بے ثمر سرما - ابو یحییٰ

بے ثمر سرما

 سردی کی لہر آتی ہے تو ہر شخص گرم کپڑوں اور گرم لحاف کے حصار میں خود کو محفوظ کر لیتا ہے۔ گھروں میں ہیٹر کھل جاتے ہیں۔ یہ اس لیے ہوتا ہے کہ حرارت ہماری زندگی ہے۔ جسم میں حرارت ختم تو زندگی ختم۔ یہ حرارت ہماری ہی نہیں ہر جاندار کی زندگی کی ضامن ہے۔ اس حرارت کے بغیر یہ دھرتی ایک منجمد قبرستان بن جائے گی۔

ہمیں اس سرد موت سے بچانا اورکرہ ارض پر زندگی کی حرارت برقرار رکھنا سورج کی ذمہ داری ہے۔ زمین کا کام بس اتنا ہے کہ وہ چوبیس گھنٹے گھوم کر اپنے ایک ایک انگ کو سورج کے سامنے کر دے اور اطمینان سے سن باتھ لیتی رہے۔ سورج ہر روز اسی طرح خاموشی سے تمام دھرتی کو اپنی حرارت سے زندگی دیتا رہتا ہے۔

اس عظیم کائناتی انتظام سے بے خبر انسان کو چاہیے کہ اور نہ سہی تو یخ بستہ ہوا اور ٹھٹھرتی ہوئی سردی میں سوچے ۔ ۔ ۔ جب گرم کپڑے خریدنے اور گرم ہیٹر جلانے لگے تو سوچے ۔ ۔ ۔ لمحہ بھر کو رک کر یہ سوچے کہ سورج اگر واپڈا کی طرح اپنا بل بنا کر بھیجنا شروع کر دے تو کیا ہو گا؟ دن میں چوبیس گھنٹے اور سال میں 365 دنوں کی حرارت کا بل کتنا بنے گا؟ سورج اگر اپنی حرارت بند کر دے تو ہم کتنے دن جی لیں گے؟

جب یہ حساب کتاب کر لیں تو سوچئے کہ اس سورج کو کس نے بلامعاوضہ ہماری اس خدمت پر لگارکھا ہے۔ اس سوال کا جواب ہماری روح میں ایمان کی حرارت پیدا کر دے گا۔ ہمارا وجود شکر گزاری کے احساس میں ڈھل جائے گا۔ ہمارا دل خدا کی محبت سے سرشار ہوجائے گا۔ ہم یہ سوچیں گے تو یہ سردی ہمارے لیے خداوند رحمن کے تعارف کا ایک نیا زاویہ بن جائے گی۔ ورنہ جیسے زندگی کے پچھلے موسم گزرے، یہ موسم سرما بھی بے ثمر گزرجائے گا۔

بشکریہ ماہنامہ انذار، تحریر/اشاعت جنوری 2017
’’انذار جنوری 2017‘‘ پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
مصنف : ابو یحییٰ
Uploaded on : Jan 05, 2017
1542 View