’’(اِن فتنوں سے بچنے کے لیے)، اے ایمان والو، (تم بارگاہِ رسالت میں بیٹھو تو) ’راعنا‘ نہ کہا کرو، ’انظرنا‘ کہا کرو اور (جو کچھ کہا جائے، اُسے) توجہ سے سنو، اور (اِس بات کو یاد رکھو کہ)اِن کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے۔اہل کتاب ہوں یا مشرکین، اِن میں سے جن لوگوں نے کفر کیا ہے، وہ نہیں چاہتے کہ تمھارے پروردگار کی طرف سے کوئی خیر تم پر نازل کیا جائے۔ اور ( یہ احمق نہیں جانتے کہ) اللہ جس کو چاہتا ہے، اپنی رحمت کے لیے خاص کر لیتا ہے، اور (نہیں جانتے کہ) اللہ بڑی عنایت فرمانے والا ہے۔
(اِنھیں اعتراض ہے کہ تورات کی شریعت میں ہم کوئی تبدیلی کیوں کرتے ہیں۔ اِنھیں بتا دو)، ہم (اِس کتاب کی) جو آیت بھی منسوخ کرتے ہیں یا اُسے بھلا دیتے ہیں، (قرآن میں) اُس کی جگہ اُس سے بہتر یا اُس جیسی کوئی دوسری لے آتے ہیں۔ کیا تم نہیں جانتے، (اے لوگو)کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔کیا تمھیں نہیں معلوم کہ آسمانوں اور زمین کی پادشاہی اللہ ہی کے لیے ہے اور تمھارے لیے اللہ کے سوا کوئی دوست ہے اور نہ کوئی مدد کرنے والا۔‘‘ (۲: ۱۰۴۔۱۰۷)
مدعا یہ ہے کہ یہ یہود ہمارے اِس نبی پر کیا ایمان لائیں گے اور کیا تقویٰ کی راہ اختیار کریں گے۔ اے مسلمانو، تم اپنے دامن کی فکر کرو۔ یہ لوگ تمھاری محفلوں میں آ کر بڑے شنیع طریقوں سے اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہیں، تم اِن سے خبردار رہو اور انہیں کوئی موقع نہ دو۔ دیکھو یہ تمھارے نبی کے پاس آتے اور یہ تاثر دیتے ہیں کہ ہم علم کے سچے طالب اور حق کی تلاش میں سرگرداں ہیں، اے محمد تیری محفل میں آئے ہیں، تو بات کرتا ہے ہم تیری بات سنتے ہیں، تو نے بات کرتے ہوئے ابھی یہ کیا کہا تھا، کان تو پڑا پر سنائی نہ دیا، ہماری کچھ رعایت کریں پھر سے کہیں، ہم بھی جان لیں ہم بھی سمجھ لیں، تم فہم و فراست کی کہتے اور عقل و دانش کی با ت کرتے ہو۔
یہ لوگ اپنا یہ تاثر تمھارا مجلسی لفظ ’راعنا‘ بول کر ظاہر کرتے ہیں۔ خوش گمان یہ سمجھتا ہے کہ یہ رعایت چاہتے ہیں ۔لیکن غور کرو ،نہ یہ کسی رعایت کے مستحق ہیں،نہ یہ کوئی رعایت چاہتے ہیں۔ یہ راعنا (ہماری رعایت کریں) کا لفظ نہیں راعینا (ہمارے چرواہے)کا لفظ بولتے ہیں، تاکہ یہ شہنشاہِ ارض و سما کے رسول کا مذاق اڑائیں اور اُس کے ذریعے سے اِن پر جو اتمامِ حجت ہو رہا ہے اُس کے ردِ عمل میں اُس کی توہین کر یں اور اُس کو مسلمانوں کی نگاہ سے گرانے کی کوشش کریں۔
اے ایمان والو، اِن فتنوں سے بچنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ تم جب بھی اپنے نبی کے پاس بیٹھو اور تمھیں اُس سے بات سمجھنے کے لیے اُسے اپنی طرف متوجہ کرنا اور کوئی بات دوبارہ سننا پیشِ نظر ہو تو ’راعنا‘ کے الفاظ نہ کہا کرو، بلکہ ’انظرنا‘کہہ دیا کرو ،اور ہاں جو کچھ بھی کہا جائے، اُسے پہلے ہی سے توجہ سے سنا کرو۔ لازم ہے کہ مسلمان اپنے آپ کو اِن شنیع حرکتوں سے بہت دور رکھیں۔
اے مسلمانو! تم خود کو بچاؤ اور اِس بات کو یاد رکھو کہ تمھارے پروردگار نے ایسے کافروں کے لیے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔ یہ تمھارے ارد گرد کے اہلِ کتاب ہوں یا مشرکین، اِن میں سے جن لوگوں نے کفر کیا ہے، وہ اِس غصے اور اِس حسد میں جل رہے ہیں کہ تم خدا کی طرف سے اِس خیرِ عظیم کے حق دار کس طرح قرار پا گئے، وہ نہیں چاہتے کہ تمھارے پروردگار کی طرف سے کوئی خیر تم پر نازل کیا جائے۔ اُن کے خیال میں سارا خیر اور سارا شرف تو اُن کی وراثت تھا، نہ کہ اِس قلاش نبی اور اِس کے اِن بے سرو سامان ساتھیوں کی۔ اُن کے خیال میں اللہ نے یہ غلط فیصلہ کیا ہے کہ اِس بھلائی سے تمھیں بہرہ مند کر دیا ہے۔ مسلمانو، تم اِن کی چالوں سے ہوشیار رہو۔
افسوس یہ احمق یہ بات نہیں جانتے کہ اللہ بڑی حکمت کا مالک ہے ، وہ اپنی حکمت سے جس کو چاہتا ہے، اپنی رحمت کے لیے خاص کر لیتا ہے، اور کیا انھیں معلوم نہیں کہ اللہ بڑی عنایت فرمانے والا ہے، کیا یہ اُس کو تمھارے حق میں بخل کا مشورہ دینا چاہتے ہیں، یہ نہیں جانتے کہ وہ بڑے فضل والا ہے وہ جو فیصلہ اپنی حکمت اور رحمت سے کرے گا پھر وہ کسی کے مشورے سے اُس میں کوئی بخل کیوں برتے گا۔
انھیں یہ اعتراض بھی ہے کہ تورات کی شریعت میں خدا کوئی تبدیلی کیوں کرتا ہے۔ اگر تورات اُسی کی نازل کردہ ہے تو پھر کیا اُسے اب کسی تجربے نے کچھ سجھا دیا ہے، جسے وہ پہلے نہیں جانتا تھا اور اب اُس نے جان لیا ہے، یہ کیسا خدا ہے جس سے محمد کا قرآن ہمیں متعارف کرا رہا ہے ۔ اے مسلمانو ، یہ لوگ اِس طرح کے اعتراضات کرکے تمھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے برگشتہ کرنا چاہتے ہیں۔یہ چاہتے ہیں کہ تم انھیں چھوڑ دو اور کوئی بھی اُن کی بات نہ سنے، وہ تنہا رہ جائیں۔
انھیں بتا دو، کہ خدا تمدن کے ارتقا اور حالات کی تبدیلی کے پیشِ نظر اِس کتاب تورات کی جو آیت بھی منسوخ کرتا ہے یا اُسے بھلا دیتا ہے، قرآن میں اُس کی جگہ اُس سے بہتر یا اُس جیسی کوئی دوسری آیت لے آتا ہے۔ ایسا نہیں کہ اُس نے انسانوں کے لیے اپنی ہدایت اور اپنی شریعت میں کوئی کمی کر ڈالی ہے ۔
اے لوگو، کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔وہ کسی کو شریعت دینے کے بعد اپنی قدرت اور اپنے اختیار سے دست بردار نہیں ہو جاتا، وہ جب چاہتا ہے اور جس ذریعے سے چاہتا ہے ، دنیا کو اپنی شریعت دیتا ہے ، اور پھر اُس میں اپنی حکمت سے جب بھی کوئی تبدیلی چاہتا ہے، کر ڈالتا ہے۔
اے یہود ، جان لو، آسمانوں اور زمین کی پادشاہی اللہ ہی کے لیے ہے ،اُس نے تمھیں اپنی شریعت کا حامل بنایا تھا ،پر تم اُس کے اہل ثابت نہ ہو سکے ،اب اُس نے فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ ایک دوسری قوم کو اِس منصب پر سرفراز کرے گا ۔اُس کا یہ فیصلہ تمھارے غم و غصہ کے باوجود، نافذ ہو کر رہے گا۔ تمھارا کوئی حامی اور کوئی مدد گار بھی اللہ کے اِس فیصلے کو ہٹانے میں تمھاری مدد نہیں کر سکتا۔