ہدف اور نتیجہ

ہدف اور نتیجہ

تنظیم الاخوان کے امیر مولانا محمد اکرم اعوان نے پاکستان میں نفاذِ دین کے لیے اپنے معتقدین کو خواتین اور بچوں سمیت تیاری کا حکم دے دیا ہے ۔

انھوں نے کہا ہے :

’’میں عنقریب کال دینے والا ہوں ۔دنیا بھر سے ، ملک بھر سے ہمارے جاں باز ساتھی آئیں گے ۔ پھر ہر جگہ ہم ہوں گے ۔ ہم دیکھیں گے کہ ہمیں کون روکے گا؟ ہمارا جینا مرنا اسلام کے لیے ہے ۔
ہمارا مطالبہ صرف یہ ہے کہ ہمیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نظام کی برکات سے محروم نہ رکھا جائے۔ ہمیں سودی نظامِ معیشت سے نجات دلا کر اسلامی نظامِ معیشت دیا جائے ۔ طبقاتی نظامِ تعلیم ختم کر کے پورے ملک میں یکساں نصاب اور یکساں نظامِ تعلیم رائج کیا جائے ۔ ۔۔۔صدر آرڈیننس جاری کریں کہ پاکستان میں قرآن و سنت ہی واحد قانون ہے اور باقی قوانین کالعدم قرار دیے جائیں ۔‘‘

انھوں نے مزید کہا ہے :

’’لوگ گھروں سے نکلیں اور ایک مقام پر خیمہ زن ہو جائیں ۔ وہ یہ سوچ کر آئیں کہ واپسی کا کوئی راستہ کھلا نہیں ۔۔۔میرا راستہ موت کا راستہ ہے ۔
جنرل (پرویز مشرف ) صاحب! میں تنظیم الاخوان کا امیر محمد اکرم اعوان آپ سے مخاطب ہوں جس نے اللہ کے حکم کو نافذ کرنے کے لیے بارگاہِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے مہرِ نبوت کا علم سربلند کیا ہوا ہے۔ آپ اسلام نافذ نہیں کریں گے تو ہم اسلام کے لیے ایوانِ اقتدار کی طرف آئیں گے ۔ موت پر بیعت کرنے والے تین لاکھ جاں باز گلے میں قرآن ڈالے ، ہاتھوں میں تسبیح پکڑے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ اور اللہ ہو کا ورد کرتے ہوئے اسلام آباد کی طرف مارچ کریں گے ۔ ہم بندوقیں نہیں لائیں گے ، لیکن اگر کسی نے ہم پر بندوقیں اٹھانے کی غلطی کی تو ہم ان سے بندوق چھین لیں گے ۔ بندوقیں چلانا ہمیں آتا ہے۔‘‘ (جنگ ۹۔۱۱ دسمبر ۲۰۰۰)

اعوان صاحب اور ان کے خیمہ زن ساتھیوں کے جذبات اور مطالبات لائقِ تحسین اور قابلِ احترام ہیں ، مگر ان جذبات کے اظہار اور ان مطالبات کی تکمیل کا جو راستہ وہ اختیار کر رہے ہیں وہ کسی طرح قابلِ فہم نہیں ہے ۔ اس آسمان کے نیچے اور اس زمین کے اوپر اللہ کے نبیوں سے بڑھ کر دین کا درد اور دین کا فہم رکھنے والا کوئی ہوا ہے اور نہ ہو سکتا ہے ، اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ کسی نبی نے ’’نفاذِ دین‘‘ کے لیے یہ طریقہ اور یہ لب و لہجہ اختیار نہیں کیا۔
نبیوں نے ہمیشہ تعلیم و تربیت کے ذریعے سے دین کو لوگوں کے دلوں میں اتارنے کی کوشش کی ۔ جی ہاں دلوں میں اتارنے کی کوشش ۔ دین کو دلوں ہی میں اتارنا چاہیے ۔ دین دل میں اترے تو رویے کی صورت میں آپ سے آپ ظاہر ہونے لگتا ہے ۔اسی طرح اجتماعی سطح پر نظام میں بھی نمودار ہونے لگتا ہے ۔ اگر دین دلوں میں اترا ہوا نہ ہو اور اسے صرف قانون کی سطح پر بزور لوگوں کے ’’ظاہر‘‘ پر نافذ کر دیا جائے تو اس سے کچھ فائدہ نہ ہوگا ۔ لوگ اندر سے بے دین رہیں گے اور ظاہر میں دین داری کا لبادہ اوڑھ لیں گے ۔
اس ضمن میں یہ حقیقت واضح کر دینا بھی ضروری محسوس ہوتا ہے کہ انسان کا اصل مسئلہ آخرت کی کامیابی ہے ۔ نبیوں نے بھی ہمیشہ ریاست کے مسائل کو ثانوی اور آخرت کی کامیابی کو بنیادی اہمیت دی ہے یہاں یہ ذہن میں رہے کہ آخرت میں دین کا لبادہ اوڑھنے والے ناکام قرار دے دیے جائیں گے نبیوں نے خود کو کبھی اصلاً ’’نظام تبدیل کرنے والا ‘‘نہیں بلکہ ’’آخرت کے احتساب سے ڈرانے والا‘‘قرار دیا ۔ وہ اسی پہلو سے ’منذر‘ کہلاتے تھے ۔ اسی جہت سے علماے دین کو نبیوں کا جانشیں قرار دیا گیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآنِ مجید میں علماے دین کا بنیادی کام ’انذار‘ ٹھیرایا گیا ہے ۔
ہمارے ملک کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ آخرت میں خدا کی پرسش اور سزا کا خوف لوگوں کے دلوں میں نہیں ہے۔ آج اگر اہلِ علم لوگوں میں تعلیم و تربیت کے ذریعے سے یہ خوف پیدا کر دیں تو اس کے نتیجے میں ریاستی نظام میں موجود غیر اسلامی عناصر آپ سے آپ ختم ہونا شروع ہو جائیں ۔ یعنی آخرت اگر ’’ہدف‘‘ ہو تو نظام کی اصلاح اس کے ’’نتیجے ‘‘کے طور پر خودبخود ہو جاتی ہے یہاں یہ پیشِ نظررہے کہ ایسی تبدیلی ہی اصلی اور دیر پا ہوتی ہے مگر افسوس ہے کہ ہمارے ہاں ’’نتیجے‘‘ کو ’’ہدف‘‘ بنا لیا گیا ہے ، جس کی وجہ سے مسئلہ جڑ بنیاد سے حل نہیں ہو رہا ، بلکہ مزید سنگین صورت اختیار کر رہا ہے ۔
لب دعا گو ہیں کہ دین کو نافذ کرنے کی خواہش رکھنے والے قابلِ احترام حضرات دین کی اس روح کو سمجھیں، اس کے اصل مقصد کو اپنائیں اور دین کے نفاذ کے معاملے میں بھی دین کے بتائے ہوئے طریقوں ہی کو اختیار کریں ۔

-----------------------------

 

بشکریہ ماہنامہ اشراق

تحریر/اشاعت جنوری 2001
Uploaded on : Aug 25, 2016
1711 View