میرا مطالعہ (2) - عمار خان ناصر

میرا مطالعہ (2)

 مغربی فلسفے کے ساتھ اشتغال معلوم نہیں کب اور کیسے شروع ہوا۔ تاہم اتنا واضح ہے کہ اس کی وجہ مذہب سے بے اطمینانی نہیں تھی، کیونکہ مجھے اپنے ذہنی سفر میں الحاد سے کبھی سابقہ پیش نہیں آیا۔ بظاہر اس کی وجہ یہ لگتی ہے کہ ابتدائی مطالعے کے دور میں ہی دو ایسی کتابیں نظر سے گزریں جنھوں نے کم سے کم اس سوال کے حوالے سے ذہن کا رخ متعین کر دیا۔ ایک تو مولانا وحید الدین کی ”علم جدید کا چیلنج“ جو والد گرامی نے خاص طور پر میرے لیے خرید کر مجھے دی تھی۔ یہ کتاب میں نے بڑی دلچسپی سے پڑھی۔ دوسری کتاب مولانا عبد الماجد دریابادی کی آپ بیتی تھی جو میں نے والد گرامی کے دیرینہ دوست مولانا عبد الروف ملک کے ہاں لاہور میں ان کے ذاتی کتب خانے میں دیکھی اور وہیں اس کا کافی حصہ یا شاید پوری کتاب پڑھ لی۔ اسی موضوع پر والد گرامی کی ذاتی کتابوں میں ایک عرب عالم حسین الجسر کی کتاب ”الرسالة الحمیدیة“ کا عربی نسخہ بھی موجود تھا جو غالباً بعد میں ان کتابوں کے ساتھ شاہ ولی اللہ یونیورسٹی کی لائبریری میں چلا گیا جو والد گرامی نے عطیہ کی تھیں۔ اس کی طرف انھوں نے بطور خاص متوجہ کیا کہ یہ اس موضوع پر اہم کتاب ہے، البتہ یہ کتاب میرے ذہن پر کوئی خاص تاثر پیدا نہیں کر سکی۔ (”اسلام اور سائنس“ کے نام سے اس کا اردو ترجمہ بھی دستیاب ہے)۔ بہرحال مذہب سے بے اطمینانی کے محرک کے بغیر عمومی تجسس اور دلچسپی کی وجہ سے فلسفیانہ مباحث سے کچھ نہ کچھ اشتغال زمانہ طالب علمی سے یاد پڑتا ہے۔ ان دنوں میں جو کتابیں دیکھنے کا موقع ملا، ان میں ایک ڈاکٹر منصور الحمید کی کتاب ”سقراط“ تھی جس میں مصنف نے دعویٰ کیا ہے کہ سقراط کا شمار زمرئہ انبیاءمیں ہوتا ہے۔ اس کتاب میں افلاطون کے لکھے ہوئے مکالمہ ”فائیڈو“ کا مکمل اردو ترجمہ بھی شامل کیا گیا ہے۔ اس مکالمے نے سقراط کے عزم وہمت اور اخلاقی اصولوں کی پابندی کے حوالے سے مجھے غیر معمولی طور پر متاثر کیا اور یاد ہے کہ بعض مواقع پر میں نے اپنے مختصر حلقہ احباب میں اس کے اقتباسات بڑے تاثر کے ساتھ پڑھ کر سنائے۔ اس دور میں فلسفے کی تعارفی کتب اور خاص طور پر اردو میں کیے گئے تراجم سے خاصا شغف رہا اور اس قسم کی جو چیزیں بڑے اشتیاق سے جمع کی تھیں، وہ اب زیادہ تر الشریعہ اکادمی کی لائبریری میں محفوظ ہیں۔ مثلاً فلسفے کے ابتدائی تعارف پر مشتمل ایک عربی کتاب ”مبادئ الفلسفة“ ہاتھ لگی جس کا عربی ترجمہ بعض اضافات کے ساتھ معروف مصری مصنف احمد امین نے کیا ہے۔ یہ کتاب اپنے تسہیلی اسلوب کی وجہ سے کافی مفید محسوس ہوئی۔ مختلف اساتذہ سے بھی میں اس قسم کی کتابوں کے متعلق دریافت کرتا رہتا تھا۔ ایک موقع پر جناب جاوید احمد غامدی سے پوچھا تو انھوں نے ڈبلیو ٹی اسٹیس کی کتاب A Critical History of Greek Philosophy کا ذکر کیا اور (شاید تھوڑے مبالغے کے ساتھ) کہا کہ اس میں مصنف نے پورا یونانی فلسفہ بیان کر دیا ہے اور ایک اصطلاح بھی استعمال نہیں کی۔ (پچھلے دنوں سید متین احمد شاہ صاحب کی زبانی معلوم ہوا کہ علامہ اقبال نے بھی کسی جگہ اس کتاب کی بہت تعریف کی ہے)۔ میں نے اس کا مقامی طور پر چھپا ہوا ایک ایڈیشن خرید لیا اور کافی ابواب کا مطالعہ بھی کیا۔ بعد میں اس کا ایک اردو ترجمہ بھی دستیاب ہو گیا، لیکن اتنا مشکل کہ اس سے اصل انگریزی پڑھنا زیادہ آسان ہے۔ پنجاب یونیورسٹی میں فلسفے کے استاذ ڈاکٹر ساجد علی، غامدی صاحب کے گہرے دوست ہیں۔ ایک دفعہ غامدی صاحب کے ہاں ان سے ملاقات ہوئی تو یہی سوال ان سے بھی کیا۔ انھوں نے قاضی قیصر الاسلام کی کتاب ”فلسفے کے بنیادی مسائل“ تجویز کی جو نیشنل بک فاونڈیشن نے شائع کی ہے۔ یہ کتاب خرید لی گئی اور اس سے کافی استفادہ کیا گیا۔ بعد میں قاضی قیصر الاسلام کی ایک دوسری تفصیلی کتاب ”تاریخ فلسفہ مغرب“ (دو جلدیں) بھی حاصل کی اور وقتاً فوقتاً اس سے استفادہ کیا۔ مولانا عبد الماجد دریابادی کے لکھے ہوئے مختلف مضامین بھی نظر سے گزرے جو ”مبادئ فلسفہ“ کے عنوان سے دو جلدوں میں شائع ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ انھی کے قلم سے فلسفے کی بعض اہم کتب (مثلاً برکلے کی ”مکالمات“ اور ہیوم کی ”فہم انسانی“) کے اردو تراجم بھی دیکھے۔ ول ڈیوراں کی The Story of Philosophy پڑھنے کا مشورہ برادرم آصف افتخار نے دیا تھا۔ یاد نہیں کہ اصل انگریزی کتاب پہلے پڑھنا شروع کی یا ”داستان فلسفہ“ کے نام سے اس کا اردو ترجمہ جو سید عابد علی عابد نے کیا ہے، لیکن بہرحال اصل کتاب اور اردو ترجمہ، دونوں نے بہت لطف دیا۔ ہمارے دوست میاں انعام الرحمن کو ول ڈیوراں کی ایک دوسری کتاب The Pleasure of Philosophy زیادہ پسند ہے جس کا اردو ترجمہ ڈاکٹر محمد اجمل نے ”نشاط فلسفہ“ کے نام سے کیا ہے۔ یاد پڑتا ہے کہ یہ دونوں کتابیں میں نے بھی اکٹھی خریدی تھیں۔ نوے کی دہائی کے دوسرے نصف میں مجھے انٹرنیٹ تک بھی رسائی حاصل ہو چکی تھی اور میرا کافی وقت انٹر نیٹ پر مختلف علمی کتابیں تلاش کرنے اور انھیں ڈاﺅن لوڈ کر کے محفوظ کرنے میں گزرتا تھا۔ اسی جستجو میں Stanford Encyclopedia of Philosophy کی ویب سائٹ سے واقفیت ہوئی۔ یہ اس وقت زیر تکمیل تھا اور بہت سے عنوانات پر مقالات ابھی دستیاب نہیں تھے، لیکن اس کا اسلوب اتنا پسند آیا کہ میں نے اس کے تمام دستیاب مقالات ڈاﺅن لوڈ کر کے بڑے اچھے کاغذ پر ان کا پرنٹ لے لیا۔ یہ صفحات آج بھی میری الماری میں محفوظ ہیں۔ اس کے کئی مقالات پڑھے جن میں سے خاص طور پر جارج برکلے کے نظریہ علم پر لکھا گیا مقالہ ڈکشنری کی مدد سے بڑی محنت سے پڑھنا اب بھی یاد ہے۔ اب تو انٹر نیٹ پر کئی دوسری بہت اچھی ویب سائٹس بھی موجود ہیں جو خاص طور پر فلسفے کے نئے اور مبتدی شائقین کی سہولت کو مد نظر رکھ کر بنائی گئی ہیں۔ اسی عرصے میں انٹرنیٹ پر ہی برٹرینڈ رسل کی کتاب The Problems of Philosophy ملی تو اس کا اردو میں ترجمہ کرنا بھی شروع کر دیا۔ پہلے دو ابواب کا ترجمہ مکمل کر لیا تھا جو شاید کسی پرانی ہارڈ ڈسک میں محفوظ ہو، لیکن تکمیل کا موقع نہیں ملا۔ کچھ سالوں کے بعد معلوم ہوا کہ اس کتاب کا مکمل اردو ترجمہ بازار میں آ چکا ہے۔ رسل کی بعض دوسری کتابیں مثلاً Conquest of Happiness اور ?Why I am not a Christian بھی اسی دور میں دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ تاہم A History of Western Philosophy کافی بعد میں دیکھی اور اپنے اسلوب کی سلاست نیز متعلقہ موضوع پر رسل کی اپنی Insights کی وجہ سے بہت پسند آئی۔ اب اس کا اردو ترجمہ بھی پروفیسر محمد بشیر کے قلم سے دستیاب ہے۔ آج کل نوٹرے ڈیم یونیورسٹی (انڈیانا، امریکہ) کے زیر اہتمام Madrasa Discourses کے زیر عنوان پاک وہند کے دینی مدارس کے فضلاءکو مغربی فکری روایت کے بعض مباحث سے روشناس کروانے کے سلسلے میں ایک آن لائن تربیتی پروگرام جاری ہے جس کے نصاب میں Anthony Kenny کی لکھی ہوئی A New History of Western Philosophy شامل ہے۔ یہ کتاب بھی فلسفیانہ مباحث نیز مغربی فلسفے کے ارتقا کی تفہیم کے ضمن میں اچھی اور مفید محسوس ہوئی۔ جیسا کہ اس مختصر جائزے سے واضح ہے، فلسفے اور فلسفیانہ مباحث سے میرا اشتغال زیادہ تر ثانوی اور تعارفی مآخذ کے دائرے تک محدود رہا ہے اور اس کی نوعیت بھی کسی منضبط اور مربوط مطالعے کی نہیں رہی۔ اگرچہ یہ کہہ سکتا ہوں کہ فطری دلچسپی اور کافی عرصے کے اشتغال کی وجہ سے یہ مباحث ذہن کے لیے مانوس ہو گئے ہیں اور ان کی بنیادی نوعیت بھی کافی حد تک ذہن کی گرفت میں آ گئی ہے، تاہم یہ ثانوی واقفیت اکابر فلسفیوں کی تحریروں کے براہ راست مطالعہ کا بدل نہیں ہو سکتی۔ بڑے فلسفیوں کی کتابوں میں سے افلاطون کے بعض مکالمات، ایکوی ناس کی Summa Theologica، ڈیکارٹ کی Meditations، برکلے کے مکالمات، کانٹ کی Critique of Pure Reason، برگساں کی Matter and Memory، سارتر کی Being and Nothingness وغیرہ کے منتخب حصے مختلف مواقع پر پڑھنے کا موقع ملا ہے، لیکن خواہش ہے کہ وقت اور فرصت ہو تو کم سے کم بنیادی فلسفیانہ سوالات کے حوالے سے سارے عظیم فلسفیوں کے افکار وخیالات براہ راست ان کی تحریروں میں پڑھے جائیں۔

بشکریہ مکالمہ ڈاٹ کام، تحریر/اشاعت 2 اپریل 2017
مصنف : عمار خان ناصر
Uploaded on : Apr 10, 2017
4995 View