امت مسلمہ کے اہم مسائل اور ان کا حل (2) - ڈاکٹر محمد فاروق خان

امت مسلمہ کے اہم مسائل اور ان کا حل (2)

 

وسطی ایشیا کی نو آزاد مسلم ریاستیں

روس میں کمیونزم کے خاتمے سے وسطی ایشیامیں پانچ آزادمسلم ریاستوں نے جنم لیا۔ کمیونزم کے خاتمے کے لیے اصل جدوجہد ان ریاستوں میں نہیں ، بلکہ یورپی روس اوریورپی رشین فیڈریشن والی ریاستوں میں کی گئی۔ ان پانچ ممالک میں دراصل سابقہ کمیونسٹ پارٹی کے لیڈروں ہی کواقتدارمنتقل ہوا۔ چنانچہ ان ریاستوں کے اسلام سے محبت کرنے والے عناصرکواس حقیقت کاتجزیہ کرناچاہیے تھا کہ یہاں آرمی ، انٹیلی جنس،ریاستی طاقت اورباقی تمام ادارے ابھی تک سابقہ قوتوں کے پاس ہیں۔جب وہ اس حقیقت تک پہنچتے تویہ بات بھی ان پرکھل جاتی کہ سترسالہ روسی اقتدارکی وجہ سے عوام دین کی حقیقی تعلیمات سے بہت دو رجاچکے ہیں۔ اس لیے پہلی ضرورت اوراصل اہمیت سیاسی جدوجہد کی نہیں ، بلکہ معاشرے میں دین کی تعلیمات کوعام کرنے کی ہے۔حالات اس حد تک تویقیناًسازگارہوچکے تھے کہ دین کی ترویج کے لیے کتابیں لکھی جاتیں، ادارے بنائے جاتے ، مساجد کی حالت بہتربنائی جاتی ، لیکن سیاسی جدوجہدکے لیے قطعاً سازگارنہیں تھے۔ بدقسمتی سے مسلمانوں پرہرجگہ عجلت پسندی کاجوغلبہ ہے ، اس کے پیش نظروہاں نہ صرف یہ کہ قبل ازوقت سیاسی کام شروع کر دیا گیا، بلکہ جابجامسلح گروپ بھی قائم ہوئے۔ اس کانتیجہ یہ ہوا کہ دستیاب حالات سے جوفائدہ اٹھایاجاسکتاتھا ، وہ بھی نہ اٹھایاجاسکا۔
اس وقت وہاں کی تمام تنظیموں کے لیے صحیح راستہ یہ ہے کہ وہ عوام کی اسلامی تعلیمات پرپوری توجہ مرکوزکریں۔ بالکل پرامن رہیں۔ حکومتوں سے بات چیت جاری رکھیں اورجب تک سیاسی فضاانتخابات میں حصہ لینے کے لیے سازگارنہ ہو۔ تب تک براہ راست مقابلہ نہ کریں۔ اس کے بجائے وہ جمہوری قوتوں کے پلڑے میں اپناوزن ڈالیں۔ جب سیاسی کلچرایک خاص سطح تک پہنچ جائے گا تب ان کے لیے دوسرے راستے بھی کھل جائیں گے۔

چیچنیا

چیچنیا کے علاقے میں دس لاکھ مسلمان بستے ہیں۔ پچھلی دو جنگوں کے بعد تعداد تقریباً ساڑھے آٹھ لاکھ رہ گئی ہے۔ ان لوگوں میں اسلام کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہواہے۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد یہ علاقہ رشین فیڈریشن کا حصہ رہا ۔ اس علاقے کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ تقریباًچاروں طرف سے روس میں گھرا ہوا ہے۔اس کی سرحد کاایک چھوٹاحصہ جارجیاسے بھی ملتاہے ، مگروہ بھی روس کے زیراثراوراس کے ساتھ معاہدات میں بندھاہواملک ہے۔ آزادی کے راستے میں اس سے بڑی رکاوٹ اور کوئی نہیں ہو سکتی، بلکہ دنیا کے نقشے پر ایسا کوئی آزاد ملک کبھی موجود ہی نہیں رہاجو چاروں طرف سے ایک بہت بڑے ملک میں گھرا ہوا ہو۔
چنانچہ چیچنیا کے لیے یہ عملی مطالبہ زیادہ مناسب تھا کہ اسے رشین فیڈریشن کے اند ر رہتے ہوئے مکمل اندرونی خود مختاری دی جائے ۔ اس مطالبے کا ماننا روس کے لیے ممکن تھا۔ اس طرح اہل چیچنیا اپنے ہاں ایک مکمل مسلمان معاشرہ قائم کر سکتے تھے۔ اس کا ایک اور فائدہ یہ ہوتا کہ روس کے اند ردوسرے خود مختار مسلمان علاقوں کے لیے بھی ایک راستہ کھلتا ۔ واضح رہے کہ روس کے اندر کئی ایسے علاقے موجود ہیں جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں ۔ اگر یہ مطالبہ خالصتاً عدم تشدد کے ذریعے سے آئینی و قانونی راستے سے اور مختلف بین الاقوامی فورمز پر مسلسل کیا جاتا تو توقع یہ تھی کہ نہ صرف چیچنیا ، بلکہ رفتہ رفتہ دوسرے مسلمان علاقے بھی اندرونی طور پر خود مختار بن جاتے اور روسی احساس برتری اوراشتعال کو ابھارے بغیر پر امن طریقے سے یہ خواب شرمندۂ تعبیر ہو جاتا۔ اس کے بعد کسی ایسے مناسب مرحلے پر جب گردوپیش کے اور بین الاقوامی حالات سازگار ہوتے تو مکمل آزادی کا مطالبہ بھی کیا جاسکتا تھا۔
تاہم ایسانہ ہوا۔ اہل چیچنیا نے صرف اپنی آزادی کے بارے میں سوچااور باقی روسی مسلمانوں کے مفادات کو پس پشت ڈال کر آزادی کا اعلان کر دیا۔ ان کی آزادی کے اعلان پر دینی اعتبارسے کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا ۔ اس لیے کہ پوری قوم جو ہر داؤد کی قیادت پر متفق تھی۔ اعلان آزادی بہت پرامن طریقہ سے ہوا۔ اور پورے ملک پر عملاً قبضہ تھا۔ اس وقت روس کی اپنی حالت دگرگوں تھی۔ اس لیے روس کا فوجی ایکشن نیم دلا نہ تھا، جس کی وجہ سے وہ ناکام ہوا۔
تاہم چیچنیا کی آزادی میں بنیادی کمزوری تو مضمرتھی۔ روسی اجازت کے بغیر وہ کسی سے رابطہ نہیں کر سکتے تھے۔ وہاں کوئی امداد نہیں پہنچ سکتی تھی ۔ باہرسے کسی کو چیچنیا جانے کے لیے لازماً روس سے اجازت لینا پڑتی ۔ گویا یہ ریاست عملاً روسیوں کے رحم و کرم پر تھی اور اس کی وجہ سے روس کے اندر باقی مسلمانوں پر زندگی تنگ ہو گئی۔
جب کوئی قوم جذباتی فیصلے کرنے پر اتر آتی ہے تو اس سے بھیانک غلطیاں سرزد ہونے کابڑا امکان ہوتا ہے۔چیچنیا نے قریبی ریاست داغستان پر حملہ کر دیا اور وہاں کے پانچ دیہاتوں پر قبضہ کر لیا۔ یہ حملہ دینی تعلیمات اور حکمت کے بالکل خلاف تھا۔ چنانچہ روس نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا کہ یہ لوگ ہماری ریاست کو تباہ و برباد کرنے کے درپے ہیں۔ اس وقت روس کی حالت بہت سنبھل چکی تھی۔ اسے اندرونی و بیرونی طور پر کوئی بڑا چیلنج در پیش نہ تھا۔اس کی افواج کی تعداد چیچنیا کی کل آبادی سے تین گنا زیادہ تھی۔چنانچہ روس نے حملہ کر کے چیچنیا پر قبضہ کر لیا۔ گر وزنی کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ اور اس لڑائی میں تقریباً اسی ہزار مسلمان شہید ہوئے۔ اس لڑائی کا ایک اور قابل توجہ پہلو یہ ہے کہ اس دفعہ پوری روسی قوم اپنی حکومت کی پشت پر تھی۔ اس لیے کہ سب روسی اہل چیچنیا کو جارح سمجھتے تھے۔
اس پورے معرکے میں اہل چیچنیا نے بے مثال بہادری ، عزم اور ہمت کا مظاہرہ کیا ۔روس نے جو مظالم ڈھائے ، اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ تاہم اس پورے معرکے میں اسلام اور حکمت کے اعتبار سے بڑی کو تاہی رہی۔ مسلمانوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا اور روس کے باقی مسلمانوں پر عرصۂ حیات مزید تنگ ہو گیا۔ اگر اس پورے معاملے میں دین وحکمت سے روشنی حاصل کی جاتی تو یقیناً صورت حال مختلف ہوتی۔

بلقان ریاستوں کا معاملہ

بوسنیا

۱۹۸۰ء میں مارشل ٹیٹوکی وفات کے بعد یوگو سلاویہ میں زوال کے آثار نمایاں ہوئے ۔ رفتہ رفتہ تمام ریاستوں میں اختلافات شروع ہو گئے اور یو گو سلاویہ سے سلووینیا اور کرویشیا نامی ریاستوں نے آزادی حاصل کی ۔ اس کے پیش نظر بوسنیا کی ریاست نے اپنی پارلیمنٹ میں آزادی کا بل پیش کیا ۔ جسے پارلیمنٹ نے بھاری اکثریت سے منظور کر کے عالی جاہ عزت بیگو وچ کو اپنا صدر منتخب کرلیا۔ فروری ۱۹۹۲ میں ریفرنڈم ہوا جس میں ننانوے فی صد عوام نے آزادی کے حق میں ووٹ دیا۔ مارچ ۱۹۹۲ میں بوسنیا نے آزادی کا اعلان کیا ۔ اپریل میں یورپی برادری اور اقوام متحدہ نے اسے اپنا رکن بنا لیا۔
اس کے بعد بوسنیا کے مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ ڈھائے جانے شروع ہوئے۔ مگر اس پورے عرصے میں پوری قوم اپنے صدر کے جھنڈے تلے متحد رہی۔کسی بھی ظلم کے رد عمل میں بوسنیا کی قوم یا اس کی فوج نے کوئی ظلم نہیں کیا ،حالانکہ وہ چاہتے تو کئی جگہ سربوں کو قتل کر سکتے تھے، مگر انھوں نے ہمیشہ اپنے آپ کو دفاع تک محدود کیے رکھا۔ ہر موقع پر انھوں نے دنیا کو سربوں کے ظلم و ستم اور اپنے صبر سے باخبر کیے رکھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پوری دنیا (بشمول غیر مسلم اقوام ) کی ہمدردیاں بوسنیا کے ساتھ ہو گئیں ۔اسی وجہ سے امریکی ثا لثی کے ذریعے سے بالآخر ڈیٹین امن سمجھوتا طے پایا جس کے نتیجہ میں بوسنیا کے مسلمانوں کو امن نصیب ہوا۔
یہ پوری جدو جہد اسلامی احکا م کے عین مطابق تھی۔دشمن کے ظلم کے مقابلے میں اہل بوسنیا نے مظلومانہ جدوجہد کی۔ پہلے دن ہی سے آئینی و قانونی راستہ اختیا ر کیا اور اس کا نتیجہ اب دنیا کے سامنے ہے۔

کوسووو

کوسوومیں بھی مسلمان اکثریت میں ہیں اورمتحد ہیں ۔ وہاں جدوجہد میں انھوں نے اعلیٰ ترین اسلامی اقدار کاخیال رکھا۔ مخالفین کے خلاف ردعمل میں کوئی انتقامی کارروائی نہیں کی تھی۔ اس کاپھل انھیں اس صورت میں ملا کہ اقوام متحدہ اورمغربی دنیاان کی طرف دارہے اوران کوبچانے کے لیے مغرب نے بلغرادپرویسی ہی بم باری کی جیسی اس نے کویت کے معاملے میں بغداد پرکی تھی ۔ کوسوو کی مسلم ریاست آزادی کی طرف بتدریج بڑھ رہی ہے۔اگروہاں کے مسلمان اس طرح متحد رہے اور انھوں نے مسلسل حکمت سے کام لیاتوجلدہی وہ مکمل آزادی کی منزل پائیں گے۔
کوسوو کے برعکس مقدونیہ میں مسلمان اقلیت میں ہیں ۔ وہاں انھوں نے مسلح جدوجہدشروع کرلی ہے۔ یہ صحیح طرزعمل نہیں ہے۔ اس سے الٹابوسنیا، کوسوو او رالبانیہ کی آزادی بھی خطرے میں پڑجائے گی۔ ان کے لیے صحیح راستہ یہ ہے کہ وہ ایک پارٹی کی شکل میں منظم ومتحدہوجائیں اوراپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی مددسے سیاسی مذاکرات شروع کر دیں۔ اگر انھوں نے ایساکیاتوڈیٹین امن سمجھوتا کی طرح مقدونیہ کے لیے بھی سمجھوتا ہوجائے گا۔

مسلمانوں کے معاملات میں اقوام متحدہ کا کردار

تمام مسلمان ممالک رضاکارانہ طورپراقوام متحدہ کے رکن بنے ہیں۔ اس وقت کوئی ملک اقوام متحدہ کی رکنیت چھوڑنے کاتصوربھی نہیں کرسکتا۔ اس کامطلب یہ ہے کہ تمام مسلمان ممالک دل سے یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ اقوام متحدہ کاوجود ان کے لیے بلحاظ مجموعی فائدہ مند ہے۔ افغانستان جیسا ملک بھی اقوام متحدہ کی رکنیت حاصل کرنے کے لیے انتہائی کوشش کررہاہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے رکن ملک کوعالمی برادری میں ایک خاص مقام مل جاتاہے۔ اس کے کچھ حقوق تسلیم کرلیے جاتے ہیں۔ اس کی سرحدیں محفوظ ہوجاتی ہیں اور اس کواپنے مسائل کے حل کے لیے ایک پلیٹ فارم میسر آ جاتا ہے۔
مسلمانوں کواقوام متحدہ سے بہت شکایتیں ہیں ۔ ان میں کئی شکایتیں جائز ہیں۔ تاہم اکثرشکایتیں مسلمانوں کی اپنی اندرونی کمزوریوں ، اقوام متحدہ کے حدود کا صحیح تعین نہ کرنے ، عالمی امورمیں طاقت ورممالک کے رویوں کونہ سمجھنے یاکسی معاملے میں یک طرفہ تصورسامنے رکھنے کی وجہ سے پیداہوتی ہیں۔ مثلاً اگر۱۹۶۷ء میں اسرائیل کی فوجوں نے اپنے سے دس گنابڑی افواج اورتین ممالک کوبیک وقت شکست دے دی تواس کی ذمہ داری ان ملکوں کی اپنی کمزوریوں پرعائدہوتی ہے۔ اس وقت پانچ ملکوں کواقوام متحدہ میں مستقل ویٹوحاصل ہے۔ اگرآج کوئی مسلمان ملک ٹیکنالوجی اورطاقت میں مفتوح ممالک کے ہم پلہ بن جائے توشاید اسے سلامتی کونسل کارکن بننے میں زیادہ عرصہ نہ لگے۔ اقوام متحدہ صرف ان معاملات میں فیصلہ کن کرداراداکرتاہے جہاں سلامتی کونسل کے تمام رکن ممالک اوراقوام عالم کاتقریباً پورااتفاق اسے حاصل ہو۔ جیساکہ عراق اوریوگوسلاویہ کے معاملے میں ہوا۔ جن معاملات پرسلامتی کونسل میں سنجیدہ اختلاف رائے ہویادوبڑے ممالک میں جھگڑاہو اورممالک عالم میں عمومی اتفاق رائے نہ ہو ،وہاں عقل عام سے یہ واضح ہے کہ اقوام متحدہ گفت وشنید سے زیادہ کوئی کردارادانہیں کرسکتی۔ اس سے بڑھ کر اس کے لیے ممکن ہی نہیں۔
چنانچہ اگرتمام حالات کاغیرجانب دارانہ تجزیہ کیاجائے تویہ معلوم ہوتاہے کہ اقوام متحدہ کاوجود مسلمانوں کے لیے بلحاظ مجموعی مثبت ہے۔ بیشترمسلمان ملک اس دورمیں آزاد ہوئے ۔ ان کے تنازعات میں اقوام متحدہ نے مثبت کرداراداکیا۔ بوسنیااورکوسوو کی آزادی اقوام متحدہ ہی کی مرہون منت ہے۔ آج اگراقوام متحدہ کے اصولوں کے بجائے ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ کااصول پوری طرح کارفرماہوتاتومسلمانوں کی حالت اس سے کہیں زیادہ بری ہوتی۔

مسلمان ممالک کی اپنی کمزوریاں

حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کے آج کے مسائل میں نوے فی صد حصہ خودان کااپناہے، لیکن بدقسمتی سے ہم تاریخ کے ایسے یک طرفہ مطالعے کے عادی ہوچکے ہیں۔ جس کی وجہ سے ہم اپنی غلطیوں کی طرف اورکمزوریوں کی طرف توجہ کرنے کے بجائے دوسروں کومطعون کرتے رہتے ہیں۔ اس تحریرکامقصد تاریخی تجزیہ نہیں ہے ، بلکہ محض بطورنمونہ چند اشارات پیش کرنا مقصود ہے ۔ اگرافغانستان پہلے دن ہی سے پاکستان کی مخالفت پرکمربستہ نہ ہوتا (واضح رہے کہ افغانستان وہ واحد ملک تھا جس نے ۱۹۴۷ ء میں اقوام متحدہ میں پاکستان کی رکنیت کے خلاف ووٹ دیا)اور اس مخالفت میں اپنے ہاں کے اشتراکی عناصرکی مسلسل آب یاری نہ کرتاتوافغانستان کاسانحہ وجودمیں نہ آتا۔
اگرعراق ،ایران پرحملہ آورنہ ہوتاتودونوں طرف سے اربوں ڈالرکانقصان اوردس لاکھ مسلمان قتل نہ ہوتے۔ اور اگر ایران خرم شہرپردوبارہ قبضہ کے بعدیک طرفہ طورپرلڑائی روک دیتا اورعراق کے اندرنہ گھستاتودولاکھ مزیدافرادکے قتل سے بچا جا سکتاتھا۔ اسی طرح اگرعراق کویت پرحملہ آورنہ ہوتاتومزیداربوں ڈالرکے نقصان اورہزاروں اموات سے بچاجاسکتاتھا۔ اسی لڑائی کی وجہ سے آج امریکی افواج سعودی عرب اورکویت میں موجودہیں۔
پس جس معاملے کابھی گہری نظرسے جائزہ لیاجائے تومعلوم ہوتاہے کہ ہماری ہی غلطیوں سے دوسروں نے فائدہ اٹھایا۔ چنانچہ ہمیں یہ سوچناہے کہ کیاآج سے ہم یہ فیصلہ کرسکتے ہیں کہ ہم ماضی کی غلطیوں کااعادہ نہیں کریں گے۔ اورمستقبل میں حکمت ودانش سے کام لیں گے۔

سعودی عرب میں امریکی افواج کی موجودگی

کویت پرعراق کاقبضہ ایک ننگی جارحیت تھی۔ اس سے خلیجی ریاستوں اورسعودی عرب کو جوخطرات لاحق ہوئے ، وہ واضح تھے۔ اس وقت مسلمان ممالک میں صرف پاکستان ہی اس قابل تھا کہ اس خطرے سے نمٹنے کے لیے سعودی عرب کی مدد کرسکے اور اگراس وقت پاکستان کے ساتھ ساتھ ترکی ، ایران اور انڈونیشا پوری طرح سعودی عرب کے ساتھ کھڑے ہوجاتے توسعودی عرب اپنی حفاظت کے لیے انھی ممالک پربھروسا کرتا۔ یہ بات ریکارڈپرہے کہ سعودی عرب نے سب سے پہلے انھی ممالک سے تعاون کے لیے کہا، لیکن بدقسمتی سے اس وقت پورا عالم اسلام اورخصوصاً پاکستان ایک دوسری ہی کیفیت میں تھا۔ اس وقت کے پاکستانی مسلح افواج کے کمانڈرنے برسرعام عراق کی حمایت کی۔ ایسے وقت میں سعودی عرب کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا کہ اپنی حفاظت کے لیے مغرب کوپکارتا، چنانچہ مغرب نے اس کی پکارپرلبیک کہا۔ اپنی افواج سعودی عرب میں اتاریں۔کویت کوآزادکرایا۔عراق بچشم سردیکھتارہا کہ اس کے پاس اقوام متحدہ کی فوج کے پاسنگ کے برابربھی طاقت نہیں۔ اس کے باوجوداس نے آٹھ مہینے کی مسلسل وارننگ سے کوئی سبق نہ سیکھا۔ اس کافوری اورطویل المیعاد نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔
اب یہ بات واضح ہے کہ امریکہ کواپنی قلیل المیعاداورطویل المیعاد دونوں قیمتیں وصول کرنی تھیں۔ چنانچہ اس نے یہ دونوں قیمتیں وصول کیں۔ اوراپنی بھرپورحکمت عملی سے ابھی تک وصول کررہاہے۔یہاں یہ اعتراض کرنا بے محل ہے کہ امریکا نے خودعراق کوکویت پرحملہ کی شہ دی تھی یایہ کہ امریکا نے صدام حسین کوجان بوجھ کرزندہ چھوڑدیا۔ کیاخدانے ہمیں یہ عقل نہیں دی کہ ہم اپنے مہلک اقدام کے نتائج وعواقب کااندازہ لگاسکیں؟ کیاایران ، عراق جنگ سے بھی عراق نے کوئی سبق نہیں سیکھا؟کیامیلاسووچ کوبلغاریہ کے عوام نے تخت سے اتارایااسے امریکا نے مارا؟
اس وقت امریکی افواج سعودی سرزمین پرمقیم ہیں۔ ان کو ایک تدبیر کے تحت دعوت دی گئی تھی۔ اوراب انھیں ایک تدبیر کے تحت ہی واپس بھیجاجاسکتاہے۔ صدام کاخطرہ اس وقت بھی پوری طرح موجود ہے ۔ چنانچہ ایسے حالات میں یہ مطالبہ کرناکہ امریکی افواج فوری طورپرسعودی ریاست چھوڑجائیں ،غیرحقیقی ہے۔ ان کو یقیناًجانا چاہیے ، مگرایساصرف اس وقت ہوسکتاہے جب سعودی عرب کی افواج خوداپنی سرحدوں کی حفاظت کرنے کے قابل ہوجائیں۔ یاپھرپاکستان جیساکوئی ملک سعودی عرب کی فوجی ضروریات خودسعودی عرب کی اپنی مصلحتوں کے مطابق پوری کرنے پرآمادہ ہو۔ موجودہ حالات میں ان دنوں باتوں کاحصول ایک طویل المیعادپالیسی ہی کے طورپرہی ہوسکتاہے۔

فلسطین

اسرائیل کے وجودپزیرہونے میں برطانیہ کے ساتھ ساتھ عثمانی سلطنت کی غلط پالیسیوں اورا س وقت کی خود مختار ونیم خودمختارعرب ریاستوں کابھی حصہ ہے۔ اسی طرح اسرائیل کے قائم رہنے میں جہاں ایک بڑاکردارامریکا کاہے ،وہاں اردگردکی عرب ریاستیں بھی اس سے بری الذمہ نہیں ہیں۔ تاہم اس مسئلے کاتاریخی تجزیہ اس تحریر کے دائرے سے باہرہے۔ اس کے بجائے اس تحریرکااصل مقصد، اس مسئلے کاموجودہ صورت حال کے حوالے سے افقی جائزہ لینا ہے۔
موجودہ صورت حال یہ ہے کہ اسرائیلیوں اورفلسطینیوں نے ایک دوسرے کوحقیقت کے طورپرقبول کرلیاہے۔ اس پراتفاق ہے کہ ایک آزادفلسطینی ریاست کاقیام عمل میں آناچاہیے۔ اس ریاست کی پچانوے فی صد حدود پربھی اتفاق ہے۔ اصل تنازع یہ ہے کہ ’ قبۃالصخرا‘ دیوارگریہ اورمسجد اقصیٰ کس کی تحویل میں ہو۔ یہاں ضروری ہے کہ ان اصطلاحات کی وضاحت کی جائے اس لیے کہ فلسطین سے باہرمسلمانوں کی اکثریت ان سے بے خبرہے۔
بیت المقدس : اس خطے کے مرکزی شہرکانام یروشلم ہے۔ بیت المقدس کی اصطلاح سے کبھی توسارایروشلم شہر مراد لیا جاتا ہے اورکبھی اس سے مسجداقصیٰ مرادلی جاتی ہے۔ لیکن درحقیقت اس سے مراد قبۃ الصخراہے۔
قبۃ الصخرا : قبۃ الصخرااس گنبد کانام ہے جوایک چٹان پرتعمیر کیا گیا ہے۔(اسی گنبد کی تصویرہمیشہ اخبارات ورسائل کی زینت بنتی ہے۔ اوراس کوغلطی سے مسجداقصیٰ سمجھاجاتاہے) ۔ اس جگہ کے متعلق مختلف تاریخی روایات مشہورہیں ، مگران کی کوئی مستند حیثیت نہیں۔ اسی لیے خلفاے راشدین کے دورمیں اس چٹان کوکوئی اہمیت نہیں دی گئی ۔ بہت بعد میں اموی حکمران عبدالملک نے اس چٹان پر ایک گنبد تعمیر کیا۔
مسجداقصیٰ:حضرت عمررضی اللہ عنہ کے زمانے میں جب یہ ساراعلاقہ فتح ہوا تواس جگہ پر انھوں نے یہ مسجد تعمیرکی۔ مذہبی اورعلامتی طورپریہی مسجد مسلمانوں کے لیے انتہائی مقدس ہے۔
دیوارگریہ:قبۃ الصخرا کی ایک دیوارکودیوارگریہ (Wailing wall)کہاجاتاہے۔ یہودیوں کے نزدیک یہ ان کا مقدس ترین مقام ہے۔کیونکہ ان کے خیال میں یہ ہیکل سلیمانی کی باقیات میں سے ہے۔
درج بالاوضاحت سے یہ ظاہرہے کہ مسلمانوں کامقدس مقام مسجداقصیٰ ہے۔ یہودیوں کامقدس مقام دیوارگریہ ہے جبکہ قبۃ الصخراکی تاریخی اہمیت دونوں کے ہاں موجودہے۔
ہرمنصف المزاج انسان اس سے اتفاق کرے گا کہ ہرمذہب کامقدس مقام اسی کے پیروکاروں کی تحویل میں ہونا چاہیے۔ چنانچہ اس مسئلے کامنصفانہ حل یہ ہے کہ مسجداقصیٰ ،فلسطینی ریاست کے انتظام میں ہو۔ دیوارگریہ اسرائیل کے پاس ہو اورقبۃ الصخرادونوں کی مشترکہ کمان کے تحت ہو۔
فلسطینی ریاست کے ضمن میں دوسرامسئلہ ان فلسطینی مہاجرین کاہے ، جنھیں وقتاً فوقتاً اسرائیلی حکومت نے جلاوطن کر دیا تھا۔ یہ ان کا اخلاقی وقانونی حق ہے کہ انھیں ان کی زمینیں اورمکانات واپس کیے جائیں۔ تاہم موجودہ صورت حال میںیہ حق منوانا عملاً ناممکن ہے۔ مہاجرین کے معاملے میں یہ ایک تاریخی بدقسمتی رہی ہے کہ ان کے لیے دوبارہ اپنے وطن میں آبادکاری ناممکن ہوجاتی ہے۔ چنانچہ نسبتہً عملی حل یہ ہے کہ تمام فلسطینی مہاجرین کے لیے فلسطینی ریاست میں ہی آبادکاری کا انتظام کیاجائے اوراس کے تمام اخراجات امریکا اٹھائے۔
درج بالاخطوط پرکوئی حل صرف پرامن طریقہ سے ہی ڈھونڈاجاسکتاہے۔ اس لیے دونوں فریقوں کی طرف سے مکالمے پرمبنی غیرمتشدد انہ رویہ اختیارکرناہی دونوں کے مفاد میں ہے۔

عراق

عراقی حکومت خود اپنے ہاتھوں گو ناگوں مشکلات میں پھنس چکی ہے۔ پہلے اس نے ایران پرحملہ کیا۔ اس بے نتیجہ جنگ نے دونوں طرف سے دس لاکھ افرادکی زندگیاں لے لیں اوردونوں طرف کی ساری معیشت بھی اس کی نذرہوگئی۔ پھراس نے کویت پرحملہ کیااوراس حملے کانتیجہ وہ اب تک بھگت رہاہے۔اب اس صورت حال سے نکلنے کااس کے پاس واحد راستہ یہ ہے کہ عراق اقوام متحدہ کی تمام قراردادوں کوپوری طرح تسلیم کرلے۔ پچھلی دونوں جنگوں پرمعذرت کااظہارکرے اورآیندہ کے لیے واضح الفاظ میں ہرقسم کی جارحیت سے احترازکرنے کااعلان کرے۔

سوڈان

سوڈان کے سربراہ جنرل عمرالبشیراپنے ہاں ایک ایسے نظام کاتجربہ کررہے ہیں جس میں سیاسی پارٹیاں نہ ہوں ۔ اپنے سب سے قریبی شریک کارجناب حسن ترابی کو انھوں نے حکومت سے الگ کر دیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ جنوب کے عیسائی اکثریت والے علاقے کی بغاوت کوکچلنے میں بھی مصروف ہیں۔ بدقسمتی سے مسلمان حکمرانوں میں سابقہ تجربات سے سیکھنے کاکوئی داعیہ نہیں ہے۔ اوراس کے بجائے رجحان یہ ہے کہ نت نئے تجربات کیے جائیں۔ جوسب کے سب چند سال بعد اپنے خالقوں سمیت ختم ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ سوڈان میں بھی مسلسل تجربات ہورہے ہیں جن کاکوئی نتیجہ برآمد نہیں ہورہا۔
سوڈان کو موجودہ حالت سے نکالنے کے لیے یہ لازم ہے کہ وہاں جمہوریت بحال کی جائے اورجمہوری حکومت باغیوں سے گفتگو کے ذریعے سے کسی قابل عمل سمجھوتے تک پہنچے۔

الجزائر

الجزائرپچھلے کئی سال سے خانہ جنگی کی زد میں ہے۔ یہ خانہ جنگی درحقیقت فوج کی طرف سے اسلامک سالویشن فرنٹ کواقتدارمنتقل کرنے سے انکارکے بعد شروع ہوئی۔ اس حوالے سے چارپہلواہم ہیں۔
پہلایہ کہ الجزائرمیں ایک طویل عرصے سے آمریت تھی اورفوج پوری طرح اس کی پشت پرتھی۔ دوسرایہ کہ آئی ایس ایف بھی جمہوریت کاسخت مخالف تھا۔ اسے جمہوریت سے صرف اس قدردلچسپی تھی کہ وہ اس کے ذریعے سے برسراقتدار آنا چاہتا تھا۔ اس نے واضح طورپراعلان کیاتھاکہ برسراقتدارآنے کے بعدوہ جمہوریت کابوریابسترگول کردے گا۔ گویااس کامقصد تھا ’’جمہوریت صرف ایک مرتبہ ،اس کے بعد پھرآمریت ‘‘ ظاہرہے جمہوریت ہی کے ذریعے سے جمہوریت کی بیخ کنی کوکس طرح گواراکیاجاسکتاہے۔ تیسرایہ کہ اگرچہ آئی ایس ایف کوپارلیمینٹ کی نشستیں بڑی تعدادمیں ملی تھیں ، مگراس کے حاصل کردہ ووٹ کل ڈالے گئے ووٹوں کاایک تہائی تھے۔ اورچوتھاپہلویہ ہے کہ فوج کی طرف سے مداخلت کے بعدآئی ایس ایف کے ایک بڑے دھڑے نے پرُامن جدوجہدجاری رکھنے کے بجائے مسلح کاروائیاں شروع کردیں۔ جن کے نتیجے میں اب تک اسی ہزارسے زیادہ افرادہلاک ہوچکے ہیں۔
چنانچہ الجزائرکے مسئلے کاحل یہ ہے کہ ایک طرف آئی ایس ایف مسلح جدوجہدترک کردے اورجمہوریت پراپنے غیرمتزلزل یقین کااظہارکرے۔ اس کے بعدحکومت عام معافی کااعلان کرکے انتخابات کرائے اوراکثریتی پارٹی کواس شرط کے ساتھ اقتدارمنتقل کرے کہ وہ جمہوری کلچرکے خلاف کوئی کاروائی نہیں کرے گی۔

آمریت بمقابلہ جمہوریت

اس وقت مسلمان ممالک عام طورپرآمریت ، بادشاہت اورفوجی حکمرانوں کے شکنجے میں پھنسے ہوئے ہیں۔ جہاں کہیں انتخابات کی حد تک جمہوریت موجودہے وہاں جمہوری کلچرموجودنہیں اورحکمران عموماً غیرجمہوری رویوں سے کام لیتے ہیں۔بنگلہ دیش میں کسی حدتک جمہوریت قائم ہے۔ ملائیشیامیں انتخابات کی حدتک جمہوریت ہے ، مگرآزادی رائے ،پریس اورعدلیہ کے ضمن میں جمہوری کلچرموجودنہیں۔پاکستان میں جب بھی کسی حدتک جمہوریت کوآنے کی اجازت دی جاتی ہے توحکمران اوراپوزیشن دونوں غیرجمہوری رویے کااظہارکرتے ہیں۔ ایران میں انتخابات ہوتے ہیں ، مگرعوامی حکومت سے بالاترایک مذہبی آمریت قائم ہے۔ جوہرچیزکوویٹوکرنے کااختیاررکھتی ہے۔ ترکی میں فوج کی اجازت کے بغیرکوئی قدم نہیں اٹھایاجاسکتا۔ انڈونیشیاابھی نئے نئے تجربوں سے گزررہاہے۔تمام عرب ممالک میں آمریت ہے۔
اگرتمام عالم اسلام کودنیامیں باوقارمقام حاصل کرناہے تویہ لازم ہے کہ:امرھم شوریٰ بینھمکے تحت ہرجگہ جمہوری کلچر جڑ پکڑے اور باقاعدگی سے انتخابات ہوں۔ مسلمان خواص وعوام سب میں اس کا شعور بیدار کرناضروری ہے۔

اُمت مسلمہ کے لیے موجودہ صورت حال میں نجات کاراستہ

درج بالابحث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ امت مسلمہ کوموجودہ کمزورحالت سے نکلنے کے لیے درج ذیل چارنکاتی منصوبے پرعمل درآمد کرنا ہو گا۔
پہلانکتہ یہ ہے کہ ہرمسلمان ملک اپنے ہاں تعلیم کوفروغ دینے کے لیے تمام وسائل بروئے کارلائے ۔ سائنسی تعلیم، ٹیکنالوجی اور تحقیق کوسب سے زیادہ اہمیت دے اورقوم کے ذہین طبقے کواس کی طرف راغب کرے۔
دوسرانکتہ یہ ہے کہ مسلمان ممالک ان دس بنیادی اقدارکواپنے ہاں سوسائٹی میں پروان چڑھائیں۔ جن کاتذکرہ اس تحریرکے شروع میں کیاگیاہے۔ اوراس کے علاوہ ان پانچ اسلامی اقدارکوبھی اپنے ہاں حکمت اورتدریج کے ساتھ فروغ دینے کی کوشش کریں جن کاذکرشروع میں کیاگیاہے۔
تیسرانکتہ یہ ہے کہ تمام بین الاقوامی مسائل اورمسلمان اقلیتوں کے مسائل کوہرممکن حدتک پُرامن طریقوں سے حل کرنے کی کوشش کی جائے اور اگر جنگ کی نوبت آئے تو (بوسنیا کی طرح) اُس اعلیٰ ترین اخلاقی معیارپراپنے آپ کورکھاجائے جہاں دنیاکے تمام منصف المزاج باضمیرلوگ اورملک اس جدوجہدکی حمایت پرمجبور ہو جائیں۔
چوتھانکتہ یہ ہے کہ اس امت کااصل کام دنیامیں اسلام کی دعوت پھیلاناہے۔ یہ اُمت اصل میں داعی ہے اورساری دنیااس کی مدعوہے۔ اگراسلام کی دعوت اعتدال ، حکمت، تدریج ، محبت اورعلمی سطح پردی جائے تویقیناًبہت سے غیرمسلموں کے دل اس کے لیے کھل جائیں گے۔ چنانچہ تمام مسلمان ممالک کواس طرف توجہ دینی چاہیے کہ ایسے ادارے وجودمیں لائیں جوملک کے اندراورملک کے باہرساری انسانیت کواسلام سے روشناس کرائیں۔ ان کے شکوک وشبہات کاعلمی سطح پرجواب دیں۔ غیرمسلموں سے مکالمہ کریں۔ ان کواسلام کوسمجھنے کے لیے تمام آسانیاں بہم پہنچائیں۔ اس مقصد کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ہرمسلمان اپنی جگہ پراعلیٰ اخلاق وکردارکی مثال ہواوروہ اپنی زندگی کے اندر متذکرہ بالا ان تمام اقدار کو ذاتی سطح پربھی جاں گزیں کرے جو اسلام کی بنیاد کی حیثیت رکھتی ہیں۔

-------------------------------

 

بشکریہ ماہنامہ اشراق

تحریر/اشاعت اپریل 2002
مصنف : ڈاکٹر محمد فاروق خان
Uploaded on : Sep 10, 2016
3202 View