دیت و قصاص کے قانون کی اصل روح - ڈاکٹر خالد ظہیر

دیت و قصاص کے قانون کی اصل روح

 

[یہ ڈاکٹر خالد ظہیر صاحب کے انگریزی مضمون’’ Seeking the spirit ‘‘کا اردو ترجمہ ہے۔ یہ مضمون ۲۹ ؍ ستمبر ۲۰۱۳ء
کو انگریزی روز نامہ ’’Dawn‘‘ میں شائع ہوا تھا۔ جناب رانا معظم صفدر صاحب نے اسے انگریزی سے اردو میں منتقل کیا ہے۔]

 

ہمارے معاشرے میں یہ تصور رائج ہے کہ اگر مقتول کے رشتہ دار قاتل کے ساتھ سمجھوتا کرنا چاہیں تو وہ اس کو معاف کر سکتے ہیں اور اس کے بدلے میں اس سے خون بہا کی رقم کا مطالبہ کر سکتے ہیں اور اس صورت میں قاتل کی جان بخشی ہو سکتی ہے۔ ایسا کرنا اسلام کے دیت اور قصاص کے قانون کے مطابق ہے، لیکن شاہ زیب قتل کیس نے پاکستانی معاشرے میں یہ سوال اٹھا دیا ہے کہ دیت اور قصاص کے قانون پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔
شاہ زیب قتل کیس میں صورت حال یہ ہے کہ قاتل ایک ایسا امیر زادہ ہے جو اپنے اقدام پر فخر کرتا ہوا نظر آیا اور جس نے روز اول سے شرمندگی اور پچھتاوے کے بجاے شان بے نیازی کا رویہ اپنائے رکھا ، جبکہ دوسری طرف قتل ہونے والے بے قصور نوجوان کے گھر والے قتل کے بدلے قتل کے لیے بہت پرعزم اور اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے تھے، لیکن بعد میں دیت اور قصاص کے قانون کی وجہ سے ملزم بچ گیا۔
اس تناظر میں ، دیت اور قصاص کے قانون پر دو سوال پیدا ہوتے ہیں:
ایک یہ کہ کوئی بھی جتوئی لڑکے کی طرح کھلم کھلا قتل جیسا اقدام کر کے اسلامی قانون کے ذریعے سے سزا سے کیوں بچ جائے؟ جبکہ قانون میں اس جرم کی سزا یہ ہے کہ قاتل کو مار دیا جائے ۔ اور دوسرا سوال یہ کہ اگر خون بہا کے ذریعے سے قاتل کی زندگی کو بچایا جا سکتا ہے تو یہ آپشن تو صرف امیر طبقہ اختیار کر سکتا ہے ، غریب اس موقع سے محروم کیوں رہے؟
اس معاملے میں بیش تر علماے کرام کا موقف یہ سامنے آیا ہے کہ دیت اور قصاص کا قانون اپنی جگہ بالکل ٹھیک ہے، اوریہ قانون اللہ کی ہدایت اور حکمت کے عین مطابق ہے، لیکن شاہ زیب کیس کو سادہ قتل کا کیس نہ لیا جائے ۔ اس معاملے میں مجرم جتوئی نے اس زمین پر علانیہ فساد برپا کیا ہے جسے قرآن فساد فی الارض کہتا ہے۔ لہٰذا اس مجرم کے ساتھ معاملہ سورہ مائدہ (۵) کی آیت ۳۳ کی روشنی میں کیا جائے۔۱؂ جس کے مطابق مجرم کی سزا اسے جلاوطن کرنا یا سزاے موت دینا ہے۔
تاہم، اس موقف پر دو سوال ایسے ہیں جن کا جواب دینا ضروری ہے: ایک یہ کہ اگر یہ ججوں کی صواب دید پر چھوڑ دیا جائے کہ وہ اس کا فیصلہ کریں کہ کون سا اقدام فساد فی الارض کے تحت آتا ہے تو اس کے لیے کی جانے والی قانون سازی بہرحال مبہم اور صواب دیدی ہو جاتی ہے۔ دوسرا مسئلہ یہ سامنے آتا ہے کہ سورۂ مائدہ کی مذکورہ بالا آیت میں دو سزاؤں کو بیان کیا گیا ہے: ایک عبرت ناک طریقے سے موت کی سزا دینا اور دوسرا مجرم کو ملک بدر کرنا۔ پہلی سزا قتل کے بدلے قتل کے مقابلے میں زیادہ ہے اور عام حالات میں لوگ اس کا مطالبہ بھی نہیں کرتے، جبکہ دوسری سزا موجودہ حالات میں قدرے ہلکی سزا ہے۔
علماے کرام کا یہ حل پیش کرنا بظاہر ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ عوامی ضمیر کے فیصلے کے مطابق شاہ زیب کے قاتلوں کو سزا دینے کی ایک کوشش ہے ، یہ دیکھے بغیر کہ قرآن کے متن کا اصل منشا کیا ہے۔
میرے نزدیک شاہ زیب قتل کیس میں صحیح بات وہ ہے جو معروف عالم دین جناب جاوید احمد غامدی صاحب نے کہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قرآن اگرچہ مقتول کے وارثوں کو خون بہا کے بدلے قاتل کو معاف کرنے کی اجازت دیتا ہے، لیکن یہ واضح رہے کہ معافی کی اجازت اس قانون میں کوئی لازمی رعایت نہیں ہے، جسے اختیار کرنا ضروری ہو، بلکہ اس کا معاملہ بالکل ایسا ہے، جیسا کہ رمضان میں روزے کا قانون ۔ سورۂ بقرہ کی آیت ۱۷۸ میں بیان کیے گئے دیت و قصاص کے قانون میں بھی ایسا ہی استثنا بیان کیا گیا ہے، جیسا روزے کے قانون میں بیان کیا ہے ۔ اگر کوئی بیمار ہو یا حالت سفر میں ہو، وہ روزے چھوڑ سکتا ہے اور بعد میں ماہ رمضان کے روزوں کی تعداد کو پورا کر سکتا ہے۔ یہ ہم میں سے ہر شخص جانتا ہے کہ اس استثنا کو اختیار کرنا لازمی نہیں، یعنی ایسا نہیں ہے کہ جو بھی شخص بیمار ہو یا سفر میں ہو، وہ قرآن میں مذکور اس رعایت کو لازمی اختیار کرتے ہوئے روزہ نہ رکھے ، بلکہ اس کی نوعیت ایک آپشن کی ہے۔ قتل کے قانون کا بھی معاملہ بعینہٖ یہی ہے قاتل سے خون بہا لے کر اس کو معاف کرنا ایک آپشن ہے، یہ اس قانون کا لازمی تقاضا نہیں ہے ۔
یہ آپشن ایک صواب دیدی رعایت ہے اور معاشرے کے لیے اس کو لازمی طور پر اختیار کرنا ہرگز ضروری نہیں ہے۔ یہ صواب دیدی رعایت معاشرے اور اس خاص کیس میں ججوں کو ہی اختیار کرنی چاہیے۔ وہ یہ فیصلہ کریں کہ قاتل اگر رعایت کا مستحق ہے تو وہ مقتول کے وارثوں کے سامنے یہ آپشن رکھیں ۔ اور اس کا فیصلہ اس بنیاد پر ہونا چاہیے کہ یہ قتل عمد نہیں، بلکہ قتل خطا تھا اور قاتل اپنے عمل پر شرمندہ اور پچھتا رہا ہے اور مقتول کے رشتہ داروں کو اصلاً خون بہا کی طمع نہ ہو، بلکہ وہ انصاف چاہتے ہوں اور حقیقت ان کے سامنے آنے پر وہ بھی یہ سمجھتے ہوں کہ قاتل رعایت کا مستحق ہے ۔
غامدی صاحب کی یہ راے آیات قرآن پر مبنی ہے۔ یہ سورۂ بقرہ کی آیات ۱۷۸۔۱۷۹ کی نئی تفہیم ہے، جو پہلی بار غامدی صاحب نے پیش کی ہے۔ یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ ہمارے روایتی علما قرآن کی کسی نئی تفہیم کو صحیح نہیں سمجھتے، کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ قرآن کی تمام مستند تشریحات پہلے سے ہی ہو چکی ہیں۔ لہٰذا آج کے مسلمانوں کو قرآن پر مزید تدبر اور تحقیق کی ضرورت نہیں ۔ ان کے مطابق ان کے کرنے کا کام صرف یہ ہے کہ وہ موجود تفاسیر کو سمجھیں اور اس کے نفاذ کی کوشش کریں۔
قرآن کے معاملے میں صحیح بات یہ ہے کہ یہ ہر زمانے کے لوگوں کے لیے ہدایت کا ذریعہ بنے ، اس لیے اس پر غور و فکر کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہنا چاہیے۔ اللہ کے پیغمبر کے سوا کوئی بھی معصوم نہیں، اس لیے ان کے بعد دین کی کوئی بھی تفہیم حرف آخر نہیں ۔ چنانچہ متن قرآن کے معانی کی صحیح تفہیم کے لیے اس پر غوروفکر کے عمل کا جاری رہنا ضروری ہے، ورنہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کسی بھی مسلک کی تفسیر کو محض اس لیے صحیح مان لینا چاہیے کہ اس کے ماننے والے تعداد میں بہت زیادہ ہیں یا کسی تفسیر کے صحیح ہونے کے لیے کیا یہ کافی ہو گا کہ وہ کسی خاص دور میں لکھی گئی ہو، کیا اس کا فیصلہ اس بات پر نہیں ہونا چاہیے کہ صرف دلائل کو دیکھا جائے، کیا وہ فی الواقع متن میں کہی گئی بات کی صحیح عکاسی کر رہے ہیں؟
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ خون بہا کی رقم ادا کر کے جان بچ سکتی ہے تو اس آپشن سے غریب کیوں محروم ہے تو اس صورت میں ریاست پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ خون بہا کی رقم کا بندوبست کرے، یعنی اگر قاتل معافی کا مستحق ہے اور مقتول کے ورثا اس کو معاف کرنے پر آمادہ ہیں، لیکن وہ رقم کی ادائیگی کے قابل نہیں تو خون بہا کی رقم سرکاری خزانے سے فراہم کی جانی چاہیے۔ پرانے وقتوں میں بھی ایسی ادائیگیاں فرد واحد نہیں، بلکہ وہ پورا قبیلہ ادا کرتا تھا جس سے قاتل تعلق رکھتا تھا۔ چنانچہ اب ریاست کو اپنے ان شہریوں کے لیے جو اس بوجھ کو اٹھانے کے متحمل نہیں ہیں، ان کے لیے قبیلہ کا کردار ادا کرنا ہو گا ۔ ہماری پارلیمنٹ کو اس سلسلے میں قانون سازی کرنی چاہیے۔

 ------------------------------

 

بشکریہ ماہنامہ اشراق

تحریر/اشاعت جنوری 2016
مصنف : ڈاکٹر خالد ظہیر
Uploaded on : Aug 19, 2016
2240 View