اعتراف کی نفسیات اور سماج - ابو یحییٰ

اعتراف کی نفسیات اور سماج

 شیطان اللہ تعالیٰ کی بارگارہ سے جب دھتکارا گیا تو گرچہ اس کا سبب اس کی سرکشی تھی، مگر اس سرکشی تک جو چیز اسے لے کر گئی وہ عدم اعتراف کا جذبہ تھا۔ شیطان نے حضرت آدم سے حسد کی اور ان کے اس مقام کا اعتراف نہیں کیا جو اللہ نے ان کو دیا تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ وہ اپنا ہی وہ بلند مقام کھوبیٹھا جو اللہ نے اسے دے رکھا تھا۔

ہمارے معاشرے میں بھی بدقسمتی سے یہ رویہ عام ہے کہ لوگ دوسروں کا اعتراف نہیں کرتے۔ وہ اعلیٰ سے اعلیٰ خوبی دیکھتے ہیں اور ایسے بن جاتے ہیں جیسے کچھ دیکھا ہی نہیں۔ وہ بہترین کام کو ہوتا دیکھتے ہیں لیکن ظاہر ایسے کرتے ہیں جیسے کچھ ہو ہی نہیں رہا۔

اس سے بدتر رویہ یہ ہے کہ انسان دوسرے کی خوبیوں میں صرف کمزوریاں اور خامیاں تلاش کرتا رہے۔ ان کے نقائص دریافت کرتا رہے۔ اس طرح کا رویہ جیسا کہ شیطان کے معاملے میں تھا، حسد اور تکبر کی علامت ہوتی ہے یا پھر احساس کمتری کا اظہار ہوتا ہے۔

اعلیٰ انسان وہ ہوتا ہے جو دوسروں کی خوبیوں کی تحسین کرے۔ ان کا اعتراف کرے۔ ان کو بیان کرے۔ یہ کسی انسان کے آگے جھک جانے کا نہیں بلکہ خدا کی تقسیم کے آگے جھک جانے کا نام ہے۔ یہ جذبہ انسان میں جذبہ جگاتا ہے کہ وہ بھی محنت اور دعا کے ذریعے سے ایسی ہی خوبیوں کو اپنے اندر پیدا کرے۔ یہ رویہ جس سماج میں عام ہوجاتا ہے وہاں لوگ اعلیٰ انسانوں کے قدردان ہو جاتے ہیں۔ وہاں ہر منصب اور ہر عہدے پر قابل اور اہل لوگ تعینات ہوتے ہیں۔ وہاں میرٹ کا چلن عام ہوتا ہے۔ انصاف اور خیر وہاں عام ہوجاتی ہے۔

اعتراف کی نفسیات ایک سادہ معاملہ نہیں۔ اس کا اثر آخر کار پورے سماج کو اپنے دائرے میں لے لیتا ہے۔ یہی وہ سبق ہے جو آج ہمارے لوگوں کو سیکھنے کی ضرورت ہے۔

بشکریہ ماہنامہ انذار، تحریر/اشاعت دسمبر 2016
’’انذار دسمبر 2016‘‘ پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
مصنف : ابو یحییٰ
Uploaded on : Jan 16, 2017
1843 View