امت مسلمہ کے اہم مسائل اور ان کا حل (1) - ڈاکٹر محمد فاروق خان

امت مسلمہ کے اہم مسائل اور ان کا حل (1)

 

یہ دنیا ہمیشہ ملکوں میں بٹی رہی ہے۔ تہذیب وتمدن کے مختلف ادوارمیں کسی بھی ملک کے اندرونی استحکام کی کچھ بنیادیں ہوتی ہیں۔ آج دنیاجس مقام پرہے ، اس میں کسی ملک کے استحکام کادارو مدار دو عوامل پرہے۔ ان میں سے ایک عامل ملک کے اندرچند بنیادی انسانی اساسات کی موجودگی ہے اوردوسرا عامل سائنس اورٹیکنالوجی میں ایک مضبوط حیثیت حاصل کرنا ہے۔ جس ملک میں یہ دونوں عوامل معیاراورکمال سے قریب ترہوں گے ، اتناہی وہ ملک توانا، مضبوط اورخوش حال ہوگا، بیرونی جارحیت سے بہتر طور پر نبرد آزما ہو سکے گا اورقوموں کی برادری میں باوقاروباعزت مرتبے پرفائزہوگا۔

بنیادی انسانی اساسات

دس بنیادی اساسات ایسی ہیں جن کی کسی معاشرے میں موجودگی اس کی بقاونموکی ضامن ہے۔ ان میں سے پہلی اساس عصبیت ہے۔ یعنی اپنے معاشرے کے ساتھ یک جہتی ویکتائی کامضبوط احساس ۔ یہ احساس ہرفرد میں اس حدتک جاگزیں ہونا چاہیے کہ وہ اجتماعی مفادکواپنے مفادپرترجیح دے۔ یہ جذبہ اخوت وشجاعت کوجنم دیتاہے۔ اسی اساس کی وجہ سے ایک انسان اپنے ملک وقوم کے لیے قربانی دیتاہے اوربہادری کی داستان رقم کرتاہے۔ یہی جذبہ انسان کے اندروفاداری کوپروان چڑھاتا ہے اورپھرانسان اپنے ملک کے وسیع ترمفادات کے لیے ہرقسم کی قربانی کوفخروانبساط کے ساتھ انجام دیتاہے۔
دوسری اساس مساوات انسانی اورجمہوری کلچرہے۔ یعنی یہ کہ تمام انسان اصلاً اپنے حقوق میں برابرہیں۔ کسی کوکسی پرکوئی مستقل فضیلت حاصل نہیں یہی قدرجمہوریت ، حریت فکراورعزت نفس کوجنم دیتی ہے۔ اس کی وجہ سے ہرشہری اپنے آپ کو امور مملکت میں پورادخیل اورذمہ دارسمجھتاہے۔ اسے اپنے وقاراورمقام کاپاس ہوتاہے اوراس کے اندرخوداعتمادی پیداہوتی ہے۔ مساوات انسانی کے شعورہی کی وجہ سے ذرائع ابلاغ آزاد ہوتے ہیں اوربڑے سے بڑافردبھی کسی دوسرے ادارے کو دباؤ میں نہیں لاسکتا۔
تیسری اساس امانت ودیانت ہے۔ یعنی یہ کہ معاشرے میں عام طورپرسچائی کاچلن ہو۔ تاجر،صنعت کار، سیاست دان ، بیوروکریٹ اورحاکم سچ بولیں اورسچ سنیں ۔ملاوٹ اوردھوکا دہی سے فضاعمومی طورپرپاک ہو۔ جھوٹ سے سب لوگ نفرت کریں۔ ہرایک اپنے وعدے کوپوراکرے ۔ پوری سوسائٹی ایک دوسرے پراعتمادکی فضامیں کھڑی ہواورہرفرداپنی ڈیوٹی بہتر طریقے سے انجام دے۔
چوتھی اساس انصاف ہے۔ یعنی یہ کہ عدالتیں عملاً انصاف فراہم کریں۔ مظلوم کی دادرسی کی جائے۔ انصاف جلد اور سستاہو۔ پولیس کااہم ترین فریضہ مجرموں کی سرکوبی اورشریفوں کی اشک شوئی ہو۔ عوام کاعدالتوں پراعتمادہواورعوام کبھی گواہی نہ چھپائیں ، بلکہ ہرفرداس کواپنی ذمہ داری سمجھے اوروہ سچی گواہی کے ذریعے سے عدالت کی مددکرے۔ نیزملک کے ہر طبقے اورہراکائی کے ساتھ انصاف کیاجائے۔
پانچویں اساس محنت ہے۔ یعنی یہ کہ ہرفرداپنے کام سے محبت کرے۔ محنت کوعزت کی نگاہ سے دیکھاجائے اورسستی وکاہلی سے نفرت کی جائے۔ ہرپیشہ معززسمجھاجائے اورہرفردکسی نہ کسی مثبت سرگرمی میں مصروف ہو۔ یہی اساس تعلیم کی اہمیت کو بھی نمایاں کرتی ہے۔
چھٹی اساس معیار ہے۔ یعنی یہ کہ فردکوقابلیت وصلاحیت کی بنیاد پر جانچا جائے۔ رشوت اورناجائزسفارش ناقابل تصورہو۔ قابلیت کوپس پشت ڈال کرکسی اوردباؤ کی بنیادپرترجیح دینا بہت بڑی غلطی سمجھاجائے۔ہرمعاہدے کی روح ومعانی کے ساتھ پابندی کی جائے۔
ساتویں اساس ملک کے قانون کی پابندی ہے۔ یعنی یہ کہ ہرفرد وادارہ ملکی قانون کوہرچیز پربالادست سمجھے ۔ ہرانسان ہروقت یہ خیال رکھے کہ اس سے قانون کی خلاف ورزی سرزد نہ ہو۔ بڑے سے بڑاانسان بھی اپنے آپ کوقانون کاماتحت اوراس کے سامنے جواب دہ سمجھے۔ اس سے ہرشہری قانون کوہروقت اپنی پشت پرمحسوس کرتاہے اور اسے اعتماد ہوتاہے کہ قانون کی پابندی کی صورت میں معاشرے کی ہرقوت اورہرادارہ اس کی مددکرے گا اورقانون شکنوں کے خلاف تمام ادارے اورعوام ہروقت متحد ہوں گے۔
آٹھویں بنیادمحروم وکمزورطبقات کی مددکرنے کے لیے کمربستہ رہناہے۔ ہرسوسائٹی میں زیردست اورمفلوک الحال افرادوطبقات ہوسکتے ہیں ۔ چنانچہ جن افراد کے پاس وسائل کی فراوانی ہے ، وہ محروم طبقات کی مددکواپنافرض سمجھیں اوراس مقصد کے لیے وسائل اورقوت کی قربانی دیں۔
نویں بنیادتدبراورحکمت ودانش ہے۔ یعنی یہ کہ ہرقومی ،اجتماعی یاانفرادی معاملے کوجذبات واشتعال کی نظر سے دیکھنے اوراس پرفوری ردعمل ظاہرکرنے کے بجائے اس کاپوراتجزیہ کیاجائے۔ تحمل ، رواداری اورشایستگی کواپنامزاج بنایاجائے اورباہمی مکالمے اورٹھنڈے غوروفکرکے بعد ہرمسئلے کاحل نکالاجائے۔ جب ہرفرد اس قدرپرعمل پیراہوتاہے تواس سے غلطی کاامکان کم ہوتاہے۔ اورجب کوئی ریاست اپنے داخلی وخارجی مسائل کے حل کے لیے اس پرعمل پیراہوتی ہے تواقوام کی برادری میں اسے ایک قابل عزت اورباوقارمقام حاصل ہوتاہے۔
دسویں بنیادصبرواستقامت ہے۔ ہرفرد اورقوم کواپنی زندگی میں بہت سی مشکلات پیش آتی ہے۔ ایسے مواقع پرجلد بازی ، زودرنجی اورسطحی اثرات کے تحت فیصلے تبدیل کرنے کارویہ انتہائی نقصان دہ ہوسکتا ہے۔ تمام تکالیف کوصبرواستقامت کے ساتھ برداشت کرنا، سچی بات پر ڈٹے رہنا، اگرجھوٹ وقتی فائدہ دے تب بھی اس سے اجتناب کرنا، اپنے اعلیٰ مقاصد اوراخلاقیات کے لیے ہرمشکل خندہ پیشانی سے سہنا، ہرفرد اورہرقوم کی حقیقی کامیابی کے لیے انتہائی ضروری ہیں۔

سائنس اورٹیکنالوجی میں مضبوط حیثیت

خوب سے خوب ترکی تلاش اورمسلسل ترقی کرنے کی خواہش انسان کی سرشت میں ودیعت کی گئی ہے۔ جو قومیں اس فطری داعیے کی پاس داری اور آب یاری کریں ، وہ ہمہ وقت آگے بھی بڑھتی ہیں اورانسانیت کو فائدہ بھی پہنچاتی ہیں۔ اس کے برعکس جوقومیں اس سے غفلت برتیں ، ان کے لیے زندہ رہنے کے مواقع کم سے کم ترہوتے چلے جاتے ہیں۔ اگروہ زندہ رہتی ہیں تودوسروں کے رحم وکرم پر۔ وہ اپنی نظرمیں بھی زندہ ، خوددار اورباوقارنہیں رہتیں ۔سائنس اورٹیکنالوجی کے لیے عمومی تعلیم سب کے لیے اوراعلیٰ تعلیم کے دروازے سب باصلاحیت افراد کے لیے کھلے ہونے چاہییں۔ معاشرے میں سب سے زیادہ عزت، تعلیم، تحقیق ، دریافت اوراس سے وابستہ افراد کی ہونی چاہیے۔ سائنس اورٹیکنالوجی بیرونی جارحیت کے خلاف سب سے بڑی رکاوٹ ہے اوراس کی بنیادپردوسری اقوام سے باوقارمعاملہ کیاجاسکتاہے۔ گویاجوقوم اس دنیامیں جیناچاہتی ہے، اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ صنعتی ، زرعی ، طبی ،دفاعی ، غرض یہ کہ ہرمیدان میں جدیدترین علم پردسترس حاصل کرے۔ اس کے بغیراس کے لیے اپنی آزادی کوحقیقی معنوں میں برقراررکھناممکن نہ ہو گا ۔

اسلام کی تعلیمات

اسلام نے درج بالادونوں عوامل کوپوری اہمیت دی ہے۔ قرآن مجید میں ان سب امورکے متعلق واضح ہدایات آئی ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی بھی ان اقدارکی واضح تصویرہے۔ اس کے ساتھ ساتھ قرآن مجید نے مزید ان اقدارپربھی زوردیاہے جن سے ایک ملک کااسلامی تشخص پوری طرح نمایاں ہوجاتاہے۔ وہ اقدارتوحید کی بنیادپرسوسائٹی کواستوارکرنا ، نماز کوفروغ دینا ، ٹیکس کی تحدیدکرنا ، حیا کو عام کرنا اور خاندانی نظام کاتحفظ ہیں۔تاہم بین الاقوامی تعلقات کے ضمن میں جس قدرپرزوردیاگیاہے ، وہ یہ ہے کہ دوسرے ملکوں کے ساتھ بھی خالصتاً انصاف کی بنیادپرمعاملہ کیاجائے۔ اوراگراس سے اپنے ملکی مفادات کونقصان پہنچتاہے تو اسے گوارا کر لیا جائے ، لیکن بین الاقوامی معاملات میں کسی بے انصافی کاشائبہ بھی نہیں ہونا چاہیے۔ اللہ تعالی ٰ کا ارشادہے:
’’ ایمان والو! عدل پرقائم رہنے والے بنو۔ اللہ کے لیے شہادت دیتے ہوئے اورکسی دوسری قوم کی دشمنی تمھیں اس طرح نہ ابھارے کہ تم عدل سے پھرجاؤ۔ عدل کرو۔ یہ تقویٰ سے زیادہ قریب ترہے۔‘‘ (ا لمائدہ۵: ۸)

قوموں کی ایک دوسرے پرتفوق کی خواہش

ہرانسان کے اندریہ داعیہ موجودہے کہ وہ ہرمعاملے میں مسلسل ارتقا کے راستے پرگام زن رہے۔ یہ داعیہ انسان کی ترقی کے لیے نہایت ضروری ہے۔ انسان کی آج تک کی تمام ترقی اسی داعیہ کی مرہون منت ہے۔ اسی طرح انسانوں کے کسی بھی گروہ یعنی ملک وقوم کے اندربھی یہ داعیہ پایاجاتاہے۔ اگر انسانوں کی طرح قوموں کے اندربھی یہ داعیہ مثبت انداز میں موجودرہے تویہ بلحاظ مجموعی انسانیت کی ترقی کے لیے نہایت مفید ثابت ہوتاہے۔ قومیں اسی طرح ایک دوسرے سے سیکھتی ہیں اورایک دوسرے کی ترقی میں ممدو معاون ثابت ہوتی ہیں۔
تاہم جس طرح ایک انسان اپنے اندرکسی بھی مثبت داعیے کو ضبط و توازن کے ساتھ استعمال کرنے کے بجائے جب اسے شتربے مہارکی طرح بے لگام چھوڑدیتاہے تو اس سے گو ناگوں خرابیاں جنم لیتی ہیں اوراس کے نقصانات معاشرے کے ساتھ اس انسان پربھی مرتب ہوتے ہیں ۔ یہی معاملہ ایک قوم کابھی ہے۔ جب اس کی ترقی پانے کی خواہش بے لگام ہوجاتی ہے تواس کے اندردوسری قوموں کوتسخیرکرنے اوران پرتفوق پانے کی خواہش جنم لیتی ہے۔ دنیابھرکی اکثرجنگوں کے پیچھے زیادہ تر یہی جذبہ وخواہش کارفرما رہی ہے۔
دوسری قوموں پرتفوق حاصل کرنے کاجذبہ ہرزمانے میں اپنے مختلف اندازرکھتاہے۔ جب دنیامیں بادشاہت کادوردورہ تھا ، اس وقت یہ ممکن تھا کہ مختلف قوموں کوطاقت کے زورپرزیرنگیں رکھاجائے۔ اب جمہوری دوراورجمہوری ممالک میں یہ ممکن نہیں رہا اس لیے اب تہذیبی تفوق کوسب سے بڑی ترجیح حاصل ہوگئی ہے۔ اب مختلف ملک اورگروہ مسلسل اس کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ ان کی تہذیب وتمدن دوسروں کے ہاں بھی غالب حیثیت اختیارکرجائے۔

جذبۂ تفوق کے خلاف قدرتی رکاوٹیں

انسانوں اورگروہوں کے اندردوسروں کوتسخیرکرنے کی خواہش بسااوقات اتنی شدت اختیارکرجاتی ہے اور ان گروہوں کواتنی دنیوی طاقت حاصل ہوجاتی ہے کہ واضح طورپریہ خطرہ نظرآنے لگتاہے کہ کہیں وہ پوری دنیاکواپناغلام نہ بنالیں، دنیاکے اندرسے تمام اچھی اقدار ختم نہ کر دیں اور دنیا کا امن تہ وبالانہ کر دیں، لیکن یہ بڑی عجیب حقیقت ہے کہ دنیاکے اندرپوری تاریخ میں ایسے گروہوں کوکبھی مستقل بالادستی حاصل نہیں ہوئی۔ اس کے برعکس انھی قوتوں کے اندرسے ہمیشہ ایسے تضادات جنم لیتے ہیں جس کی وجہ سے یہ طاقتیں کچھ ہی عرصہ بعداپنی قوت وبالادستی کھو دیتی ہیں اورانسانیت بحیثیت مجموعی ترقی اور بہتر اقدار کی طرف اپناسفرجاری رکھتی ہے۔ تاریخ سے بلاکسی استثنا ء کے ہمیں یہی سبق ملتاہے۔

قوموں کے جذبۂ تفوق کے خلاف پروردگار کا طریقہ

قرآن مجید کے مطابق پروردگار اس دنیاکی زندگی میں برائی کی طاقتوں کواس حدسے آگے نہیں بڑھنے دیتاجہاں ان کی وجہ سے نیکی کے وجود کے مٹ جانے کااندیشہ پیداہوجائے۔ اگرانسانیت اورنیکی کی بنیادی اقدارکے خلاف اٹھنے والی طاقتیں ایک حدسے زیادہ قوت پکڑلیں توپروردگاراپنے براہ راست فیصلے کے تحت اس کوشش کوناکام بنادیتاہے۔ یہ اس لیے ضروری ہے کہ انسانیت کی بقااچھی اقدار میں پوشیدہ ہے۔ یہاں بدی کواتناطاقت ورنہیں ہوناچاہیے جس سے وہ نیکی کوہڑپ کرجائے ۔ارشادی ربانی ہے:

’’ اگراللہ بعض لوگوں کوبعض (دوسرے)لوگوں کے ذریعے سے دفع نہ کرتاتوزمین میں فسادپھیل جاتا۔ مگراللہ دنیاوالوں پربڑافضل وکرم کرنے والاہے۔‘‘ (البقرہ ۲: ۲۵۱)

فرداورقوم کے انجام میں فرق

ایک فردکے لیے دنیاکی یہ زندگی دراصل ایک آزمایش ہے اوراس کاحقیقی نتیجہ آخرت ہی میں ظاہر ہو گا۔یہ عین ممکن ہے کہ اس دنیامیں کسی اچھے انسان کواس کی اچھائی کاکوئی صلہ نہ ملے یاکسی برے انسان کو اس کی برائی کی کوئی سزانہ ملے۔ لیکن قوموں کامعاملہ اس سے مختلف ہے۔ چونکہ کوئی قوم ،بحیثیت قوم آخرت میں جواب دہ نہیں ،اس لیے قوموں کواپنے اجتماعی اعمال وکردارکااچھایابرانتیجہ اسی دنیامیں مل جاتاہے۔ اگروہ ان دوبنیادی عوامل پرعمل پیرارہے جن کاتذکرہ اس تحریرکے شروع میں ہوچکاہے تو اسے ایک لمبی مدت تک دنیامیں ایک مضبوط قوم کی حیثیت سے زندہ رہنے کاموقع مل جاتاہے۔ جوقوم ان اقدار پر عمل کرنے میں کوتاہی برتتی ہے ، وہ اتنی ہی کمزورہوتی جاتی ہے۔ حتیٰ کہ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ بالکل مغلوب یاغلام بن جائے یافناہوجائے۔

مسلمانوں کے زوال کا بنیادی سبب

یوں تومسلمان ریاستوں کے اندران تمام بنیادی اقدارمیں انحطاط آیا ہے جن کاتذکرہ ہوچکاہے۔ لیکن اس ضمن میں سب سے بڑی وجہ مسلمان ریاستوں اوراہل علم پرفلسفہ وتصوف کے علوم وافکارکاغلبہ تھا۔ فلسفہ و تصوف دونوں مابعدالطبیعیاتی علوم میں نشے کی وہ تاثیرہے کہ جب ایک دفعہ کسی فرد یاقوم پر اس کا غلبہ ہوجائے تووہ زندگی کے حقائق اوردنیوی علوم سے بے گانہ ہوجاتی ہے۔ چنانچہ جب مسلمانوں کے درباروں اوراعلیٰ ترین دماغوں کااشتغال فلسفہ وتصوف میں بڑھ گیا تووہ سائنس وٹیکنالوجی سے غافل ہو گئے۔ عین اسی دورمیں اہل یورپ نے اپنی پوری توانائی سائنس اوراس میں خصوصاً مواصلات کے نئے ذرائع دریافت کرنے میں لگادی۔ اس فرق نے یورپ کوفیصلہ کن برتری دلادی اوراس کی وجہ سے مسلمان ممالک اب بھی دنیامیں واضح طورپرپیچھے ہیں۔جب تک اس فرق کوختم نہیں کیاجائے گا تب تک یہ خواہش کہ مسلمان ممالک باقی ملکوں کے ہم پلہ بن جائیں، تشنۂ تکمیل رہے گی۔

موجودہ مسلمان ممالک اورترقی یافتہ ممالک کے درمیان بنیادی فرق

بدلے ہوئے حالات کے نتیجے میں پچھلے پچاس برسوں میں بیشتر مسلمان ممالک آزادہوگئے ہیں۔ تاہم اس آزادی کے باوجودوہ ترقی کی دوڑ میں دوسروں سے بہت پیچھے ہیں ۔ اس کی چاربنیادی وجوہات ہیں:
پہلی وجہ یہ ہے کہ ابھی تک کسی مسلمان ملک کے ہاں سائنس اورٹیکنالوجی میں اعلیٰ مقام حاصل کرنامرکزِ نگاہ نہیں بنا ، بلکہ یہ ان کی ترجیحات کے اندرشامل ہی نہیں۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ اخلاقیات کے معا ملے میں مسلمان معاشرے ترقی یافتہ دنیاسے بہت پیچھے ہیں۔ امانت، دیانت، محنت ، وقت کی پابندی، مساوات انسانی، حریت ،صفائی جیسی صفات میں مسلمان دوسروں سے بہت پیچھے ہیں۔ اس کے برعکس اجتماعی برائیوں مثلاً جھوٹ ، دھوکا ،خیانت ، رشوت، ملاوٹ، چوربازاری ، بد عہدی ، مبالغہ آمیزی اور سستی وکاہلی میں مسلمان دوسروں سے آگے نظر آتے ہیں۔
تیسری وجہ یہ ہے کہ طرزفکرکے معاملے میں بھی مسلمان دوسروں سے پیچھے ہیں ۔ ترقی یافتہ معاشروں میں مکالمے ،دلیل، تجزیہ ، قائل کرنے اورقائل ہونے ، عقلی سوچ ، تحمل اوربرداشت عام معاشرتی رویے ہیں۔ اس کے برعکس مسلمان معاشروں کے فکروعمل کی نفسیات اشتعال انگیزی ، انتقام ، جذباتیت اور طاقت کی بنیادپرہرمسئلہ حل کرنے سے عبارت ہے۔
چوتھی وجہ یہ ہے کہ مسلمان اپنی زبوں حالی اورکمزوریوں کاتجزیہ خود اپنے اندرکرنے کے بجائے ، اس وہم کاشکارہوگئے ہیں کہ ان کے خلاف سازشیں ہورہی ہیں۔ ہرمعاملے میں دوسروں کومطعون کرنے ، دوسروں کوالزامات دینے اوراپنی مصیبتوں کے لیے دوسروں کوذمہ دارٹھہرانے کی نفسیات مسلمانوں کی رگ وپے میں سرایت کرچکی ہے۔ یہ توہم پرستی (Paranoid Thinking) دراصل حقائق سے فرار ہے۔ یہ اس لیے ہے تاکہ اپنی خامیوں کی طرف دھیان نہ جائے ۔ کیونکہ دھیان جائے گاتواس کاحل بھی ڈھونڈناپڑے گا۔ اورپھراس حل کوحاصل کرنے کے لیے کچھ تگ ودو بھی کرنی پڑے گی۔ظاہرہے کہ یہ ایک مشکل کام ہے۔ کون اتنے پاپڑبیلے۔ اس کے بجائے آسان کام یہی ہے کہ ماتمی اورفریادی رویہ اختیارکرکے کہاجائے کہ ہمارے دکھوں کے ذمہ داردوسرے ہیں۔

مغرب کا موجودہ رویہ

ہمارے لیے یہ سوال بھی اہم ہے کہ ہم یہ تجزیہ کریں کہ عالم اسلام کے حوالے سے مغرب اوردوسری غیرمسلم دنیاکیاچاہتی ہے؟
اس وقت مغرب میں اسلام اورمسلم دنیاسے متعلق تین رویے موجود ہیں۔ ایک رویہ دشمنی کاہے۔ یہ طبقہ اسلام کومغرب دشمنی کا علم بردار گردانتاہے۔ اس ذہنیت کے خیال میں مغرب کی نجات صرف اس میں ہے کہ مسلمانوں کومکمل شکست سے دوچار کیا جائے اورمسلم دنیاکے اندروہی قیادت ابھاری جائے جوآنکھیں بندکرکے مغربی اقدارکی تقلیدپریقین رکھے۔ یہ طبقہ اسلام اورمسلمانوں کے خلاف کسی بھی پروپیگنڈے کے موقع کوہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔
دوسراطبقہ اسلام دشمن تونہیں ، لیکن یہ مسلمانوں کوبلحاظ مجموعی تاریک خیال ، ترقی دشمن،جمہوریت دشمن اور پس ماندہ سمجھتاہے۔ مغرب کاسیاسی طبقہ یہی ذہنیت رکھتاہے۔ اس طبقے کے خیال میں مسلمان حکومتوں کو اپنے پنجے کے اندررکھناضروری ہے تاکہ وہ مغرب کے لیے خطرہ نہ بننے پائیں۔اس کے لیے وہ عام طور پر معاشی واقتصادی میدان میں مسلمان ممالک کواپنادست نگررکھنا چاہتا ہے ۔مغربی تہذیب اس وقت ایک غالب تہذیب ہے ،اس لیے اس تہذیب کی اقداروروایات باہمی ارتباط کے نتیجے میں مسلم معاشرے میں دراندازی کرتی جاتی ہیں۔
تیسرا طبقہ مسلم دنیاکے لیے ہمدردانہ ذہنیت رکھتاہے۔ اس طبقہ کے خیال میں مسلمانوں کوغلط سمجھا گیا ہے۔ وہ اتنے برے نہیں جتناذرائع ابلاغ انھیں پیش کرتاہے۔ اس ضمن میں وہ مغرب کو اس کے تضادات کی طرف بھی توجہ دلاتاہے۔ مسلم دنیااوراس کے ساتھ ساتھ تمام پس ماندہ ممالک کے ساتھ روارکھے جانے والے امتیازی سلوک کوافسوس کی نظرسے دیکھتاہے۔ اورسمجھتاہے کہ اگرمغرب ، مسلم دنیاکی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائے تومسلمانوں کی طرف سے اسے مثبت جواب ملے گا۔

مغرب سے مطلوب رویہ

یہ ممکن نہیں کہ کسی بھی مہم جوئی کے نتیجے میں دنیاکے سوکروڑ مسلمان نیست ونابودہوجائیں یاان کی حکومتیں ختم ہوجائیں۔ لامحالہ سب کوایک ساتھ جیناپڑے گا اوراس کاواحدطریقہ پرامن بقائے باہمی کی بنیاد پر جیناہے۔ ایسی پالیسیاں جن سے مسلمان معاشرے اقتصادی طورپراپنے آپ کومغرب کادست نگر محسوس کریں ، ان کے شکنجے میں کساہواپائیں، مزید ردعمل کاباعث بنتی ہیں۔ ہرردعمل تلخی ،کھنچاؤ اور انتہا پسند تحریکوں کومہمیزدیتاہے۔ یہ سب عوامل مل کرغیر یقینی حالات کوجنم دیتے ہیں ۔ جس کانتیجہ مغرب کے لیے بھی خوش گوارثابت نہیں ہوتا۔
اس لیے مغرب کے لیے صحیح راستہ یہ ہے کہ وہ پس ماندہ مسلمان ممالک کی اقتصادی حالت بہتربنانے کے لیے مثبت اقدامات کرے۔ ہرایسے کام سے احتراز کرے جس سے مسلمان معاشروں کے اندرمنفی ردعمل کا اندیشہ ہو۔ اسے چاہیے کہ عالم اسلام کے معتدل علمی وسیاسی حلقوں کے ساتھ مکالمے پرمبنی پرجوش، مخلصانہ اور آبرومندانہ تعلق اپنائے۔ طویل المیعاد پالیسی کے اعتبارسے یہی صحیح طریقہ ہے۔ اسی سے پوری دنیا کے اندر انسانیت کاارتقاہوگا اورہم ایک محفوظ اورخوش حال ترمستقبل کی طرف بڑھ سکیں گے۔

مسلمانوں کا موجودہ رویہ

مسلم دنیامیں بھی مغرب اورغیرمسلم دنیاکے حوالے سے تین رویے پائے جاتے ہیں۔
ایک رویہ یہ ہے کہ مسلمانوں کااصل مقصد تمام دنیاپرحکمرانی ہے۔چنانچہ مسلمانوں کااصل ہدف یہی ہوناچاہیے کہ وہ پوری دنیاکے غیرمسلموں کواپنے زیرنگیں لے آئیں۔ یہ ذہنیت مغرب کومجموعۂ شرقراردیتی ہے ۔ اس ذہنیت کے خیال میں اسلام اور غیرمسلم دنیاکے مابین ابدی دشمنی ہے۔ یہ انتہاپسندانہ ذہنیت مسلمانوں کے اندر اقلیت میں ہے۔ تاہم اس کی مضبوط بنیادیں موجود ہیں۔ اسی ذہنیت کوعام طوپربنیادپرستی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
دوسرا رویہ مرعوبیت کاہے۔ اس ذہنیت کے خیال میں اصل معیارمغرب ہے ۔ مغربی اقدارہی عظیم ترین ہیں ۔ اس ذہنیت کے علم بردارمسلم دنیاکے بالادست طبقات میں موجود ہیں۔ تاہم مجموعی طورپریہ طبقہ مسلم دنیاکے لیے اجنبی ہے ، کیونکہ یہ ان کے اجتماعی ضمیرکے خلاف ہے۔
تیسرارویہ اعتدال کاہے۔ اس ذہنیت کے خیال میں اگرچہ اسلام اورغیرمسلم دنیاکے درمیان بنیادی تضادات موجود ہیں، تاہم دونوں کے درمیان غلط فہمی کی ایک دیواربھی موجود ہے جسے دورکیاجاسکتاہے۔ اور اس طرح پرامن بقاے باہمی ممکن ہے۔ مسلم دنیامیں یہی طبقہ اکثریت میں ہے۔

مسلمانوں سے مطلوب رویہ

یہ نقطۂ نظرکہ مسلمانوں کااصل مقصد تمام غیرمسلموں کواپنے زیرنگیں لاناہے ، دینی اعتبارسے غلط اور عملی لحاظ سے ناممکن ہے۔ اسلام تودعوت کے ذریعے سے پھیلنے والادین ہے۔اسلام آزادی رائے، جمہوریت اورتمام بنیادی انسانی حقوق کاحامی ہے۔ یہ صرف پیغمبروں اوران کے ساتھیوں کامقام ومرتبہ ہوتاہے کہ وہ مخاطبین پراتمام حجت کرسکتے ہیں۔ اتمام حجت کے بعدنہ ماننے والے والوں پرپروردگاریاتوبراہ راست اپناعذاب نازل کردیتاہے یاپیغمبرکے ساتھیوں کے ہاتھوں ان کوسزادیتاہے۔ یہ ایک ایساقانون ہے جوصرف اورصرف رسولوں اوران کے ساتھیوں کے لیے خاص ہے۔ عام مسلمانوں کااصل کام خیرخواہی کے ساتھ دین کی دعوت پہنچاناہے۔ اور اس سے زیادہ ان کی کوئی ذمہ داری نہیں۔ چنانچہ یہ لازم ہے کہ مسلمان مکالمے ، تحمل ، برداشت اوردلیل کی زبان پریقین رکھیں۔ اعلیٰ ترین اخلاقی معیار سے کبھی نیچے نہ اتریں ۔ ساری دنیاان کے لیے میدان دعوت ہے۔ مسلمانوں کے لیے صحیح رویہ اعتدال سے سمجھنے اورسمجھانے کاہے۔ اسلام کی اصل خدمت بھی یہی ہے اوراسی میں مسلمانوں کے لیے خیرہے۔
اگرمسلمان یہ نقطۂ نظررکھیں کہ غیرمسلموں کوزیرنگیں لاناان کادینی فریضہ ہے توپھرمغرب کے خلاف ان کے تمام الزامات کی کوئی حقیقت نہیں رہتی۔ پھر مغرب کے لیے واحد راستہ یہی ہے کہ وہ اسلام اورمسلمانوں کی بیخ کنی کواپنا اولین مقصد قرار دے۔ اگرمسلمانوں کی کامیابی ان کے لیے غلامی کاپیغام ہے توپھران کے لیے اسلام کی مخالفت کے علاوہ اورکوئی راستہ بچتاہی نہیں۔ پھر مغرب اسلام کے خلاف جوکچھ کررہاہے ،بالکل صحیح کررہاہے ، بلکہ اسے اس سے کہیں زیادہ شدومدسے یہ سب کچھ کرناچاہیے۔
انسانی ضمیرکسی بھی معاملے میں دہرے معیارکوپسند نہیں کرتا۔ جب ہمارے معاملے میں کوئی اورطاقت دہرامعیاراپناتی ہے توہمیں اس سے شکایت پیداہوتی ہے۔ جب ایساہے توپھریہ کیسے ممکن ہے کہ اسلام دہرے معیارکاحامل ہو۔ حقیقت میں یہ اسلام پراپنے نادان پیروکاروں کی طرف سے ایک ایسابہتان ہے جوغیرمسلموں کوآپ سے آپ یہ جوازفراہم کرتاہے کہ وہ اسلام کی مخالفت کریں ۔ اسلام کسی معاملے میں بھی دہرے معیارکاحامل نہیں ہے۔ اسلام جوحق اپنے لیے لینا چاہتا ہے، وہی دوسروں کوبھی دیناچاہتاہے۔اس موضوع پربہت تفصیل کے ساتھ راقم الحروف کی کتاب ’’اسلام اور جدید ذہن کے شبہات‘‘ میں روشنی ڈالی جاچکی ہے۔ عملی اعتبارسے بھی یہ ناممکن ہے کہ مسلمان اپنے سامنے ایساکوئی مقصدرکھیں ۔ اس وقت مسلمان ہرمعاملے میں مغرب کے دست نگرہیں۔ کیایہ کم عقلی نہیں کہ مغرب ہی سے ازکاررفتہ اسلحہ حاصل کرکے ہم ان کے خلاف لاف زنی کرتے پھریں اورانہیں للکارتے پھریں۔ جبکہ ان کے پاس ہم سے کئی گنا اعلیٰ ٹیکنالوجی بھی ہے اورجبکہ ہم اپنااسلحہ چلانے کے لیے بھی ان کے فاضل پرزوں کے محتاج ہیں ۔ حقیقت تویہ ہے کہ آج اگرعالم اسلام اعلیٰ تعلیم اورٹیکنالوجی کے حصول کواپنامقصد اولین قراردے تواسے اسی میدان میں مغرب کے ہم پلہ ہونے کے لیے دہائیاں درکارہوں گی۔
چنانچہ مسلمانوں کااصل مقصداورٹارگٹ یہ ہوناچاہیے کہ وہ پرامن بقاے باہمی پریقین کے ذریعے سے غیرمسلم دنیاکے ساتھ مکالمے کوآگے بڑھاتے ہوئے اعلیٰ تعلیم اورسائنسی علوم کے حصول پراپنی پوری توجہ مرکوزکریں ۔ یہی تمام دنیا اورخود اپنے ساتھ مسلمانوں کی خیرخواہی ہے۔

مغرب کی مجبوریاں اور محدودیتیں

یہ شبہ نہیں ہوناچاہیے کہ مغرب مسلمانوں کوسائنس پرکسی طرح بھی دسترس حاصل نہیں کرنے دے گا۔ یہ ممکن نہیں ہے۔ مغربی تہذیب کے اندرایسی محدودیتیں اورکسی حدتک ایسے تضادات ہیں جن کی بنیادپرنہ صرف یہ کہ مغرب سائنس اور ٹیکنالوجی کاراستہ نہیں روک سکتا ،بلکہ وہ مسلمانوں کے خلاف کوئی معاندانہ کارروائی بھی نہیں کرسکتا۔ بشرطیکہ مسلم ممالک اسے خودیہ موقع فراہم نہ کریں۔
پہلی بات یہ ہے کہ مغربی معاشرے کاسنجیدہ عنصر بلحاظ مجموعی آزادی رائے ، انصاف ، مکالمے ، پرامن بقاے باہمی ، جمہوریت اورضمیرکی آزادی پریقین رکھتاہے۔ اس لیے مغربی حکومتیں جب بھی کوئی ایسا کام کرناچاہیں جوان بنیادی اقدار سے متصادم ہو توخود مغرب کے اندراس کے خلاف ردعمل شروع ہوجاتاہے۔ اورپھرحکومتوں کے لیے ایک غلط اور پس ماندہ ممالک کے خلاف بنائی گئی پالیسیوں پرعمل درآمد مشکل ہوجاتاہے۔ حقیقت تویہ ہے کہ مغرب کی بیدار اور باضمیر رائے عامہ کواپنے حق میں ہموارکرکے ترقی یافتہ ممالک کوکئی غلط اقدامات سے روکاجاسکتاہے۔
دوسری محدودیت یہ ہے کہ ٹیکنالوجی پر اب کسی ایک ملک کی اجارہ داری نہیں ہے ۔ترقی یافتہ ممالک کے درمیان آپس میں بہت مسابقت ہے۔ ان میں سے کئی ممالک اس کوترجیح دیتے ہیں کہ وہ اپنی بعض مصنوعات خودنہ بنائیں ، بلکہ پس ماندہ ممالک کے اندربنائیں۔ انھیں اپنے ہاں افرادی قوت کے مسائل ہیں۔ انھیں اپنی مصنوعات کی فروخت کے لیے منڈی چاہیے۔ ترقی یافتہ ممالک کے آپس میں تزویراتی اورسیاسی اختلافات بھی ہیں۔ یہ سب چیزیں ٹیکنالوجی کے بہاؤ کاسبب بنتی ہیں۔
تیسری مجبوری یہ ہے کہ ٹیکنالوجی کی ترقی اب ایک ایسے مقام پرپہنچ گئی ہے کہ جہاں اب معلومات کے بہاؤ کوروکناکسی کے بس کی بات نہیں۔ کمپیوٹراورانٹرنیٹ کے انقلاب نے اب پس ماندہ ممالک کے لیے معلومات کے دروازے کھول دیے ہیں۔ دن بہ دن یہ راستے مزیدکھلتے جائیں گے۔ اب تو صرف اس بات کی ضرورت ہے کہ حکمت کے ساتھ ان مواقع اورممکنات سے بھرپورفائدہ اٹھایاجائے۔
اس بحث کاچوتھا پہلویہ ہے کہ اقوام متحدہ اوربین الاقوامی سمجھوتوں اورروایات کی وجہ سے اب ملکوں کی سرحدیں بالعموم محفوظ ہوگئی ہیں۔ بین الاقوامی اداروں کے اندرکئی منفی چیزیں بھی ہیں، مگران کے مثبت پہلو ان پرحاوی ہیں۔ ان کاسب سے بڑامثبت پہلویہ ہے کہ اگرچھوٹے سے چھوٹا ملک بھی اپنے آپ کواندرونی اوربیرونی تضادات سے محفوظ رکھے تواس کی سرحدیں محفوظ رہتی ہیں اوربڑے سے بڑا ملک بھی اس کے اوپرحملہ کرنے کی جرأت نہیں کرتا۔ اس سے چھوٹی قوموں کویہ سہولت مل گئی ہے کہ وہ دفاع کے بجائے تعلیم کی طرف زیادہ وسائل منتقل کریں اوریوں اس موقع سے فائدہ اٹھائیں۔ گویاآج اگرکوئی ملک حکمت کے ساتھ جیناچاہے تواس کے لیے ترقی کے تمام دروازے کھلے ہیں۔

کیا یہودی وعیسائی مسلمانوں کے مستقل دشمن ہیں؟

قرآن مجید کی چندآیات سے عام طورپر یہ بات اخذ کی جاتی ہے کہ اسلام کی ہدایت کے مطابق یہودیوں اورعیسائیوں کودوست بناناہمیشہ کے لیے ممنوع ہے۔ انفرادی طورپربھی اورقومی طورپربھی ۔
ہمارے نزدیک قرآن مجید کی ان آیات سے یہ اصول نہیں نکلتا۔ اس کے برعکس ان آیات کاایک خاص پس منظرہے جس کوجب صحیح تناظرمیں دیکھاجائے تب اصل بات سمجھ میں آتی ہے۔
اس کی تفصیل یہ ہے کہ جب حضورصلی اللہ علیہ وسلم ایک ریاست کے سربراہ کی حیثیت سے مدینہ تشریف لے گئے تووہاں یہودونصاریٰ بھی ان کے مخاطب بن گئے۔ کیونکہ وہ وہاں بستے تھے اورحضور نے ان کوبراہ راست پروردگارکاپیغام پہنچانا شروع کیا۔ان کے لیے پروردگارکاپیغام یہ تھا کہ وہ اس رسول پرایمان لے آئیں۔ اوراگروہ ایمان نہیں لائیں گے تواتمام حجت کے بعدان پرپروردگارکی طرف سے اس دنیامیں سزانازل ہوگی۔یہی پیغام مکہ میں مشرکین کودیاگیاتھا ۔ مدینہ میں حضور نے یہودیوں سے معاہدہ کیا جسے ’’میثاق مدینہ ‘‘ کانام دیاجاتاہے۔ اس معاہدے کی روسے یہودیوں نے حضورکوریاست مدینہ کاسربراہ مان لیا۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ ان میں سے سلیم الفطرت لوگ مسلمان ہوتے گئے ۔ چنانچہ قرآن مجید نے مختلف مقامات میں یہودونصاریٰ کے ان تمام طبقات کاتجزیہ کیا۔ ان کومخاطب کیااورتاریخ سے مثالیں دے کر انھیں سمجھایاکہ ان کے آباواجدادمیں جولوگ رسولوں کی مخالفت پرکمربستہ ہوئے ، ان پرپروردگارکی طرف سے سزانازل ہوئی ۔
جوں جوں حضور کی دعوت عام ہوتی گئی ، اس کے ساتھ ساتھ وہ لوگ بھی نمایاں ہوتے چلے گئے جنھوں نے اسلام کی مخالفت کواپنامشن بنالیا۔ حتیٰ کہ آخرمیں صرف انھی یہودیوں اورعیسائیوں نے اسلام قبول کرنے سے انکارکیا جوقرآن مجید کے الفاظ میں خالصتاً اپنی نفسانی خواہشات، ضداورتکبرکے اسیربن چکے تھے۔ انھی لوگوں کے متعلق قرآن مجید نے کہاکہ ان کے دل ودماغ ، آنکھوں اورکانوں پرمہرلگ چکی ہے۔ یہ مسلمانوں کے کھلم کھلادشمن بن چکے ہیں ۔ اس لیے اب مسلمانوں کوان سے دوستی رکھنے کاکوئی جواز نہیں۔ اب مسلمانوں میں سے جوبھی ان سے دوستی رکھے گا ، وہ درحقیقت منافق ہوگا۔
گویاجن آیات میں یہودیوں اور عیسائیوں سے دوستی نہ رکھنے کی ہدایت کی گئی وہ صرف ان یہودیوں اورعیسائیوں سے متعلق ہیں جن پرحضور کے ذریعے سے اتمام حجت ہو چکا تھا۔ جہاں تک عام عیسائیوں اوریہودیوں کاتعلق ہے ، ان کے متعلق قرآن مجید نے مسلمانوں کوان سے تعلق کے حوالے سے چنداصول دیے ہیں۔
پہلااصول یہ ہے کہ تینوں توحیدی مذاہب چونکہ درحقیقت ایک ہی سر چشمے سے تعلق رکھتے ہیں ، اس لیے ان کوہرممکن حد تک ایک دوسرے سے تعلقات کارشتہ (Working relationship) رکھنا چاہیے ۔ ارشادباری تعالیٰ ہے:

’’ اے اہل کتاب! آؤایک ایسی بات کی طرف جوہمارے اور تمھارے درمیان یکساں ہے۔ یہ کہ ہم اللہ کے سواکسی کی بندگی نہ کریں۔ اس کے ساتھ کسی کوشریک نہ ٹھہرائیں اورہم میں سے کوئی اللہ کے سواکسی کواپنارب نہ بنائے۔‘‘(آل عمران ۳: ۶۴)

اسی لیے قرآن مجید یہودیوں، عیسائیوں کی عبادت گاہوں کوبھی احترام کی نظرسے دیکھتاہے۔ ارشاد خداوندی ہے:

’’ اگراللہ (برے) لوگوں کوایک دوسرے کے ذریعے سے دفع نہ کرتارہے توخانقاہیں اورگرجا، یہودیوں کی عبادت گاہیں اورمسجدیں جن میں اللہ کانام کثرت سے لیاجاتاہے ، سب مسمارکرڈالی جائیں ۔‘‘ (الحج۲۲: ۴۴)

دوسرااصول یہ ہے کہ یہودیوں اورعیسائیوں میں اچھے لوگ بھی موجود ہیں ۔ مسلمانوں کوایسے لوگوں سے تعلق رکھناچاہیے۔ ارشادہے:

’’ سارے اہل کتاب یکساں نہیں ہیں۔ ان میں کچھ ایسے بھی ہیں جوراہ راست پرقائم ہیں۔ راتوں کواللہ کی آیات پڑھتے ہیں اور اس کے آگے سجدہ ریزہوتے ہیں۔ اللہ اورروزآخرت پرایمان رکھتے ہیں۔ نیکی کوفروغ دیتے ہیں اوربرائی سے روکتے ہیں اوربھلائی کے کاموں میں سرگرم رہتے ہیں ۔یہ صالح لوگ ہیں اور یہ جو نیکی بھی کریں گے ، اس کی ناقدری نہیں کی جائے گی۔‘‘ (آل عمران ۳: ۱۱۵)

اس مفہوم کی آیات قرآن مجیدمیں متعدد مقامات پرآئی ہیں۔
تیسرااصول یہ ہے کہ بحیثیت مجموعی یہودیوں اورمشرکین کی نسبت عیسائی مسلمانوں سے دوستی میں قریب ترہیں۔ ارشاد باری ہے:

’’ تم مسلمانوں سے دوستی میں قریب تران لوگوں کوپاؤگے جنھوں نے کہاکہ ہم نصاریٰ ہیں ۔ یہ اس وجہ سے کہ ان میں عبادت گزارعالم اورتارک الدنیافقیرپائے جاتے ہیں اوران میں غروربالکل نہیں ہے۔‘‘( المائدہ ۵: ۸۲)

درج بالااصولوں سے ہمارے لیے یہ نتیجہ نکلتاہے کہ مسلمان یہودی اورعیسائی اقوام سے تعلقات رکھ سکتے ہیں ۔

دوستی یاتعلقات کار

بین الاقوامی تعلقات میں مستقل دوستی یادشمنی کاکوئی تصورنہیں۔ اس کے برعکس قوموں کے ضمن میں باہمی اورمشترکہ مفادات کی بنیادپرتعلقات کاررکھے جاتے ہیں جوبعض اوقات بہت مضبوط معاہدوں کی شکل میں بھی ظاہرہوجاتے ہیں اوربعض اوقات مفادات کے ٹکراؤکی وجہ سے مختلف ملک مدمقابل بھی بن جاتے ہیں۔تاہم ہرقوم ہروقت اپنے ہی مفادات کوبنیادی ترجیح اوراولین اہمیت دیتی ہے اورایساہی ہوناچاہیے ۔ اگرکوئی ریاست کسی دوسری ریاست کی دوستی میں اس کے مفادات کواپنے مفادات کی قیمت پرپوراکرنے لگے تواس کاوجودخطرے میں پڑجاتاہے۔
اس ضمن میں اسلام کی ہدایت یہ ہے کہ سب سے زیادہ اہمیت اخلاقی اصولوں کوحاصل ہے۔ کسی بھی بین الاقوامی تنازع میں بنیادی اہمیت کی حامل بات یہ ہے کہ کون حق پرہے اورکون غلطی پرہے۔جوحق پرہے اس کی حمایت کرنی چاہیے اور غلطی پر اس کی مخالفت کرنی چاہیے۔ارشاد خداوندی ہے:

’’ اے مسلمانو! کسی قوم کی دشمنی تمھیں اس با ت پرآمادہ نہ کرے کہ تم عدل وانصاف سے کام نہ لو۔ عدل کرو یہی تقویٰ کے قریب ترہے اوراللہ سے ڈرو۔‘‘(المائدہ ۵: ۸)

دوسراصول یہ ہے کہ حتی الوسع بین الاقوامی معاہدات کے ذریعے سے اپنی ریاست کومحفوظ بنایاجائے اورپھران معاہدات کی روح ومعنی کے اعتبارسے پورااحترام کیاجائے۔ یہ احترام اس حد تک کیاجائے کہ اگرکسی ریاست میں مسلم اقلیت پرظلم ڈھایاجارہاہو، تب بھی معاہدہ کی موجودگی میں ان کمزورمسلمانوں کی جنگی مددجائزنہیں۔ ارشاد خداوندی ہے:

’’اگروہ(دوسری ریاستیں) صلح کی طرف جھک جائیں توتم بھی صلح کی طرف جھک جاؤ اور بھروسا کرو اس اللہ پرجوسب کچھ سننے اورجاننے والاہے اوراگران کاارادہ یہ ہوکہ تم کودھوکا دیں تویقیناًتمھارے لیے اللہ کافی ہے۔‘‘(الانفال۸: ۶۱۔۶۲)

مزید ارشاد ہے:

’’ اے اہل ایمان ،اپنے عہدوپیمان پورے کرو۔‘‘ (المائدہ ۵: ۱)

مزید ارشاد ہے:

’’ اوراگر(تمھارے ریاست سے باہر کے مسلمان)تم سے دین کے معاملے میں مدد چاہیں توتم پران کی مددکرنالازم ہے، لیکن کسی ایسی قوم کے خلاف نہیں جن سے تمھارا معاہدہ ہو۔‘‘ (انفال۸: ۷۲)

آج مسلمانوں نے عمومی طورپراورپاکستان نے خصوصی طورپردوسرے ممالک کودوستوں اوردشمنوں کے الگ الگ زمروں میں تقسیم کردیاہے۔ جن کوہم دوست کہتے ہیں، ان کے مفادات پورے کرنے کے لیے اپنے مفادات کوقربان کردیتے ہیں اورجب ہم پرکوئی سخت وقت آتاہے تووہ ملک اولین ترجیح اپنے مفادات کودیتے ہیں۔ اسی طرح بعض ملکوں کی دشمنی میں ہم اس حد تک آگے چلے جاتے ہیں کہ مسلمانوں کے وسیع ترمفادات اورعدل کے تقاضے بھی نظراندازکردیتے ہیں۔ یہ طرزعمل صحیح نہیں ہے ۔ اس کے برعکس صحیح طرزعمل یہ ہے کہ عدل کے اصولوں کومدنظررکھتے ہوئے اولین ترجیح اپنے تزویراتی مفادات (Strategic Interests)، اسلام کی دعوت اوربین الاقوامی معاہدات کی پاس داری کودی جائے۔
پاکستان میں عام طورپریقین پایاجاتاہے کہ امریکا اسلام اورمسلمانوں کادشمن ہے۔ یہی یقین بعض دوسرے مسلمان ممالک میں دوسری بڑی طاقتوں کے متعلق موجودہے۔اس بات کے حق میں بھی دلائل دیے جاسکتے ہیں۔ مثلاًیہ کہ امریکا نے اسرائیل کی ہرجائزوناجائزحمایت کواپناوطیرہ بنالیاہے اوراس کی مخالفت میں بھی دلائل دیے جاسکتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ امریکا کے اندراسلام کی دعوت پرکوئی پابندی نہیں اوروہاں سب سے زیادہ پھیلنے والامذہب اسلام ہے۔ یایہ کہ کوسوو کے مسلمانوں کی نجات کے لیے امریکا نے یوگوسلاویہ کے خلاف ایکشن لیا۔ تاہم اس بحث سے قطع نظراس ضمن میں قرآن مجیدکی ہدایت یہ ہے کہ اگرکوئی قوم مسلمانوں سے کھلم کھلادشمنی نہ کرے ، اسلام کے راستے میں رکاوٹ نہ ڈالے اورصلح کاہاتھ بڑھائے تو اسے دشمن قرارنہ دیاجائے، بلکہ اس سے تعلقات کار رکھے جائیں۔ ارشادہے:

’’اللہ تمھیں اس بات سے نہیں روکتا (یعنی تمھیں اس کی ہدایت کرتاہے) کہ تم ان لوگوں کے ساتھ نیکی اورانصاف کابرتاؤکرو جنھوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ نہیں کی ہے۔ اور تمھیں تمھارے گھروں سے نہیں نکالا۔ اللہ انصاف کرنے والوں کوپسند کرتاہے۔ اللہ تمھیں جس بات سے روکتاہے وہ تویہ ہے کہ تم ان لوگوں سے دوستی کرو جنھوں نے تم سے دین کے معاملے میں جنگ کی ہے۔ تمھیں تمھارے گھروں سے نکالاہے اور تمھارے اخراج میں ایک دوسرے سے مددکی ہے۔‘‘ (الممتحنہ، :۸۔۹)

بین الاقوامی تنازعات میں مسلمانوں سے مطلوب رویہ

اس وقت مسلمان حکومتیں کئی اندرونی وبیرونی تنازعات میں الجھی ہوئی ہیں۔ ان تمام مسائل میں مسلمانوں کارویہ یہ ہونا چاہیے کہ ہرمعاملے کوپرامن طریقے سے ، گفتگوکے ذریعے سے اور دلیل کی بنیاد پر حل کیاجائے۔ آج اس کی ضرورت جتنی مسلمانوں کو ہے اتنی اورکسی کو نہیں۔ گفتگوکے میدان میں کچھ لینے کے ساتھ ساتھ کچھ دینابھی پڑتاہے۔امن کے ماحول ہی میں مسلمانوں کواعلیٰ تعلیم کاموقع مل سکتاہے۔ امن کے ماحول ہی میں اسلام کی دعوت تیزی سے پھیل سکتی ہے۔ امن کے ماحول ہی میں مسلمان ، قرآن مجید کے اصولوں کے مطابق ، اپنے اپنے معاشروں کی تعمیرکرسکتے ہیں۔ جنگ سے ہمیشہ اس فریق کوفائدہ پہنچتاہے جوطاقت ورہو۔ اس لیے ہمارے دشمن کی حکمت عملی یہ ہوگی کہ زیادہ سے زیادہ اشتعال دلاکرہمیں جنگ کے میدان میں کھینچاجائے اورہماری رہی سہی طاقت کاخاتمہ کردیاجائے۔ اس کے مقابلے میں ہماری حکمت عملی یہ ہونی چاہیے کہ ہم ہرممکن باوقارطریقہ سے اپنے آپ کواس سے بچائیں۔
اس کایہ قطعاً مطلب نہیں کہ جنگ کوئی شجرممنوعہ ہے۔ یقیناًمسلمان حکومتوں کواسلام کی روسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ ظلم کے خلاف جنگ کریں ۔ لیکن اس جنگ کی اجازت اس وقت ہے جب یہ معاہدوں کے مطابق ہو۔ پرامن طریقے ناکام ہوچکے ہوں اورمسلمانوں کے پاس اسلحہ اوردوسراجنگی سازوسامان اس قدرموجودہو کہ جنگ کامثبت نتیجہ نکلنے کی پوری توقع ہو۔ چنانچہ ہمارے لیے یہ ضروری ہے کہ ہراہم موقع پرہم بھرپورسیاسی وسفارتی کوششوں کے ذریعے سے مسائل کوحل کرنے کی کوشش کریں۔

غیرمسلم ممالک میں مسلمانوں سے مطلوب رویہ

اس وقت مسلمانوں کی ایک بڑی تعدادغیرمسلم ممالک میں رہ رہی ہے۔ ہرسال کئی لاکھ مسلمان حصول روزگار اور بہتر زندگی کی تلاش میں یورپ اورامریکہ کارخ کرتے ہیں۔ چنانچہ یہ سوال پیداہوتاہے کہ غیرمسلم ممالک میں مسلمانوں کارویہ کیا ہونا چاہیے؟
اس وقت دنیامیں دوواضح تبدیلیاں آئی ہیں۔ ایک یہ کہ مذہبی جبروتشددبہت کم ہوگیاہے۔ اس وقت پوری دنیامیں صرف برما (میانمار)ہی ایک ایساملک ہے جہاں سے مسلمانوں پرمذہبی جبروتشددکی اطلاعات آتی ہیں۔باقی دنیامیں اگرکوئی مسائل باقی ہیں تووہ ثانوی اورفروعی نوعیت کے ہیں، جن سے نمٹنامشکل نہیں۔
دوسری تبدیلی یہ آئی ہے کہ دنیاکے اکثرممالک نے حکومت چلانے کے لیے جمہوریت کوبطورماڈل اختیار کیا ہے۔ جمہوریت میں کوئی بھی غلام نہیں ہوتا۔ہرگروہ مناسب لابننگ اورحکمت عملی کے ذریعے سے اپنی اہمیت اوراپنے مطالبات منوانے کی جدوجہدکرسکتاہے۔ ان دونوں خوش آئندتبدیلیوں کی وجہ سے اب مسلمانوں کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ غیرمسلم ملکوں میں اعتماد کے ساتھ زندگی بسرکرسکیں۔ ایسے مسلمانوں پردین ہی کی روسے دو بنیادی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ ایک یہ وہ ملکی قوانین کی پوری پابندی کریں گے۔ اوردوسری یہ کہ وہ وہاں اسلام کے سفیرہوں گے۔ آج اسلام کے تمام اہم احکامات پر ہر جگہ ، ہرانسان عمل کرسکتاہے ، بشرطیکہ وہ عمل کرناچاہے۔ صرف ایک مسئلے پرکچھ دشواری ہے اوروہ ہے طالبات کے حجاب کا مسئلہ ۔ اس ضمن میں یہ بھی واضح رہے کہ سوائے سراورچہرہ چھپانے کے باقی بدن چھپانے پربھی کوئی اختلاف نہیں۔ خواتین کے چہرہ چھپانے کے متعلق بہت سے مسلمہ مکاتیب فکرکی یہ رائے ہے کہ یہ ضروری نہیں ۔ جہاں تک سرکے بال چھپانے کاتعلق ہے اس ضمن میں بھی صورت حال یہ ہے کہ امریکا اوربرطانیہ سمیت بیشترمغربی ممالک میں اس پربھی کوئی پابندی نہیں۔ یہ مسئلہ صرف فرانس کے اسکولوں کاہے ۔ وہاں بھی مناسب حکمت عملی کے ذریعے سے یہ حل کیاجاسکتاہے۔ (جہاں تک خواتین کے بال چھپانے کی اسلامی حیثیت کاسوال ہے اس پرراقم نے اپنی کتاب ’’اسلام اور عورت ‘‘ میں روشنی ڈالی ہے)۔
فلپائن میں موروقبیلے کے مسلمان پچھلے تیس سال سے اپنی علیحدہ ریاست کے لیے مسلح جنگ میں مصروف ہیں ۔ اگریہی توانائیاں وہ فلپائن کے اندراسلام کی دعوت پھیلانے پرلگاتے تو اس سے بہت مثبت نتائج حاصل ہوتے۔ اب جبکہ فلپائن جمہوریت کے راستے پرگامزن ہے ، یہ ضروری ہے کہ وہاں کے مسلمان اس ملک کی تعمیرمیں مثبت کرداراداکریں۔ اوروہاں اسلام کی دعوت کے فروغ کے لیے ادارے قائم کریں ۔ ان کے جتنے بھی جائزسیاسی مطالبات ہیں ،انھیں پارلیمنٹ ، پریس اورقانون کے ذریعے سے پرامن طورپرحل کریں۔
چین کے ایک مغربی صوبے سنکیانگ میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعدادبستی ہے اور انھوں نے بھی اپنی آزادی کے لیے مسلح جدوجہدشروع کی ہوئی ہے۔ یہ جدوجہدلاحاصل اورمسلمانوں کی وسیع ترمفادات کونقصان پہنچانے والی ہے۔ چین کے اجتماعی نظام میں ایسی اچھی تبدیلیاں آگئی ہیں جن کی وجہ مسلمانوں کے لیے ترقی کرنے اوراسلام پرعمل کرنے کے راستے کھل گئے ہیں۔ ممکن ہے اس وقت انھیں اسلامی دعوت پھیلانے میں رکاوٹوں کاسامناہو۔ مگروقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں بھی بہتری آئے گی۔ اگر انھیں اسلام کے مطابق زندگی گزارنے میں کچھ مشکلات کاسامناہو توا س ضمن میں چین کے دوست ممالک اس سے بات کرسکتے ہیں۔
روس کے اندردس خودمختارعلاقے ایسے ہیں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ روس میں آنے والی تبدیلیوں کی وجہ سے اب ان کے لیے اسلام پرعمل کرنااوراسلامی دعوت کے لیے ادارے بنانامشکل نہیں رہا۔ اگروہ پرامن رہیں ، قانون اپنے ہاتھ میں نہ لیں اوراداروں اورسیاسی طریقوں سے اپنی بات آگے بڑھانے کی کوشش کریں توروزبروز ان کے مسائل کم ہوتے جائیں گے۔
بھارت کے اندراس وقت اٹھارہ کروڑ مسلمان بستے ہیں ۔وہاں کے مسلمانوں کے لیے بھی آگے بڑھنے کاواحدراستہ یہ ہے کہ وہ عدم تشدد کے ذریعے سے اپنے مقاصد کوحاصل کرنے کی جدوجہد کریں ۔غیرمسلموں سے اپنے تعلقات بہتر بنائیں۔ سیاسی میدان میں صحیح حکمت عملی اختیارکریں۔ پرامن رہیں اورہرمسئلے کوآئین وقانون اورانصاف وضمیرکی دہائی دے کر اپنا موقف واضح کریں۔ اگرکسی معاملے میں وہ ظلم کاشکارہوں توکبھی طاقت کے ذریعے سے لینے کی کوشش نہ کریں، بلکہ مظلوم بنیں۔ اسی طرح باضمیرلوگوں کی ہمدردیاں انھیں حاصل ہوسکیں گی۔
میانمار(برما) وہ واحدملک ہے جہاں مسلمان جبروتشددکاشکارہیں۔ اس ضمن میں اسلامی لحاظ سے بنگلہ دیش اورپاکستان کی حکومتوں پریہ فرض عائدہوتاہے کہ وہ میانمارحکومت سے سنجیدہ گفتگوکریں۔اگر بنگلہ دیش اورپاکستان کی حکومتوں نے اس سلسلے میں حقیقی دلچسپی لی تویقیناحالات بہترہوسکتے ہیں۔ برمی مہاجرین اورصوبہ ارکان کے مسلمانوں پربھی یہ لازم ہے کہ وہ پوری طرح پرامن رہیں۔ اورمسلح تنظیمیں بنانے کے بجائے واحد متفقہ مہاجرتنظیم بناکربین الاقوامی ذرائع ابلاغ ، اقوام متحدہ اورخصوصاً بنگلہ دیش وپاکستان کی حکومتوں کا دروازہ کھٹکھٹائیں۔

-------------------------------

 

بشکریہ ماہنامہ اشراق

تحریر/اشاعت جنوری 2002
مصنف : ڈاکٹر محمد فاروق خان
Uploaded on : Sep 10, 2016
2811 View