ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ (5) - ڈاکٹر وسیم مفتی

ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ (5)

 

یہ ۱۲ہجری، ابوبکر رضی اﷲ عنہ کی خلافت کا دوسرا سال ہے ۔مثنیٰ تیزی سے شکست خوردہ ایرانیوں کا تعاقب کر رہے تھے،اسی دوران میں انھیں اطلاع ملی کہ ایرانی بادشاہ اردشیر نے قارن بن قریانس کی قیادت میں ایک بڑا لشکر ترتیب دیا ہے جو ان کے مقابلے کے لیے مدائن سے آ رہا ہے ۔ اس لشکر نے مذار کے مقام پر پڑاؤ ڈالا،مثنیٰ بھی اپنی قلیل فوج کے ساتھ اس کے قریب مقیم ہو گئے اور خالد کو خط لکھ کرحالات سے مطلع کیا۔خالد اس اندیشے سے کہ قارن مثنیٰ کی مختصر فوج کو تباہ نہ کر دے، تیزی سے سفر کرتے ہوئے مذار پہنچے ۔کاظمہ سے بھاگے ہوئے جرنیل قباذ اور انوشجان اپنی ذلت کا بدلہ لینا چاہتے تھے۔خالد نے دشمن کو پہل کرنے کا موقع نہ دیا،لڑائی شروع ہوئی تومسلمان دلیری سے لڑے۔ ایرانی سپاہ کے تینوں جرنیل باری باری قتل ہو گئے،ان کے۳۰ ہزار سپاہی مارے گئے۔بے شمار ایرانی کشتیوں پر سوار ہو کر بھاگ گئے اور بہت سوں کو قید کر لیا گیا ،ان میں حسن بصری کے والد بھی تھے۔خالد نے مال غنیمت کا پانچواں حصہ سعید بن نعمان کودے کر ابو بکر کی خدمت میں مدینہ بھیج دیا اور مقامی آبادی پر جزیہ عائد کر دیا۔
ادھرشاہ ایران ارد شیر نے دجلہ و فرات کے کنارے عراق کی سرحد پر بسنے والے عرب قبائل اور عیسائی قبیلے بکربن وائل کی فوج ترتیب دی اور اسے ولجہ روانہ کر دیا،بہمن جاذویہ کی سربراہی میں ایک بڑاایرانی لشکر اس کے ساتھ تھا ۔ خالد بھی مقابلے کے لیے پہنچ گئے،صفر ۱۲ھ میں ولجہ میں دونوں لشکر وں کا سامنا ہوا۔لڑائی طول پکڑ گئی تو خالد نے دو دستوں کو ایرانی لشکر کے عقب میں چھپ جانے کا حکم دیا،انھوں نے عقب سے کارروائی کی توایرانی گھیرے میں آ گئے اور بازی مسلمانوں کے ہاتھ رہی۔اب عراق کے عربی النسل عیسائیوں کی باری تھی ،وہ الیس کے مقام پر اکٹھے ہوئے۔ خالد بھی اپنا لشکر لے کرپہنچے اور عیسائیوں کو تیاری کا موقع دیے بغیر جنگ شروع کر دی۔ ان کا سالار مالک بن قیس مارا گیا، لیکن ایرانی جرنیل جابان کے دلیری دلانے پر وہ ڈٹ گئے۔انھیں بہمن جاذویہ کی کمک کی امید تھی جو نہ پہنچی ،انجام کار یہ لشکر بھی شکست سے دو چار ہوا۔ خالد نے بھاگنے والوں کو گرفتار کرنے اور مزاحمت کرنے والوں کو قتل کرنے کا حکم جاری کیا ۔انھوں نے ایرانی اور عیسائی فوج کی مدد کرنے والے قریبی شہر منیشیا(امغیشیا) کو بھی فتح کیا ،یہاں سے کثیر مال غنیمت ہاتھ آیا ۔ہر سوار کو الیس میں ملنے والے حصے کے علاوہ ۱۵۰۰ درہم دیے گئے۔اس کے بعد خالد نے خمس اور قیدی مدینہ روانہ کیے ،ابو بکر نے جنگ کے واقعات سن کر فرمایا: 146146عورتیں اب خالدجیسا بیٹا جنم نہیں دے سکتیں۔145145 بیمار شاہ اردشیر شکست کے صدمے کی تاب نہ لا سکا اور چل بسا۔
اب خالد نے حیرہ کا قصد کیا جہاں ازاذبہ حکمران تھا۔اس نے اندازہ لگا لیا کہ اسلامی فوجیں دریا میں سفر کرتے ہوئے حیرہ پہنچیں گی، اس لیے اپنے بیٹے کو دریا پر بند باندھنے کے لیے بھیج دیا ۔ خالد منیشیا (امغیشیا)سے روانہ ہوئے تھے کہ ان کی کشتیاں پانی کم ہو جانے کی وجہ سے دریا میں پھنس گئیں ۔جب ان کو معلوم ہوا کہ یہ ایرانیوں کا کام ہے تو انھوں نے کشتیوں کو وہیں چھوڑا اور خود ایک دستہ لے کر دریا کے دہانے کی طرف بڑھے ۔ وہاں از اذبہ کا لڑکا دریاکے پانی کا رخ پھیرنے کی نگرانی کر رہا تھا ،انھوں نے فوراً حملہ کر کے اسے اور اس کی فوج کو قتل کر ڈالا اور خود وہاں رک کر دریا کا پانی جاری کرایا۔اب کشتیاں سفر کر کے خورنق پہنچیں، ازاذبہ خوف زدہ ہو کر بھاگ چکا تھا، خالد نے خورنق اور نجف پر قبضہ کر لیا۔ اپنے حکمران کے برعکس اہل حیرہ نے مزاحمت کا رستہ اختیار کیا،وہ شہر کے چار قلعوں میں محصور ہو گئے اور مسلمانوں پر سنگ باری شروع کر دی ۔جب ان پر جوابی تیروں کی بوچھاڑ ہوئی اور ان کے بے شمار افراد مارے گئے تو وہ گھبرائے اورخالد کی طرف سے عائد کردہ ایک لاکھ نوے ہزار درہم سالانہ جزیہ دینے کی شرط مان کر صلح کرلی۔ یہ ربیع الاول ۱۲ھ کا واقعہ ہے۔ خالد کے اصرار پر بھی عراق میں رہنے والے عرب عیسائیوں نے اسلام قبول نہ کیا۔ اہل حیرہ نے جزیے کے علاوہ کچھ تحفے بھی دیے جو خالد بن ولیدنے مال غنیمت کے ساتھ ابو بکر کی خدمت میں بھیج دیے۔ انھوں نے خالد کو ہدایت کی کہ تحائف کی قیمت جزیہ میں شامل کر کے بچنے والی رقم اہل حیرہ کو واپس کر دی جائے۔خالد نے حیرہ کو مسلمانوں کی چھاؤنی اور مفتوحہ علاقے کا دار الخلافہ بنایا،نظم و نسق، البتہ مقامی سرداروں کے پاس رہنے دیا۔
کچھ امن ہوا تو آس پاس کے سردارا سلامی حکومت سے صلح پر آمادہ ہوئے۔ پادری صلوبا بن نسطونا نے فرات کے کنارے کی بستیوں بانقیا اور بسماکا ۱۰ ہزار سالانہ لگان دینے کی ذمہ داری لی۔فلالیج سے ہرمز دجرد تک کے علاقے کے لیے ۲۰ لاکھ درہم پر مصالحت ہوئی۔خالد نے ان علاقوں میں امرا اور فوجی دستے مقرر کیے۔وہ ایک سال تک حیرہ میں مقیم رہے، یہ ان کی بے کاری کا زمانہ تھا، کیونکہ ابو بکرکا حکم تھا جب تک عیاض بن غنم دومۃ الجندل کی مہم سے فارغ نہ ہو جائیں، وہ حیرہ نہ چھوڑیں ۔خالد بار بار کف افسوس ملتے ،اس وقت ایرانی حکومت کمزور ہے اور یہ فتح ایران کا بہترین موقع ہے،اگر خلیفہ کا حکم نہ ہوتا تو ہم یوں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے نہ رہتے۔ تنگ آکر انھوں نے ایرانی عمال اورشاہی نمایندوں کو خط لکھے: 146146اسلام قبول کر لو یا جزیہ ادا کرو۔145145 اسی اثنا میں ایرانی فوج حیرہ کے قریب انبار اور عین التمر میں اکٹھی ہو گئی،اب خالد نے کارروائی کی ٹھانی۔ انھوں نے قعقاع بن عمرو کو حیرہ چھوڑا اور انبار روانہ ہو گئے۔شہر کی مضبوط فصیل اور اس کے گرد کھدی ہوئی گہری خندق کے باعث محافظ فوج پر تیر اندازی کار گر نہ ہوئی۔خالدنے شہر کے گرد چکر لگایا ،ایک مقام پر جہاں خندق کی چوڑائی کم تھی، انھوں نے بیمار اور ناکارہ اونٹ ذبح کر اکراس میں ڈلوا دیے، یوں راستہ پٹ گیا ۔خالد کی کمان میں ایک دستہ خندق کے پار ہوا اور فصیل پھاند کرشہر کا دروازہ کھول دیا۔ایرانی فوج کے سپہ سالار شیر زاد نے گھبرا کر جان بخشی کی درخواست کی اور انبار مسلمانوں کے حوالے کر کے شہر سے نکل گیا۔ خالد نے زبرقان بن بدر کو یہاں کا والی مقرر کیا اور عین التمر پہنچ گئے، جہاں ایرانیوں کی بھاری فوج کے ساتھ بنو تغلب ،نمر اور ایاد کے قبائل جمع تھے۔عقہ بن ابو عقہ نے ایرانی حاکم مہران سے کہا: عربوں سے عرب ہی لڑ سکتے ہیں، اس لیے ہمیں مسلمانوں سے نبٹنے دو۔ مہران نے یہ سوچ کر عرب بدووں کو آگے کر دیا کہ ایرانی دوسری دفاعی لائن بن جائیں گے۔ ابھی لڑائی شروع ہوئی تھی کہ مسلمانوں نے کمند پھینک کر عقہ کو گرفتار کر لیا،اس کی بدو فوج بھاگ نکلی ۔مہران نے یہ ماجرا دیکھا تو وہ بھی قلعہ چھوڑ کر بھاگ لیا۔باقی فوج اور بدو قلعہ بندہو گئے،کچھ دن محاصرے کے بعد وہ غیر مشروط صلح پر آمادہ ہو گئے جس کے بعد عقہ کی گردن اڑا دی گئی۔ان دونوں شہروں کی فتح کے بعد خالد نے ولیدبن عقبہ کو خمس اور فتح کی خوش خبری کے ساتھ مدینہ بھیجا۔انھوں نے ان حالات کی وضاحت کی جن کی وجہ سے انھیں خلیفۂ اول کے احکامات کو نظر انداز کرنا پڑا۔ابو بکر خود بھی عیاض کی سست روی سے تنگ آ چکے تھے چنانچہ انھوں نے ولید کو دومۃ الجندل جا کر عیاض کی مدد کرنے کو کہا۔
عیاض دومۃ الجندل کا محاصرہ کیے ہوئے تھے تو شہر والوں نے ان کا راستہ مسدود کیا ہوا تھا،اس طرح دونوں فریق ایسی جنگ میں پھنس چکے تھے جس کا فیصلہ ہوتا نظر نہ آ رہا تھا۔ ولید نے عیاض کو خالد سے مدد لینے کا مشورہ دیا، چنانچہ انھوں نے جب خط لکھ کرخالد سے مدد چاہی تو وہ فوراً دومۃ الجندل آنے کے لیے تیار ہو گئے۔ خالدعین التمر سے چلے تو شام اور نفود کے لق ودق صحرا ان کے راستے میں پڑے، لیکن۳۰۰ میل کا یہ فاصلہ وہ ۱۰ روز سے پہلے طے کر گئے۔ دومۃ الجندل کی فوج دو حصوں میں منقسم تھی ، ایک کا سربراہ وہاں کا حاکم اکیدر بن عبد الملک اور دوسرے کا جودی بن ربیعہ تھا۔ اکیدر غزوۂ تبوک اور ردہ کی تحریک کے دوران میں خالد کی حربی صلاحیتوں سے خوب واقف ہو چکا تھا،اس لیے وہ مقابلے سے الگ ہو گیا ،اسے گرفتار کر کے مدینہ بھیج دیا گیا۔بے شمار قبائل دومۃ الجندل والوں کی مدد کو آئے ہوئے تھے ،شہر کا قلعہ پر ہو گیا توعرب عیسائیوں نے قلعہ سے باہر ڈیرے ڈال دیے۔ لڑائی شروع ہوئی تو خالد نے جودی اور اقرع بن حابس نے ودیعہ کو پکڑ لیا،ان سالاروں کی فوج قلعے کو بھاگی ،وہاں پہلے ہی گنجایش نہ تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اتنے آدمی قتل ہوئے کہ قلعے کا دروازہ لاشوں سے پٹ گیا۔ پھر خالد نے دروازہ اکھڑوایا اور اندر مقیم باغیوں کی گردنیں اڑا دیں۔غلبہ مکمل ہونے کے بعد انھوں نے اقرع کو واپس انبار بھیج دیا اور خود دومۃ الجندل ٹھہر گئے۔ اس شہر کی فتح بڑی جغرافیائی اہمیت رکھتی تھی، کیونکہ یہیں سے عراق و شام کو راستے جاتے تھے۔ پیچھے حیرہ اور عراق والے آمادۂ بغاوت ہو گئے تھے، جس کی وجہ سے خالد کو واپس جانا پڑا۔وہاں جا کر انھوں نے قعقاع تمیمی کو حصید کی طرف بھیجا جنھوں نے حصید کے ساتھ خنافس پر بھی قبضہ کر لیا۔
اب خالد اور ان کے جرنیلوں نے مصیخ (مضیح)کا رخ کیا ،تین اطراف سے ہذیل کی سوئی ہوئی فوج پر حملہ ہوا، تمام فوج ماری گئی، لیکن ہذیل بھاگ نکلا۔اس جنگ مصیخ(مضیح) میں اسلامی فوج کے ہاتھوں دو مسلمان عبداﷲ (عبدالعزیٰ) اور لبیدمارے گئے جو وہاں مقیم تھے۔ ابو بکر کو یہ اطلاع ملی تو ان کا خون بہا ادا کرنے کا حکم دیا۔عمر نے اصرار کیا کہ خالد کو اس غلطی کی سزا دی جائے، لیکن خلیفۂ اول نے فرمایا: دشمن کی سرزمین میں قیام پذیر مسلمانوں کے ساتھ یہ معاملہ ہو جانا ممکن ہے ۔ اس کے بعد خالد نے قعقاع اور ابو لیلیٰ کے ساتھ مل کرثنی کے مقام پر بنو تغلب پر اور زمیل کے مقام پر عتاب بن فلان پر سہ طرفی حملہ کیا ، ان کا کوئی مرد نہ بچ سکا، جبکہ عورتوں کو قید کر لیا گیا ۔
عراق و شام کی فتح ابو بکر کا منشا نہ تھا ،وہ سرحدوں کو ایرانی اور رومی حملہ آوروں سے محفوظ کرنا چاہتے تھے، لیکن جب خالد بن ولیدنے اپنی گزشتہ مہموں سے فارغ ہونے کے بعد دریاے فرات کے شمالی علاقوں میں پیش قدمی شروع کی اورشہر زیرکرتے ہوئے فراض پہنچ گئے تو شام کا راستہ کھل گیا۔انھیں فراض میں ایک ماہ قیام کرنا پڑا،اس دوران میں فرات کے پرے رومیوں نے ایرانی حکومت اور عرب قبائل تغلب ، ایاد اور نمر کی مدد سے ایک بڑا لشکر ترتیب دیا اور مسلمانوں کو پیغا م بھیجا،تم دریا عبور کرو گے یا ہم اسے پار کر کے تمھاری طرف آئیں؟ خالد نے انھیں اپنی طرف آنے کی دعوت دی اوراس سے پہلے لشکر کو خوب منظم کر لیا ۔لڑائی شروع ہوئی توانھوں نے دشمن کی فوج کو چاروں طرف سے گھیر کر اچانک حملہ کر دیا۔ تابڑ توڑ حملوں کی تاب نہ لاکرعیسائیوں اور ایرانیوں نے راہ فرار پکڑی۔مسلمانوں نے بھاگتی ہو ئی فوج کا تعاقب کیا،دشمن کے ایک لاکھ آدمی اس معرکے میں کام آئے۔ فراض میں مزید۱۰ روز ٹھہر نے کے بعد خالد نے فوج کو واپس حیرہ کوچ کرنے کا حکم دیا۔ یہ ذی قعد ۱۲ھ کا واقعہ ہے۔ حج کا موسم قریب آ چکا تھا ،خود انھوں نے یہیں سے بیت اﷲ جانے کا ارادہ کیا، لیکن اپنے سفر کو انتہائی خفیہ رکھا تاکہ ان کی غیر موجودگی میں ایرانی فوج کو اپنی شکست کا بدلہ لینے کا موقع نہ مل جائے۔خالد تیز رفتاری سے سفر کرتے ہوئے واپس آئے اور اپنے لشکر کے پچھلے حصے (ساقہ) میں شامل ہو گئے۔ و اقدی اور بلاذری نے جنگ فراض کا سرے سے ذکر نہیں کیا۔
شام کی سرحد پر اسلامی فوج کے سپہ سالار خالد بن سعید تھے ،انھوں نے سیدنا ابوبکر کی ہدایت کے مطابق سرحدی قبائل کو ساتھ ملا کر مکمل دفاعی تیاریاں کر رکھی تھیں۔ ادھرقیصر روم ہرقل نے مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لیے جنگی تیاریاں شروع کر دیں،سرحدوں پر مقیم عرب قبائل بنو بکر ، بنو عذبرہ ،بنو عدوان اور بنو غسان نے اس کا ساتھ دیا۔ یہ سن ۱۳ھ تھا۔ خالد بن سعید نے مدینہ خط لکھ کر خلیفۂ اول سے حملے میں پہل کرنے کی اجازت چاہی۔ان کی فوج رومی افواج سے کہیں زیادہ کمزور تھی، اس لیے ابو بکر نے کبار مہاجرین و انصار پر مشتمل شوریٰ طلب کی اور شام کی طرف مزید فوجیں بھیجنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ عمر نے مکمل تائید کی، جبکہ عبدالرحمان بن عوف نے پوری قوت سے حملہ کرنے کی بجائے چھاپہ مار کارروائی کرنے کی تجویز پیش کی۔ عثمان نے ابو بکر کے فیصلے کی حمایت کی تو باقی اہل شوریٰ بھی متفق ہو گئے۔ مدینہ کے باشندے رومیوں کی سلطنت اور ان کی جنگی طاقت سے مرعوب تھے، لیکن جب وہ خلیفۃ المسلمین کی ترغیب پر جوق در جوق شام کو جانے والے لشکر میں شامل ہو گئے تو اہل یمن کو بھی شمولیت کی د عوت دی گئی۔ چنانچہ ذوالکلاع حمیری، قیس مرادی ،جندب دوسی اور حابس طائی اپنا اپنا دستہ لے کر مدینہ پہنچ گئے ۔اسی اثنا میں ابو بکر نے خالد بن سعید کو شام کی سرحد عبور کرنے کی اجازت دے دی، البتہ حملے میں پہل کرنے سے روکا۔ خالد بن سعید نے مختصر فوج اور بدوی قبائل کے ساتھ تیما سے شام کی حدود میں پیش قدمی شروع کی ۔ رومیوں نے غسانیوں اور دوسرے سرحدی قبائل کو اپنی پہلی دفاعی لائن بنایا ہوا تھا۔سرحدوں پر مقیم فوجی حواس باختہ ہو کر بھاگے ،خالد نے ان کا چھوڑا ہوا سامان قبضے میں لیا اور ابو بکر کو اطلاع دی ۔انھوں نے جواب بھیجا،آگے بڑھتے جاؤ، لیکن جب تک فوجیں نہ پہنچ جائیں خود حملہ کرنے سے پر ہیز کرو۔بحر مردار کے مشرقی ساحل پر واقع قسطل کے مقام پر ایک اور رومی لشکر سے ان کی مڈ بھیڑ ہوئی،وہ بھی شکست سے دوچار ہوا۔ قیصر کے خود آگے نہ آنے سے شامی عیسائیوں میں یہ احساس پیدا ہو گیا کہ انھیں قربانی کا بکرا بنایا جا رہا ہے، اس لیے وہ لڑائی سے کنارہ کش ہو گئے۔
سب سے پہلے ولید بن عقبہ خالد کی مدد کو پہنچے،عکرمہ بن ابو جہل حضرموت کی بغاوت سے فارغ ہو کر مدینہ پہنچے تھے،ابو بکر نے ان کی زیر قیادت ایک نیا لشکر 146146جیش بدال145145 مرتب کیااور اسے بھی شام روانہ کر دیا۔ خالد بن سعید دو بار فتح حاصل کرنے کے بعد حد سے زیادہ پر اعتماد ہو چکے تھے ،انھوں نے مزید کمک کاانتظار کیے بغیر رومی فوج پر حملہ کرنے کا پروگرام بنا لیا ۔رومی سپہ سالار باہان تجربہ کار جنگجو تھا، اپنی فوج لے کر دمشق کو چل پڑا،خالد نے اس کا پیچھا کیا۔ مرج الصفر کے مقام پر وہ پلٹا اور مسلمانوں کا محاصرہ کر کے ان کی پشت کا راستہ کاٹ دیا۔اسی دوران میں ایک دستہ فوج سے الگ ہوگیا ، باہان نے حملہ کر کے سب افراد کو شہید کر دیا ۔خالد کا بیٹا سعید بھی ان میں شامل تھا ، بیٹے کی شہادت کی خبر سنی تو خالد نے ہمت ہار دی ،عکرمہ کو قیادت سپرد کرتے ہوئے وہ اور ولیدایسا فرار ہوئے کہ مدینے کے قریب ذو المروہ پہنچ کر دم لیا ۔ابو بکر نے ان کو مدینہ آنے سے منع کر دیا،البتہ ان کے ساتھ آئے ہوئے فوجیوں کو شرحبیل بن حسنہ اور معاویہ بن ابو سفیان کی قیادت میں واپس بھیج دیا۔خلیفۂ اول نے یزید بن ابو سفیان اور ابوعبیدہ بن الجراح کی سربراہی میں نئے لشکر بھی شام بھیجے۔جرف کے مقام پرسپاہیوں کو رخصت کرتے ہوئے انھوں نے ان کو خالص اﷲ کی خاطرجہاد میں حصہ لینے کی نصیحت کی۔راستے میں بدووں اور عیسائیوں کی جانب سے کچھ مزاحمت پیش آئی ۔ابو عبیدہ نے اہل بلقا کو زیر کرنے کے بعدصلح پر مجبور کیا ، یہ شام کے علاقے میں پہلی صلح تھی۔ابو عبیدہ نے دمشق کے راستے میں اورشرحبیل نے طبریہ کے قریب ایک سطح مرتفع میں پڑاؤ ڈالا،یزید نے بصرہ کا محاصرہ کیا اور عمرو بن عاص نے جبرون فتح کرنے کی ٹھانی۔قیصر روم ہرقل کو مسلمانوں کی فوج آنے کی خبر ہوئی تو اس نے ہر اسلامی لشکر کے لیے الگ فوج روانہ کی ۔اسلامی لشکر کی کل گنتی ۳۰ ہزار تھی اور یہ ۶ سے۸ ہزار تک کی ٹکڑیوں میں بٹا ہوا تھا، جبکہ رومی افواج کی کل تعداد ۲ لاکھ ۴۰ ہزار تھی۔ ۹۰ ہزار پر مشتمل سب سے بڑا لشکر ہرقل کے بھائی تیودوریک(تذارق) کی قیادت میں عمروبن عاص کی فوج کے خلاف صف آرا تھا،ابو عبیدہ کے مقابلے میں قیقار(قیقلان) بن نسطوس کا ۶۰ ہزار کا لشکر تھا ، یزید کے مقابلے کے لیے چرچہ بن تدرا( جرجہ بن توذر)، جبکہ شرحبیل کی طرف دراقص کو بھیجا گیا۔ عمرو بن عاص نے تجویز پیش کی کہ تمام اسلامی فوجیں یک جا ہو کر دشمن کا مقابلہ کریں اور سیدنا ابوبکر نے بھی یہی مشورہ بھیجا۔ چنانچہ چاروں اسلامی لشکر اکٹھے ہوئے اور دریاے یرموک کے بائیں کنارے پڑاؤ ڈال دیا ۔ادھر رومی فوجیں اکٹھی ہوکر دریا کے دائیں کنارے ایک وسیع میدان میں اتر یں جو تین اطراف سے اونچی پہاڑیوں سے گھرا ہوا تھا۔ باہر نکلنے کا ایک ہی راستہ تھا جس پر مسلمانوں نے قبضہ کر لیا۔ عمرو بن عاص چلائے، مسلمانو! خوش خبری ہو، محصور فوج شاذونادر بچتی ہے۔صفر، ربیع الاول اور ربیع الثانی ،تین ماہ گزر گئے ،رومی باہر آ سکے نہ مسلمان قلت تعداد کی وجہ سے میدان میں گھس سکے۔ابو بکر نے عمر ،علی اور دیگر اہل رائے سے مشورہ لیا،آخر کاراوائل ۱۳ ھ میں لشکر کی قیادت تبدیل کرنے کا فیصلہ ہوا، نگاہ خالد بن ولید پر پڑی۔خلیفۂ اول نے خالد کو خط لکھ کر پہلے تو خفیہ حج کرنے پر سرزنش کی، پھر یرموک پہنچنے کا حکم دیا ۔خالد عراق سے ہلنا نہ چاہتے تھے، کیونکہ ساسانی دار الخلافہ مدائن کو فتح کرنا ان کا مطمح نظر تھا،وہ بہت جز بز ہوئے اور اسے عیسر بن ام شملہ (عمر بن خطاب) کا مشورہ قرار دیا ۔ابو بکر نے نصف فوج مثنیٰ بن حارثہ کی قیادت میں عراق چھوڑنے کا حکم بھی دیاتھا۔ خالد بن ولید نے مثنیٰ کی منت سماجت کرکے جلیل القدر صحابہ اور نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں وفود کی صورت میں پیش ہونے والے اصحاب کو اپنے لشکر میں شامل کیا اور شام روانہ ہو گئے۔ راستے میں ایک لق ودق صحرا پڑتا تھا جس کے آس پاس رومیوں کے حمایتی عرب قبائل بستے تھے۔ انھوں نے وہ رستہ چھوڑا اور پہلے دومۃ الجندل پہنچے پھر وادئ سرحان کا رخ کیا ،راہ میں پڑنے والی قراقرکی بستی فتح کی۔ پھر رومیوں سے مڈ بھیڑ سے بچنے کے لیے انھوں نے فوج کا بڑا حصہ عام راستے سے بھیج دیا اور خودچند سو افراد ساتھ لے کر ایک پرخطر اوردشوار گزار راستے پر ہو لیے ۔رافع بن عمیرہ راہبر تھا،اس نے ہر شخص کو بہت سا پانی ساتھ رکھنے کو کہا۔ پھر بیس اونٹنیاں لیں، پیٹ بھر کر پانی پلانے کے بعد ان کے ہونٹ باندھ دیے۔پانچ دنوں کے سفر میں روزانہ چار اونٹنیاں ذبح کی جاتیں اور ان کے پیٹ سے پانی نکال کر گھوڑوں کو پلایا جاتا۔آخری روز ایک خاص قسم کی جھاڑی کے پاس زمین کھود کر چشمہ نکالا گیا اور لشکر سیر ہوا۔شام کی سرحد میں داخل ہونے کے بعد خالد نے سویٰ اور تدمر کی بستیاں فتح کیں، قصم میں آباد بنو قضاعہ سے صلح کی ،مرج راہط میں غسانیوں کو گرفتار کیااور بصریٰ کو ابو عبیدہ، شرحبیل اور یزید کی فوجوں کے ساتھ مل کر فتح کیا ۔اب تمام فوجیں یرموک پر جمع ہو چکی تھیں،مزید کئی ہفتے گزر گئے، لیکن فوجوں میں حرکت نہ ہوئی۔ اسی اثنا میں ہرقل نے خالد بن سعید پر فتح پانے والے جرنیل باہان کو بھی یرموک بھیج دیا، اس کے ساتھ کئی پادری آئے تھے جو عیسائیت کے خاتمے کی دہائی دے کر رومی اور عرب عیسائیوں کو مسلمانوں کے خلاف اکساتے۔ ایک دن مسلمانوں کو اطلاع ملی کہ کیل کانٹوں سے لیس رومی لشکر صبح ان پر حملہ کرنے والا ہے۔ مسلمان کمانڈروں کا اجلاس ہوا،ہر ایک نے اپنی تجاویز دیں۔ خالد بن ولید کی باری آئی تو انھوں نے کہا کہ ہم رومیوں پر کامیابی تبھی پا سکتے ہیں جب ایک کمان کے تحت متحد ہو کر لڑیں۔ان کے پاس تمام لشکر کی قیادت نہ تھی ، ابوبکر سے کہہ سکتے نہ از خود سپہ سالاری حاصل کر سکتے تھے، اس لیے سب جرنیلوں کو باری باری کمان سنبھالنے کا مشورہ دیا ۔پہلے د ن ان کی باری آئی۔ انھوں نے اسلامی لشکر کو ۳۸ دستوں میں تقسیم کیا،ہر دستہ کم و بیش ایک ہزار فوجیوں پر مشتمل تھا ۔قلب میں ابوعبیدہ بن الجراح کی قیادت میں ۱۸ دستے، میمنہ پر عمرو بن عاص کی کمان میں ۱۰ دستے اور میسرہ پر یزید بن ابو سفیان کی سربراہی میں ۱۰ دستے تھے۔ہراول دستے پرقباب بن اشیم مقرر تھے۔ابو الدردا کو قاضئ لشکر، عبداﷲ بن مسعود کو امیربند وبست اور ابو سفیان کو واعظ بنایاگیا۔ مذکورہ بالا بیان طبری کا ہے ،دوسری طرف بلاذری کہتے ہیں کہ ابوبکر نے خالد کو شام میں مقیم تمام اسلامی افواج کا سر براہ بنا کر بھیجا تھا۔یہ روایت قرین قیا س لگتی ہے، کیونکہ کوئی فوج بھی چار مختلف کمانوں کے ماتحت ہو کر جنگ نہیں لڑ سکتی ۔
خالد محض حربی صلاحیتوں میں طاق نہ تھے، سچے مومن بھی تھے۔ انھوں نے اس موقع پر تقریر کی: 146146فوجیں اﷲ کی مدد سے زیادہ ہوتی اور سپاہیوں کی بزدلی سے کم ہوتی ہیں۔مومنوں کے لیے اﷲ نے جنت کے دروازے کھول دیے ہیں۔145145 رومی ہراول دستے پر متعین جرنیل چرچہ نے خالد سے گفتگو کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ خالد لشکر سے باہر آئے اور اس کی بات سننے لگے ۔رومی فوجیوں نے سمجھا کہ چرچہ کو مدد کی ضرورت ہے ،انھوں نے زور آور حملہ کر دیا۔ مسلمان پیچھے کو ہٹنے لگے تو قلب کے کمانڈر عکرمہ کو جوش آیا ،انھوں نے ۴۰۰ بہادر شاہ سواروں سے موت کی بیعت لی اور رومی فوج پر حملہ کر دیا۔ رومی لڑکھڑا گئے ۔ اس موقع پر اﷲ کی نصرت غیر متوقع طریقے سے نازل ہوئی۔ چرچہ نے اسلام قبول کر لیا ، اپنا دستہ لے کر مسلمان فوج میں شامل ہو گیااور اسی روز جام شہادت نوش کیا ۔اب خالد بن ولید نے اپنی فوج کو آگے بڑھ کر حملہ کرنے کا حکم دیا ۔پیچھے واقوصہ کی ہول ناک گھاٹی اور گہری کھائیاں تھیں،ادھر سے مسلمان تیغ زنی کرر ہے تھے پھر بھی رومی جان توڑ کر لڑے ۔ان کی زد میں آنے والا کوئی مسلمان نہ بچا، تاہم سورج غروب ہوا تو ان میں ضعف کے آثار نظر آنے لگے۔ نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن کی صورت حال دیکھ کر خالد نے ان کو نکلنے کا راستہ دے دیا تاکہ فوج کا کچھ حصہ نکل جائے اور وہ باقی دشمن پر کاری ضرب لگا سکیں ۔راستہ کھلا دیکھ کر رومیوں کے سوار سر پٹ گھوڑے دوڑاتے ہوئے فرار ہو گئے تو مسلمان پیدل دستوں پر ٹوٹ پڑے ، وہ خندقوں میں گھسے تو وہاں ان کا پیچھا کیاآخر کار واقوصہ کی گھاٹی کی با ری آئی ۔رومیوں نے میدا ن جنگ میں ثابت قدم رہنے کے لیے بیڑیاں باندھی ہوئی تھیں،وہ دھڑا دھڑ گھاٹی میں گرنے لگے۔ایک گرتا تو ساتھ بندھے ہوئے دس بھی گرجاتے۔اہل تاریخ کا بیان ہے کہ ایک لاکھ بیس ہزار رومی اس گھاٹی میں گرے ۔ رات بھرجنگ ہوتی رہی۔ ہرقل کا بھائی تیودریک اور سپہ سالار قیقار (قیقلان)، دونوں مارے گئے، جبکہ باہان نے بھاگ کر جان بچائی۔جنگ یرموک میں ۳ ہزار مسلمانوں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ عکرمہ بن ابو جہل اور ان کا بیٹا عمرو بھی شہدا میں شامل تھے۔
یرموک میں گھمسان کی جنگ جاری تھی کہ مدینہ سے ایک قاصد ابوبکر کی وفات کی خبر اور خلیفۂ ثانی عمر کا فرمان لایا جس کی روسے خالد بن ولید کو معزول کر دیا گیا اور ابو عبیدہ کو نیا کمانڈر ان چیف مقرر کیا گیا تھا۔ اس سے اوپر بیان کردہ بلاذری کی روایت کی تائید ہوتی ہے ،اس لیے کہ اگر خالد بن ولید پوری اسلامی افواج کے سر براہ نہ تھے تو انھیں معزول کرنے کے کیا معنی؟ابن اسحاق نے جنگ یرموک سے پہلے اجنادین پر ہونے والے ایک اور معرکے کا ذکر کیا ہے جو جمادی الاولیٰ ۱۳ھ میں پیش آیا ،اس میں فتح کی بشارت سیدنا ابوبکر کو تب ملی جب وہ آخری سانسیں لے رہے تھے۔
خالد بن ولید عراق سے نکل آئے تو توقع کے مطابق عراقی بدووں اور ایرانی شہنشائیت نے جوشہر ایران (بازان) بن ارد شیر کی بادشاہی پر متفق ہو چکی تھی، اپنی اپنی شکستوں کا بدلہ لینے کی ٹھانی۔ہرمز جاذویہ۱۰ ہز ار فوج کی معیت میں ایک خوف ناک ہاتھی پر سوار ہوکر مثنیٰ بن حارثہ کے مقابلے کو آیا ۔ مثنیٰ نے گوارا نہ کیا کہ ہرمزجاذویہ ان سے مقابلہ کرنے حیرہ آئے ،وہ خود اپنی فوج لے کر مدائن سے ۵۰ میل ادھر بابل کے کھنڈروں میں پہنچ گئے ۔جاذویہ مسلمانوں کو ایران سے نکالنے کا ارادہ لے کرآیا تھا ۔ اس کا ہاتھی دیکھ کر مسلمان ہیبت زدہ ہو گئے تھے، اس لیے مثنیٰ نے سب سے پہلے اسی کو نشانہ بنایا۔ہاتھی مرنے کے بعد مسلم فوج نے نئے جوش سے ایرانی لشکر پر حملہ کیا ،انھیں شکست دی اور مدائن کے دروازوں تک بھگاتے ہوئے لے گئے۔ اس شکست کے صدمے سے شہنشاہ کو ایسا بخار چڑھا کہ اپنی جان دے دی۔ اس کے مرنے کے بعداس کی جا نشینی کے جھگڑے شروع ہوگئے۔مثنیٰ شاہی خاندان کی پھوٹ سے خوش تھے، انھوں نے اس موقعے سے فائدہ اٹھاکر مدائن فتح کرنے کا اردہ کر لیا۔بہت سوچ بچار کے بعد انھوں نے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کوخط لکھا، جس میں فتوحات کی خوش خبری دینے کے علاوہ ان سے ارتداد سے توبہ کرنے والے مسلمانوں کو اسلامی فوج میں شامل کرنے کی اجازت چاہی۔کافی عرصے تک خط کا جواب نہ آیاتو وہ خود مدینہ روانہ ہو گئے۔ابوبکر مرض الموت میں مبتلا تھے تاہم توجہ سے ان کی باتیں سنیں اور اپنے مقرر کردہ جانشین سیدنا عمر کو حکم دیا کہ کل کا دن ختم ہونے سے پہلے فوج مثنیٰ کے ساتھ روانہ کر دی جائے۔
مطالعۂ مزید:الکامل فی التاریخ (ابن اثیر)،البدایہ والنہایہ (ابن کثیر)،تاریخ الاسلام (ذہبی)، الصدیق ابوبکر (محمد حسین ہیکل) ،سیرت الصدیق۔ (حبیب الرحمان شروانی)
[باقی]

-------------------------------

 

بشکریہ ماہنامہ اشراق

تحریر/اشاعت اگست 2006

 

مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی
Uploaded on : Oct 31, 2016
2327 View