نیکی میں تعاون

نیکی میں تعاون

ترجمہ وتدوین: شاہد رضا

رُوِیَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ جَہَّزَ غَازِیًا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَقَدْ غَزَا وَمَنْ خَلَفَ غَازِیًا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِخَیْرٍ فَقَدْ غَزَا.
وَ رُوِیَ أَنَّ رَسُوْلَاللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: لِلْغَازِیْ أَجْرُہُ وَ لِلْجَاعِلِ أَجْرُہُ وَ أَجْرُ الْغَازِیْ.
روایت کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس شخص نے اللہ کی راہ میں جنگ کرنے والے کی(اس جنگ کی) تیاری میں مدد کی،؂۱ وہ ایسے ہی ہے، جیسے وہ خود اس جنگ میں شریک ہوا۔؂۲ اور جو شخص خیرخواہانہ طریقے پر اللہ کی راہ میں جنگ کرنے والے کے اہل خانہ کی دیکھ بھال کے لیے پیچھے رہا،؂۳ وہ ایسے ہی ہے، جیسے وہ خود اس جنگ میں شریک ہوا۔؂۴
اور روایت کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (اللہ کی راہ میں) جنگ کرنے والے کو اس (کے جنگ کرنے) کا اجر ملے گا، اور جس شخص نے (اللہ کی راہ میں) جنگ کرنے والے کی (اس جنگ کی) تیاری میں مدد کی، اسے اس کو تیار کرنے اور (اللہ کی راہ میں) جنگ کرنے والے کا اجر ملے گا۔؂۵

حواشی کی توضیح

۱۔ قرآن مجید نے ہمیں اس بات کا حکم فرمایا ہے کہ ہم فلاحی اور نیکی کے کاموں میں دوسرے لوگوں کے ساتھ وسیع پیمانے پر تعاون کریں ۔ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جنگ کرنے والے کی اس جنگ کی تیاری میں مدد کرنا بھی اسی طرح کے تعاون کی ایک واضح عملی دلیل ہے۔
۲۔ اگر کوئی شخص کسی سبب سے کسی خاص نیک عمل میں بذات خود شریک نہ ہو سکے، تو وہ دوسرے لوگوں کے ساتھ تعاون اور مدد کے ذریعے سے اس نیک عمل میں شریک ہو سکتا ہے ۔
۳۔ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنا گھر اور اہل خانہ کو چھوڑ نے والے کے ساتھ تعاون کا ایک اور پہلو اس کے پیچھے اس کے اہل خاندان کی نگرانی اور دیکھ بھال کرنا اور اس کے فرائض کی ادائیگی میں اس کی مدد کرنا ہے۔ اس روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام لوگوں کی حوصلہ افزائی فرمائی ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوات میں شرکت کی شدید خواہش رکھتے تھے، مگر اپنے حالات کے سبب سے اس کی استطاعت نہیں رکھتے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو حکم فرمایا ہے کہ جو لوگ ان منکرین کے خلاف جنگ میں شریک ہونا چاہتے ہیں، وہ اس جنگ کے لیے اپنا گھر بار ترک کر نے والوں کی مدد کرکے اس میں شریک ہو سکتے ہیں۔ اس طرح کے تعاون سے وہ بذات خود شریک ہونے والوں کی طرح اجر و ثواب کے مستحق ہوں گے۔
۴۔ اس روایت کے مختلف متون اس بات کی اعلیٰ مثال مہیا کرتے ہیں کہ رواۃ کی جانب سے ایک معمولی غلط فہمی سے ایک روایت کا مفہوم کس طرح بدل جاتا ہے۔ جیساکہ وضاحت کی گئی، اس روایت کے متون کی وضاحت مجموعی تعلیمات اسلامیہ کے مطابق ہونی چاہیے۔ تاہم ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی مرحلے میں مفہوم میں معمولی تبدیلی در آئی ہے، اور اس روایت کا واضح مفہوم یہ ہے کہ جس شخص کے حالات اسے اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ وہ کوئی نیک کام کر سکے، وہ اب بھی اس کام کی تکمیل میں دوسرے لوگوں کے ساتھ تعاون اور مدد کے ذریعے سے شریک ہو سکتا ہے، یہ ایک غلط تاویل ہے کہ نیکی میں مدد کرنے والے اور بذات خود اس پر عمل کرنے والے کا اجر و ثواب یکساں ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ صحیح ابن حبان، رقم۴۶۳۰ ، جو کہ بعد میں پیش کی جائے گی، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد اسی طرح روایت کیا گیا ہے۔ اس میں غلط فہمی کا بہت زیادہ امکان ہے۔ بہرحال، قرآن مجید اور اس باب کی دیگر روایات کی روشنی میں اس روایت کے متن پر غور کیا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ صحیح ابن حبان، رقم۴۶۳۰ اور اس طرح کی دیگر روایات کسی حد تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصل ارشاد کا غلط تصور پیش کرتی ہیں۔
قرآن مجید ہمیں واضح طور پر حکم دیتا ہے کہ ایک خاص نیک کام میں کسی شخص کا اجر حالات کے ساتھ مختلف ہو سکتا ہے، جیساکہ اس کی جدو جہد، مقصد میں سنجیدگی اور توجہ سے اجر مختلف ہوتا ہے۔ چنانچہ نتائج کے اعتبار سے دو مختلف افراد کی طرف سے کیے گئے اسی طرح کے نیک عمل کا اجر و ثواب مختلف ہو سکتا ہے۔ یہ بات بھی بالبداہت واضح ہے کہ نیکی پر عمل کرنا خاص طور پر اللہ کی راہ میں جنگ جیسا عمل اور نیکی میں تعاون کرنا، دونوں کو عام حالات میں اہمیت اور نتائج کے اعتبار سے اجر میں برابر قرار نہیں دیا جا سکتا۔ لہٰذا اگر کوئی شخص ان اصول اور اوپر بیان کی گئی روایت کے متن کی روشنی میں ان روایات پر تدبر کی نگاہ سے غور کرے تو اس بات کا قوی امکان معلوم ہوتا ہے کہ ان مسخ شدہ متون کو روایت کرنے والے ایک یا زیادہ راویوں کی ایک چھوٹی سی غلط فہمی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصل ارشاد کا مفہوم ہی بدل گیا ہے۔
۵۔ دوسری روایت بھی اسی طرح کے مضمون کی حامل ہے، جس طرح کے مضمون کی حامل پہلی روایت ہے ۔ تاہم دوسری روایت اللہ کی راہ میں بذات خود جنگ کرنے والے اور اس کی تیاری میں مدد و حمایت کرنے والے کے اجر و ثواب کے حوالے سے ایک اور اہم پہلو کی وضاحت کرتی ہے۔ جہاں تک بہ نفس نفیس جنگ کرنے والے کے اجر کا تعلق ہے، تو یہ بات تو بالکل واضح ہے اور اس کی تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن جہاں تک جنگ کرنے والے کی مدد کرنے والے کا تعلق ہے، تواسے نہ صرف جنگ کرنے والے کو تیار کرنے کی نیکی کا اجر ملے گا، بلکہ اسے اس کے ان تمام اعمال کا بھی اجر ملے گاجو جنگ کرنے والے نے اس سے سیکھے یا جن میں اس نے اس کے ساتھ تعاون کیا ہے۔ جنگ کرنے والے کے اعمال میں شراکت اس اصول پر مبنی ہے کہ جس شخص سے لوگ اچھے اور برے اعمال سیکھیں گے، ان کے سبب سے اسے جزا یا سزا ملے گی۔

متون

پہلی روایت بعض اختلافات کے ساتھ بخاری، رقم۲۶۸۸؛ مسلم، رقم۱۸۹۵ا، ۱۸۹۵ب؛ ابوداؤد، رقم۲۵۰۹، ۲۵۲۶؛ ترمذی، رقم۱۶۲۸۔۱۶۳۱؛ نسائی، رقم۳۱۸۱؛ ابن ماجہ، رقم ۲۷۵۸۔۲۷۵۹؛ احمد، رقم۱۲۶، ۳۷۶، ۶۶۲۴، ۱۷۰۷۴، ۱۷۰۸۰، ۱۷۰۸۵۔۱۷۰۸۶، ۱۷۰۹۷، ۱۷۶۲۳؛ ابن حبان، رقم۴۶۲۸، ۴۶۳۰۔۴۶۳۳؛ بیہقی، رقم ۷۹۲۶۔۷۹۲۹، ۱۷۶۱۹، ۱۷۷۱۸، ۱۸۳۵۱۔۱۸۳۵۲؛مسند حمیدی، رقم۸۱۸؛ السنن الکبریٰ، نسائی، رقم۳۳۳۰، ۴۳۸۹۔۴۳۹۰؛ دارمی، رقم۲۴۱۹ اور ابن ابی شیبہ، رقم۱۹۵۵۳، ۱۹۵۵۵ میں روایت کی گئی ہے۔
دوسری روایت ابوداؤد، رقم۲۵۲۶؛ احمد، رقم۶۶۲۴ اور بیہقی، رقم۱۷۶۲۳ میں روایت کی گئی ہے۔
بعض روایات، مثلاً مسلم، رقم۱۸۹۵ا میں ’فی سبیل اللّٰہ‘ (اللہ کی راہ میں) اور ’بخیر‘ (خیرخواہانہ طریقے پر) کے الفاظ محذوف ہیں۔
بعض روایات، مثلاً ابوداؤد، رقم۲۵۰۹ میں ’ومن خلف غازیًا‘ (جو شخص اللہ کی راہ میں جنگ کرنے والے کے اہل خانہ کی دیکھ بھال کے لیے پیچھے رہا) کے الفاظ کے بجاے ’و من خلفہ‘ (جو شخص اس کے پیچھے رہا) کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں۔
ترمذی، رقم۱۶۲۹ میں یہ روایت درج ذیل الفاظ میں روایت کی گئی ہے:

من جہز غازیًا فی سبیل اللّٰہ أو خلفہ فی أہلہ فقد غزا.
’’جس شخص نے اللہ کی راہ میں جنگ کرنے والے کی (اس جنگ کی) تیاری میں مدد کی یا اس کے اہل خانہ کی دیکھ بھال کے لیے اس کے پیچھے رہا، وہ ایسے ہی ہے، جیسے وہ خود اس جنگ میں شریک ہوا۔‘‘

بعض روایات، مثلاً ابن حبان،ر قم۴۶۳۰ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد مختلف الفاظ میں روایت کیا گیا ہے۔ وہ الفاظ اس طرح ہیں:

من جہز غازیًا فی سبیل اللّٰہ أو خلفہ فی أہلہ کتب لہ مثل أجرہ حتی إنہ لاینقص من أجر الغازی شیء.
’’جس شخص نے اللہ کی راہ میں جنگ کرنے والے کی (اس جنگ کی) تیاری میں مدد کی یا اس کے اہل خانہ کی دیکھ بھال کے لیے اس کے پیچھے رہا، اسے جنگ لڑنے والے کے برابر اجر ملے گا، یہاں تک کہ اس جنگ لڑنے والے کے اجر میں کچھ کمی نہ ہو گی۔‘‘

بعض روایات، مثلاً ابن حبان، رقم۴۶۳۲ میں روایت کیا گیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

من جہز غازیًا فلہ مثل أجرہ ومن خلف غازیًا فی أہلہ فلہ مثل أجرہ.
’’جس شخص نے (اللہ کی راہ میں) جنگ کرنے والے کی (اس جنگ کی) تیاری میں مدد کی، اسے جنگ لڑنے والے کے برابر اجر ملے گا، اور جو شخص (اللہ کی راہ میں) جنگ کرنے والے کے اہل خانہ کی دیکھ بھال کے لیے اس کے پیچھے رہا، اسے بھی جنگ لڑنے والے کے برابر اجر ملے گا۔‘‘

بعض روایات، مثلاً احمد، رقم۱۷۰۷۴ سے معلوم ہوتا ہے کہ راویوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو ارشادات کو ایک ہی مضمون کے حامل ہونے کے سبب سے ایک ہی روایت میں جمع کر دیا ہے۔ وہ روایت درج ذیل ہے:

من فطر صائمًا کتب لہ مثل أجرہ إلا أنہ لاینقص من أجر الصائم شیء ومن جہز غازیًا فی سبیل اللّٰہ أو خلفہ فی أہلہ کتب لہ مثل أجرہ إلا أنہ لاینقص من أجر الغازی شیء.
’’ جس شخص نے کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرایا، اس کے لیے روزہ دار کے برابر اجر لکھ دیا جائے گا، مگر روزہ دار کے اجر میں کچھ کمی نہیں کی جائے گی، اور جس شخص نے اللہ کی راہ میں جنگ کرنے والے کی (اس جنگ کی) تیاری میں مدد کی یا اس کے اہل خانہ کی دیکھ بھال کے لیے اس کے پیچھے رہا، اس کے لیے بھی جنگ لڑنے والے کے برابر اجر لکھ دیا جائے گا، مگر جنگ لڑنے والے کے اجر میں کچھ کمی نہ ہو گی۔‘‘

بیہقی، رقم۷۹۲۷ میں ’من فطر صائمًا کتب لہ مثل أجرہ إلا أنہ لاینقص من أجر الصائم شیء‘ (جس شخص نے کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرایا، اس کے لیے روزہ دار کے برابر اجر لکھ دیا جائے گا، مگر روزہ دار کے اجر میں کچھ کمی نہیں کی جائے گی) کے الفاظ کے بجاے ان کے مترادف الفاظ ’من فطر صائمًا کان لہ مثل أجرہ لاینقص من أجرہ شیئًا‘ (جس شخص نے کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرایا، اس کے لیے روزہ دار کے برابر اجر ہے، روزہ دار کے اجر میں کچھ کمی نہ ہو گی) روایت کیے گئے ہیں، جبکہ ’کتب لہ مثل أجرہ، إلا أنہ لاینقص من أجر الغازی شیء‘ (اس کے لیے جنگ لڑنے والے کے برابر اجر لکھ دیا جائے گا، مگر جنگ لڑنے والے کے اجر میں کچھ کمی نہ ہو گی) کے الفاظ کے بجاے ان کے مترادف الفاظ ’کان لہ مثل أجرہ لاینقص من أجرہ شیئًا‘ (اس کے لیے جنگ لڑنے والے کے برابر اجر ہے، جنگ لڑنے والے کے اجر میں کچھ کمی نہ ہو گی) روایت کیے گیے ہیں۔
بیہقی، رقم۷۹۲۸ میں روایت کیا گیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

من جہز غازیًا أو خلفہ فی أہلہ أو فطر صائمًا فلہ مثل أجرہ من غیر أن ینقص من أجرہ شیئًا.
’’جس شخص نے (اللہ کی راہ میں) جنگ کرنے والے کی (اس جنگ کی) تیاری میں مدد کی یا اس کے اہل خانہ کی دیکھ بھال کے لیے اس کے پیچھے رہا یا اس نے کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرایا، اس کے لیے اسی کے برابر اجر ہے، اس کے اجر میں کچھ کمی کیے بغیر۔‘‘

بیہقی، رقم۷۹۲۹ میں گذشتہ روایت قدرے مختلف الفاظ، یعنی ’من فطر صائمًا أو جہز غازیًا فلہ مثل أجرہ‘ (جس شخص نے کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرایایا ( اللہ کی راہ میں) جنگ کرنے والے کی (اس جنگ کی) تیاری میں مدد کی، اس کے لیے اسی کے برابر اجر ہے) کے الفاظ میں روایت کی گئی ہے۔
السنن الکبریٰ، نسائی، رقم۳۳۳۰ میں روایت کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

من جہز غازیًا أو حاجًّا أو خلفہ فی أہلہ أو فطر صائمًا کان لہ مثل أجرہ من غیر أن ینقص من أجورہم شیء.
’’جس شخص نے (اللہ کی راہ میں) جنگ کرنے والے کی مدد کی یا حاجی کی مدد کی یا اس کے اہل خانہ کی دیکھ بھال کے لیے اس کے پیچھے رہا یا اس نے کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرایا، اس کے لیے اسی کے برابر اجر ہے، ان کے اجروں میں کمی کیے بغیر۔‘‘

____________


بشکریہ ماہنامہ اشراق

تحریر/اشاعت اکتوبر 2015
Uploaded on : May 26, 2016
2072 View