زمین کے وارث - ابو یحییٰ

زمین کے وارث

اس دنیا میں کامیاب تاجر خوش اخلاق ہوتا ہے۔ اچھا باس اسی وقت تک اچھا رہتا ہے جب تک ملازم اپنے کام ذمہ داری کے ساتھ سرانجام دیں۔ والدین اولاد کی پرورش اپنی فطری ضرورت اور مستقبل کی امید کی بنا پر کرتے ہیں۔ اولاد کا والدین کے ساتھ اچھا رویہ اس تربیت کا نتیجہ ہوتا ہے جو والدین اور سماج کرتا ہے۔

یہ چند مثالیں ہیں جو بتاتی ہیں کہ اس دنیا میں انسان کی ہر خوبی کسی ضرورت یا مفاد کے تابع ہوتی ہے۔ بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو اس سطح سے بلند ہو سکیں۔ جو ہوتے ہیں ان کی خوبیاں بھی کسی اور کی مہربانی اور احسان کا نتیجہ ہوتی ہیں۔

یہاں صرف ایک ہستی ہے جو اپنی ذات میں محمود ہے۔ اس کی کوئی خوبی کسی پر اس وجہ سے نہیں ہوتی کہ وہ کسی کا محتاج ہے۔ یا اس کی کوئی ضرورت کسی سے وابستہ ہے۔ وہ اتنا طاقتور ہے کہ اسے کسی کی مہربانی اور احسان کی ضرورت نہیں ہے۔

اللہ جب احسان کرتا ہے تو بدلے میں کوئی توقع نہیں رکھتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسے کوئی کچھ نہیں دے سکتا۔ حتیٰ کہ اس کا شکریہ ادا کر کے اور اس کی عبادت کر کے بھی اس کی مخلوق اسے کوئی نفع نہیں پہنچا سکتی۔ پھر سوال یہ ہے کہ اس نے انسان کو کیوں پیدا کیا ہے۔ وہ قرآن مجید میں وہ اخلاقی مطالبات کیوں کرتا ہے جن کا ایک خلاصہ ہم نے ’’قرآن کا مطلوب انسان ‘‘نامی کتاب میں جمع کر دیا ہے ۔

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے سے قریب تر لوگ ڈھونڈ رہے ہیں۔ اس دنیا کی تخلیق کا مقصد یہی ہے کہ ایسے لوگوں ڈھونڈے جائیں جو غیب میں رہتے ہوئے بلا زور و زبردستی بھی سچائی کو مان لیں۔ جو ان لوگوں پر احسان کریں جو ان کو جواب میں کچھ نہ دے سکتے ہوں۔ جو ان لوگوں کو معاف کر دیں جنھوں نے ان کے ساتھ زیادتی کی ہو۔

جو لوگ اپنے تعصبات کے خلاف جا کر صرف دلیل کی بنیاد پر حقائق کو تسلیم کر لیں۔ جو خواہشات کے منہ زور گھوڑے کو صبر کی لگام سے قابو میں رکھیں۔جو دوسروں کی جان ، مال آبرو کا احترام کرنے کو اپنی اقدار بنالیں۔ جن کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے لوگ محفوظ رہیں۔

جو ان سے کٹیں وہ ان سے جڑیں۔ جو ان کو محروم کرے وہ ان کو دیں۔ جو ان پر ظلم کرے وہ ان پر احسان کریں۔ جن کی زبان لایعنی باتوں کے بجائے خیر، بھلائی اور حسن خلق کے پھول برساتی ہو۔ جن کی دماغی صلاحیت مخلوق کے بجائے خالق کی عظمت اور عنایات کے نت نئے پہلو ڈھونڈنے میں صرف ہوتی ہو۔ جن کے مال میں مانگنے والوں اور ضرورت مندوں کا حصہ ان کی اپنی ضروریات سے قبل ہی طے پا جاتا ہو۔ جن کی ترشی اور بدمزاجی سے ڈرنے کے بجائے لوگ ان کی محبت اور نرمی کے گرویدہ ہوں ۔

یہ لوگ اپنی مرضی سے اپنی آزادی اور خواہشات پر بندگی کی لگام ڈال دیتے ہیں۔ یہ بیماری اور دکھ میں صبر سے کام لیتے ہیں۔ جو غربت اور فقر میں مایوسی کے بجائے دعا اور امید پر یقین رکھتے ہیں۔ جو حق و باطل کی جنگ میں غیر جانبدار رہنے کے بجائے سچائی کا ساتھ ہر قیمت پر دیتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ہر حال میں سچائی کی گواہی دیتے ہیں، چاہے وہ ان کے اپنوں کے خلاف ہو۔ یہ لوگ مخالفین کے معاملے میں بھی عدل سے کام لیتے ہیں، چاہے ان سے انھیں کتنا ہی اختلاف ہو۔ یہ لوگ مال، اولاد اور بیویوں کی محبت میں اندھے بن کر جینے کے بجائے شکر گزاری، احسان مندی اور بندگی کی زندگی گزارتے ہیں۔

یہی لوگ ہیں جن کی تلاش کے لیے یہ دنیا بنائی گئی ہے۔ یہی وہ خدا شناس بندے ہیں جن کے لیے جنت بنائی گئی ہے۔ یہی اس زمین کے آخری اور ابدی وارث ہوں گے۔

بشکریہ ماہنامہ انذار، تحریر/اشاعت نومبر 2016
’’انذار نومبر 2016‘‘ پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
مصنف : ابو یحییٰ
Uploaded on : Nov 29, 2016
1748 View