ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ (4) - ڈاکٹر وسیم مفتی

ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ (4)

 

مسیلمہ ۹ھ میں بنو حنیفہ کے ایک وفد کے ساتھ مدینہ آ یا۔وفد کے ارکان نے آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام قبول کر لیا ،مسیلمہ سامان کی حفاظت پر مامور تھا ،آپ کے پاس نہ پہنچا، لیکن بظاہر مسلمان ہو گیا ۔آپ نے بھی اس کے لیے کچھ مال بھجوایا۔وطن واپس جا کراس نے نبوت کا دعویٰ کر دیا اور من گھڑت الہامات سنانے لگا پھراس نے آپ کو خط لکھا کہ مجھے بھی اپنی نبوت میں شریک کر لیں یا یہ منصب مجھے منتقل کردیں۔آپ نے اسے جھوٹا قرار دیا، قبل اس کے کہ آپ اس کے خلاف کسی کارروائی کا حکم فرماتے، آپ دنیا سے رخصت ہو گئے۔ یمامہ کا ایک شخص نہارالرجال بن عنفوہ بھی اس سے مل گیاجس نے مدینہ میں قیام کر کے قرآن مجید اور اسلام کی تعلیم حاصل کی تھی۔نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسے اہل یمامہ کو اسلامی تعلیمات سکھانے کے لیے بھیجا، لیکن و ہ الٹامسیلمہ سے مل گیا اور آپ سے جھوٹا قول منسوب کر دیا کہ مسیلمہ شریک نبوت ہے ۔یمامہ والے اس کے دھوکے میں آ گئے اورہزاروں لوگ اس جھوٹے نبی پر ایمان لے آئے۔ تاریخ میں مسیلمہ کا کوئی معجزہ مذکور نہیں۔قبائلی عصبیت نے اس کے گرد جھرمٹ ا کٹھا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ طلحہ نمری نے گواہی دی:’’مسیلمہ، تم کذاب ہو اور محمد سچے ہیں، لیکن ہمیں اپنا کذاب دوسروں کے سچے سے زیادہ محبوب ہے ۔‘‘چنانچہ وہ مسیلمہ کے ساتھ لڑتے ہوئے مارا گیا ۔
جنگ یمامہ ربیع الاول ۱۲ھ (مئی ۶۳۳ء)میں عقربا کے مقام پر لڑی گئی، جہاں مسیلمہ لشکر کش تھا۔ چالیس ہزار پر مشتمل مسیلمہ کا لشکر اسلامی لشکر سے کئی گنا بڑا تھا، اس لیے ابو بکر نے خالد کے لشکر کے برابر ایک اور کمک بھیجی ۔ان کی پالیسی تھی کہ اہل بدر کو جنگوں میں نہ بھیجا جائے، لیکن اس نازک موقع پر انھوں نے بدری صحابہ کا ایک دستہ اور حفاظ کی بڑی تعدادبھی اس لشکر میں شامل کی ۔انصار کی کمان ثابت بن قیس اور برا بن مالک کے پاس تھی، جبکہ ابو حذیفہ بن عتبہ اور زید بن خطاب مہاجرین کی سربراہی سنبھالے ہوئے تھے۔خالد سے پہلے عکرمہ اور شرحبیل مسیلمہ سے شکست کھا چکے تھے، کیونکہ وہ مسیلمہ کی طاقت کا اندازہ لگائے بغیر اس سے بھڑ گئے تھے۔ابو بکر نے عکرمہ کو تو عمان اور اس کے بعد یمن بھیج دیا، لیکن شرحبیل کووہیں رکنے کی ہدایت کی۔ خالد نے بطاح سے یمامہ کی طرف بڑھناشروع کیا، ثنےۃالیمامہ کے مقام پر انھیں بنو حنیفہ کا ایک سردار مجاعہ ایک شب خون مارنے والے دستے کے ساتھ ملا ۔ انھوں نے اس کے ساتھیوں کو تو قتل کرا دیا، لیکن اسے بیڑیوں میں جکڑ کر قید کر لیا۔دوسرے دن فوجوں کا آمنا سامنا ہوا۔مسیلمہ کے بیٹے شرحبیل نے اپنی فوج کو خوب جوش دلایا اور بھڑکایا: ’’اے بنو حنیفہ، اگر تم شکست کھا گئے تو تمھاری عورتیں لونڈیاں بنا لی جائیں گی،اپنے حسب ونسب کی خاطر مسلمانوں سے جنگ کرو ۔‘‘بد قسمتی سے انصار ،مہاجرین اور بدووں میں یہ بحث چھڑی ہوئی تھی کہ ان میں زیادہ دلیر کون ہے؟ اس غفلت کا نتیجہ یہ ہوا کہ یمامہ کا لشکر ان پر چڑھ دوڑا اور یہ پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو گئے۔خالد نے مسلمان لشکر کو الگ گروہوں میں بانٹ کر کہا:’’ہم دیکھیں گے کہ کس نے زیادہ دلیری کا مظاہرہ کیا ہے؟‘‘سب سے پہلے مسیلمہ کا دست راست نہار الرجال مارا گیا اور مسلمانوں میں سے ثابت بن قیس، زید بن خطاب ،ابو حذیفہ اور ان کے غلام سالم نے جام شہادت نوش کیا۔ خالد نے دیکھا کہ مسیلمہ کے ساتھی اس کے گرد گھیرا ڈالے کھڑے ہیں اور اس کی حفاظت میں موت کی پروا نہیں کر رہے تو انھوں نے اسے قتل کرنے کی ٹھانی تاکہ جنگ کا جلد خاتمہ ہو ۔جب خالد نے اس کے جلو میں کھڑے ہوئے بے شمار لوگوں کو مار ڈالاتو وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑا ہوا اور اپنے تعمیر کردہ بلند فصیلوں والے حدیقۃ الرحمان میں داخل ہو گیا،اس کی قوم بنو حنیفہ بھی اس کے ساتھ اس باغ میں پناہ گزین ہو گئی۔اسلامی فوج نے باغ کے گرد پڑاؤ ڈال دیا ، کوشش کے باوجود کوئی ایسی جگہ نہ ملی جہاں سے شگاف کیا جا سکتا تو برا بن مالک نے کہا: ’’مجھے اٹھا کر اندر پھینک دو ،میں دروازہ اندر سے کھول دوں گا۔‘‘ان کے اصرار پر انھیں پھینکا گیا تو دروازہ کھلا۔بنو حنیفہ کے لا تعداد افراد تہ تیغ ہوئے تو بہت سے مسلمان بھی شہید ہوئے۔ مقتولوں کی کثرت سے باغ ایک مذبح کا منظر پیش کر رہا تھااسی وجہ سے یہ حدیقۃ الموت کہلایا۔ جنگ احد میں سید الشہدا حمزہ کو شہیدکرنے والے اور فتح مکہ کے موقع پر ایمان لانے والے وحشی نے مسیلمہ کو دیکھا تو تاک کر اسے نیزہ مارا،یوں وہ کذاب جہنم واصل ہوا۔ اس دوران میں ایک انصاری بھی اس پر تلوار کا وار کر چکے تھے۔ باقی مفروروں کو پکڑنے کے بعد خالد نے بنو حنیفہ کے قلعہ بندوں سے صلح کی۔ مجاعہ نے ان سے دھوکا کیا اور قلعوں میں بند عورتوں اور بچوں کو جنگجو مرد ظاہر کر کے پون مال اسباب،باغات اور قیدیوں کو چھڑا لیا۔اسی اثنا میں ابو بکر کا قاصد پیغام لایاکہ لڑائی کے قابل سب مردوں کو قتل کر دیا جائے، لیکن خالد نے صلح بر قرار رکھی اوربنو حنیفہ نے نئے سرے سے بیعت اسلام کی۔جنگ یمامہ میں یمامہ کے ۲۱ ہزار آدمی مارے گئے، جبکہ مسلمان شہدا کی تعداد ۱۲ سو تھی،ان میں۳۶۰ مدینہ میں رہنے والے مہاجرین وانصار اور ۳۰۰ دوسرے شہروں کے مہاجرین تھے۔ابو بکر نے کثیر تعداد میں حفاظ کے شہید ہوجانے کے بعد قرآن مجید جمع کرنے کا حکم جاری کیا۔اس معرکے سے فارغ ہونے کے بعد خالد نے مجاعہ کی بیٹی سے شادی کی تو ابو بکر بہت ناراض ہوئے ۔
اب جنوبی قبائل کی بغاوت فرو کرنے کی باری تھی۔نصف عرب پر محیط یہ لق و دق صحرا بحرین ،عمان ،مہرہ، حضرموت، کندہ اور یمن کے صوبوں پر مشتمل ہے اور ربع الخالی کے نام سے مشہور ہے۔یہاں ایران کا بہت اثر تھا ،خسرو کے عامل بدھان کے قبول اسلام تک یمن ایران کی عمل داری میں تھا۔ ابھی خالد یمامہ میں تھے کہ ما تحت سپہ سالاروں کو ان قبائل کی طرف بھیج دیا ۔بحرین نزدیک تھا ،اس لیے یہاں سے آغاز کیا گیا۔یہاں کا عیسائی بادشاہ منذر بن ساوی ۹ھ میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے قاصد علا بن حضرمی کے ہاتھ پر مسلمان ہو گیا تھا ۔ اتفاق سے جب آں حضرت نے وفات پائی اسی ماہ منذر کا انتقال بھی ہو گیا۔ بحرین والے مرتد ہو گئے ،صرف نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ جارود بن معلی اسلام پربرقرار رہے۔انھوں نے اپنے قبیلے عبد القیس کو پھر سے اسلام پر آمادہ کر لیا، لیکن بحرین کے دوسرے قبائل حطم بن ضبیعہ کی سربراہی میں ارتداد پر قائم رہے ۔اس نے ہجر اور قطیف میں مقیم غیر ملکیوں اور غیر مسلموں کوساتھ ملا کر بنو عبد القیس کا محاصرہ کر لیا۔بھوک اور پیاس سے جاں بلب ہونے کے باوجودبنو عبد القیس پھر مرتد نہ ہوئے۔ابو بکر نے علا بن حضرمی کو بحرین کے مرتدین کے مقابلے کے لیے بھیجا ، وہ یمامہ کے پاس سے گزرے تو نئے سرے سے مسلمان ہونے والے بنو حنیفہ کی کثیر جمعیت ان کے ساتھ شامل ہو گئی۔ قیس بن عاصم نے جو زکوٰۃ کا انکار کرنے میں پیش پیش تھے، اپنے قبیلے سے زکوٰۃ اکٹھی کر کے علا کو پیش کی۔علا محاذ جنگ پر پہنچے تو انھوں نے مرتدین کی بھار ی تعداد دیکھتے ہوئے اسلامی لشکر کے گرد خندق کھدوائی اور پڑاؤ ڈال دیا کبھی کبھار وہ خندق عبو ر کر کے مرتدین پر حملہ کرتے اور پھر واپس آ جاتے۔ایک ماہ اسی طرح گزر گیا ،ایک رات جب مشرکین شراب میں دھت غوغا کرر ہے تھے علا پیش قدمی کر کے ان کے علاقے میں گھس گئے اور ان کو تہس نہس کر دیا۔بے شمار قتل ہوئے اور ہزاروں کوقیدی بنا لیا گیا،قیس بن عاصم نے حطم کا کام تمام کیا۔کچھ فرار ہو کر چند میل دور خلیج فارس میں واقع جزیرۂ دارین جا پہنچے ۔مسلمانوں کے پاس کشتیاں نہ تھیں ،انھوں نے گھوڑوں ،خچروں اور اونٹوں ہی کو سمندر میں ڈال دیااور دارین پہنچ گئے ۔مفروروں کا قلع قمع کرنے کے بعد واپس بحرین آئے تو علا نے ابوبکر کو فتح کی خوش خبری بھیجی۔
رسو ل اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانے میں عمان پر ایران کی طرف سے جیفر نامی عامل مقر ر تھا ۔آپ نے اس کی طرف عمرو بن عاص کو اسلام کا پیغام دے کر بھیجا، اسے زکوٰۃ مدینہ بھیجنے پر اعتراض تھا ۔عمرو نے زکوٰۃ اسی کے علاقے میں خرچ کرنے کی تجویز پیش کی تو وہ مسلمان ہوا۔ آپ کی وفات کے بعد مدعی نبوت لقیط بن مالک کی تحریک پر اہل عمان مرتد ہوئے تو جیفر پہاڑوں پر بھاگ گیا۔ابو بکر نے حمیر سے حذیفہ بن محصن کو عمان بھیجا ۔آپ کی ہدایت پر یمامہ سے عکرمہ بن ابو جہل اور شرحبیل بن حسنہ بھی آ گئے۔جیفر اور اس کے بھائی عباد کو پیغام بھیجا گیا کہ آ کر اسلامی لشکر سے مل جائیں۔دبا کے مقام پر شدیدلڑائی ہوئی ،ابتدا میں لقیط کا پلہ بھاری تھا، لیکن عبد القیس اور دوسرے قبائل کی طرف سے کمک پہنچی تو جنگ کا پانسا پلٹ گیا ،غنیم کے ۱۰ ہزار آدمی مارے گئے،بہت سے قید ہوئے اور کثیر ما ل غنیمت ہاتھ آیا۔
عکرمہ بھاری جمعیت لے کر مہرہ پہنچے ،وہاں دو حریفوں میں اقتدار کی کشمکش چل رہی تھی ۔انھوں نے کمزور فریق کو اسلام کی دعوت دی پھران نو مسلموں کو اپنے ساتھ ملاکر طاقت ور گروہ پر حملہ کر دیا۔ گھمسان کا رن پڑا اور مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی۔عکرمہ نے فتح کی خوش خبری اور خمس بھیجنے کے ساتھ حلیف جماعت کے سربراہ کو بھی ابو بکر کی خدمت میں مدینہ روانہ کیا۔ اب وہ ساحل کے ساتھ ساتھ چلتے یمن کی طرف بڑھے۔
یمن کی بغاوت کا پہلا سبب وہاں کسی مرکزی حکومت کا موجود نہ ہونا تھا۔بازان کے بیٹے شہر اور دوسرے عمال میں منقسم حکومت مدعی نبوت اسو دعنسی کے جانشینوں کی سازشوں کے سامنے نہ ٹھہر سکتی تھی۔آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اٹھنے والی ارتداد کی لہر نے بھی اثر دکھایا ۔اس بغاوت کا دوسرا سبب نسلی تھا ،ابو بکر نے شہر بن بازان کے قتل کے بعد ایرانی النسل فیروز کو صنعا کا حاکم مقرر کیا، اس لیے عربی النسل قیس حمیری اس کا مخالف ہو گیا۔دوسری طرف مدینہ سے یمن کو جانے والے راستے پر آبادعک اور اشعر قبائل نے مسلمانوں کے لیے یہ راستہ مسدود کر دیا تھا۔ طائف کے حاکم طاہر بن ابو ہالہ نے ابو بکر کی اجازت سے ان قبائل سے ایک خوں ریز جنگ کے بعد اس طریق الاخابث کو مسلمانوں کے لیے وا کردیا۔ قیس نے یمن میں مقیم ایرانی نسل کے باشندوں کے خلاف جنھیں انبا کہا جاتا تھاعرب قبائل کو ابھارا۔ ذو الکلاع حمیری نے اس کاساتھ نہ دیا تو اس نے اسود عنسی کے قتل میں شامل باقی عرب سرداروں سے رابطے کیے ا ور انتہائی خفیہ طور پرفوج ترتیب دے کر صنعا پر حملہ کر ادیا۔خودوہ صنعا میں رہا ،اس نے فیروزاور اس کے دو ساتھیوں داذویہ اور جشنس کو قتل کے ارادے سے اپنے گھر بلایا،داذویہ کے قتل میں وہ کامیاب ہوگیا، لیکن فیروز اورجشنس بھاگ نکلے ۔فیروز کے جانے کے بعد حکومت اس کے ہاتھ آ گئی۔اس نے اپنے مطیع ہوجانے والے انباکو کچھ نہ کہا، لیکن باقیوں کو عدن کی بندر گاہ یا خشکی کے راستے واپس خلیج فارس بھیج دیا۔اقتدار سے محروم ہونے کے بعد فیروز نے اسلام پر قائم قبیلوں کو ساتھ ملا کر صنعا پر کامیاب حملہ کیااورخلیفۂ اول کی طرف سے اپنی امارت پھر سنبھال لی۔ دارالحکومت سے باہر یمن ابھی پر سکون نہ ہوا تھا۔بغاوت یمن کی تیسری وجہ یمن و حجاز کا دیرینہ عناد تھا۔ اسے زبید قبیلے کے عمرو بن معدی کرب نے خوب انگیخت کیا جو شاعر ہونے کے ساتھ جنگجو بھی تھا۔اس نے قیس بن عبد یغوث کو اپنے ساتھ ملا لیا اور نجران کے عیسائیوں کے سو اتمام قبائل کو آماد�ۂ بغاوت کر لیا۔ اس اثنا میں عکرمہ یمن پہنچ چکے تھے ،دوسری طرف سے مہاجر بن امیہ ابوبکر کا عطا کردہ علم تھامے پہنچ گئے،وہ مکہ ،طائف اور نجران سے سینکڑوں جنگی لیاقت رکھنے والے افراد کو ساتھ لائے تھے ۔ادھر سے فروہ بن مسیک ان سے مل گئے۔ اﷲ کی مدد ایسی آئی کہ قیس اور عمرو میں پھوٹ پڑ گئی اور عمرو مسلمانوں کے ساتھ آ ملے ۔انھوں نے قیس کو پکڑ کر مہاجر کے سامنے پیش کر دیا،مہاجر نے دونوں کو گرفتار کر کے ابو بکر کی خدمت میں بھیج دیا ۔ابوبکر نے داذویہ کے قصاص میں قیس کو قتل کرنا چاہا، لیکن کوئی شہادت نہ ملی ،جبکہ عمرو نے مملکت اسلامیہ کا نیک شہری بن کر زندگی گزارنے کا وعدہ کیا تو دونوں چھوٹ کر اپنے قبیلوں میں واپس پہنچ گئے ۔ عمرونے مسلمان ہونے کے بعد اسلام کے لیے قابل قدر خدمات سر انجام دیں۔ابوبکر نے اقتدار کی کشمکش میںیمنی عربوں کے مقابلے میں ایرانی نسل کے فیروز اور شہر کو اس لیے ترجیح دی کہ وہ قبول اسلام میں سبقت کرنے والے تھے مزید یہ کہ شہر بن بازان خود رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف سے تقرری حاصل کر چکے تھے۔
اسود عنسی نے دعواے نبوت کیا تو کندہ کے لوگوں نے اس کا ساتھ دیا۔اسی دوران میں نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی تو ارتداد کے شعلے بھڑک اٹھے ۔آپ کے مقرر کردہ کندہ کے عامل زیاد بن لبیدنے اس فتنے کو فرو کرنے کے لیے مسلما ن قبائل کو ساتھ ملایا اور قبیلۂ عمرو بن ربیعہ پر حملہ کر دیا ۔انھوں نے مردوں کو قتل کرنے کے بعدعورتوں کو قیدی بنا لیا ۔ واپسی میں وہ کندہ کے رئیس اشعث بن قیس کے قبیلے کے پاس سے گزرے تو عورتوں نے اشعث کو دہائی د ی،تیری خالاؤں کی عزتیں خطرے میں ہیں۔باجودیکہ اشعث آں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام قبول کر چکا تھا اور ابو بکر کی بہن ا م فروہ سے اس کی منگنی ہو چکی تھی،اس موقع پر اس کی قبائلی عصبیت بیدار ہو گئی۔اس نے اپنی قوم کو بھڑکا کر زیاد کی فوج پر ہلا بول دیا اور اپنی عورتوں کو چھڑا لیا۔جب اس نے کندہ اور حضرموت میں بغاوت کی آگ بھڑکانی شروع کی تو صنعا سے مہاجر اور عدن سے عکرمہ زیاد کی مدد کو پہنچ گئے۔ اشعث کو شکست ہوئی تو وہ بھاگ کر قلعۂ نجیر میں بند ہو گیا۔قلعے کے تین رستوں پر یہ تینوں مسلمان جرنیل بیٹھ گئے تو قلعہ کی رسدمکمل بند ہو گئی۔بالآخر۶ سو قلعہ بند اپنے پیشانی کے بال کاٹ کر قلعے سے نکلے اور مسلمانوں سے لڑنے کی کوشش کی، لیکن بھاری اسلامی فوج کے آگے ان کی ایک نہ چلی۔تب اشعث کو اپنی جان بچانے کی سوجھی ،اس نے اپنے ۹ اہل خانہ کی جاں بخشی کے بدلے قلعے کے دروازے کھول دیے،اپنا نام لکھنا وہ بھول گیا ۔مسلمانوں نے اندر داخل ہو کرلڑائی میں حصہ لینے والے ہر شخص کو قتل کر دیااور ایک ہزار کے لگ بھگ عورتوں کو قیدی بنا لیا۔ مال خمس اور قیدیوں کے ساتھ اشعث مدینے پہنچا تو ابو بکر نے اس کو قتل کرنا چاہا،اس نے اسلام پر قائم رہنے کا وعدہ کیا تو اس کی جان بچی اور ابو بکر کی بہن اس کے ساتھ رخصت ہو گئیں۔۱۲ھ (۶۳۳ء) میں ردہ کی تحریک دبا دی گئی،صرف ربیعہ بن بجیرسے جنگ ۱۳ھ میں ہوئی۔
ظہور اسلام سے قبل عرب تجارتی اغراض سے ایران ،عراق اور شام جاتے رہتے تھے۔ان میں بہت سے نقل مکانی کر کے ان ممالک کے سرحدی اور صحرائی علاقوں میں بس چکے تھے۔ان میں سے شام میں مقیم ر ومیوں میں گھل مل گئے، جبکہ عراق کی سرحدوں پر بسنے والے الگ تھلگ رہے ۔ ایران میں خانہ جنگی اور طوائف الملوکی شروع ہوئی تو لخمی آگے بڑھے اور انھوں نے دریاے فرات کے کنارے انبار اورحیرہ کے شہر آباد کر کے مملکت حیرہ کی بنیاد رکھی، اس مملکت میں وہ عرب بھی آباد ہوئے جو بخت نصر قیدی بنا کر عراق لایا تھا ۔ تیسری صدی کے وسط میں جذیمۃالابرش نے حیرہ سے عین التمر اور صحراے شام تک کے علاقے پر قبضہ کر کے خود مختار حکومت قائم کر لی۔ شام کی سرحد پرآباد عرب قبیلے غسان کی سلطنت قائم تھی،چھٹی صدی میں اسے عروج حاصل ہوا۔ کہا جا سکتا ہے کہ عرب کی حدود جنوب میں خلیج فارس اور خلیج عدن تک اور شمال میں موصل اورآرمینیا تک پھیلی ہوئی تھیں ۔ عراق و شام ایران و روم کی کشمکش میں پس رہے تھے،کبھی ایرانی ان پر غالب آ جاتے کبھی رومی ۔ان دونوں بڑی طاقتوں (Super Powers)نے اپنی اپنی سرحدوں پر آباد عرب صحرا نشینوں کو ڈھال(Buffer Zone)کے طور پر استعمال کیا تاکہ ان کا باہم جنگ و جدال ختم ہو۔ بعثت نبوی کے وقت بھی ان کی لڑائیاں جاری تھیں۔آپ نے محسوس فرما لیا تھا کہ عرب قبائل میں امن قائم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ سب قبائل حلقۂ اسلام میں آجائیں، اس لیے آپ نے شام کو جانے والی شاہراہ پر لشکر کشی کی۔اسی نکتے پر ابو بکر نے عمل کیااور وہ اسامہ کا لشکر بھیجنے پر مصر رہے۔خلافت ابو بکر کا پہلا سال مرتدین سے نمٹنے میں گزرا جب وہ اس میں کامیاب ہوئے توان بڑی طاقتوں (Super Powers)کی طرف متوجہ ہوئے۔ ان کی پہلی توجہ روم پر تھی، کیونکہ روم پر حملے کاآغاز خود نبی صلی اﷲ علیہ وسلم غزوۂ تبوک میں شرکت کر کے فرما چکے تھے پھر ایران کی مسافت کچھ زیادہ تھی اور ایران سے ملحقہ قبائل میں ارتداد کا فتنہ ابھی ابھی فرو ہوا تھا۔ وہ اسی سوچ میں تھے کہ بکر بن وائل کے مثنیٰ بن حارثہ شیبانی جو علا بن حضرمی کے ساتھ مل کر مرتدین سے جنگ کر چکے تھے ،چند افراد کے ساتھ عراق پہنچے اوروہاں آباد عربوں کو ایران کی غلامی چھوڑ کر اسلامی حکومت کی حمایت کرنے پر آمادہ کیا ۔پھر وہ مدینہ آئے اور ابوبکر کو اطمینان دلایاکہ شام کے بجائے عراق کو فتح کرنا سہل تر ہے۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ ایرانی حکام وہاں کے کسانوں کی ساری فصل لو ٹ کر لے جاتے ہیں، اس لیے وہ ان کے خلاف نفرت سے بھرے ہوئے ہیں۔ابو بکر فوج کشی پرتیار ہوگئے، لیکن انھوں نے مدینہ کے اہل رائے سے مشورہ کرنا ضروری سمجھا۔ شوریٰ کے فیصلے کے مطابق خالد بن ولید کویمامہ سے بلایا گیا اور اس بارے میں ان کی رائے طلب کی گئی ۔انھوں نے تر ت مشورہ دیا کہ اگر مثنیٰ کے پلان کے مطابق فوراً ایران میں پیش قدمی نہ کی گئی تو الٹا ایرانی بحرین اور ملحقہ علاقوں پر تسلط جمانے کی کوشش کر کے اسلامی خلافت کو غیر مستحکم کر سکتے ہیں۔چنانچہ ابو بکر نے مثنیٰ کو عرب قبائل سے رابطے کرنے کے لیے واپس بھیجنے اور مدینہ سے جلد اسلامی لشکر بھیجنے کا فیصلہ کیا ۔کچھ دوسری روایات کے مطابق مثنیٰ مدینہ آئے نہ عراق پریورش کی پیش بندی ہوئی، بلکہ مثنیٰ اکیلے ہی لشکر لے کرعراق میں گھس گئے اور جب ہرمز کی فوجوں سے ان کا سامنا ہوا تو ابو بکر نے خالد بن ولیداورعیا ض بن غنم کو ان کی مدد کے لیے بھیجا۔انھوں نے غریب کاشت کاروں سے اچھا سلوک کرنے کی بطور خاص ہدایت کی ۔ خالد کے ساتھ صرف ۲ ہزار سپاہی تھے ،ان کے بیش تر ساتھی یمامہ کی جنگ میں کام آ چکے تھے ۔انھوں نے دار الخلافہ سے کمک مانگی تو ابو بکر نے فرد واحد قعقاع بن عمرو تمیمی کو بھیج دیا اور کہا: ’’جس لشکر میں قعقاع شامل ہو، وہ شکست نہیں کھا سکتا ۔‘‘ انھوں نے ان مقامی افراد کو بھرتی کرنے کا حکم بھی بھیجا جو مرتد نہیں ہوئے اور مرتدین کے خلاف جنگوں میں شریک رہے۔خالد نے مضر اور ربیعہ کے قبیلوں سے۸ ہزار مسلمان اپنے لشکر میں شامل کیے اور عراق روانہ ہوئے، مثنیٰ کے ساتھ ۲ ہزار افراد پہلے سے تھے ۔ خالد نے ہرمز پر حملہ کرنے سے پہلے وہاں کی حکومت ایران کے مقرر کردہ حاکم ہرمز کو خط لکھا: ’’اسلام قبول کرلو یا ذمی بن کر اسلامی سلطنت میں شامل ہو جاؤ۔ ‘‘پھر انھو ں نے لشکر کو تین حصوں میں تقسیم کیا اورہر حصے کوا لگ راستے سے حفیر پہنچنے کی ہدایت کی۔ادھر ہرمز تیزی سے اپنی فوج لے کر حفیر پہنچااور پانی پر ڈیرے ڈال دیے ۔ فوجیں آمنے سامنے آئیں تو ہرمز نے خالد کو دوبدو مقابلے کے لیے للکارا،جب وہ آگے پہنچے تو ایک دستے نے ان پر حملہ کردیا، لیکن قعقاع نے بر وقت کارروائی کر کے خالد کوبچا لیا ۔ اسی دور ان میں خالد ہر مز کی گردن اڑا چکے تھے ،سپہ سالار کی موت سے ایرانیوں کی ہمت جواب دے گئی اور وہ جم کر مقابلہ نہ کر سکے ۔کثیر مال غنیمت کا پانچواں حصہ ،ہرمز کی ایک لاکھ درہم مالیت کی ٹوپی اورایک ہاتھی خلیفۂ اول کی خدمت میں مدینہ بھیجے گئے۔ اس جنگ کاظمہ میں ایک ایرانی شہزادی کا قلعہ بھی فتح ہوا۔
مطالعۂ مزید: الکامل فی التاریخ (ابن اثیر)،الصدیق ابو بکر (محمد حسین ہیکل) ،اردو دائرۂ معارف اسلامیہ (پنجاب یونیورسٹی)
[باقی]

-------------------------------

 

بشکریہ ماہنامہ اشراق

تحریر/اشاعت جون 2006
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی
Uploaded on : Oct 15, 2016
3180 View