آخری منزل - ابو یحییٰ

آخری منزل

 7 دسمبر، 2016 کی شام چترال سے اسلام آباد جانے والی فلائٹ ایک حادثے میں تباہ ہوگئی۔ اس جہازمیں سوار 47 انسانوں میں سے ہر انسان اپنے خاندان کے لیے بہت قیمتی تھا، مگر اس سانحے میں جنید جمشید کی رحلت نے پوری قوم کو صدمہ کی کیفیت سے دوچار کر دیا۔

اس طرح کے حادثات انسانوں کو ہلا کر رکھ دیتے ہیں۔ خاص کر جنید جمشید جیسے معروف اور مشہور افراد اگر ایسے کسی حادثے کا شکار ہوجائیں تو لوگ ایسے واقعات کے اثرسے نکل نہیں پاتے۔ ہر میڈیا اور ہر محفل میں دنوں تک یہی حادثہ زیر بحث رہتا ہے۔

مگر انسانوں کی شاید سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ انسان ایسے واقعات سے وہ سبق نہیں لیتے جو ایسے حادثات میں اصلاً پوشیدہ ہوتا ہے۔ یعنی یہ کہ ہر انسان اس دنیا میں ایک مسافر ہے اور جلد یا بدیر اس کی سواری موت کے اسی انجام سے دوچار ہونے والی ہے۔ مگر ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم دنیا کی غفلت میں پڑ کر اس انجام کو بھول کر جیتے ہیں۔ ایسے میں کبھی کبھی یہ حادثات پیش آ جاتے ہیں کہ لوگ اس آئینے میں اپنے انجام کو یاد کر لیں۔

حقیقت یہ ہے کہ موت ہم میں سے ہر شخص کی آخری منزل ہے۔ ہم مرد ہوں یا عورت، امیر ہوں یا غریب، ذہین ہوں یا کند ذہن، جنید جمشید ہوں یا ایک عام آدمی؛موت ہم میں سے ہر شخص کی آخری منزل ہے۔ یہ منزل اگر ہمارے خاتمے کا نام ہوتی تو بہت غنیمت تھا۔ مگر یہ ایک ختم نہ ہونے والی زندگی کا آغاز ہے۔ یہ زندگی ابدی جنت میں گزرے گی یا ابدی جہنم میں۔ ہم موت کی اس منزل اور جنت یاجہنم میں سے کسی ایک انجام سے بچ نہیں سکتے۔

سواس عظیم حادثے کو یاد کر کے شکر کیجیے کہ ہمارے پاس ابھی موقع ہے کہ ہم ابدی جنت کو اپنا انتخاب بنالیں۔ اٹھیے اور ایمان و اخلاق کی اس راہ پر قدم رکھیے جس کی منزل جنت ہے۔ قبل اس کے کہ ہماری زندگی کا جہاز بھی موت کی کسی وادی میں گرجائے۔

بشکریہ ماہنامہ انذار، تحریر/اشاعت جنوری 2017
’’انذار جنوری 2017‘‘ پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
مصنف : ابو یحییٰ
Uploaded on : Jan 05, 2017
1516 View