ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ (6) - ڈاکٹر وسیم مفتی

ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ (6)

 

جنگ یمامہ میں ۱۲۰۰ مسلمان شہید ہوئے ، ان میں سے ۳۹ صحابہ حفاظ قرآن تھے۔ ابھی ایران و روم کے ساتھ جنگوں کا سلسلہ جاری تھا، حضرت عمر نے یہ سوچ کر کہ کہیں زیادہ تعداد میں حفاظ شہید ہونے سے قرآن کا متن غیرمحفوظ نہ ہو جائے، ابوبکر کو مشورہ دیا، قرآن کو اکٹھاکر لیا جائے۔ ان کا جواب تھا: ’’تم ایک کام کیسے کرسکتے ہو جو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے نہیں کیا ؟‘‘ عمر نے اس موضوع پر ابو بکر سے کئی بار گفتگو کی تو وہ قائل ہو گئے اور عمر کی رائے پر عمل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔پھر نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے آخری ایام میںآپ سے پورا قرآن سیکھنے والے صحابی زید بن ثابت کو بلا کر کہا: ’’تم رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو وحی لکھ کر دیا کرتے تھے، اب ہر جگہ سے معلوم کر کے قرآن مجید جمع کرو۔‘‘ چنانچہ زیدنے کھجور کی چھالوں،چمڑے کے ٹکڑوں ،بکری کے شانے کی ہڈیوں اور سفید پتھر کے ٹکڑوں پر تحریر آیات اکٹھی کیں اور حفاظ سے رجوع کیا ۔ اس سعی کے بعد قرآن چمڑے پر یا اس زمانے کے کاغذ پر تحریر ہوکریکجا ہوا تو ابوبکر کے پاس رکھوا دیا گیا،ان کی وفات کے بعدیہ عمر کے پاس رہا پھر ام المومنین حفصہ بنت عمر کے پاس آ گیا۔ (بخاری، رقم۴۹۸۶)
ایسی روایات بھی موجود ہیں کہ جمع قرآن کا کارنامہ خلافت فاروقی میں انجام پایا، لیکن اگر بخاری کی اس روایت کو ترجیح دی جائے تو ممکن ہے کہ جمع قرآن کا بیش تر کام خلیفۂ اول کے زمانے میں ہوا ہو اور دوسرے خلیفۂ راشد کے عہد میں اسے اس مصحف کی حتمی شکل دی گئی ہو جوان کی شہادت کے بعد سیدہ حفصہ کے پاس آگیا۔ آج قرآن مجید جس ترتیب سے تلاوت کیا جاتاہے یہ وہی ترتیب ہے جو نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے صحابہ کو تلقین فرمائی اور عہد صدیقی میں اس کی تدوین ہوئی۔ ابوبکر نے قرآن کی آیات اور سورتیں ترتیب دینے میں اپنی رائے سے کام نہ لیا جیسا کہ مستشرقین اور بعض مسلمان مورخین کاخیال ہے ۔ قرآن کی ترتیب تو توقیفی تھی، ابوبکر کے حکم سے محض اس کے متن کو اس طرح ضبط تحریر میں لایا گیا جس طرح نبی صلی اﷲ علیہ وسلم حفاظ صحابہ کو تلقین فرماتے تھے۔ خلیفۂ ثالث عثمان نے ابوبکر کے مصحف ہی کو سامنے رکھ کر متن میں قرأتوں کے اختلاف کو طے کیا،یوں یہ مصحف مصحف عثمانی کہلایا۔ ابو بکر نے جمع قرآن کا جو کارنامہ انجام دیا وہ ان کے ہمیشہ یاد کیے جانے والے کارناموں، مرتدین کی سرکوبی اور عراق و شام کی فتوحات سے بھی زیادہ اہمیت رکھتا ہے، اس لیے کہ آج جبکہ مملکت اسلامیہ پارہ پارہ ہو چکی ہے ،قرآن مجید جوں کا توں محفوظ ہے اور اپنے حق ہونے کی گواہی دے رہا ہے۔
ابو بکر پیغمبر صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد ملت اسلامیہ کے لیے اہم ترین مقام رکھتے تھے ۔یہ بات اس وقت کے کفار خوب جانتے تھے اور آج کے مسلمان اور منکر سبھی اس بات سے واقف ہیں۔ غزوۂ احد میں ابو سفیان نے میدان جنگ خالی دیکھا تو پہاڑی پر چڑھ کر پکارا،کیا محمد موجود ہیں؟ جب اسے جواب نہ ملا تو تین بار ابو بکر کا نام لیا، کیونکہ اسے معلوم تھا کہ دوسری پوزیشن انھی کی ہے ۔ابو بکر کی زندگی اخلاق محمدی سے آراستہ تھی ۔قارہ کے سردار ابن دغنہ نے قریش کے روبروابوبکر کی تعریف کرتے ہوئے کہاتھا: ’’ابوبکر فقیر و محتاج کو کما کر دیتے ہیں، صلۂ رحمی کرتے ہیں، محتاجوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں اور راہ حق میں آنے والی مصیبتوں میں مدد کرتے ہیں۔‘‘ (بخاری، رقم ۲۲۹۷) یہ قریباً وہی الفاظ ہیں جو سیدہ خدیجہ رضی ا ﷲ عنہانے رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وسلم کو تسلی دیتے ہوئے فرمائے تھے، جب پہلی وحی نازل ہونے کے بعدآپ پر لرزہ طاری تھا۔یہ تفصیل تفضیل ابو بکر کی ایک بڑی دلیل ہے۔
خلافت ملنے کے بعد ابو بکرکپڑے کی کچھ چادریں پکڑ کر بازار جانے لگے ،راستے میں عمر سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے پوچھا : کہاں کا ارادہ ہے؟ ابوبکر نے کہا: انھیں بیچنے بازارجا رہا ہوں ۔عمر نے کہا: آپ کے کاندھوں پر مسلمانوں کی ذمہ داری کا بوجھ ہے، آپ یہ کارو بار کیسے کر سکتے ہیں؟ سوال آیا: بال بچوں کو کہاں سے کھلاؤں؟ باہم مشورے سے دونوں بیت المال کے انچارج ابو عبیدہ کے پاس پہنچے۔ انھوں نے امیر المومنین کے لیے ۶ ہزار درہم سالانہ وظیفہ مقرر کر دیا۔یہ روایت بھی ہے کہ جب امور خلافت کے ساتھ کپڑے کا کاروبار سنبھالنا مشکل ہو گیاتو انھوں نے خود وظیفہ مقرر کر نے کی درخواست کی۔پورے زمانۂ خلافت میں سنح میں ابو بکر کا دیہاتی مکان جومحض ایک خیمے جتنا تھا اور بالوں سے بنا یا گیا تھا، جوں کا توں رہا۔وہ گھر جو مسجد نبوی اور ابو ایوب انصاری کے پڑوس میں تھا، اس میں بھی کوئی تبدیلی نہ آئی۔ خلافت کے پہلے چھ ماہ سنح سے پیدل مدینہ آتے رہے پھر وہ وسط مدینہ میں واقع مکان میں منتقل ہو گئے۔
ابو بکر ایسا کام سرے سے نہ کرتے جو رسول ا ﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے نہ کیا ہواور وہ عمل ہر گز نہ چھوڑتے جو آپ نے کیا ہو۔ قرآن وسنت ان کی حکومت کی بنیادتھے،قرآن میں رہنمائی ملتی نہ فرمان رسول ہوتا توصحابہ کے مجمع میں آکر دریافت کرتے اور ان کے اجماع پر کاربند ہو جاتے۔ آں حضرت کے بعد ان سے بڑھ کر اجتہاد کرنے والا بھی کوئی نہ تھا۔ اﷲ کے سامنے جواب دہی کے شدید احساس نے ان کو جادۂ مستقیم سے ہٹنے نہ دیا ، کوئی قدم اٹھانے سے پہلے خوب مشورہ کرتے،اﷲ سے رہنمائی کی دعا مانگتے اور جب عزم پختہ ہو جاتا تو انھیں کو ئی تردد نہ ہوتا ۔انھیں ایک مسئلہ درپیش آیا جس کے بارے میں انھوں نے کتاب اﷲ میں اصل پائی نہ سنت رسول میں رہنمائی تو فرمایا: میں اپنی رائے اور سوجھ بوجھ کو کام میں لاؤں گا۔ اگر درست فیصلہ ہوا تو اﷲ کی جانب سے ہو گااور اگر غلط ہوا تو میری طرف سے ہوگا۔ میں اﷲ سے مغفرت مانگتا ہوں۔ انھوں نے کئی اجتہادات کیے جن میں سے دادا،دادی کی میراث،کلالہ کی تفسیر اورشراب خور کی حد اہم ترین ہیں۔
ایک شخص نے ابو بکر کو ’یا خلیفۃ اﷲ‘کہہ کر پکارا تو انھوں نے اسے منع کیا اورفرمایا: میں خلیفۃ اﷲ نہیں، بلکہ خلیفۃ رسول اﷲ ہوں۔ یہ جملہ ابوبکر کے دور حکومت کی صحیح تصویر کشی کرتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو رسول اﷲ کا خلیفہ اس معنی میں کہتے تھے کہ رسول اﷲ کی لائی ہوئی شریعت کے اوامر و نواہی کے نفاذ اور آپ کی امت کی قیادت کی ذمہ داری ان کے کاندھوں پر آن پڑی تھی۔ چنانچہ انھوں نے اس فرض سے عہدہ بر ا ہوتے ہوئے ملت اسلامیہ کو وحدت کی راہ پر گامزن کر دیا۔ اﷲ اور رسول کے احکام پر عمل پیرا ہونے کے ساتھ یہ سلطنت اپنے شہریوں کی اجتماعی رائے کی پابند تھی۔ خلیفۃ اﷲ ہونے کا انکار کرنے کا مطلب تھا، قدیم ایران و مصر اور ہندوستان کی مشرکانہ تہذیبوں کے تصور حکمرانی کی نفی کر دی جائے جو بادشاہ کو خدائی نمائندہ سمجھتے تھے ۔بادشاہوں کی تقدیس اور ان کے حکم کو وحی و الہام سمجھنا ایسا تصور ہے جو یورپ میں سترھویں صدی عیسوی تک پایا گیا، لیکن ابو بکر نے صدر اسلام ہی میں اس کا خاتمہ کر دیا، کیونکہ دین توحید اس کی قطعاً گنجایش نہیں رکھتا ۔ عمر خلیفہ بنے تو انھوں نے اپنے لیے امیر المومنین کا لقب پسند کیا۔
خلیفۂ اول ابو بکر نے بیت الما ل کی ذمہ داری ابو عبیدہ بن جراح کو سونپی جنھیں آں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے امین الامت کا لقب عطا فرمایا تھا۔منصب قضا پر عمر بن خطاب کو بٹھایا جن کا بے لاگ انصاف مشہور ہے، کاتب یا سیکریٹری جنرل نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے کاتب خاص زید کو مقرر کیا۔ ان عہدے داروں کے باقا عدہ دفتر تھے نہ متعین اوقات کار۔ ضرورت پیش آنے پر اپنا کام انجام دیا اورپھر دوسری طرف متوجہ ہو گئے ۔ابوبکر کی پالیسی تھی، رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وسلم کی تقرریوں کو بر قرار رکھا جائے، چنانچہ جب عمر نے مالک بن نویرہ کو قتل کر کے اس کی بیوہ سے میدان جنگ میں شادی رچانے پر خالد کو معزول کرنے کا پرزورمشورہ دیاتو انھوں نے ان کی جگہ کسی اور کو لانے سے انکار کر دیا۔ابو بکرکی مہر خلافت پر نعم القادراﷲ نقش تھا۔
مدینہ کے محصولات میں خمس بڑی مد تھی ،وہ اس مال کو حق داروں تک پہنچانے میں بہت جلدی کرتے۔ بیت المال پہلے ابو بکر کے سنح والے گھر میں تھا ،جب وہ مدینہ منتقل ہوئے تو یہ بھی مدینہ منتقل ہو گیا ۔ اس پر کوئی چوکیدار مقرر نہ تھا، کیونکہ وہ اس میں قابل ذکر مال موجود نہ رہنے دیتے تھے جس کی حفاظت کی ضرورت محسوس ہوتی۔ زیادہ سے زیادہ اس پر ایک قفل ڈال دیا جاتا۔ ابو بکرکی وفات کے بعدخلیفۂ ثانی عمر، عبدالرحمان بن عوف اور عثمان بن عفان کے ساتھ ان کے چھوڑے ہوئے بیت المال میں داخل ہوئے تو اسے بالکل خالی پایا ۔فقط ایک کپڑے کی تھیلی ملی جس میں ایک درہم پڑا ہوا تھا ۔
اپنی خلافت کے پہلے سال ابوبکر حج کرنے نہ گئے، انھوں نے عمر رضی ا ﷲ عنہ کوامیر حج بنا کر بھیجا ۔رجب ۱۲ھ میں انھوں نے عمرہ کیا،مکہ میں اپنے والد ابو قحافہ سے ملاقات کی جو اسلام لانے کے بعد وہیں مقیم ہو گئے تھے۔ پھر اسی سال (۱۲ھ) میں ابو بکر امیر المومنین کی حیثیت سے حج کرنے آئے ،دار الخلافہ میں ان کی غیرموجودگی کے وقت عثمان بن عفان نائب رہے۔اجل نے انھیں اپنی خلافت کا تیسرا حج ادا کرنے کا موقع نہ دیا۔یہ رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وسلم کے خواب کے مطابق تھا جو آپ نے ابو بکر کو سنایا۔ فرمایا: ’’ اے ابوبکر، میں نے خواب میں دیکھا کہ ہم دونوں سیڑھیاں چڑھ رہے ہیں اور میں تم سے اڑھائی سیڑھیاں آگے نکل آیا ہوں۔‘‘انھوں نے جواب دیا،خیر ہو یا رسول اﷲ، اﷲ آپ کو سلامت رکھے یہاں تک کہ آپ وہ کچھ دیکھ لیں جو آپ کو خوش کرے اور آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچائے۔ آپ نے تین دفعہ خواب دہرایا اور ابو بکر نے تینوں بار یہی جواب دیا ۔چوتھی دفعہ ابو بکر نے کہا: ’’یا رسول اﷲ، اﷲ آپ کو اپنی رحمت و مغفرت کی طرف اٹھا لے گا اور میں آپ کے بعد اڑھائی سال جیوں گا۔‘‘کچھ مورخین کاکہنا ہے کہ ابو بکر نے اپنی خلافت کے دوران میں حج نہیں کیا۔
ابو بکر کے تین بیٹے اور تین بیٹیاں ہوئیں۔ پہلی بیوی قتیلہ بنت عبدالعزیٰ سے عبداﷲ (وفات ۱۱ھ) اور اسماء (وفات ۷۴ھ)، دوسری بیوی ام رومان بنت عامرسے عبدالرحمان (وفات ۵۳ھ) اور عائشہ (وفات ۵۸ھ)، چوتھی بیوی اسماء بنت عمیس سے محمد(قتل کی تاریخ: ۳۸ھ) اور پانچویں بیوی حبیبہ سے ام کلثوم نے جنم لیا۔ ان کی بیویوں کو ان سے کوئی شکایت نہ ہوئی، البتہ نان و نفقے کی کمی ضرور رہی۔ اولاد کی حسن تربیت اس بات سے ظاہر ہوتی ہے کہ عائشہ کو جو کم عمری میں بیاہ کر باپ کے گھر سے رخصت ہوئیں، بے شمار اشعار، ضرب الامثال اور خطبے زبانی یاد تھے۔ عربوں کے واقعات اور ان کی تاریخ پر بھی ان کی گہری نظر تھی۔ ان کی دوسری بیٹی اسماء ذات النطاقین گھرداری کی خوبیوں کا مرقع تھیں۔ باپ نے ان کی مشقت بھری زندگی دیکھی تو ایک خادمہ بھیج دی۔ اسماء کی عمر سو برس سے زیادہ تھی اور وہ نابینا ہوچکی تھیں جب حجاج نے ان کے بیٹے عبد اﷲ بن زبیر کومکہ میں محصور کر دیا۔ اس نے صلح کے بدلے گورنری اور ما ل و دولت دینے کی پیش کش کی ۔وہ بوڑھی ماں سے مشورہ کرنے آئے ، انھوں نے جگر تھام کر اپنے بیٹے کو جرات دلائی اور مصالحت سے منع کر دیا۔ ابو بکر کے بیٹے عبداﷲ اور عبدالرحمان شعر و ادب کا اچھا ذوق رکھتے تھے اور خود بھی شعر کہتے تھے۔ عبدالرحمان نے بدر و احد کی جنگوں میں مسلمانوں کے خلاف حصہ لیا اور بعد میں مسلمان ہوئے۔
ابوبکر زمانۂ جاہلیت میں بھی امانت دار تھے، لوگوں کی امانتوں کی حفاظت کرتے اورانھیں وقت پرادا کرتے پھر خلافت کی امانت کبریٰ کو خوب ادا کیا۔ خود فرماتے ہیں: ’’ہم نے مسلمانوں کے کھانے میں سے چونی بھوسی استعمال کی اور ان کے موٹے جھوٹے کپڑوں سے تن ڈھانکا۔‘‘ مکہ میں وہ ۴۰ ہزار درہم کے مالک تھے، اسلام کی راہ میں انفاق کرتے کرتے یہ رقم گھٹ کر ۵ہزاردرہم رہ گئی جب انھوں نے مدینہ ہجرت کی۔ ہجرت کے فوراً بعدسہیل و سعد کی زمین پر مسجد نبوی تعمیر ہوئی تو زمین کی قیمت ابو بکر نے اداکی۔ رفتہ رفتہ ان کا سب مال اﷲ کی راہ میں خرچ ہو گیا۔ ابوبکرپر کامل اعتماد ہونے کی وجہ سے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ان کے مال کو بے تکلف اپنے مال کی طرح خرچ فرماتے تھے۔
سیدنا ابو بکر نے خلافت کی ذمہ داریاں انتہائی تقویٰ و امانت کے ساتھ اداکیں۔وہ کسی بھی درجے میں خیانت نہ کرناچاہتے تھے، احتیاط کا یہ عالم تھا کہ ان کی اہلیہ نے حلوہ کھانے کی فرمایش کی تو مسلمانوں کے بیت المال پر بوجھ ڈالنا منظور نہ کیا، بلکہ روزانہ ملنے والے وظیفے میں سے کچھ رقم پس انداز کی تب حلوہ لیا۔زہد و ور ع کا حال یہ کہ ایک روز درخت پرچڑیا دیکھی تو کہا: او پرندے، تیری زندگی کیا خوب ہے۔درخت کے پھل کھاتا ہے اور اس کے سایے میں وقت گزارتا ہے ۔حساب کتاب کا کچھ کھٹکا نہیں۔ کاش، ابوبکر تجھ جیسا ہوتا۔ایک دن نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے صحابہ سے چند سوالات دریافت فرمائے: ’’آج روزہ کس نے رکھا ؟جنازے میں شرکت کس نے کی؟ محتاج کو کھانا کس نے کھلایا؟ بیمار کی تیمار داری کس نے کی؟‘‘ سب کے جواب میں ابو بکر ہی نے ہاں کہا۔ آپ نے ارشاد فرمایا: ’’یہ اوصاف جس میں جمع ہو جائیں، جنتی ہے۔‘‘ خلیفہ بننے کے بعدابوبکر عمرہ کرنے گئے تو لوگ احتراماً ان کے پیچھے پیچھے چلنے لگے۔ انھیں ہٹا کر کہا: اپنی اپنی راہ چلو ۔ابو بکراپنا کام خود کرتے ،اونٹ پر سواری کرتے ہوئے نکیل ہاتھ سے گرپڑتی تو خود اتر کر نکیل اٹھاتے۔ لوگوں نے کہا: ہم سے کیوں نہیں کہتے ؟جواب دیا: میرے محبوب صلی اﷲ علیہ وسلم کا مجھ کو حکم ہے،انسان سے کچھ نہ مانگوں۔خلافت سنبھالنے سے پہلے وہ سنح سے مدینہ آ کر غریب عورتوں کی بکریاں دوہا کرتے، خلیفہ بنے تو ایک عورت نے کہا: آج ہمارے گھرمیں بکریاں دوہنے والا کوئی نہ رہا ۔ان کا جواب تھا: میں اب بھی تمھارے جانور دوہتا رہوں گا۔مدینہ کے کنارے پر ایک اندھی محتاج بڑھیا رہتی۔ سیدنا عمر اس ارادے سے جاتے کہ اس کی کچھ خدمت کریں۔ وہاں پہنچتے تو معلوم ہوتا ،کوئی آدمی خدمت کر کے جاچکا ہے۔ ایک روز وہ کھوج لگانے کے لیے چھپ کر کھڑے ہو گئے۔وقت مقررہ پر انھوں نے آنے والے شخص کودیکھا تو وہ ابوبکر تھے۔محلے میں نکلتے تو بچے بابا بابا کہہ کرابو بکر سے لپٹ جاتے ۔ایک سال سردیوں میں انھوں نے کمبل خریدکر مدینہ کے غربا میں بانٹے۔
ابو بکر اپنے گورنروں کی کارر وائیوں پر نگاہ رکھنے کے ساتھ رعایا کے حالات سے با خبر رہتے ۔مظلوم کی فوراً داد رسی کرتے۔ ان کی نصیحتوں میں ان کی طبعی خصوصیت صداقت کے ساتھ ان کی دانش جھلکتی ہے۔ ایک کمانڈر کو نصیحت کی کہ لوگوں کی پردہ دری نہ کرنا، بلکہ ان کے ظاہری حالات پر اکتفا کرنا۔جہاں فساد نظر آئے اس کی اصلاح کرنا۔ عکرمہ سے کہا کہ جب کچھ کرنے کا وعدہ کرو تو اسے کر گزرو۔کسی جرم کی سزا میں حد سے تجاوز نہ کرنا۔رعایا کو وعظ فرمایا: ’’سنو، اگر تم مجھ سے تقاضا کرو کہ میں اس طرح کام کر وں جس طرح رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم عمل فرماتے تھے تو میں نہ کر سکوں گا۔ آپ کو اﷲ نے وحی سے نوازکر معصوم بنایا تھا،میں تم سے بہتر انسان نہیں ہوں، لہٰذا مجھے کچھ چھوٹ اور رعایت دو۔اگر میں درست راہ پر چلوں تو میری پیروی کرواور اگر مجھے کج راہ ہوتے پاؤ تو سیدھا کر دو۔‘‘ عراق میں مجتمع فوجوں کو ابو بکر نے جو نصیحت کی اسے پڑھ کر ان کے پختہ ایمان کا پتا چلتا ہے۔تم اﷲ کے مددگار ہو،جو اﷲ کی مدد کرے، اﷲ اسے فتح دیتا ہے ۔ہزاروں کی جمعیت اگر معصیت کی راہ اختیار کر لے تو بے دست وپا ہو جاتی ہے، لہٰذا گناہوں سے خبردار رہو۔ ابوبکر خود مختصر گفتگو کرتے اور دوسروں کو بھی اختصار کلام کی ہدایت کرتے۔یزید بن ابو سفیان کو فرمایا: طویل کلامی بات ذہن سے محو کر دیتی ہے۔
ابو بکر کے چند جامع کلمات: موت سے محبت کرو، زندگی عطاکی جائے گی۔امانت سب سے بڑی سچائی ہے اور خیانت سب سے بڑا جھوٹ۔صبر نصف ایمان اور یقین پورا ایمان ہے۔تعزیت کے بعد مصیبت مصیبت نہیں رہتی۔ اگر کوئی نیکی رہ جائے تو اسے پانے کی کوشش کرواور جب پا لو تو آگے بڑھنے کی کوشش کرو۔ جس سے مشورہ چاہواس سے کچھ نہ چھپاؤ ورنہ اپنی قبر خود کھودو گے۔
حدود اﷲ کے باب میں ان کی احتیاط اس حد تک پہنچی ہوئی تھی کہ فرمایا: اگر میں خود کسی کو خدا کی کوئی حد توڑتے ہوئے دیکھوں تو اس وقت تک سزا نہیں دے سکتا جب تک دوسرا گواہ نہ ہو۔ایک قائد کو وصیت کی کہ ان کا ظاہر قبول کرلو اور باطن ان پر چھوڑ دو ۔ایاس بن عبد یالیل فجاہ کے نام سے مشہور ہے ،ابو بکر کے پاس آیا اور مرتدوں سے مقابلے کے لیے اسلحہ مانگا۔اسے اسلحہ مل گیاتو اس نے ڈاکا زنی اور غارت گری کا پیشہ اختیار کر لیا ، پھر جب وہ گرفتار ہو کر خلیفۂ اول کے پاس لایا گیا تو آپ نے اسے بقیع کے مقام پر بھڑکتے ہوئے الاؤ میں جھونکنے کا حکم دیا ۔یہ واحد واقعہ ایسا ہے جسے ابو بکر کے بردباری ،تحمل اور دور اندیشی پر مبنی دور حکومت کے غیر موافق کہا جا سکتا ہے۔ مستشرقین نے اس واقعہ کو خوب اچھالا ہے، حالانکہ اس فیصلے کی بنیاد قرآن مجید میں پائی جاتی ہے: ’انما جزاؤا الذین یحاربون اﷲ ورسولہ و یسعون فی الارض فسادا ان یقتلوا او یصلبوا او تقطع ایدیہم وارجلہم من خلاف او ینفوا من الارض‘ ’’جو لوگ اﷲ اور اس کے رسول سے لڑائی کرتے ہیں اور زمین میں فساد پھیلاتے پھرتے ہیں ان کی سزا یہی ہے کہ بری طرح قتل کیے جائیں یا سولی پر چڑھا دیے جائیں یا ان کے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹ دیے جائیں یا انھیں مملکت سے جلا وطن کر دیا جائے۔‘‘ (المائدہ۵:۳۳) تقتیل میں جلانا بھی شامل ہو سکتا ہے۔ اسلامی مملکت کا اسلحہ لے کر اسے مملکت ہی میں بدامنی پھیلانے کے لیے استعمال کرنے سے بڑا فساد کیا ہو سکتا تھا، لیکن ابو بکر نے اس ڈاکوکو دی جانے والی سزا کو اپنی فروگزاشت سمجھا۔ وہ اس واقعے پر افسوس کرتے رہے اور ایک بار کہا: کاش میں نے فجاہ سلمی کو جلانے کی بجائے قتل کر دیا یا زندہ چھوڑ دیاہوتا۔ عمرو بن عاص نے شام سے بنان کا سر کاٹ کر بھیجا تو ابو بکر نے ناراضی کا اظہار کیا اور کہا کہ آیندہ محض فتح کی اطلاع ارسال کی جائے،ہر گز کسی کا سر میرے پاس نہ بھیجا جائے۔
ابو بکر کا بدن دبلا اورقدرے آگے کو جھکا ہوا تھا۔پہلووں میں گوشت کم تھا جس کی وجہ سے تہ بند نیچے لٹک آتا۔ رنگ سفید، گال کمزور اور ڈاڑھی خشخشی تھی۔ پیشانی فراخ اور اونچی تھی، آنکھیں گہری اور روشن تھیں، بال گھنگریالے تھے۔ ابو بکر کی آواز دردناک تھی، وہ سنجیدہ اور کم گو تھے۔ بالوں کو مہندی اوروسمہ لگاتے جس سے ان کی ڈاڑھی گہری سرخ نظر آتی۔ یہ معمول انھوں نے مدینہ ہجرت کرنے کے بعداپنایا،اس وقت نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے صحابہ میں صرف ابو بکر ہی تھے جن کے بال کھچڑی تھے۔ اتنے لاغر و نحیف ابو بکرکو مشرکوں نے ابوالفصیل (اﷲ میاں کی گائے) کا نام دیا تھا۔ انھی کے کاندھوں پر بار خلافت پڑا تو وہ ابوالفحول (شیرنر) ثابت ہوئے۔ خالد بن ولید نے بھی جنگ ارتداد میں بعض مواقع پر نرم پالیسی اختیار کرنا چاہی، لیکن ابو بکر نے پورا قصاص لینے کی ہدایت کی۔ عمر نے منکرین زکوٰۃ سے نرمی برتنے کا مشورہ دیا تو بھی وہ اپنے موقف پر قائم رہے۔ ان کے لیے رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف سے ملنے والی سند کافی ہے کہ ’’جسمانی طور پر کم زور اور اﷲ کے معاملے میں انتہائی طاقت ور۔‘‘ بوڑھے ہو کر وہ اور ضعیف ہوگئے، لیکن ان کی ہر فضیلت زیادہ توانا ہو گئی۔ابوبکر زمانۂ جاہلیت میں شعر کہتے تھے: اسلام قبول کرنے کے بعد ان کا شعری اثاثہ وہ تین مرثیے ہیں جو انھوں نے آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات پر کہے۔
ابو بکر نے اصحاب رسول سے نرمی اور مروت کا رویہ اختیار کیا،صحابہ کو ابوبکر سے ایک ہی شکایت ہوئی کہ انھوں نے مال کی تقسیم میں السابقون الاولون،مردوں،عورتوں اور غلاموں میں کوئی امتیازنہ کیا ۔اس کی وجہ خلیفۂ اول کا اصول تھا کہ مال کی تقسیم میں مساوات ہی زریں اصول ہے، البتہ مراتب اور اجر وذخر دینا اﷲ کا کام ہے۔ سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ خلافت کے پہلے سال ابوبکر نے مال فے آزاد،غلام ،مرد، عورت سب میں برابر تقسیم کیا تو ہر ایک کے حصے ۱۰دینار آئے۔ اگلے برس یہ رقم دگنی ہو کر ۲۰ دینار ہو گئی۔ان کی پالیسی تھی کہ کبار صحابہ کو سرکاری مناصب کم سے کم دیے جائیں۔ اس کی ایک وجہ انھوں نے خود بیان کی کہ میں نہیں چاہتا ،ان(اہل بدر)کو دنیا میں ملوث کروں۔دوسرا سبب یہ تھاکہ وہ ان کواپنے پاس مدینہ میں رکھنا چاہتے تھے تاکہ انھیں مشوروں میں شامل رکھیں،کیونکہ جب معاذ بن جبل شام گئے تھے تو اہل مدینہ نے بڑا خلا محسوس کیا تھا، وہ ان سے فقہی ودینی مسائل دریافت کیا کرتے تھے۔تب عمر نے انھیں روکنے کا مشورہ دیاتھا توابوبکر نے جواب دیا تھا: جو شخص جہاد کے ذریعے شہادت حاصل کرنا چاہتا ہو میں اس کو کیسے روک سکتا ہوں؟
خلافت ابو بکر میں سیدنا عمر کا بہت اہم کردار رہا، ہر کام ان کے مشورے سے انجام پاتا، تاہم ایسے مواقع بھی آئے جب ابو بکرکو تنہا کھڑا ہونا پڑاخصوصاً جیش اسامہ بھیجتے ہوئے اور منکرین زکوٰۃ کی سرکوبی کے وقت صرف ابو بکر تھے جنھیں اپنا موقف درست ہونے کا حق الیقین تھا۔انھوں نے خالد بن ولید کے بارے میں بھی عمر کے بار بار کے مشوروں کو رد کیا ۔ ان دونوں کی ہم آہنگی اور ان کی بے مثال حکومتوں کو دیکھ کر انھیں عمرین کا نام دیا گیا۔ جب ابو بکر و عمر ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر چلتے تو آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم بہت خوش ہوتے۔ آپ نے فرمایا: ’’جو دو میرے بعد آئیں ان کی پیروی کرو یعنی ابو بکر و عمر۔‘‘ (ترمذی، رقم ۳۶۶۳) حضرت علی فرماتے ہیں: ’’میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس تھا کہ ابو بکر و عمر آئے۔ تب آپ نے فرمایا: ’’یہ نبیوں رسولوں کے علاوہ پہلے والے اور بعد میں ہونے والے اہل جنت کے ادھیڑ عمر کے لوگوں کے سردار ہیں،اے علی، ان کو نہ بتانا۔‘‘ (ترمذی، رقم ۳۶۶۵) آں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم ایک روزمسجد میں صحابہ کے حلقے میں تشریف فرما تھے کہ علی تشریف لائے ۔سلام کے بعد وہ بیٹھنے کے لیے جگہ ڈھونڈنے لگے ۔ابوبکر فوراً کھسک گئے اور انھیں نشست دے دی۔آپ کا چہرہ مبارک دمک اٹھا ۔ فرمایا: ’’اہل فضل کی فضیلت اصحاب فضل ہی پہچانتے ہیں۔‘‘
سخت مشقت اور اعصاب شکن معمولات نے ابو بکرکی اجل کو دعوت دی۔کوئی اور انسان اس قدر بوجھ اٹھانے کی طاقت نہ رکھتاتھا جو انھیں اپنے دور خلافت میں اٹھانا پڑا۔ اگرچہ ایسی روایت بھی پائی جاتی ہے کہ یہودیوں نے ان کو دیر سے اثر کرنے والا زہر ملا کرخزیرہ (گوشت جو پانی اور مسالے ڈال کر رات بھر پکایا گیا ہو)کھلا دیا تھا جس سے ان کی وفات ہوئی ۔ عتاب بن اسید نے بھی یہ کھانا کھایا تھا،انھوں نے اسی روز مکہ میں انتقال کیا۔ جب ابو بکر کی وفات ہوئی۔ حارث بن کلدہ طبیب تھا،اس نے چند لقمے لے کر کھانا چھوڑ دیا تھا، اس لیے ان کی جان بچ گئی۔ زہری کا کہنا ہے وہ بھی بیمار ہو کر فوت ہو گیا۔ زہر خورانی کی روایت قوی نہیں، اس لیے اسے نہیں مانا گیا۔سیدہ عائشہ اور عبدالرحمان بن ابو بکر کا بیان ہے کہ ۷ جمادی الثانی ۱۳ھ کو ہوا سرد تھی۔ ابو بکر نے غسل کر لیا تو ان کو بخار چڑھنا شروع ہو گیا۔ ایسے بیمار ہوئے کہ مسجد نہ جا سکتے تھے، چنانچہ عمر کو نماز پڑھانے کاکہا۔ ابو بکر کی وفات کا عیسوی ماہ اگست بنتا ہے ،سخت گرمی کے موسم میں ٹھنڈ لگنے والی بات عجیب لگتی ہے، لیکن عام مشاہدہ ہے کہ ہر گرمیوں میں چند دن ٹھنڈے ضرور آتے ہیں۔ ممکن ہے ،وہ دن ایسا رہا ہو۔ یہ امکان بھی ہے کہ انھیں ہجرت کے فوراً بعد ہونے والا بخار عود کر آیا ہو یا کوئی نئی بیماری لاحق ہو گئی ہو۔شدت مرض میں ابوبکر کو طبیب بلانے کا کہا گیا تو ان کا جواب تھا: طبیب نے دیکھ لیا ہے ۔لوگوں نے حیرت سے پوچھا کہ اس نے کیا کہا ؟ابو بکر نے بتایا کہ وہ کہتا ہے: ’انی فعال لما یرید‘ ’’میں جو چاہتا ہوں کر ڈالتا ہوں۔‘‘ سیوطی کہتے ہیں: ابوبکر نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی رحلت کے صدمے سے گھلتے رہے حتیٰ کہ ان کا انتقال ہو گیا۔
پندرہ دن کی اس بیماری میں وہ اپنا محاسبہ کرتے رہے اور امور خلافت بھی کسی قدر انجام دیے ۔انھیں احساس ہو چکا تھا کہ آخری وقت آن پہنچا ہے۔ ابو بکر ذاتی طور پرمطمئن اور پرسکون تھے، لیکن مرض الموت میں بھی انھیں مسلمانوں کے معاملات سلجھانے کی فکر رہی۔ انھیں یہ خدشہ لاحق تھا کہ میرے بعد مسلمان کسی انتشار کا شکار نہ ہو جائیں۔ اگر ایسا ہوتا تو کوئی سقیفہ ان کو دوبارہ متحد نہ کر سکتا ۔انھوں نے اہل رائے کوجمع کر کے کہا کہ اﷲ نے تمھیں میری بیعت سے آزاد کر دیا ہے، میری زندگی ہی میں جسے چاہو اپنا امیر منتخب کر لو۔ سب نے مشورہ دیاکہ ابوبکر اپنی زندگی میں اپنا جا نشین مقرر کر جائیں۔ ابوبکر کو عمر بن خطاب پر پور ااطمینان تھا، لیکن وہ اپنی رائے مسلمانوں پر ٹھونسنا نہ چاہتے تھے۔ کچھ روز بعد انھوں نے عبدالرحمان بن عوف کو بلا کر مشورہ کیا۔ ان کا جواب تھا: عمر بہترین آدمی ہیں، لیکن ان میں سختی پائی جاتی ہے۔ ابوبکر نے فرمایا: ان کی سختی اس لیے ہے کہ وہ مجھے نرم پاتے ہیں ۔ حکومت ان کے پاس ہو گی تو وہ بہت سی باتیں چھوڑ دیں گے۔آپ نے دیکھا ہو گا کہ مجھے کسی شخص پر غصہ آتا ہے تو وہ مجھے اس کی طرف سے منانے کی کوشش کرتے ہیں اور جب میں کسی سے نرمی برتتا ہوں تو مجھے سختی کا مشورہ دیتے ہیں۔ پھر انھوں نے عثمان بن عفان کو بلایاجو ان کے پڑوس میں رہتے تھے اور ان کی رائے طلب کی۔انھوں نے فرمایا: عمر جیسا ہم میں کوئی نہیں ، وہ باطن میں اپنے ظاہر سے کہیں بہتر ہیں۔ ان کے بعد ابو بکر نے علی، طلحہ ، سعیدبن زید ،اسید بن حضیر اور کئی اورصحابہ سے مشورہ کیا۔ کچھ صحابہ نے ابوبکر کے مشوروں کی خبر پا کر عمر کی مخالفت کرنا چاہی ،وہ ان کے پاس حاضر ہوئے۔ طلحہ بن عبیداﷲ نے کہا کہ آپ نے دیکھا ہے آپ کے ہوتے ہوئے وہ لوگوں سے کس طرح پیش آتے ہیں؟آپ نہ ہوں گے تو ان کا کیا سلوک ہو گا؟ ابوبکر کو غصہ آ گیا،شدت مرض سے لیٹے ہوئے تھے ، فوراً بٹھانے کو کہا پھر پکار کر کہا: اے اﷲ، میں نے تیرے بندوں پر ان میں سے بہترین شخص کو خلیفہ مقرر کیاہے ،طلحہ، میری طرف سے سب کویہ بتا دو۔ اگلے روز انھوں نے حضرت عثمان سے جانشین کی تقرری کویوں تحریری شکل دلائی: میں اپنے بعد عمر بن خطاب کو تمھارا خلیفہ مقرر کرتا ہوں، تم ان کی سنو اور مانو۔ اس دوران میں ان کو غشی بھی آئی۔ ان کی اہلیہ اسماء بنت عمیس انھیں سہارا دے کر دروازے تک لے آئیں تو انھوں نے مسجد نبوی میں موجود لوگوں سے اپنے فیصلے کی تائید لی۔ابو بکر نے عمر کو الگ بلا کر کچھ نصیحتیں بھی کیں۔ دوران مرض میں ایک روز ابوبکر نے دریافت کیا کہ مجھے بیت المال سے کتنا وظیفہ ملا ہے؟ حساب کیا گیا تو ۶۰۰۰ درہم ہوئے۔ انھوں نے عائشہ کو وصیت کی کہ میری فلاں زمین فروخت کر کے بیت المال کے درہم واپس کر دیے جائیں۔ یہ تحقیقات بھی کیں،بیعت کے بعد میرے مال میں کیا اضافہ ہوا؟ معلوم ہوا ایک حبشی غلام ہے جو بچوں کو کھانا کھلاتا ہے اور فرصت میں تلواریں صیقل کرتا ہے ۔ ایک اونٹنی ہے جس پر پانی آتا ہے اور پانچ درہم مالیت کی ایک چادر ہے، چنانچہ انھوں نے وصیت کی کہ میری وفات کے بعدیہ چیزیں خلیفۂ وقت کے پاس پہنچا دی جائیں۔ روایات میں ایک خچر،کچھ برتنوں اور ایک چکی کا ذکر ہے ، ابو بکر نے یہ بھی بیت المال کے حوالے کرنے کی تلقین کی۔ ابو بکر نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف سے عالیہ ( مدینے کا بالائی علاقہ) میں ملنے والی بنو نضیر کی زمین عائشہ کو ہبہ کر چکے تھے، مرض الموت میں انھوں نے عائشہ سے یہ زمین لوٹانے کی درخواست کی تاکہ یہ سارے وارثوں کے حصے میں آ جائے ۔ ان کے ذہن میں حبیبہ بنت خارجہ سے پیدا ہونے والی ام کلثوم تھی جس نے ابھی جنم نہ لیا تھا، انھوں نے اس کے لڑکی ہونے کی پیشین گوئی بھی کر دی۔
عائشہ سے پوچھا گیا سرورعالم صلی اﷲ علیہ وسلم کو کتنے کپڑوں کا کفن دیا گیا تھا؟انھوں نے بتایا تین کپڑوں کا ۔ وصیت کی میرے کفن میں بھی تین کپڑے ہوں ،دو چادریں جو میرے بدن پر ہیں دھو لی جائیں اور ایک کپڑا نیا لے لیا جائے۔ عائشہ نے کہا کہ ہم تنگ دست نہیں کہ نیا کپڑا نہ لے سکیں۔جواب فرمایا: نئے کپڑوں کی زندہ لوگوں کو زیادہ ضرورت ہوتی ہے ،کفن تو لہو اور پیپ کے واسطے ہے ۔عائشہ ہی کی ایک دوسری روایت میں ایک زعفران لگا ہوا کپڑا جو انھوں نے پہن رکھا تھا اور دو نئے کپڑوں کاکفن دینے کا ذکر ہے۔ ابوبکر نے اپنی اہلیہ اسماء بنت عمیس کو غسل دینے کی ہدایت کی اور کہا اگر وہ چاہیں تو ہمارے بیٹے عبدالرحمان سے مدد لے لیں۔ ابوبکر ان وصیتوں میں مصروف تھے کہ عراق سے مثنیٰ آئے اور عراق کمک بھیجنے کی درخواست کی۔انھوں نے اپنے جانشین عمر کو وہاں فوج بھیجنے کی وصیت کی اور فرمایا: میری موت کی وجہ سے مسلمانوں کے معاملات سے غافل نہ ہو جانا۔انتقال کے دن پوچھا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے کس روز رحلت فرمائی تھی ؟ لوگوں نے بتایا: پیر کے دن ۔کہا: مجھے امید ہے،میری موت بھی آج ہی ہوگی۔انھوں نے وصیت کی کہ میری قبر آں حضرت کی قبر کے ساتھ بنائی جائے۔ موت کے آثار طاری ہوئے تو عائشہ پاس تھیں، انھوں نے حاتم طائی کا ایک شعر پڑھا تو ابو بکر ناراض ہوئے۔ ان کے منہ سے نکلنے والے آخری الفاظ یہ تھے: ’رب توفنی مسلمًا والحقنی بالصالحین‘ ’’اے پروردگار، مجھے موت دیجیے مسلمان ہوتے ہوئے اور مجھے ملا دیجیے نیک لوگوں کے ساتھ۔‘‘ انھوں نے ۲۲ جمادی ا لثانی ۱۳ھ (۲۳ اگست ۶۳۴ء) کو پیر کے دن شام کے وقت وفات پائی۔ ان کی وصیت کے مطابق ان کی اہلیہ اسماء اور بیٹے عبدالرحمان نے غسل دیا۔ میت اسی چارپائی پر لٹائی گئی جس پر آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے جسد مبارک کو تدفین سے پہلے رکھا گیا تھا ۔ ریاض الجنہ میں جنازہ رکھا گیا۔ حضرت عمر نے نمازپڑھائی ۔قبرنبوی کے پہلو میں بنائی گئی قبر میں عمر، عثمان،طلحہ اور عبدالرحمان بن ابوبکر نے میت کو اتارا۔ یوں وفات کے چند گھنٹوں بعداسی رات ان کی تدفین عمل میں آ گئی۔ابو بکر کے والد ابو قحافہ اپنے بیٹے کا صدمہ دیکھنے کے لیے زندہ تھے، انھوں نے چھ ماہ بعد ۹۷ سال کی عمر میں انتقال کیا۔ مدینہ کی عورتیں حضرت عائشہ کے گھر اکٹھی ہو کر بین کرنے لگیں تو عمر نے ان کو زبردستی روکا۔ ۲ سال ۳ ماہ ۱۱(یا ۱۲)د ن ابو بکر کی مدت خلافت بنتی ہے۔
ابوبکر سے مروی روایتیں۱۴۲ ہیں ،ان میں سے صرف ۷بخاری و مسلم میں موجود ہیں۔قلت روایت کا سبب شاید ان کی کم گوئی ہے۔ اس کے باوجود بعض اہم روایات ان سے مروی ہیں، مثلاًطریقۂ نماز جو ابو بکر سے ابن زبیر نے سیکھا، ان سے عطا نے اور ان سے ابن جریج نے جو اپنے زمانے میں بہترین طریقے سے نماز ادا کرنے والے تھے۔ اسی طرح زکوٰۃ کی مقداریں بیان کرنے والی حدیث ابوبکر سے مروی ہے۔ فن تعبیر کے امام ابن سیرین کہتے ہیں کہ اس امت میں خوابوں کی تعبیربتانے والے سب سے بڑے ماہر ابوبکرتھے۔ ابو بکر نے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم سے روایت بیان کی، ان سے روایت کرنے والوں میں عمر بن خطاب،ان کے آزاد کردہ غلام اسلم،انس بن مالک، برا بن عازب، جابر بن عبداﷲ، جبیر بن نفیر، حذیفہ بن یمان، زید بن ارقم، زید بن ثابت، عبداﷲ بن زبیر، عبداﷲ بن عباس، عبداﷲ بن عمر، عبداﷲ بن عمرو، عبداﷲ بن مسعود، عثمان بن عفان، عقبہ بن عامر، معقل بن یسار، عبدالرحمان بن ابوبکر، علی بن ابو طالب، ابو امامہ باہلی، ابو سعید خدری، ابو موسیٰ اشعری، ابو برزہ اور ابو ہریرہ شامل ہیں۔
ابوبکر کے عمال: مکہ: عتاب بن اسید۔ طائف: عثمان بن ابو العاص۔ صنعا: مہاجر بن امیہ۔ عمان: حذیفہ بن محصن۔ حضرموت: زیاد بن لبید۔ خولان: یعلیٰ بن منبہ۔ زبید: ابوموسیٰ اشعری۔ جند: معاذ بن جبل۔ بحرین: علا بن حضرمی۔ نجران: جریر بن عبد اﷲ۔ دومۃ الجندل: عیاض بن غنم۔ عراق: مثنیٰ بن حارثہ۔ مزنیہ: جرش۔
آخر میں ایک اہم الزام کا جواب دینا ضروری ہے جو ابوبکر پر لگایا جاتا ہے۔ کیا ابو بکر نے سیدہ فاطمۃ الزہرا کو میراث سے اور حضرت علی کو خلافت سے محروم کردیاتھا؟ جس طرح فاطمہ رضی اﷲ عنہاپیغمبر علیہ السلام کی وارث تھیں اسی طرح عائشہ رضی اﷲ عنہا بھی آپ کی وراثت میں حصہ رکھتی تھیں۔ ابوبکر نے دونوں کو وراثت میں حصہ نہیں دیا، اس لیے کہ شریعت اسلامی میں انبیا کی وراثت جائز نہیں۔ یعقوبی کا بیان ہے: جب سیدہ عائشہ نے اعتراض کیا کہ آپ تو اپنے باپ کی وراثت حاصل کر سکتے ہیں اور میں نہیں کر سکتی تو ابوبکر زار و قطار رونے لگے گویا اس اعتراض پر محض ہمدردی ہی کی جا سکتی تھی۔ خلافت علی کے بارے میں اگر کوئی واضح ارشاد نبوی ابوبکر کے سامنے آتا تو وہ پیچھے ہٹ جاتے اور فرمان رسالت پر بے چون و چرا عمل کرتے، اس لیے کہ ان کی پوری زندگی امتثال امر سے عبارت ہے۔ پھر ابوبکر کے ہاتھ پرعلی مرتضیٰ کا بیعت کر لینا ثابت کرتا ہے کہ وہ وصی رسول نہ تھے۔
مطالعۂ مزید: الطبقات الکبریٰ (ابن سعد)، تاریخ ابن خلدون، الاصابہ فی تمییز الصحابہ (ابن حجر)، تہذیب الکمال فی اسماء الرجال (مزی)، تاریخ الیعقوبی، الصدیق ابوبکر (محمد حسین ہیکل)، عبقرےۃ الصدیق (عباس محمود العقاد)، اردو دائرۂ معارف اسلامیہ (پنجاب یونیورسٹی)، سیرت الصدیق (حبیب الرحمان شروانی)

-------------------------------

 

بشکریہ ماہنامہ اشراق

تحریر/اشاعت اکتوبر 2006
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی
Uploaded on : Nov 07, 2016
4241 View