شخصیت اور دعوتِ دین - ڈاکٹر وسیم مفتی

شخصیت اور دعوتِ دین

 پانچویں صدی قبل مسیح میں بقراط نے نظریہ پیش کیا کہ چونکہ انسان مختلف عناصر سے مل کر بنا ہے اور ان عناصر کی ترکیب ہر انسان میں مختلف ہوتی ہے ، لہٰذا عناصر کی اس کمی بیشی سے انسانوں کے مزاج میں بھی فرق آ جاتا ہے ۔ ہر انسان کے جسمانی و ذہنی رویے اس کے مزاج سے ترتیب پاتے ہیں ۔ بقراط نے لوگوں کا علاج معالجہ ان کے مزاج کو مدِ نظر رکھ کر کیا ۔
۱۹۲۱ء میں کارل یونگ (Carl Jung) نے اپنی تھیوری متعارف کرائی ۔ اس کا خیال تھا کچھ انسان دروں بیں (Introvert) ہوتے ہیں جو خیالات ، احساسات اور تصورات کی دنیا کو ترجیح دیتے ہیں ۔ یہ ضروری نہیں کہ وہ شرمیلے ہوں ، بلکہ بسا اوقات ان کی سوچ پختہ ہوتی ہے اور انھیں فلسفے سے شغف ہوتا ہے ۔ دوسری طرح کے لوگ خارج بیں (Extrovert) ہوتے ہیں ۔ یہ بیرونی دنیا پر نظر رکھتے ہیں ۔ اشیا اور لوگوں پر اور ان کے معاملات پر ان کی توجہ ہوتی ہے ۔ ان کا ذہن بالعموم سائنسی ہوتا ہے اور یہ دنیا پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔ دونوں طرح کے لوگ بیرونی دنیا سے چار طرح تعامل کرتے ہیں ۔ (۱) ’Sensing ‘: حس سے کام لینا ، معلومات کو نہ پرکھنا ۔ (۲)’Thinking‘: معلومات کو عقل اور منطق کے پیمانے پر تولنا ۔ (۳) ’Intuiting‘: یہ ایک پیچیدہ حسی عمل ہے جو عقل سے ماورا ہے اور تمام حسوں کے باہمی تعامل سے پیدا ہوتا ہے ۔ اردو میں اسے وجدان یا آمد کا نام دیا جاتا ہے ۔ (۴) ’Feeling‘: معلومات کو سمجھ کر جانچنا اور جذبات کے تناظر میں پرکھنا ۔ اکثر لوگ ایک یا دو طریقوں کو عمل میں لاتے ہیں ۔
پھر ’kathrine Briggs ‘اور ’Isabel Myer ‘، ماں بیٹی نے مل کر ، دروں بینی اور خارج بینی اور ان چار عملوں (Functions) کو حسابی ترتیب دے کر سولہ قسم کی شخصیات کا جدول بنایا ۔ انھوں نے ایک سو پچیس سوالات مرتب کر کے اس جدول میں سے شخصیت کی قسم معلوم کرنے کا ایک پیمانہ بنایا ۔ مثال کے طور پر’S-N‘ (Sensing intuiting) قسم میں پچھتر فی صد لوگ شامل ہوتے ہیں اور’ INFJ‘ (Introverted intuiting with feeling)وہ لوگ ہوتے ہیں جو واقعی کچھ کرنا چاہتے ہیں
ان کے بعد David Keirsey نے اس قسم کو نئی ترتیب دی اور حسبِ ذیل چار بڑی قسمیں بیان کیں :
(۱) ’Idealists‘ آئیڈیل کو سامنے رکھ کر چلنے والے ، (۲) ’Traditionalists‘ روایت کا لحاظ رکھنے والے (۳) ’Rationalists‘سوچ اور منطق کا دھیان رکھنے والے (۴) ’Hedonists‘خوشی اور فرحت کی تلاش میں رہنے والے ۔
شخصیات کا یہ جائزہ اور تقسیم مزید تحقیق کی متقاضی ہے ۔ زمانے کے ساتھ اس کے فہم میں اور تبدیلیاں آئیں گی ۔ اس طرح کی مختلف شخصیات رکھنے والے لوگ جب دین کا کام کرتے ہیں تو ان کا اپنا مزاج اور طرزِ فکر ان کے فہمِ دین پر اثر ڈالتے ہیں ۔ وہ اسی کے مطابق دینی تقاضوں کو ترتیب دے دیتے ہیں اور جب یہ ایک رہنما کی سطح پر آتے ہیں تو اپنے پیروؤں کو ویسی ہی تربیت دینا شروع کر دیتے ہیں ، جو ان کی شخصیت کے سانچے میں سے نکلی ہوتی ہے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آج ہمیں کئی ایسے قائدین دکھائی دیتے ہیں جو مختلف دینی پہلوؤں کو اجاگر کر کے اپنی تحریکوں اور تنظیموں کو چلا رہے ہیں ۔ کسی نے عمامے او رمسواک کو اہم سنت قرار دیا ہے اور کوئی ہر ہیئت اختیار کرنے کی اجازت دیتا ہے ۔ کوئی عدمِ تشدد کا پرچار کر رہا ہے اور کوئی مسلح انقلابی جدوجہد میں یقین رکھتا ہے ۔ ایک عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اہم بتاتا ہے اور دوسرا توحیدِ باری تعالیٰ کو اصلِ دین بتاتا ہے ۔ ایک کلمے کی تبلیغ کا پیغام دیتا ہے اور دوسرا دین کا مربوط نظام سکھا رہا ہے ۔ پھر یہ گروہ باہم برسرِپیکار بھی ہوجاتے ہیں او رکبھی قتل و غارت گری کی نوبت بھی آ جاتی ہے ۔ اس کے علاوہ فرقوں کی تقسیم ایک الگ مسئلہ ہے اور پھر ہر فرقے کے اندر یہی تقسیم در تقسیم چلتی ہے ۔
یہ درست ہے کہ ہر شخص اپنی استطاعت کے مطابق دین پر عمل کرنے کا پابند ہے ۔ اسے ہر کام اللہ کی طرف سے مہیا اس دائرے کے اندر رہ کر کرنا ہے ۔ دینی کام جب اس کی افتادِ طبع اور ہمت کے موافق ہو گا ، تبھی وہ کر پائے گا ۔ تاہم دین کا ایک مجرد فہم ہے ، جس پر انسان اپنے ذہن میں سوچ سکتا ہے ، دوسروں کوبتا سکتا ہے یا کاغذ پر منتقل کر سکتا ہے ۔ یہ فہم قرآن و سنت کی عطا کردہ بصیرت سے تشکیل پاتا ہے او رکسی کی طبیعت اور استطاعت سے متعلق نہیں ہوتا ۔ یہ بنی نوع انسان سے بحیثیتِ مجموعی تعلق رکھتا ہے ۔ فرائض و واجبات تو ہر ایک کو لازماً ادا کرنے ہوتے ہیں کیونکہ خالقِ حقیقی نے انھیں ہر مسلمان کی قدرت میں ممکن کر رکھا ہے اور ان میں کچھ سہولتیں بھی دی ہیں ، مثلاً نماز اگر صحیح طرح کھڑے ہو کر پڑھنا مشکل ہو تو آدمی بیٹھ کر یا اشارے سے پڑھ سکتا ہے ۔ جو شخص رمضان کے دنوں میں بیمار پڑ جائے ، وہ دوسرے دنوں میں روزوں کی گنتی پوری کرے گا ۔ پھر کچھ فرضِ کفایہ ہیں جو پوری امتِ مسلمہ پر بحیثیتِ مجموعی عائد ہوتے ہیں : مثلاً نمازِ جنازہ ، تبلیغِ دین اور جہاد کرنا ۔ کچھ اہلِ ہمت آگے بڑھتے ہیں اور تمام مسلمانوں کی طرف سے یہ فرائض انجام دیتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے : ’وما کان المومنون لینفروا کافۃ، (التوبہ ۹: ۱۲۲) ’’اور یہ کچھ ضروری نہ تھا کہ اہلِ ایمان سارے کے سارے ہی نکل کھڑے ہوتے۔‘‘ ’ولتکن منکم امۃ یدعون الی الخیر‘۔ (آل عمران ۳: ۱۰۴) ’’تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہی ہونے چاہییں جو نیکی کی طرف بلائیں ۔یہ فرامینِ خداوندی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت ابو ذر غفاری کو امارت سے منع فرمانا اور ’انک ضعیف، (صحیح مسلم، کتاب الامارہ) کہہ کر اس کی وجہ بیان کرنا سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر مسلمان کے لیے ضروری نہیں کہ وہ ہر کام میں ہاتھ ڈال دے اور برے بھلے طریقے سے اسے کرنا شروع کر دے ۔ البتہ اسے دینی واجبات کا شعور ہونا چاہیے اور وہ اپنی ہمت سے آگے بڑھ کر انھیں بجا لانے کا شوق رکھتا ہو ۔ وہ اپنی طبیعت اور مزاج کا لحاظ رکھ کر وہ کام چن سکتا ہے جسے وہ تندہی سے ادا کر سکتا ہو اور اپنی زندگی اس میں کھپا سکتا ہو ۔
ایک مبلغ کو اسلام اپنی اصل اساس ، یعنی کتاب و سنت کے مطابق بیان کرنا ہو گا ۔ فرائض ، واجبات اور مستحبات کی وہی ترتیب ملحوظ رکھنا ہو گی جو شریعت بتاتی ہے اور اسی ترتیب کو آگے بیان کرنا ہو گا ۔ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ وہ اپنے مزاج کے مطابق احکامِ دین کی نہج بدل ڈالے اور جو کام وہ خود کر رہا ہے اسے اصلِ دین بتانا شروع کر دے ۔ اگر وہ دروں بیں ہے تو اسے یہ نہیں کہنا چاہیے کہ باقی سب کام روحِ دین سے خالی ہیں ، اگر وہ جہاد میں برسرِپیکار ہے تو باقی مسلمانوں کو غافل اور سست قرار دے دے ،اگر وہ ایک محکوم قوم میں بس رہا ہے تو پوری امتِ مسلمہ کو محکومیت کا درس دینا شروع کر دے ،اگر وہ سیاسی سطح پر دینی کام کر رہا ہے تو کہے کہ کرنے کا کام یہی ہے ۔
جو مسلمان بھی توحید پر قائم ہے ، دینی فرائض ادا کرتا ہے اورگناہوں سے بچتا ہے اس کو مسلمان سمجھنا چاہیے اور اسے آگے بڑھ کر نصرتِ دین کا فرضِ کفایہ ادا کرنے پر ابھارنا چاہیے ، یہی طریقہ ہے جس کے ذریعے سے ملتِ اسلامیہ ایک لڑی میں پروئی جا سکتی ہے اور انتشار سے بچ سکتی ہے اور ہر آدمی اپنی استعداد و صلاحیت کو مکمل طور پر بروے کار لاسکتا ہے۔

---------------------------

 

بشکریہ ماہنامہ اشراق

تحریر/اشاعت اپریل 2001
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی
Uploaded on : Aug 24, 2016
2174 View