اچھی بات، ہمسایے کی عزت اور اکرام ضیف - طالب محسن

اچھی بات، ہمسایے کی عزت اور اکرام ضیف

 

(مسلم، رقم ۴۷۔۴۸)

عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ کَانَ یُؤْمِنْ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِفَلْیَقُلْ خَیْرًا أَوْلِیَصْمُتْ. وَمَنْ کَانَ یُؤْمِنْ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ فَلْیُکْرِمْ جَارَہُ. وَمَنْ کَانَ یُؤْمِنْ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ فَلْیُکْرِمْ ضَیْفَہُ.
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، اسے چاہیے کہ وہ اچھی بات کرے یا خاموش رہے۔ جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، اسے چاہیے کہ وہ اپنے ہمسایے کی عزت کرے۔ جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، اسے چاہیے کہ وہ مہمان کی عزت کرے۔

عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: وَمَنْ کَانَ یُؤْمِنْ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ فَلَا یُؤْذِی جَارَہُ. وَمَنْ کَانَ یُؤْمِنْ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ فَلْیُکْرِمْ ضَیْفَہُ. وَمَنْ کَانَ یُؤْمِنْ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِفَلْیَقُلْ خَیْرًا أَوْلِیَسْکُتْ.
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، اسے چاہیے کہ وہ اپنے ہمسایے کو تکلیف نہ پہنچائے۔ جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، اسے چاہیے کہ مہمان کی عزت کرے۔ جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، اسے چاہیے کہ وہ اچھی بات کرے یا چپ رہے۔

عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِ حَدِیْثِ أَبِی حَصِیْنٍ غَیْرَ أَنَّہُ قَالَ: فَلْیُحْسِنْ جَارَہُ.
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک اور روایت بھی منقول ہے ۔ یہ روایت ابوحصین کی روایت کے مطابق ہے، لیکن اس میں ایک جملہ مختلف ہے۔ اس کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے چاہیے کہ اپنے ہمسایے کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔

عَنْ أَبِی شُرَیْحٍ الْخُزَاعِی رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ کَانَ یُؤْمِنْ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ فَلْیُحْسِنْ إِلَی جَارِہِ. وَمَنْ کَانَ یُؤْمِنْ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ فَلْیُکْرِمْ ضَیْفَہُ. وَمَنْ کَانَ یُؤْمِنْ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِفَلْیَقُلْ خَیْرًا أَوْلِیَسْکُتْ. 
حضرت ابو شریح خزاعی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، اسے چاہیے کہ وہ ہمسایے سے اچھا سلوک کرے۔ جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، اسے چاہیے کہ مہمان کی عزت کرے۔ جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، اسے چاہیے کہ وہ اچھی بات کرے یا چپ رہے۔

لغوی مباحث

فلیقل خیرا أؤ لیصمت: (وہ اچھی بات کہے یا چپ رہے۔)یہ امر کے صیغے ہیں۔ بعض شارحین نے یہ بحث کی ہے کہ یہ امر وجوب پر دلالت کرتا ہے یا ندب پر۔ ان کی رائے یہ ہے کہ امر کی یہ صورت وجوب پر دلالت نہیں کرتی۔ ہمارے نزدیک امر کا صیغہ بناے استدلال نہیں ہے۔ اس سے ملتی جلتی روایات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب کسی فرد کو مخاطب بنایا ہے تو امر کے مخاطب کے صیغے بھی استعمال کیے ہیں۔ اصل یہ ہے کہ ان روایات میں ایمان کے ثمرات بیان ہوئے ہیں۔ ثمرات ونتائج ہمیشہ ہدف ہوتے ہیں۔ انھیں فرض ونفل قرار دینا کسی طرح بھی موزوں نہیں ہے۔

معنی

یہ روایت اس فلسفے کی تردید کرتی ہے کہ مذہب صرف عبادات اور اورادو وظائف کا نام ہے۔ قرآن مجید نے ایمان قبول کرنے والوں سے صرف عبادات ہی کا تقاضا نہیں کیا، بلکہ انھیں معاشرے میں اپنے خاندان، معاشرے اور اہل تعلق کے ساتھ بہترین اخلاق کے ساتھ پیش آنے کا بھی کہا ہے۔ جب آدمی ایمان قبول کرتا ہے۔ نماز، روزہ، زکوٰۃ اور ذکر اذکار کا اہتمام کرنے لگتا ہے تو بسا اوقات یہ چیز نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہے کہ ابناے نوع کے حوالے سے اس کی ذمہ داری کیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس نوع کے ارشادات اسی دوسرے پہلو کو نمایاں کرتے ہیں۔ 
اس روایت میں ایک بات یہ کہی گئی ہے کہ اچھی بات کہو یا چپ رہو۔ حقیقت یہ ہے کہ گناہوں کا ایک پورا طائفہ ہے جو زبان کے غلط استعمال سے متعلق ہے۔ چغلی، غیبت، دھوکا، الزام تراشی، بدظنی، تنابز بالالقاب، اس طرح کے جتنے بھی جرائم ہیں، ان کا ارتکاب زبان ہی کے ذریعے سے کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید نے زبان کی کھیتی کے بارے میں متنبہ کرتے ہوئے فرمایا ہے:

وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ. اِذْ یَتَلَقَّی الْمُتَلَقِیٰنِ عَنِ الْیَمَیْنِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِیْدٌ. مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلِ اِلاَّلَدَیْہِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ.(ق۵۰ :۱۶۔۱۸) 
’’اور ہم اس کی رگ جاں سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں۔ (دھیان رکھو،) جبکہ دو اخذ کرنے والے اخذ کرتے رہتے ہیں۔ ایک دائیں بیٹھا اور دوسرا بائیں بیٹھا۔ وہ کوئی لفظ بھی نہیں بولتا، مگر اس کے پاس ایک مستعد نگران موجود ہوتا ہے۔‘‘

پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ جرائم محض زبان کے جرائم نہیں ہیں۔ ان کے ساتھ سماعت،بینائی اور خیالات بھی شریک ہوتے ہیں۔ چنانچہ قرآن مجید نے واضح کیا ہے:

وَلاَ تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ، اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓئکَ کَانَ عَنْہُ مَسْءُوْلاً.(بنی اسرائیل۱۷ :۳۶) 
’’اور جس چیز کا تمھیں علم نہیں ہے، اس کے درپے نہ ہوا کرو۔ کیونکہ کان، آنکھ اور دل، ان میں سے ہر ایک چیز سے اس کی بابت پرسش ہونی ہے۔‘‘

قرآن مجید کے یہ ارشادات قول وعمل کے بارے میں بے پروائی پر متنبہ کر رہے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد میں اسی احتیاط کی تلقین دوسرے الفاظ میں کی گئی ہے۔ 
بعض شارحین نے اس ارشاد کا یہ تقاضا بیان کیا ہے کہ صرف وہی بات زبان سے نکالنی چاہیے جس پر اجر کا یقین ہو۔ ہمارے نزدیک اس شدت کی ضرورت نہیں ہے۔ مراد صرف یہ ہے کہ بات کا محرک برا نہ ہو اور بات کا ظاہر بھی اچھا اور مناسب ہو۔
دوسری بات اس روایت میں ہمسایے کی عزت کی کہی گئی ہے۔ ہم پچھلی روایت میں یہ بیان کر چکے ہیں کہ قرآن مجید نے ہمسائیگی میں قرب مکانی کی تمام صورتوں کو شامل کر لیا ہے۔چنانچہ حسن سلوک کا یہ تقاضا ہر طرح کے ہمسایے کے لیے ہے۔ روایات میں ہمسایے کے ساتھ اچھے سلوک کو تین اسالیب میں بیان کیا گیا ہے۔ ایک یہ کہ اس کی عزت کرو۔ دوسرا یہ کہ اس کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ تیسرا یہ کہ اس کو اذیت نہ دو۔ یہ تینوں باتیں ایک ہی حقیقت کے مختلف مظاہر ہیں۔ ممکن ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مواقع پر یہ تینوں اسلوب ہی اختیار کیے ہوں۔ قرآن مجید نے اس کے لیے حسن سلوک کا جامع لفظ اختیار کیا ہے۔ باقی دونوں لفظ اسی کی شرح یا عملی اطلاق کی صورت ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جب یہ پوچھا گیا کہ ہمسایے کا حق کیا ہے تو آپ نے اس کے جواب میں متعدد باتیں ارشاد فرمائیں۔ مثلاً یہ کہ جب وہ بیمار ہو تو اس کی عیادت کرو۔ جب مدد مانگے تو اس کی مدد کرو۔ اپنی دیوار اس کی مرضی کے بغیر اونچی نہ کرو وغیرہ۔ یہ سب باتیں بھی حسن سلوک کے عنوان کے تحت ہیں۔ 
تیسری بات یہ کہی گئی ہے کہ مہمان کی عزت کرو۔ مہمان کی عزت انبیا کا اسوہ ہے۔ مہمان نوازی کو ایک قدر کی حیثیت حاصل ہے۔ جب کوئی کسی کے ہاں آئے تو اس کو مناسب طریقے سے بٹھانا، اس کے آرام اور کھانے پینے کا خیال رکھنا، اس کے ساتھ اچھے طریقے سے بات چیت کرنا، یہ سب باتیں مہمان کی عزت کا تقاضا ہیں۔ مہمان نوازی اچھے معاشروں میں ایک قدر کی حیثیت رکھتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس روایت میں اسے ایمان کے ایک ثمرے کی حیثیت سے بیان کیا ہے۔ اس سے دو باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ آپ یہ چاہتے ہیں کہ یہ اچھی قدر مسلم معاشرے میں بھی جاری رہنی چاہیے۔ دوسری یہ کہ تمام وہ اقدار جو اچھے اخلاق کا مظہر ہیں، اسلام میں بھی پوری طرح مطلوب ہیں۔
ان روایات میں یہ تینوں باتیں جو اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھتا ہے کی تاکید کے ساتھ بیان ہوئی ہیں۔ اپنی حقیقت میں یہ تینوں چیزیں اعلیٰ اخلاقی رویہ ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اچھے اخلاق درست ایمان پر دلالت کرتے ہیں اور برے اخلاق ایمان کی کمزوری کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ یہ بات بھی واضح ہوئی کہ اہل ایمان کو جس طرح نماز روزے اور دوسرے شرعی احکام کی پیروی کرنی ہے، اسی طرح انھیں اپنے اندر اچھے اخلاق بھی پیدا کرنے ہیں۔

متون

امام مسلم رحمہ اللہ نے اس روایت کے چار متن نقل کیے ہیں۔ ان متون میں ترتیب بیان اور لفظ کے تمام فرق آگئے ہیں۔ مثلاً یہ کہ ’لیصمت‘ کی جگہ ’لیسکت‘ بھی آیا ہے۔ ’فلیکرم‘ کے بجائے ’فلا یؤذی‘ اور ’فلیحسن الی‘ کے الفاظ بھی آئے ہیں۔ اسی طرح ترتیب بیان کا فرق بھی امام مسلم کی روایات میں منقول ہے۔ دوسری کتب حدیث میں کچھ اور فرق بھی ہیں۔ ایک فرق تو یہ ہے کہ بعض متون میں ان میں دو یا ایک جزو بیان نہیں ہوا۔ اسی طرح بعض رواۃ نے مہمان نوازی کے حوالے سے اس بات کو بھی اس روایت کا جز بنادیا ہے کہ مہمان نوازی کا یہ تقاضا کتنے عرصے کے لیے ہے۔ 
معجم صغیر کی ایک روایت میں ’فلیقل خیرا او لیصمت‘ کے لیے ’فاذا شہد امرا فلیتکلم فیہ بحق‘ کے الفاظ ہیں۔ معجم کبیر میں ’فلیؤد زکٰوۃ مالہ‘ کی تعلیم بھی بیان ہوئی ہے۔
بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ امام مسلم کے منتخب کردہ متون نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کے زیادہ قریب ہیں۔ واللّٰہ اعلم بالصواب۔

کتابیات

موطا، رقم ۱۶۶۰۔ بخاری، رقم۵۶۷۲، ۵۶۷۳، ۵۷۸۴، ۵۷۸۵، ۵۷۸۷، ۶۱۱۰، ۶۱۱۱۔ مسلم، رقم ۴۷، ۴۸۔ ابوداؤد، رقم۳۷۴۸، ۵۱۵۴۔ ترمذی، رقم۱۹۶۷، ۲۵۰۰۔ ابن ماجہ، رقم۳۶۷۲، ۳۶۷۵۔ احمد، رقم۶۶۲۱، ۷۶۳۳، ۹۵۹۳، ۹۹۶۸، ۹۹۷۱، ۱۱۷۴۴، ۱۶۴۱۷، ۱۶۴۲۱، ۲۰۳۰۰، ۲۳۵۴۳، ۲۴۴۴۹، ۲۷۲۰۳، ۲۷۲۰۵۔ ابن حبان، رقم۵۰۶، ۵۱۶، ۵۲۸۷، ۵۵۹۷۔ حاکم، رقم ۷۲۹۶، ۷۲۹۷۔ دارمی، رقم ۲۰۳۵، ۲۰۳۶۔ بیہقی، رقم ۸۹۶۰، ۱۶۴۴۰، ۱۸۴۶۹۔ ابویعلیٰ، رقم ۶۵۹۰۔ معجم صغیر، رقم۴۷۰۔ معجم کبیر، رقم۴۷۵، ۴۷۶، ۴۷۷، ۴۷۸، ۴۸۰، ۴۸۱، ۴۸۲، ۴۸۳، ۵۰۱، ۵۱۸۷، ۱۰۸۴۳، ۱۳۵۶۱۔

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت مئی 2007
مصنف : طالب محسن
Uploaded on : Feb 13, 2018
2328 View