کی یہ فضا ہمیں ایک ایسے مقام پر لا کھڑا کرتی ہے کہ ہمیں اپنے بھائی پر بھی اعتبار نہیں رہتا۔شک کا یہ فلسفہ افراد کے درمیان ایسی دیواریں کھڑی کر دیتا ہے، جس کے بعد، کسی وحدت فکرو عمل کا امکان باقی نہیں رہتا۔
اگر ہم سازش کے اس نظریے کے دیگر نفسیاتی اثرات سے آنکھیں بند کر لیں تو یہی تین اثرات یہ بتانے کے لیے کافی ہیں کہ اس نظریے کی اشاعت اور ترویج ہمیں کس نفسیاتی بحران میں مبتلا کر رہی ہے۔ مجھے تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف اس سے بڑی سازش کوئی نہیں ہو سکتی کہ انھیں سازش کی نفسیات میں مبتلا کر دیا جائے۔ اس کے بعد ان میں ساری عمر کسی مثبت سوچ کے پیدا ہونے کا امکان خود بخود ختم ہو جائے گا۔
اگر اس تجزیے سے اتفاق کر لیا جائے تو پھر یہ سوال غیر متعلق ہو جا تا ہے کہ سازش کے اس مقدمے میں کتنی صحت ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ دنیا میں ہر قوم کے پاس جینے کا صرف ایک راستہ ہے کہ وہ اپنے مسائل پر ٹھنڈے دل سے غور کرے اور اپنے فکری اور عملی ارتقا اور ترقی کے لیے ایک مثبت لائحہ عمل اختیار کرے۔وہ سب سے پہلے یہ سوچے کہ کیا بات اس کے لیے درست ہے اور کیا غلط۔ اس انداز فکر کے نتیجے میں اس کے اندر یہ شعور پیدا ہو گا کہ وہ باہر کی دنیا سے ایک مثبت تعلق استوار کرے ۔اس کے بعد اگر باہر سے آنے والی کوئی چیز ایسی ہے جو اس کے ارتقا میں معاون ہے تو اسے اختیار کرنے میں اسے کوئی تامل نہیں ہو گا۔ اسی طرح اگر کوئی چیز اس کے ملی وجود کے لیے غیر مفید ہے تو معاشرہ اسے خود بخود اگل دے گا۔ مثال کے طور پر ہمارے ہاں بہبود آبادی کے لیے جاری مہم زیادہ تر باہر سے آنے والے وسائل سے چلتی ہے۔ اب ہمیں سوچنا ہے کہ کیا آبادی کا بڑھنا فی الواقعہ ہمارے مسائل میں اضافہ کر رہا ہے۔ کیا ہمارے ہاں فرد کی اس حوالے سے تربیت کی جا نی چاہیے کہ وہ اپنے خاندان کی فلاح و بہبود کے لیے ایک منصوبہ بنائے۔ اس باب میں ہماری دینی اور تہذیبی روایات کیا کہتی ہیں۔ جب ایک فرد اور ایک قوم ان سوالات پر غور کریں گے تو انھیں اندازہ ہو جائے گا کہ باہر سے آنے والے ہوا کے اس جھونکے کے لیے انھیں اپنی کھڑی کھولنی چاہیے یا نہیں۔پھر یہ بات خود بخود غیر متعلق ہو جائے گی کہ یہ مہم کسی سازش کا نتیجہ ہے یا نہیں ہے۔
دنیا میں پیدا ہونے والا ہر مسئلہ کسی سازش کا نتیجہ نہیں ہوتا۔ بہت سے مسائل انسانوں کی انفرادی اور اجتماعی حماقتوں کے نتائج ہوتے ہیں، جس سے ہر قوم دوچار ہو سکتی ہے۔ امریکی صدر بش نے ایسی حکمت عملی اختیار کی ہے جو ظلم پر مبنی اور انسانی فطرت سے متصادم ہے۔ اس کے بعض ناگزیر نتائج نکلیں گے جس سے وہ انفرادی طور پر اور امریکی قوم اجتماعی طور پر متاثر ہو گی۔ اسی طرح ہم نے افغانستان میں ایک حکمت عملی اختیار کی جس کے نتائج سے ہم بچ نہیں سکتے تھے۔ مثبت انداز فکرخود احتسابی کا جذبہ پیدا کرتا اور ایسی حماقتوں سے انسانوں کو محفوظ رکھتا ہے اور سازشوں کے اثرات سے بھی۔
مسلمانوں کی تاریخ میں قرآن مجید کو محرف ثابت کرنے کی سازش ہوئی۔ اللہ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے اقوال و اعمال کی روایت کو مشکوک ثابت کرنے کی کو شش ہوئی اور پوری تاریخ کو مسخ کرنے کی سعی بھی کی گئی۔ آج تاریخی اعتبار سے یہ ثابت ہے کہ ہمارے پاس وہی قرآن ہے جو بنی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا۔ ہمارے پاس اعمال پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسا ریکارڈ موجود ہے جس کی رسول اللہ سے روایت میں کوئی شک نہیں کیا جا سکتا۔ یہ نتیجہ ہے مسلمانوں کی ان مثبت کو ششوں کا جو انہوں نے قرآن مجید کو تحریف سے محفوظ رکھنے اور سنت رسول کے عملی تواتر کو باقی رکھنے کے لیے کیں۔ تاریخ کے باب میں اس نوعیت کی کوئی بڑی کو شش نہیں ہوئی ، اس لیے اس میں رطب ویابس سب کچھ موجود ہے۔
میرا کہنا یہ ہے کہ مسلمانوں کے مسائل کا حل داخل میں ہے خارج میں نہیں۔ اسلام قرآن و سنت کی محکم اور یقینی بنیادوں پرکھڑا ہے، ان کی موجودگی میں حق ہمیشہ باقی رہے گا اور اس کی کوئی غلط تعبیر مسلمانوں میں عمومی طور پرجگہ نہیں پا سکتی۔ ان گمراہ فرقوں کی داستانیں اس کی گواہ ہیں جنھوں نے مسلمانوں میں جنم لیا اور پھر دم توڑ گئے۔ رہی بات مسلمانوں کی تو ان کی اپنی اور پھر دنیا کی ترقی یافتہ اقوام کی تاریخ گواہ ہے کہ قوموں کے عروج و زوال کا انحصار کن باتوں پر ہے۔ ابن خلدون سے لے کر پال کینیڈی تک لوگوں نے بارہا یہ داستان لکھی۔ مسلمان اس کے آئینے میں اپنا چہر ہ دیکھ لیں۔ اس کے بعد انھیں یقین آ جائے گا کہ سازش کی نفسیات سے نکلنا اور مثبت انداز فکر اپنانا ہی ان کی ترقی کی طرف پہلا قدم ہے۔

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت جنوری2004
مصنف : خورشید احمد ندیم
Uploaded on : Oct 23, 2018
1373 View