اس روز دنیا دیکھے گی - ابو یحییٰ

اس روز دنیا دیکھے گی

ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان کے باسی ہیں۔وہ پاکستان جسے اسلام کے نام پر بنایا گیا۔وہ پاکستان جس کے باشندوں کی غالب اکثریت مسلمان ہے۔ وہ پاکستان جس کے آئین میں طے ہے کہ حاکمیت صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔وہ پاکستان جسے اسلام کا قلعہ کہا جاتا ہے۔وہ پاکستان جس کے باشندوں کو اپنی اسلامی تاریخ اور پس منظر پر بے حد فخر ہے۔انھیں فخر ہونا بھی چاہیے۔ اس لیے کہ خلافت راشدہ تو ایک طرف ملوک وسلاطین تک بھی جب کوئی کمزور نسوانی پکار پہنچتی تو بنوامیہ اور بنو عباس کے پاےۂ تخت پر لرزہ طاری ہوجاتا تھا۔ حجاج اور معتصم جیسے غیر آئینی حکمران جب تک اس پکار کا جواب نہ دے لیتے چین سے نہ بیٹھتے۔
آج اسلام کے اس قلعے ؛مملکت خداداد پاکستا ن میں ملتان کی دیہاتی مختاراں سے لے کر سوئی کی ڈاکٹر شازیہ جیسی اعلیٰ ترین تعلیم یافتہ خاتون ایک جیسی صدا بلند کرتی ہیں۔دیہات کی پنچایت کے زیر سایہ اور ایک بڑے ادارے کی زیرِ ملازمت ،وحشی درندوں کے ہاتھوں اپنی عصمت کی بربادی کا ماتم کرتی یہ خواتین انصاف کی دہائی نہیں دے رہیں۔ یہ اپنا مقدمہ اپنے رب کے حضور پیش کرتی ہیں۔اس لیے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ دنیا میں انصاف کی امید ان کے لیے دم توڑتی جارہی ہے۔ہم نے کراچی کی آسیہ کا نام اس لیے نہیں لیا کہ اپنی ہوس کی آگ سے اسے جھلسانے کے بعد ظالموں نے تیل چھڑک کر اسے زندہ جلادیا۔ اس کا بستر مرگ پر بیان بھی اسے انصاف نہ دلا سکا اور یہ گھریلو ملازمہ انصاف کی تلاش میں اس رب کے حضور پہنچ گئی جس کی عدالت انصاف کے لیے محتاج ثبوت ہے نہ کوئی مجرم کسی فدیہ اور ضمانت ہی پر خود کو اس کی گرفت سے چھڑا سکے گا۔ ان خواتین کے ساتھ کیا گزری، انتظامیہ نے کیا کارروائی کی، عدالتوں میں کیا ہوا، ہم اس کی تفصیل میں اس لیے نہیں جارہے کہ میڈیا پر اس کی تفصیلی رپورٹ آچکی ہے اور ملک کے سارے باشعور لوگ اس سے آگاہ ہیں۔ہم نہیں جانتے کہ یہ خواتین انصاف پاسکیں گی یا وقت کی بھول بھلیاں میں ان کی داستانیں بھی لوگوں کے ذہن سے محو ہوجائیں گی۔سر دست ہم اپنے قارئین کے سامنے کچھ ایسے نکات رکھ رہے ہیں جو ان خواتین کے ساتھ رونماہونے والے سانحات سے واضح ہوکر سامنے آئے ہیں۔
ان خواتین کا یہ حال اس طرح نہیں ہوا کہ کوئی ان کی مدد کرنے والا نہ تھا۔ میڈیا کی پوری طاقت ،قوم کی پوری ہمدردی اور ایوان اقتدار کے مکینوں کی یقین دہانیاں پوری طرح ان کے ساتھ ہیں،مگر مہینو ں گزرجانے کے بعد بھی انھیں انصاف نہ مل سکا۔ان کے معاملات سے صاف ظاہر ہے کہ اس ملک میں ظلم کرنے والا اگر طاقت و ر ہے تو وہ انسانیت کے خلاف بدترین جرائم کا ارتکاب کرکے بھی قانون کی گرفت سے صاف نکل سکتا ہے۔وہ اپنے حق میں ہر قسم کی گواہی پیش کرسکتا ہے۔وہ عدالتی نظام کے نقائص سے فائدہ اٹھاکر قانون کو مکڑی کے جالے کی طرح توڑ سکتا ہے۔کچھ نہیں تو وہ اپنی دولت اور اثر و رسوخ کے بل بوتے پر انصاف میں اتنی تاخیر کرسکتا ہے کہ Justice Delayed, Justice Denied کے مصداق انصاف ہی غیر مؤثر ہوجائے۔
پھر انصاف پانے کا یہ عمل اتنا مشکل اور مہنگا ہے کہ عوام الناس کسی عدالت میں جاکر مقدمہ لڑ نے کا سوچ ہی نہیں سکتے۔ وکلا کی بھاری فیس، مقدمات کی طوالت، فکر معاش کی مشغولیات وہ مسائل ہیں جن کے سامنے آتے ہی غریب اپنے ہر مقدمہ کو رب کے حوالے کردیتا ہے۔وہ جو کھوچکا ہے ،اسی کو کافی سمجھتا ہے اور مزید کھونے کی سکت نہ ہونے کی بنا پر ہر ظلم تقدیر کا لکھا سمجھ کر قبول کرلیتا ہے۔
ہمارے پس منظر میں ظلم اگر آبرو کے خلاف ہوا ہو تو اس کی شناعت جان و مال کے خلاف کیے جانے والے اقدام سے کہیں زیادہ ہوتی ہے،مگر ہماری سوچ اور رویے ان معاملات میں ہمدردانہ کم اور ظالمانہ زیادہ ہیں۔ ایسی مظلوم خواتین کو جس طرح جگ ہنسائی کا نشانہ بننا پڑتا ہے، وہ خود اپنی جگہ ایک بہت بڑا سانحہ ہے۔انھیں معاشرتی اچھوت بنانے سے لے کر کاری کرنے تک ہمارے وہ معاشرتی رویے ہیں جو ایسی مظلوم خواتین اور ان کے لواحقین کو اس ظلم عظیم کے بیان کرنے سے بھی روک دیتے ہیں، کجا یہ کہ وہ کسی انصاف کی توقع کریں۔
اس طرح کے واقعات سے ہماری یہ قومی نفسیات بھی سامنے آتی ہے کہ ہم کسی مسئلے کے سامنے آنے پر کچھ شور وغوغا کرکے مطمئن ہوجاتے ہیں۔رات گئی بات گئی کی نفسیات کا شکار ہماری قوم ایسے واقعات کے اسباب اور ان کے سدباب کے لیے کوئی جامع منصوبہ بندی نہیں کرتی۔ اس کا بھی سبب ہے۔ وہ یہ کہ ہماری قوم کی فکری قیادت، جس کی یہ اصلاً ذمہ داری ہے، وہ انھیں کچھ اور لوریاں سنانے میں مشغول رکھے ہوئے ہے۔ان میں سے کچھ لوگ مذہب بے زاراور سیکولر ازم کے دل دادہ ہیں اور کچھ لوگ ماضی کی عظمت کے گیت گانے اور اسے دوبارہ لانے کی نوید دینے والے مذہبی لوگ ہیں۔پہلا گروہ تو عوام میں زیادہ مؤثر نہیں ہے ،مگر دوسراماضی پرست گروہ جو حال سے بے پرواہے ،مستقبل میں اگر کچھ دیکھتااور دیکھ سکتا ہے تو کسی آنے والے کو دیکھتاہے جو آکر جادو کی ایک چھڑی گھمائے گا، جس کے بعد دنیا امن و آشتی سے بھر جائے گی۔ہم اس جذباتی قیادت کو اس کے حال پر چھوڑ کر مسئلہ کے حل کی طرف آتے ہیں۔
ہمارے نزدیک مسئلہ کا حل ’عدالتی اور معاشرتی نظام ٹھیک کرو‘ کا نعرہ نہیں ،بلکہ اخلاقی اقدار اور اصولوں کی پابندی کو اس قوم کا بنیادی مسئلہبنانا ہے۔یہی ہمارا وہ اصل مسئلہ ہے جو عدالت اور معاشرت میں نہیں ،بلکہ زندگی کے ہر ہر میدان میں ہمارے لیے مسائل پیدا کرنے کا سبب بنا ہوا ہے۔کیونکہ ہر نظام انسان چلاتے ہیں۔انسان کی اخلاقی حس اگر زندہ نہ رہے تو اچھے سے اچھا نظام بھی مفید و موثر نہیں رہتا۔جبکہ ہمارا حال یہ ہے کہ ہم اخلاقی طور پر دن بدن بے حس ہوتے جارہے ہیں اور کسی کے ماتھے پر کوئی شکن نہیں آتی۔ یہ کسی ایک گروہ کا مسئلہ نہیں ،بلکہ ہر طبقہ کا مسئلہ ہے۔ استاد، طالب علم، صحافی، تاجر، مزدور، فوجی،سیاست دان، عالم ،غرض زندگی کے ہر شعبہ کا آدمی اپنے اپنے مقام پر اخلاقی اقدار کی خلاف ورزی کو معمول بنا چکاہے۔ہم اخلاقی طور پر اگر حساس ہیں تو دوسروں کے معاملے میں۔ اپنا معاملہ ہو تو اصل چیز اپنا مفاد بن جاتی ہے۔ یہ رویہ اتنا عام ہوچکا ہے کہ اب کسی کو اس کا احساس بھی نہیں ہوتا۔
ایسا نہیں ہے کہ اصلاح کا علم بردار کوئی بھی گروہ اس اخلاقی انحطاط پر خوش ہے۔بات یہ ہے کہ ابھی تک یہ ہمارے ہاں بنیادی مسئلہ نہیں بن سکا۔اس لیے دوسرے لوگ ہی نہیں خود مصلحین بھی جہاں موقع ملتا ہے اخلاقی اصولوں کی خلاف ورزی کرجاتے ہیں۔ہمارے نزدیک یہ بات بالکل متعین ہے کہ اخلاقی اقدار کو قوم کا مسئلہ بنانا اصلاح احوال کی بنیادی اینٹ ہے۔ جب ہم اخلاقی معاملات میں حساس ہوں گے تو زندگی کے ہر گوشہ میں اس کے اثرات نمایاں ہونے شروع ہوجائیں گے۔اخلاقی اصلاح کی یہ دعوت اس قوم کے لیے کوئی اجنبی دعوت نہیں ہونی چاہیے۔ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین ، بلکہ ہر نبی کی دعوت ،اصل میں ایمان و اخلاق ہی کی دعوت ہے۔ جسے اس بارے میں شک ہو، وہ قرآن کی مکی سورتوں کو پڑھ لے جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قوم کے سامنے اپنی دعوت پیش کرتے ہیں۔
رہا شازیہ، آسیہ اور مختاراں کا معاملہ تو انھیں نوید ہو۔ انھوں نے جس خدا کے نام کی دہائی دی ہے ،وہ شاید اس سے واقف نہیں ہیں۔اس کی ہیبت، جبروت، قدرت، طاقت ،عظمت اور اقتدار آج پردۂ غیب میں مستور ہے۔ اسی لیے ظالم اس سے بے خوف ہو جاتے ہیں،لیکن جلد اور بہت ہی جلد وہ دن آرہا ہے جب زمین کے ہر بادشاہ، ہر طاقت ور، ہر جبار اور ہر ظالم کی قوت ، شوکت، دولت اور عظمت کو قیامت کا زلزلہ تہس نہس کردے گا۔ خداوند کے ظہور کا وہ دن بدلہ کا دن ہوگا۔اس روز سب جان لیں گے کہ وہ ظالموں کو عبر ت ناک سزا دینے کی طاقت بھی رکھتا ہے اور مظلوموں کے دل کی ہر پھانس نکال لینے کی قدرت بھی رکھتا ہے۔جس روز وہ ظالموں کو سزا دے گا،اس روز دنیا دیکھے گی۔ جس روز وہ مظلوموں کے دلوں کی پھانس نکال کر ان کی آنکھیں ٹھنڈی کرے گا، اس روز دنیا دیکھے گی۔

بشکریہ: ریحان احمد یوسفی
مصنف : ابو یحییٰ
Uploaded on : May 25, 2016
2001 View