كيا سورة الفاتحه سب سے پہلے نازل ہونے والی سورۃ ہے اور اس کی ایسی کیا اہمیت ہے کہ اسے نماز کی رکعت میں پڑھا جاتا ہے؟
عام طور پر پہلی نازل ہونے والی سورۃ کے بارے میں تین آرا پائی جاتی ہیں- ایک گروہ کے نزدیک سورۃ العلق سب سے پہلے نازل ہوئی اور دوسرے گروہ کے نزدیک سورۃ المدثر سب سے پہلے نازل ہوئی- تیسرے گروہ کے نزدیک سورۃ الفاتحہ پہلی نازل ہونے والی سورۃ ہے – اگر ان سورتوں کو غور سے پڑھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ سورۃ المدثر اور سورۃ العلق میں اللہ تعالیٰ کا خطاب کافی سخت ہے اور پہلی نازل ہونے والی سورۃ کا مضمون نرم، ملائم اور مخاطب کو قائل کرنے والا ہونا چاہیے۔ چنانچہ جب ہم سورۃ الفاتحہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس سورۃ کا اسلوب دعائیہ ہے جو ہر سلیم الفطرت آدمی کی دعا ہے اور ہر ہدایت کی راہ کو چاہنے والے کی زبان پر اللہ تعالیٰ نے اسے جاری کردیا ہے-
چونکہ سورۃ الفاتحہ کا اسلوب دعائیہ ہے جس کے شروع میں بندہ اللہ تعالیٰ کی حمد و تسبیح کرتا ہے – اس کی صفات کا ذکرکرتا ہے اور اسے بادشاہ کائنات گردانتا ہے اور کہتا ہے کہ میں تیری ہی عبادت کرتا ہوں اور تجھ سے ہی مدد مانگتا ہوں – تو مجھے سیدھے راستے پر چلا – ان لوگوں کے راستے پر جن پر تیری رحمتیں اور انعام نازل ہوا اور ہمیں ہر گمراہی اور ضلالت سے بچا اور پچھلی قوموں کے راستے پر چلنے سے بچا جن پر تیرا غضب نازل ہوا (یعنی یہود و نصاریٰ) اس وجہ سے اس سورۃ کو نماز کی ہر رکعت میں پڑھا جاتا ہے – نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’لا صلوٰۃ لمن یقرء الفاتحہ الکتاب‘، ’’اس بندے کی نماز نہیں جس نے سورۃ الفاتحہ نہیں پڑھی‘‘- جب بندہ اتنی عاجزی اور انکساری سے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو مایوس نہیں کرتا اور ہدایت کے راستے اس کے لیے کھول دیتا ہے-
اس سورۃ کی اہمیت کا اندازہ ایک حدیث قدسی سے ہوتا ہے – بندہ جب نمازمیں پورے شعور کے ساتھ اسے پڑھتا ہے تو اس کی دعا کس طرح اللہ تعالیٰ کے ہاں شرف قبولیت پاتی ہے-
حدیث ہے:
جضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے نماز کو اپنے اور بندے کے درمیان دو حصوں میں تقسیم کردیا ہے – اس کا نصف حصہ میرے لیے ہے اور نصف میرے بندے کے لیے اور میں نے بندہ کو وہ بخشا جو اس نے مانگا- جب بندہ ’الحمد للہ رب العالمین‘ کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میرا شکریہ ادا کیا- جب وہ ’الرحمٰن الرحیم‘ کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری تعریف کی اور جب وہ ’مالک یوم الدین‘ کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری بڑائی بیان کی اور جب بندہ ’ایّاک نعبد وایّاک نستعین‘ کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ حصہ میرے اور میرے بندے کے درمیان مشترک ہے اور میں نے اپنے بندے کو وہ بخشا جو اس نے مانگا- پھر جب بندہ ’اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیھم غیر المغضوب علیھم ولا الضالین‘ کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ میرے بندہ کے لیے ہے اور میں نے اپنے بندہ کو وہ بخشا جو اس نے مانگا- (صحیحین) اس سورۃ میں مفاہیم و مطالب کا جو خزانہ ہے وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اسے ہی قرآن مجید کی پہلی سورۃ ہونا چاہیے – اللہ تعالیٰ ہمیں اس سورۃ کو سمجھ کر اس کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے- آمین-