کعب بن اشرف کا قتل اور اس کا اخلاقی پہلو

کعب بن اشرف کا قتل اور اس کا اخلاقی پہلو

 اس حیات و کائنات کا خالق و مالک اللہ تعالیٰ ہے ۔ اس نے انسان کو اس زمین پر آزمایش کے لیے بھیجا۔ خیر وشر کی آزمایش میں کامیابی کے لیے اس کے اندر ضمیر کا اہتمام کیا ۔ پھر اس کے اندر اور باہر اپنے وجود اور اپنی صفات کی بے شمار نشانیوں کا اہتمام کر دیا جن پر وہ اگر غور کرے اور ان کے اندر پوشیدہ سبق حاصل کرے تو ہمیشہ صراط مستقیم پر قائم رہے ۔ اس مقصد کے لیے اللہ تعالیٰ نے انبیاورسل کا سلسلہ بھی شروع کیا ۔ اپنی کتابیں بھی نازل کیں ۔ اپنی آخری کتاب کے لفظ لفظ کو محفوظ رکھنے کی ذمہ داری لی ۔ اس کے علاوہ آزمایش کے باوجود انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا ۔ اس کے لیے لذت و سرور سے بھرپور ، غیر معمولی ، بے شمار اور قسم قسم کی نعمتوں کا ایک جہان آباد کر دیا ۔ مگرانسان شکر خداوندی کا اظہار نہیں کرنا ، بلکہ سرکشی کا رویہ اختیار کرتا ہے ۔ حدود الہٰی پامال کرتا ہے ۔ اور پھر انسانوں کے وہ گروہ جن کے اندر ایک رسول آئے ، وہ انھیں اپنے غیر معمولی کردار اور کلام سے بڑی دل سوزی اور پوری سرگرمی کے ساتھ راہ حق دکھائے ، ان کے ہر اعتراض کو رفع کرے ،ان کے ہر اشکال کو دور کرے ،پھر ان گروہوں کے ضدی، ہٹ دھرم اور دشمنی پر اتر آنے والے سرکشوں کے مظالم برداشت کرے، ان کی گالیاں سنے ، ان کے پتھر کھائے تو اس کے بعد یہ عدل و انصاف کا عین تقاضا ہے کہ عالم کا پروردگار اپنی ضد ، ہٹ دھرمی اور دشمنی پر قائم رہنے والے ایسے مجرموں کو سزا دے ،جس طرح ہم انسان اپنے نظام عدل کے تحت اپنے مجرموں کو سزا دیتے ہیں ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ ایسے مجرموں کو عبرت ناک سزا دیتے ہیں ۔ قرآن ایسے مجرموں کو معاندین قرار دیتا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخاطبین میں بھی ایسے معاندین موجود تھے ۔ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سیاسی اقتدار حاصل تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے آپ اور آپ کے صحابہ کے ذریعے سے ایسے معاندین کو سزا دی ۔ مسلمانوں کو اسی پہلو سے خبردے دی گئی تھی کہ اللہ انھیں ]یعنی رسول کے سرکش مخاطبین کو[ تمھارے ہاتھوں سے سزا دے گا ۔۱؂ چنانچہ جنگ بدر میں کچھ ایسے معاندین کو صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم کے ہاتھوں موت کی سزا دی گئی تو اس بات کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اس طرح کیا کہ تم لوگوں نے ان کو قتل نہیں کیا ، بلکہ اللہ نے ان کوقتل کیا اور جب تو نے ان پر خاک پھینکی ۲ ؂ تو تم نے نہیں ، بلکہ اللہ نے پھینکی۔ ۳؂
دوسرے لفظوں میں اس معاملے میں صحابۂ کرام کی حیثیت موت کے فرشتوں کی سی تھی ۔ جس طرح موت کے فرشتے موت دیتے وقت الزام نہیں لگاتے ، مقدمہ قائم نہیں کرتے اور موت کا کوئی بھی طریقہ اختیار کرنے سے گزیر نہیں کرتے ، ایسے ہی معاندین کو صحابۂ کرام نے موت کی سزا دی ۔ ۴؂ فرعون اور آل فرعون بھی اسی طرح معاندین بن چکے تھے ۔ انھیں بھی یہ سزا دی گئی تھی ۔ فرق یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں سزا دینے کے لیے دوسرا ذریعہ اختیار کیا۔ وہاں بھی واضح ہے کہ جس خصوصی راستے سے موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو گزارا گیا،اس پر جب فرعون اور آل فرعون چلنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے سمندر کے رکے ہوئے پانی کو چلا دیا اور اس میں انھیں غرق کر دیا۔
ہم عام انسان تو اس وقت کسی کو موت کی سزا دیتے ہیں جب وہ قتل یا فساد فی الارض جیسے جرم کا ارتکاب کرتا ہے۔ پھر کسی قاعدے ضابطے سے اور کسی خاص طریقے سے حکومت کے تحت مجرم کو موت کی سزا دیتے ہیں، مگر اللہ تعالیٰ کسی انسان کو موت دینے کے معاملے میں کسی قاعدے ضابطے اور کسی خاص طریقے کے پابند نہیں ہیں ۔ زلزلہ ، سیلاب اور طوفان میں ہزاروں معصوم انسان مارے جاتے ہیں ۔ جس طرح ایسے معاملات میں انسانی ہلاکتوں کو اخلاقی پہلو سے نہیں پرکھا جاتا ، بالکل اسی طرح معاندین کے قتل کے معاملے کو بھی اخلاقی پہلو سے نہیں پرکھنا چاہیے ۔
یہودی شاعر کعب بن اشرف بھی ایک معاند تھا۔ وہ بہت مال دار آدمی تھا۔ اس کاقلعہ مدینہ کے جنوب میں بنو نضیر کی آبادی کے پیچھے واقع تھا۔ جنگ بدر میں مسلمانوں کے ہاتھوں قریش کے سردار مارے گئے تو اس نے اس کی اطلاع ملنے پر کہا کہ کیا واقعی ایسا ہوا ہے ؟ یہ عرب کے اشراف اور لوگوں کے بادشاہ تھے ۔ اگر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے ان کو مار لیا ہے تو زمین کا شکم اس کی پشت سے بہتر ہے ۔ اور جب اسے معلوم ہوا کہ یہ بات سچی ہے تو اس کو اتنا صدمہ ہوا کہ وہ چالیس آدمیوں کے ساتھ تعزیت کرنے مکہ گیا۔ وہاں مرنے والوں کے لیے پردرد مرثیے پڑھے ۔ خود بھی رویا اور دوسروں کو بھی رلایا۔ اس کے علاوہ ان مرثیوں سے قریش کی آتش انتقام تیز کی ۔ پھر ابوسفیان کو حرم میں لے کر آیا ۔ وہاں حرم کا پردہ تھام کر عہد کیا کہ مسلمانوں سے بدر کا انتقام لیں گے ۔ مکہ میں ایک موقع پر ابوسفیان اور مشرکین نے اس سے دریافت کیا کہ تمھارے نزدیک ہمارا دین زیادہ پسندیدہ ہے یا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم )اور اس کے ساتھیوں کا؟ اور دونوں میں سے کون سا فریق زیادہ ہدایت یافتہ ہے ؟ کعب بن اشرف نے کہا : تم لوگ ان سے زیادہ ہدایت یافتہ اور افضل ہو ۔
اس کے علاوہ وہ اپنے اشعار میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کرتا ،لوگوں کو آپ کے خلاف اکساتا ،حتیٰ کہ اس نے آپ کو دھوکے سے قتل کرنے کا قصد بھی کیا ۔ اس کے ساتھ اس نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم کی عورتوں کے بارے میں بھی بے ہودہ اشعار کہنے شروع کر دیے ۔ چنانچہ تنگ آ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے قانون اتمام حجت ۵؂ کی رو سے اللہ تعالیٰ کے حکم سے اسے عبرت ناک سزا دینے کا فیصلہ کیا ۔ آپ نے اپنے اصحاب سے کہا : کون ہے جو کعب بن اشرف سے نمٹے؟ اس نے اللہ اور اس کے رسول کو اذیت دی ہے تو محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے اٹھ کر عرض کیا : یارسول اللہ میں حاضر ہوں ۔کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں اسے قتل کر دوں؟ آپ نے فرمایا : ہاں ؟ انھوں نے عرض کیا : آپ مجھے کچھ کہنے کی اجازت دیجیے ۔ آپ نے فرمایا : کہہ سکتے ہو ۔
اس کے بعد محمد بن مسلمہ، کعب بن اشرف کے پاس گئے ۔ اور بولے : اس شخص (یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم) نے ہم سے صدقہ طلب کیا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اس نے ہمیں مشقت میں ڈال رکھا ہے۔ کعب نے کہا : واللہ ، ابھی تم لوگ اور بھی اکتا جاؤ گے ۔
حضرت محمد بن مسلمہ نے کہا : اب جبکہ ہم اس کے پیروکار بن ہی چکے ہیں ، اس لیے اس وقت تک اس کا ساتھ چھوڑ نا مناسب نہیں لگتا جب تک یہ نہ دیکھ لیں کہ ا س کا انجام کیا ہوتا ہے ۔پھر کہا : ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہمیں ایک وسق یا دو وسق غلہ دے دیں ۔ کعب نے کہا: میرے پاس کچھ رہن رکھو ۔ حضرت محمد بن مسلمہ نے کہا : آپ کون سی چیز پسند کریں گے ؟ کعب کے خبث باطن کا اندازہ کریں اس نے کہا : اپنی عورتوں کو میرے پاس رہن رکھ دو۔ حضرت محمد بن مسلمہ نے کہا : ہم اپنی عورتیں آپ کے پاس کیسے رہن رکھ دیں جبکہ آپ عرب کے سب سے خوب صورت انسان ہیں ۔ اس نے کہا : تو پھر اپنے بیٹوں ہی کو رہن رکھ دو ۔ حضرت محمد بن مسلمہ نے کہا : ہم اپنے بیٹوں کو کیسے رہن رکھ دیں،اگر ایسا ہو گیا تو انھیں گالی دی جائے گی کہ انھیں ایک وسق یا دو وسق کے بدلے رہن رکھا گیا تھا۔ یہ ہمارے لیے عار کی بات ہے ۔ ہاں ،ہم آپ کے پاس ہتھیار رہن رکھ سکتے ہیں ۔ اس کے بعد دونوں میں طے ہو گیا کہ حضرت محمد بن مسلمہ ہتھیار لے کر اس کے پاس آئیں گے ۔ ادھر حضرت ابو نائلہ نے بھی اس طرح کا اقدام کیا ، یعنی کعب بن اشرف کے پاس آئے ۔ کچھ دیر ادھر ادھر کے اشعار سنتے سناتے رہے ۔ پھر بولے : بھئی ابن اشرف ، میں ایک ضرورت سے آیا ہوں ، اس کی بات کرنا چاہتا ہوں ، لیکن اسے آپ ذرا صیغۂ راز ہی میں رکھیں گے ۔ کعب نے کہا : ٹھیک ہے میں ایسا ہی کروں گا۔
حضرت ابونائلہ نے کہا : بھئی اس شخص (یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم )کا آنا تو ہمارے لیے آزمایش بن گیا ہے ۔ سارا عرب ہمارا دشمن ہو گیا ہے ۔ سب نے ہمارے خلاف اتحاد کر لیا ہے ، ہماری راہیں بند ہو گئی ہیں ۔ اہل و عیال برباد ہو رہے ہیں۔ ہم اور ہمارے بال بچے مشکلات میں پھنس گئے ہیں۔ اس کے بعد انھوں نے بھی ویسی ہی گفتگو کی جیسی حضرت محمد بن مسلمہ نے کی تھی ۔ دوران گفتگو میں حضرت ابو نائلہ نے یہ بھی کہا کہ میرے ہم خیال کچھ رفقا ہیں ،میں انھیں بھی آپ کے پاس لانا چاہتا ہوں ۔ آپ ان کے ہاتھ بھی کچھ بیچیں اور ان پر احسان کریں۔
حضرت محمد بن مسلمہ اور حضرت ابو نائلہ اپنے مقصد میں کا میاب رہے ،کیونکہ ہتھیار اور رفقا سمیت ان دونوں کی آمد پر کعب بن اشرف چونک نہیں سکتا تھا۔ چنانچہ ۱۴ ربیع الاول ۳ہجری کی چاندنی رات کو یہ چھوٹا سا دستہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ آپ بقیع غرقد تک ان کے ساتھ چلے۔ پھر فرمایا : اللہ کا نام لے کر جاؤ ۔ اور دعا کی : اللہ ان کی مدد فرما۔ پھر آپ اپنے گھر لوٹ آئے اور نمازومناجات میں مشغول ہو گئے۔
ادھر یہ دستہ کعب بن اشرف کے قلعے کے دامن میں پہنچا تو اسے حضرت ابونائلہ نے قدرے زور سے آواز دی ۔ آواز سن کر وہ ان کے پاس آنے کے لیے اٹھا تو اس کی بیوی نے کہا : اس وقت کہاں جا رہے ہیں ؟ میں ایسی آواز سن رہی ہوں جس سے گویا خون ٹپک رہا ہے ۔ کعب نے کہا : یہ تو میرا بھائی محمد بن مسلمہ اور میرا دودھ کا ساتھی ابونائلہ ہے ۔ ۶؂ کریم آدمی کو اگر نیزے کی مار کی طرف بلایا جائے تو وہ اس پکار پر بھی جاتا ہے ۔ اس کے بعد وہ باہر آ گیا ۔ کعب خوشبو میں بسا ہوا تھا ۔ سر سے تو بہت خوشبو آ رہی تھی۔
حضرت ابونائلہ نے اپنے ساتھیوں سے کہہ رکھا تھا کہ جب وہ آ جائے تو میں اس کے بال پکڑ کر سونگھوں گا ۔ جب تم دیکھنا کہ میں نے اس کا سر پکڑ کر اسے قابو میں کر لیا ہے تو اس پر پل پڑنا اور اسے مار ڈالنا۔ چنانچہ جب کعب آیا تو کچھ دیر باتیں ہوتی رہیں ۔ پھر حضرت ابو نائلہ نے کہا : ابن اشرف، کیوں نہ شعب عجوز تک چلیں ۔ ذرا آج رات باتیں کی جائیں ۔ اس نے کہا : اگر تم چاہتے ہو تو چلتے ہیں ؟ اس پر سب لوگ چل پڑے ۔ راستے میں حضرت ابو نائلہ نے کہا : ایسی عمدہ خوشبو تو میں نے کبھی دیکھی ہی نہیں۔ یہ سن کر کعب خوش ہو گیا۔ کہنے لگا : میرے پاس عرب کی سب سے زیادہ خوشبووالی عورت ہے ۔ حضرت ابونائلہ نے کہا : اجازت ہوتو ذرا آپ کا سر سونگھ لوں؟ وہ بولا :ہاں ہاں ۔ حضرت ابو نائلہ نے ا س کے سر میں اپنا ہاتھ ڈالا۔ پھر خود بھی سونگھا اور ساتھیوں کو بھی سونگھایا۔ کچھ اور چلے تو حضرت ابونائلہ نے کہا : بھئی ایک بار اور۔ کعب نے کہا :ہاں ہاں ۔ حضرت ابو نائلہ نے پھر ا سی طرح کیا یہاں تک کہ وہ مطمئن ہو گیا۔
اس کے بعد کچھ اور چلے تو حضرت ابونائلہ نے پھر کہا : بھئی ایک بار اور۔ اس نے کہا : ٹھیک ہے ۔ اس دفعہ حضرت ابونائلہ نے اس کے سر پر ہاتھ ڈال کر ذرا اچھی طرح پکڑ لیا تو بولے : لے لو اللہ کے اس دشمن کو ۷؂ ۔اتنے میں کئی تلواریں پڑیں ،لیکن صحیح طور پر کام نہ دے سکیں۔ یہ دیکھ کر حضرت محمد بن مسلمہ نے فوراً اپنی کدال لی اور اس کے پیڑو پر لگا کر چڑھ بیٹھے ۔ کدال آر پار ہو گئی۔ اور اللہ کا یہ دشمن وہیں ڈھیر ہو گیا۔ حملے کے دوران میں وہ اتنے زور سے چیخا کہ گردوپیش میں ہلچل مچ گئی تھی اور کوئی ایسا قلعہ باقی نہ بچا تھا جس پر آگ روشن نہ کی گئی ہو ،لیکن جوابی طور پر کچھ بھی نہیں ہوا ۔
کارروائی کے دوران میں حضرت حارث بن اوس کو بعض ساتھیوں کی تلوار کی نوک لگ گئی تھی ، جس سے وہ زخمی ہو گئے تھے اور ان کے جسم سے خون بہ رہا تھا۔ چنانچہ واپسی میں جب یہ دستہ حرۂ عریض پہنچا تو دیکھا کہ حارث ساتھ نہیں ہیں ،چنانچہ سب لوگ وہیں رک گئے ۔ تھوڑی دیر بعد حضرت حارث بھی ان کے نشانات قدم دیکھتے ہوئے آن پہنچے ۔ وہاں سے لوگوں نے انھیں اٹھا لیا۔ بقیع غرقد پہنچ کر اس دستے نے ایسا زور دار نعرہ لگایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی سنائی دیا۔ آپ سمجھ گئے کہ یہ لوگ کامیاب رہے ہیں۔ چنانچہ آپ نے بھی اللہ اکبر کہا ۔پھر جب یہ لوگ آپ کی خدمت میں پہنچے تو آپ نے فرمایا : یہ چہرے کامیاب رہے ۔ ان لوگوں نے کہا : آپ کا چہرہ بھی اے اللہ کے رسول۔ اور اس کے ساتھ ہی اس طاغوت کا سر آپ کے سامنے رکھ دیا ۔ آپ نے اس کے قتل پر اللہ کی حمد و ثنا کی ۔

____________

۱؂ التوبہ ۹ : ۱۴۔
۲؂ جنگ بدر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مٹھی میں خاک بھر کر قریش کے لشکر کی طرف پھینکی تھی جس سے معجزانہ طور پر اس کی بینائی بری طرح متاثر ہو گئی تھی ۔
۳؂ الانفال ۸ : ۱۷۔
۴؂ یہاں یہ واضح رہے کہ یہ سارا خدائی معاملہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام کے ساتھ خاص ہے ۔ یہ شریعت نہیں ہے ۔ اس میں ہمارے لیے کوئی اسوہ نہیں ہے ۔ ایسے واقعات کی بنیاد پر غیر حکومتی گروہوں کا گوریلا کارروائیاں کرنا درست نہیں ہے۔
۵؂ یعنی ایک رسول کی جانب سے دین حق براہ راست اور پوری طرح واضح ہو جانے کے بعد بھی مخاطبین کا سرکشی اور دشمنی اختیار کرنے پر انھیں اللہ تعالیٰ کا عبرت ناک موت کی سزاد ینا۔
۶؂ اوپر واضح ہو چکا کہ حضرت محمد بن مسلمہ اور حضرت ابو نائلہ کعب بن اشرف کے رضائی بھائی تھے ۔ اصل میں کعب کے باپ (اشرف) کا تعلق قبیلۂ طے سے تھا ۔ اشرف نے مدینہ میں بنو نضیر کا حلیف بن کر اس قدر مقام حاصل کیا کہ ابو رافع بن ابی الحقیق جو یہود کا مقتدا اور تاجر الحجاز کا خطاب رکھتا تھا ، اس کی لڑکی سے شادی کی ۔ کعب اس کے بطن سے پیدا ہوا ۔ اس دو طرفہ رشتے داری کی بنا پر کعب یہود اور عرب سے برابر کا تعلق رکھتا تھا۔
۷؂ معاندین کے پہلو سے یہ الفاظ قابل غور ہیں۔

-----------------------------

 

بشکریہ ماہنامہ اشراق

تحریر/اشاعت مارچ 2002
Uploaded on : Aug 25, 2016
2485 View