ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا (6) - ڈاکٹر وسیم مفتی

ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا (6)

عہد صدیقی

رمضان ۶ھ میں سرےۂ زید بن حارثہ ہواجس میں ام قرفہ کے نام سے مشہورفاطمہ بنت بدراور اس کی بیٹی ام زمل سلمیٰ بنت مالک مسلمانوں کی قید میں آئیں۔ ام قرفہ کو بری طرح قتل کر دیا گیا، کیونکہ یہ اسلامی حکومت کے خلاف سازشیں کرتی تھی۔ام زمل حضرت عائشہ کے حصے میں آئی اور اسلام قبول کیا، انھوں نے اسے آزاد کر دیا ۔ اپنی قوم میں واپس جا کر یہ مرتد ہو گئی اور ایک لشکر اکٹھا کر لیا۔ آں حضرت صلی ﷲ علیہ وسلم کی وفات کے بعدارتدا د کا طوفان اٹھا تو ام زمل نے غطفان ،طے ،سلیم اور ہوازن قبائل کے شکست خوردوں کو جمع کیا اور خلافت اسلامی کے خلاف بغاوت کی ٹھانی۔اسے حضرت خالد بن ولید نے شکست سے دو چار کیا۔

حضرت ابو بکر نبی صلی ﷲ علیہ وسلم کی طرف سے عالیہ ( بالائی مدینہ) میں ملنے والا بنو نضیر کا باغ حضرت عائشہ کو ہبہ کر چکے تھے۔مرض الموت میں سیدہ عائشہ ان کی خبر لینے آئیں تو انھوں نے یہ باغ لوٹانے کی درخواست کی تاکہ یہ سارے وارثوں کے حصے میں آ جائے ۔ ان کے ذہن میں حضرت حبیبہ بنت خارجہ سے پیدا ہونے والی ام کلثوم تھی جس نے ابھی جنم نہ لیا تھا،انھوں نے اس کے لڑکی ہونے کی پیشین گوئی بھی کر دی۔

اپنے آخری وقت میں حضرت ابوبکر نے وصیت کی کہ جو کپڑے انھوں نے بیماری میں پہن رکھے تھے، انھیں دھولیا جائے اور دو کپڑے بڑھا کر ان کاکفن تیار کر لیا جائے۔ کپڑوں پرزعفران کے دھبے لگے تھے۔حضرت عائشہ نے کہا: ابا جان، ﷲ نے آپ کو کشادگی دی ہے، اس لیے کفن خرید لیں۔انھوں نے جواب دیا: نئے کپڑے کی تو مردے سے زیادہ زندہ کو ضرورت ہوتی ہے۔ قیامت کی گھڑی ایسی ہو گی کہ کپڑے گل کر پگھلے تانبے یا تیل کی تلچھٹ جیسے ہو جائیں گے(یا پیپ میں لتھڑ جائیں گے)، اس لیے نیا کپڑا لگانے کا کیا فائدہ؟ (بخاری، رقم ۱۳۸۷)۔ اپنے والد کی وفات پر حضرت عائشہ نے گریہ کیا تو حضرت عمر نے انھیں منع کیا۔ عورتوں نے بین کرنا نہ چھوڑا توانھوں نے ہشام بن ولید سے کہا: ابوبکر کی بہن کو باہر لاؤ۔ہشام حضرت ام فروہ بنت ابوقحافہ کو باہر لائے تو حضرت عمر نے ان کو درہ دے مارا، تب بین رکا۔

عہد فاروقی

خلیفۂ دوم حضرت عمر نے ازواج مطہرات کا وظیفہ دس ہزار مقرر کیا، تاہم حضرت عائشہ کے دو ہزار بڑھا کر بارہ ہزار لکھوائے اور کہا: وہ نبی صلی ﷲ علیہ وسلم کو بہت محبوب تھیں۔حضرت عائشہ نے اضافی دو ہزار قبول نہ کیے۔

حضرت عمر نے حضرت عائشہ کی سوتیلی بہن حضرت ام کلثوم کو نکاح کا پیغام بھیجا تو انھوں نے انکار کر دیا اور کہا: مجھے عمر سے عقد کرنے کی ضرورت نہیں۔ وہ کٹھن زندگی بسر کرتے ہیں اور عورتوں پر سختی کرتے ہیں۔حضرت ام کلثوم حضرت عائشہ کی ترغیب پر بھی آمادہ نہ ہوئیں توانھوں نے حضرت عمرو بن عاص کو معاملہ سلجھانے کی ذمہ داری سونپی۔ حضرت عمرو نے حضرت عمر کو سمجھایا کہ ام کلثوم نو عمر ہیں،آپ کے مزاج کوبرداشت نہ کر پائیں گی۔میں آپ کو اس سے بہتر رشتہ تجویز کرتا ہوں،ام کلثوم بنت علی سے نکاح کر لیں۔چنانچہ ایسا ہی ہوا۔

حضرت عبدالرحمن بن عوف کا غلے اور بیش قیمت سامان سے لدا ہوا۷۰۰ اونٹوں پر مشتمل قافلہ آیاتو مدینہ میں غل مچ گیا۔سیدہ عائشہ اپنے گھر میں تھیں، پوچھا: یہ غوغا کیسا ہے؟ انھیں بتایا گیا کہ حضرت عبدالرحمن کا قافلہ ہر قسم کا ساز وسامان لے کر شام سے مدینہ میں وارد ہوا ہے۔ فرمایا: میں نے رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ’’میں نے دیکھا کہ عبدالرحمن جنت میں گھسٹ کر جا رہا ہے۔‘‘حضرت عبدالرحمن کو حضرت عائشہ کی بات معلوم ہوئی تو کہا: میں کوشش کروں گا کہ چل کر جاؤں۔ یہ کہہ کر اونٹ ، ان پر لدا ہوا غلہ، کجاوے اورپالان سب ﷲ کی راہ میں صدقہ کردیے (مسند احمد، رقم ۲۴۸۴۲)۔

قاتلانہ حملے کے بعد حضرت عمر نے اپنے بیٹے حضرت عبدﷲ کوام المومنین سیدہ عائشہ کے پاس بھیجا اور فرمایا: ان سے کہنا،عمر سلام کہتا ہے،امیر المومنین نہ بولنا۔پھر اجازت مانگناکہ انھیں ان کے دونوں صاحبوں محمد صلی ﷲ علیہ وسلم اور ابو بکر کے ساتھ دفن کرنے کی اجازت دے دی جائے۔ حضرت عائشہ اپنے حجرے میں بیٹھی رو رہی تھیں،حضرت عمر کی درخواست سن کر فرمایا: وہ جگہ میں نے اپنے لیے رکھی تھی، لیکن اب اپنے اوپر عمر کو ترجیح دوں گی۔حضرت عمر نے حضرت عبدﷲ کو وصیت کی کہ میری میت جب حجرۂ عائشہ پہنچے تو دوبارہ اذن مانگنا۔ اگر انھوں نے اس وقت منع کر دیا تو عام مسلمانوں کے قبرستان میں دفنا دینا (بخاری، رقم ۳۷۰۰)۔ اپنا جانشین منتخب کرنے کے لیے حضرت عمر نے جو مجلس شوریٰ بنائی ،اسے تلقین کی کہ حضرت عائشہ سے اجازت لے کران کے حجرہ کے پاس بیٹھ کر مشورہ کرنا، لیکن حجرے میں داخل نہ ہونا۔

شہید مظلوم اور حضرت عائشہ

ایک بار نبی اکرم صلی ﷲ علیہ وسلم سیدہ عائشہ کی چادر اوڑھے اپنے بستر پرآرام فرما رہے تھے۔ آپ کی ٹانگ(یا ران) کا کچھ حصہ ڈھکنے سے رہ گیاتھا۔ اس اثنا میں حضرت ابو بکر آئے ،آپ نے ان کو اندر بلا لیا اور خود لیٹے رہے۔ وہ اپنی بات کر کے چلے گئے تو حضرت عمر آئے ۔ آپ نے انھیں بھی اذن ملاقات دے دیااور خود اسی طرح استراحت فرماتے رہے ۔ اتفاق سے کچھ دیر بعد حضرت عثمان بھی تشریف لے آئے۔ آپ بیٹھ گئے اور کپڑے درست کر کے بدن اچھی طرح ڈھانپا۔حضرت عثمان اندر داخل ہوئے، ضروری بات چیت کی اوررخصت ہوئے۔حدیث کے راوی محمد بن ابو حرملہ کہتے ہیں: میں نہیں کہتا کہ یہ ایک ہی دن کا واقعہ ہے۔حضرت عثمان کے جانے کے بعد حضرت عائشہ نے پوچھا: یارسول ﷲ، کیا وجہ ہے کہ ابوبکرآئے تو آپ نے کوئی اہتمام نہ کیا، پھر عمر آئے تو آپ نے کوئی پروا نہ کی۔جب عثمان آئے تو آپ سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور کپڑے درست کیے؟ فرمایا: عثمان شرمیلے ہیں۔مجھے اندیشہ ہوا، اگر اسی حالت میں انھیں آنے دیا تو وہ اپنی بات بھی نہ کر پائیں گے۔کیا میں اس شخص سے حیا نہ کروں جس سے فرشتے بھی شرماتے ہیں؟ (مسلم، رقم ۶۲۸۷)۔

حضرت عثمان نے منیٰ میں نماز قصر کیے بغیر چار رکعت پڑھی تو صحابہ نے اعتراض کیا۔انھوں نے دلیل دی کہ میں نے مکہ پہنچ کر شادی کی ہے، اس لیے یہ شہر میرے گھر کے مانند ہو گیا۔حضرت عائشہ کی تاویل تھی کہ عثمان جس شہر میں بھی ہوں، امیر المومنین ہیں۔ان کی تاویل قبول نہ کی گئی، کیونکہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم ہر جگہ مقام رسالت پر فائز ہونے کے باوجود سفر میں قصر کیا کرتے تھے۔

۳۵ھ میں بلوائیوں نے حضرت عثمان کے گھر کا محاصرہ کیا جو اواخر ذی قعد سے ۱۸؍ ذی الحجہ تک جاری رہا۔حج کے ایام قریب تھے ۔حضرت عائشہ سفر حج کے لیے تیارہوئیں تو مروان بن حکم نے کہا: آپ کانہ جانا بہتر ہے ، شاید بلوائی آپ سے ڈرتے ہوئے انتہائی کارروائی نہ کریں۔ انھوں نے جواب دیا: مجھے اندیشہ ہے ،اگر میں نے انھیں کوئی مشورہ دیا تو یہ میرے ساتھ ام حبیبہ والا برتاؤ نہ کریں۔حضرت عائشہ نے اپنے بھائی محمد کو بھی ساتھ چلنے کو کہا، لیکن وہ نہ مانے۔ بلوائی حنظلہ بن ربیع (حنظلہ کاتب)نے ان کو جانے سے روکا۔

حج کرنے کے بعد حضرت عائشہ مدینہ لوٹ رہی تھیں کہ حضرت عثمان کی شہادت کی خبرملی ۔وہ راستے ہی سے مکہ واپس ہو گئیں اور کہا: حضرت عثمان کو مظلومی کی حالت میں شہید کیاگیا،ﷲ ان کے قاتلوں پر لعنت کرے۔میں ضرور ان کے قصاص کا مطالبہ کروں گی۔اس اثنا میں حضرت طلحہ ا ور حضرت زبیر مدینہ سے مکہ پہنچے،ان سے مشورے کے بعد حضرت عائشہ نے بصرہ کو اپنا مرکز بنانے کا پروگرام بنایا ۔عہد عثمانی کے گورنر یعلیٰ بن امیہ(بن منیہ:ماں کا نام ) نے چھ سو اونٹ اور چھ لاکھ درہم دیے۔دوسرے گورنر ابن عامر نے بھی زرکثیر فراہم کیا۔مکہ میں منادی کرا دی گئی کہ ام المومنین ، حضرت طلحہ اورحضرت زبیر بصرہ جا رہے ہیں۔ جو اسلام کی سربلندی چاہتا ہے ،حضرت عثمان کا خون بہا لینا اور ان کے قتل کو جائزسمجھنے والوں سے جنگ کرنا چاہتا ہے، شامل ہوجائے، اگرچہ اس کے پاس سواری اور سامان سفر نہ ہو۔اس طرح ایک ہزار (دوسری روایت:تین ہزار) کے لگ بھگ سپاہی فراہم ہو گئے۔ حضرت عبدﷲ بن عباس کی والدہ حضرت ام فضل نے حضرت علی کو خبر کردی۔حضرت عثمان کی شہادت کے چار ماہ بعد لشکر روانہ ہوا تو باقی امہات المومنین اس صورت حال پرروتی روتی ذات عرق تک ساتھ گئیں، پھرمدینہ جانے کے لیے لوٹ گئیں۔اس نسبت سے اس دن کو ’روز گریہ‘ کہا گیا۔مکہ سے نکلنے کے بعد مروان بن حکم نے اذان دی اور پوچھا: لشکر کی امارت کسے دوں اور نماز کا امام کس کومقرر کروں؟حضرت عبدﷲ بن زبیر اور حضرت محمد بن طلحہ نے اپنے اپنے والد کا نا م لیا۔ حضرت عائشہ کو معلوم ہوا تو سخت ناراض ہوئیں اور کہا: تم ہماری جمعیت میں تفرقہ ڈالنا چاہتے ہو؟انھوں نے حضرت عتاب بن اسید کو نماز پڑھانے کا حکم دیا۔

حضرت عائشہ عسکر نامی اونٹ پر سوار تھیں جو یعلیٰ بن امیہ نے بنوعرینہ کے ایک شخص سے ایک اونٹنی اور چار سو درہم (یا اسّی دینار) کے عوض خریدا۔لشکر بصرہ پہنچنے سے پہلے حوأب نامی چشمے پر پہنچاتو کتے بھونکنا شروع ہو گئے۔ سیدہ عائشہ کو معلوم ہوا تو بلند آواز میں چلانے لگیں: ’إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون‘، تو وہ میں تھی۔ایک دن رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کے پاس ازواج جمع تھیں کہ آپ نے فرمایا: کاش، مجھے علم ہو جائے، تم میں سے کون سی ہے جس پر حوأب کے کتے بھونکیں گے (مسند احمد، رقم ۲۴۲۵۴۔ مستدرک حاکم، رقم ۴۶۱۳)۔ حضرت عائشہ نے اونٹ کی ٹانگ پر چابک مارا اور اسے بٹھا کر کہا: مجھے واپس لے چلو، میں ہی حوأب چشمے والی ہوں۔ لشکر ایک دن اور رات رکا رہا،حضرت عبدﷲ بن زبیر مناتے رہے اور وہ انکار کرتی رہیں۔ آخرکار انھوں نے ’بچو ! بچو! علی پہنچنے والے ہیں‘کا نعرہ لگایاتو وہ بصرہ کی طرف چلیں۔حفیر کے مقام پر انھوں نے پڑاؤ ڈالااور احنف بن قیس، صبرہ بن شیمان اور دیگر اہل بصرہ کو خط لکھ کر اپنی آمد کا مقصد بتایا۔بصرہ میں حضرت علی کے مقررہ گورنر حضرت عثمان بن حنیف نے عمران بن حصین اور ابوالاسود دؤلی کو بات چیت کے لیے بھیجا۔ان دونوں نے حفیر میں حضرت عائشہ ،حضرت طلحہ اور حضرت زبیر سے الگ الگ ملاقاتیں کیں۔حضرت عثمان کے قصاص کا مطالبہ سامنے آنے پر حضرت عثمان بن حنیف نے اہل بصرہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ہمارا شمار قاتلین عثمان میں نہیں ہوتا، اس لیے اس لشکر کو واپس جانے پرمجبور کر دو۔ تب حضرت عائشہ کا لشکر آگے بڑھا اور بصرہ کے محلہ مربد پہنچا۔ حضرت عائشہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا: باغیوں نے حضرت عثمان کے خلاف محاذ آرائی کرتے ہوئے شہر مدینہ اور ماہ حرام کی حرمت کو پامال کیا ۔تم پر لازم ہے کہ ان کے قاتلوں کو پکڑو اور ﷲ کی حدود قائم کرو۔یہ تقریر سن کر حضرت عثمان بن حنیف کے کچھ ساتھی الگ ہو کر حضرت عائشہ کی فوج میں شامل ہو گئے ۔جاریہ بن قدامہ نے کہا: ام المومنین، سیدنا عثمان کے شہید ہونے سے زیادہ سنگین بات یہ ہے کہ آپ اس لعنتی اونٹ پر سوار ہو کر گھر سے باہر نکل آئی ہیں۔ ایک نوجوان نے حضرت طلحہ اورحضرت زبیر کو طعنہ دیا: میں تم دونوں کی ماں کو تو دیکھ رہا ہوں، کیا اپنی بیویوں کو بھی نکال لائے ہو؟میں تمھارا ساتھ نہ دوں گا۔

۲۵؍ ربیع الثانی ۳۶ھ کو مربد میں جیش عائشہ کا گورنر عثمان کی فوج سے ٹکراؤ ہوا ۔سیدہ عائشہ نے حکم جاری کیا، صرف ایسے شخص سے جنگ کی جائے جو ابتدا کرے اور جس کا حضرت عثمان کی شہادت سے تعلق ہو۔ پہلے دن ہلکی جھڑپ ہوئی، حکیم بن جبلہ نے ابتدا کی ،گھڑ سواروں کے ساتھ آگے بڑھا تو حضرت عائشہ کے سپاہیوں نے تیر اندازی کی۔ شام تک حضرت عائشہ کی فوج مقبرہ بنومازن تک آ گئی۔دوسرے روز دارالرزق کے میدان میں گھمسان کی لڑائی ہوئی جس میں حضرت عثمان بن حنیف کی فوج کو بہت جانی نقصان اٹھانا پڑا۔ فریقین جنگ سے عاجز آئے تو صلح پر آمادہ ہو گئے۔یہ طے ہوا کہ ایک شخص کو مدینہ منورہ بھیج کر ا س بات کی تصدیق کرائی جائے گی کہ حضر ت طلحہ اور حضرت زبیر سے زبردستی حضرت علی کی بیعت کرائی گئی تھی۔ اگر یہ ثابت ہو گیا تو حضرت عثمان بن حنیف بصرہ چھوڑ دیں گے اور اگر حقیقت اس کے برعکس ہوئی تو حضرت طلحہ اور حضرت زبیر واپس ہو جائیں گے۔ قاضئ بصرہ کعب بن سور اس بات کی تصدیق کر کے لوٹے، لیکن گورنر عثمان نے معاہدے کے مطابق بصرہ نہ چھوڑا۔ جنگ پھرچھڑ گئی۔ عشا کا وقت تھا،مسجد کے اندر قتال کرنے کے بعد حضرت عثمان بن حنیف کو پکڑ لیا گیا۔چالیس کوڑے مارنے کے بعد ڈاڑھی اور بھووں کے بال اکھاڑے گئے اور پھر حضرت عائشہ کے کہنے پرچھوڑ دیا گیا۔ اس معرکے میں حضرت عثمان کا قاتل حکیم بن جبلہ اور اس کے ستر ساتھی اور مددگار مارے گئے۔ جنگ سے فراغت کے بعد سیدہ عائشہ نے اہالیان کوفہ، یمامہ و مدینہ کو خط بھیجے کہ حضرت علی کا ساتھ چھوڑ دیں او ر قاتلین عثمان کو سزا دلوانے میں میری مدد کریں۔ زید بن صوحان نے جواب دیا:ﷲ ام المومنین پر رحم کرے ، ﷲ نے ان پر گھر میں رہنا لازم کیا ہے اور ہمیں قتال کا حکم دیا ہے۔ ہم برابر ان کی نصرت کرتے رہیں گے، اگر وہ گھر سے چپک کر رہیں۔حضرت طلحہ اور حضرت زبیر کا بصرہ پر قبضہ ہو گیا تو ان کے مخالفین چھپ گئے۔

حضرت علی نے حضرت قعقاع کو بصرہ بھیجا تاکہ وہ حضرت طلحہ وحضرت زبیر سے ملیں اور جماعت و الفت کی اہمیت ان پر واضح کریں۔ حضرت قعقاع پہلے حضرت عائشہ سے ملے اور پوچھا: اماں جان!آپ اس شہر میں کیونکر آئی ہیں؟ انھوں نے جواب دیا: لوگوں میں صلح و صفائی کرانے کے لیے۔ تو پھر طلحہ و زبیر کو پیغام بھیجیں کہ میری بات سن لیں۔ حضرت قعقاع ان دونوں سے ملے تو پوچھا: کیا آپ کا مقصد بھی وہی ہے جو ام المومنین کاہے؟انھوں نے اثبات میں جواب دیا تو پوچھا: یہ اصلاح کس طرح ہو گی؟انھوں نے جواب دیا: قاتلین عثمان کو چھوڑ دینا ترک قرآن ہو گا۔ حضرت قعقاع نے کہا: تم نے بصرہ سے تعلق رکھنے والے قاتلوں کوتومار دیا، لیکن ان سے پہلے چھ سو افراد کاقتل کر چکے تھے۔ اب تم حرقوص بن زہیر کے درپے ہواور چھ ہزار کی فوج اس کا دفاع کرنے کے لیے تیار ہے۔یہ قتل و غارت کہاں رکے گی؟ حضرت عائشہ نے پوچھا: تمھارا کیا مشورہ ہے؟ حضرت قعقاع نے کہا: اس کا علاج جنگ بندی کرکے حالات کو پرسکون کرنا ہے۔آپ قصاص موخر کرکے حضرت علی کی بیعت کر لیں تو خیر ورحمت کا ظہور ہو گا۔ حضرت طلحہ و حضرت زبیر نے اس بات سے اتفاق کر لیا۔حضرت عائشہ نے بھی حضرت علی کوپیغام بھیجا کہ وہ اصلاح کے لیے آئی ہیں۔ حضرت قعقاع نے حضرت علی کو خبر دی تو وہ بہت خوش ہوئے۔

جنگ جمل

جمادی الاولیٰ ۳۶ھ (۷؍ نومبر ۶۵۶ء ، دوسری روایت:۱۵ جمادی الثانی ۳۶ھ ) میں بصرہ کے قصر عبیدﷲ بن زیاد کے پاس جنگ جمل ہوئی۔ حضرت علی ،حضرت عمار بن یاسر ،حضرت طلحہ ،حضرت زبیر بن عوام، حضرت عائشہ، حضرت عبدﷲ بن زبیر ، حضرت حسن ، حضرت حسین ،حضرت سہل بن حنیف اور دیگر کئی صحابہ نے اس میں حصہ لیا۔ حضرت علی نے حضرت طلحہ وحضرت زبیر کو پیغام بھیجا کہ قعقاع کے ساتھ کی جانے والی بات پر قائم رہتے ہوئے جنگ سے باز رہو۔ انھوں نے اس سے اتفاق کیا۔بصرہ کی فوج میں شامل قبائل کو پورا یقین تھا کہ صلح ہو جائے گی ۔فریقین نے خوشی اور اطمینان سے رات بسر کی، دوسری طرف خلیفۂ مظلوم کے قاتلوں میں بے حد اضطراب رہا۔ پو پھٹنے سے پہلے ان کے دو ہزار کے قریب آدمیوں نے تلواریں سوتیں اور حضرت طلحہ و حضرت زبیر کی فوج پر ٹوٹ پڑے۔دونوں صحابیوں نے اسے اہل کوفہ کا حملہ سمجھا۔ ادھر حضرت علی نے شور وغوغا سنا تو پوچھا: کیا ہوا؟ انھیں بتایا گیاکہ رات گئے حملہ ہوا تھا جس کا ہم نے بھرپور جواب دے دیا ہے ۔حضرت علی نے اسے حضرت طلحہ اور حضرت زبیر کی شرارت قرار دیا۔ ابن سبا کے ساتھی خوب قتل و غارت کر رہے تھے ، حضرت علی پکار رہے تھے: رکو! رکو! لیکن کوئی ان کی سن نہ رہا تھا۔بصرہ کے قاضی کعب بن سورحضرت عائشہ کے پاس آئے اور جنگ رکوانے کی استدعا کی۔ وہ بنو ازد کی مسجد حدان میں ٹھیری ہوئی تھیں،کجاوے پر سوارہو کر نکلیں،لیکن تب تک جنگ کا بازار گرم ہو گیا تھا۔

جنگ جمل کی صبح حضرت علی خچر پر سوار ہو کر آئے اورحضرت زبیر کو بلاکر رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کا یہ ارشاد یاد دلایا: زبیر، تم علی سے قتال کرو گے، حالاں کہ تم ظالم ہو گے۔ حضرت زبیر نے کہا: ہاں! میں یہ بات بھول چکا تھا ۔ آپ نے یاد کرادیا ہے تو آپ کے خلاف ہر گز قتال نہ کروں گا۔ پھر انھوں نے اپنے گھوڑے( ذو الخمار)کارخ موڑا اور فوج کی صفیں چیرتے ہوئے میدان جنگ چھوڑ گئے (مستدرک حاکم، رقم ۵۵۷۳)۔حضرت زبیر نے جاتے جاتے حضرت عائشہ کوبھی اپنے رجوع سے مطلع کردیا۔انھوں نے اپنے بیٹے حضرت عبدﷲ کے کہنے پر بطورکفارہ اپنے غلام سرجس(یا مکحول) کو آزاد بھی کیا۔ ابن جرموز نے حضرت زبیر کا پیچھا کیا اور انھیں شہید کر کے ان کی تلوار حضرت علی کو پیش کی۔حضرت علی نے اسے دوزخ کی وعید سنائی اور جنگ کے اختتام پر تلوار حضرت عائشہ کو بھیج دی۔

دوپہر کے بعدجنگ سیدہ عائشہ کی کمان میں لڑی گئی اور عصر تک جاری رہی۔ حضرت عائشہ نے کعب بن سور کو مصحف قرآنی دے کر کہا: لوگوں کو اس کی طرف بلاؤ۔ وہ کھڑے ہی ہوئے تھے کہ کوفی فوج کے مقدمہ میں موجود عبدﷲ بن سبا اور اس کے ساتھیوں نے تیروں کی بوچھاڑ کر کے انھیں شہید کردیا۔کچھ تیر حضرت عائشہ کے کجاوے کو بھی لگے۔وہ ﷲﷲ پکار کر حضرت عثمان کے قاتلوں کوبددعائیں دینے لگیں۔ پھر کہا: لوگو، عثمان کے قاتلوں پر لعنت بھیجو۔ حضرت علی نے پوچھا: یہ شور و غل کیسا ہے؟ لوگوں نے بتایا: عائشہ قاتلین عثمان پر لعنت بھیج رہی ہیں۔حضرت علی بھی لعنت بھیجنے میں ان کے ہم آواز ہو گئے۔ اسی اثنا میں حضرت عائشہ نے مضری دستے کو زوردار حملہ کرنے کا حکم دیا۔ جنگ شدت پکڑ گئی،حضرت علی نے اپنے بیٹے محمد بن حنفیہ کو پرچم لے کر آگے بڑھنے کا حکم دیا۔وہ پیش قدمی نہ کر سکے تو پرچم خود تھام لیا۔حضرت علی کے جرنیل زید بن صوحان شہید ہوئے اور حضرت عائشہ کی فوج غالب ہونے لگی تو انھوں نے ربیعہ اور یمن کے دستوں کو بلایا۔ ان کے آنے پرجنگ میں پھر تیزی آئی،دونوں اطراف کے فوجی گتھم گتھا ہوگئے، فوجوں کے میمنہ و میسرہ قلب سے جا ملے۔ حضرت عائشہ کے کمانڈر عبدالرحمن بن عتاب قتل ہوئے تووہ میسرہ میں کھڑے بنو ازد کے رسالے کومخاطب کر کے پکاریں: آج وہ دلیری دکھاؤ جس کی ہم مثالیں سنا کرتے تھے، مقدمہ میں موجود بنوناجیہ کو آواز دی: اپنی قریشی ابطحی تلواروں کی کاٹ دکھادو، پھر بنو ضبہ اور بنو عدی کو دلیری دلائی۔

حضرت عائشہ کے اونٹ عسکرکی حفاظت کے لیے الگ دستہ مامور تھا۔اونٹ کی مہار تھامنے والوں میں سے ستر افراد کے ہاتھ کٹ گئے، ان میں سے چالیس کی جانیں گئیں۔محمد بن طلحہ سجاد آخری دم تک عسکر کے سامنے ثابت قدم رہے، ایک جتھے نے مل کر ان کی جان لی۔عمرو بن اشرف نے لگام پکڑی تو جو سامنے آتا، تلوار کا وار کر کے اسے گرا دیتے۔ حارث بن زہیر نے ان کا مقابلہ کیا،دونوں مارے گئے۔کئی دلیروں نے جان کا نذرانہ دیا ،پھر حضرت عبدﷲ بن زبیر نے آگے بڑھ کر باگ تھامی۔ مالک بن حارث اشتر نے ان پر حملہ کیا ،سر کی شدید چوٹ کے علاوہ انھیں ستر سے زائد زخم آئے۔اب بنو عدی نے عسکر کے دفاع کی ذمہ داری سنبھالی ۔ بصرہ کے سابق قاضی عمرہ بن یثربی یا ان کے بھائی عمرو بن یثربی اونٹ کے سر پر کھڑے تھے کہ حضرت علی بولے: اونٹ پر حملہ کون کرے گا؟ ہند بن عمرو جملی نے اپنے آپ کو پیش کیا۔عمرہ نے انھیں روکا اور دو واروں میں قتل کر دیا۔پھر علبا بن ہیثم بڑھے اور عمرہ کے ہاتھوں ختم ہوئے۔ عمرہ نے سیحان بن صوحان کو بھی موت سے ہم کنار کیا، پھر صعصہ بن صوحان کو شدید زخمی کیا اور وہ بھی چل بسے۔ حضرت عمار پکارے: تو نے ایک مضبوط قلعے (سیدہ عائشہ ) کی پناہ لے رکھی ہے ، تمھارے تک پہنچنے کی راہ نہیں۔ تو اپنے دعوے میں اگر سچا ہے تو اس لشکر سے نکل کر باہر آ اورمیرے ساتھ مبارزت کر۔ عمرہ نے اونٹ کی مہار بنوعدی کے ایک شخص کو پکڑائی اور فوجوں کے مابین کھڑے ہو گئے۔ حضرت عمار سامنے آئے تو عمرہ نے وار کیا جو حضرت عمار نے چمڑے کی ڈھال سے بچایا، پھر انھوں نے تاک کر عمرہ کے پاؤں کا نشانہ لیا۔ پاؤں کٹ جانے سے وہ پیٹھ کے بل آن گرے۔انھیں قیدکر کے حضرت علی کے پاس لے جایا گیاتوانھوں نے رحم کی اپیل کی، لیکن حضرت علی نے یہ کہہ کر قتل کرا دیا کہ کیا تین آدمیوں کی جان لینے کے بعد بھی معافی کی گنجایش ہے؟ حضرت علی نے اپنے سپاہیوں کو پھر حکم دیا کہ سیدہ عائشہ کے اونٹ’عسکر‘ کو نشانہ بناؤ، کیونکہ اس کے گرے بغیر جنگ ختم نہ ہوگی۔ ربیعہ عقیلی نے حفاظت پر مامور ایک عدوی کو للکارا،لڑتے لڑتے دونوں شدید زخمی اور جاں بحق ہوئے۔حارث ضبی نے نکیل تھامی اور یہ مشہور رجز پڑھی:

نحن بنو ضبۃ أصحاب الجمل          نبارز القرن إذا القرن نزل

’’ہم قبیلۂ بنو ضبہ کے لوگ جمل والے ہیں، ہم سر کو دو بدو مقابلے کے لیے للکارتے ہیں، جب وہ سواری سے اترآتا ہے۔‘‘

ننعی ابن عفان بأطراف الاسل          الموت أحلی عندنا من العسل

’’ہم نیزوں کے کناروں کے ذریعے عثمان بن عفان کی شہادت کی خبر دیتے ہیں،موت ہمارے لیے شہد سے زیادہ میٹھی ہے ۔‘‘

ردوعلینا شیخنا ثم بجل

’’ہماراشیخ(عثمان ) ہمیں لوٹا دو پھر یہی کافی ہے۔‘‘

حضر ت عائشہ فرماتی ہیں: میرا اونٹ پرسکون رہا، حتیٰ کہ بنو ضبہ کی آوازیں آنی بند ہو گئیں۔ آخرکار، ایک شخص نے اونٹ کے پاؤں پر تلوار ماری تو وہ بلبلا کر سینے کے بل بیٹھ گیا اوراس کی نکیل ٹوٹ گئی۔حضرت محمد بن طلحہ نے باگ تھامی تو کہا: اماں جان، مجھے اپنا حکم بتائیں۔حضرت عائشہ نے کہا: میں کہتی ہوں ، تو اولاد آدم میں بہترین ثابت ہو۔ وہ ہر بڑھنے والے کو گراتے رہے، حتیٰ کہ کئی آدمیوں نے یک جا ہو کر انھیں شہید کیا۔عمرو بن اشرف نے بھی دادشجاعت دی۔ حارث بن زہیر سے مقابلہ ہوا تو دونوں کی جانیں گئیں۔ حضرت علی کی طرف سے حضرت عدی بن حاتم طائی نے حملہ کیا تو ان کی آنکھ پھوٹ گئی۔حضرت عبدﷲ بن زبیر عسکر کا دفاع کرنے آئے تواشتر نے ان کے سر پر گہری ضرب لگائی۔انھوں نے جوابی وار کیا اور دونوں گر پڑے ۔فریقین کے سپاہیوں نے ان کو چھڑایا۔ زفر بن حارث آخری شخص تھا جس کے ہاتھ میں زمام تھی۔اہل جمل منتشر ہوئے اور جیش علی نے اونٹ کا محاصرہ کر لیا۔ اونٹ پر حملہ کرنا ضروری تھا، کیونکہ حضرت عائشہ کا کجاوہ تیروں کا نشانہ(target) بن چکا تھا ۔اس میں اتنے تیر پیوست ہو چکے تھے جتنے خار پشت کی پشت پر کانٹے ہوتے ہیں۔ حضرت قعقاع بن عمرو، محمدبن ابوبکر اورحضرت عمار بن یاسر نے سیدہ عائشہ کے کجاوے کی رسیاں کاٹیں اور اسے اٹھا کر لاشوں سے پرے رکھ دیا۔ پردے کے لیے چادریں تان دی گئیں،تسمے کاٹ کر سیدہ عائشہ کا ہودہ اتارا گیا،حضرت علی اور تمام کمانڈروں نے ام المومنین کو سلام کیا اور ان سے عزت و اکرام سے پیش آئے۔ محمد بن ابوبکر نے اپنی بہن کی خیریت دریافت کی کہ آیا انھیں کوئی چوٹ تو نہیں آئی، پھر انھیں بصرہ لے گئے۔ایک منافق اعین بن ضبیعہ نے ہودے میں جھانک کر کہا: میں حمیرا کودیکھ رہا ہوں۔ یہ بصرہ میں بری موت مرا۔ حضرت علی نے ہدایت دی کہ جنگ سے بھاگنے والے کا پیچھا نہ کیا جائے، زخمی پر وار نہ کیا جائے اور گھروں میں نہ گھسا جائے۔انھوں نے میدان جنگ سے ملنے والی جیش عائشہ کی اشیا کو بصرہ کی مسجد میں پہنچانے اور اسلحہ کو سرکاری خزانہ میں جمع کرانے کا حکم دیا۔حضرت علی کے کچھ ساتھیوں نے حضرت طلحہ و حضرت زبیر کی فوج سے حاصل ہونے والا مال و متاع بانٹنے کو کہا، لیکن انھوں نے انکار کر دیا اور کہا: ان کی جانیں اور اموال ہم پر حرام ہیں۔کیا تم چاہتے ہو کہ ام المومنین تمھارے حصے میں آئیں؟ اس کے بجاے انھوں نے بیت المال سے ہر شخص کا حصہ پانسو درہم مقرر کیا۔

جنگ جمل میں طرفین کے دس ہزار اہل ایمان نے زندگی سے ہاتھ دھوئے۔شہدا کی تعداد اس طرح بیان کی گئی ہے، جیش علی :پانچ ہزار،اصحاب عائشہ : پانچ ہزار، بنوضبہ: ایک ہزار،بنوعدی:ستر۔جنگ میں زخمی ہونے والوں کا کوئی شمار ہی نہ تھا۔شہر میں داخل ہونے کے بعد حضرت علی جنگ جمل میں شہادت پانے والے عبدﷲ بن خلف کے گھر گئے جہاں حضرت عائشہ مقیم تھیں۔حضرت عائشہ نے انھیں خوش آمدید کہا، جب کہ عبدﷲ بن خلف کی اہلیہ صفیہ انھیں دیکھ کر بین کرنا شروع ہو گئی ۔اس نے کہا: ﷲ تمھارے بیٹوں کو اسی طرح یتیم کر دے، جیسے تو نے میرے بیٹوں کو یتیم کیا ہے۔عبدﷲ بن خلف حضرت عائشہ کی فوج میں شامل تھے، جب کہ ان کے بھائی عثمان بن خلف حضرت علی کے ساتھ لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔حضرت علی نے کوئی جواب نہ دیا، ایک شخص نے خاموشی کا سبب پوچھا تو کہا: صفیہ ہمارے ساتھ بری طرح پیش آئی ہے ، میں نے اسے اس وقت دیکھا تھا، جب بچی تھی۔عورتیں کم زور ہوتی ہیں۔ ہمیں مشرکہ عورتوں سے اعراض کرنے کا حکم دیا گیا ہے ، یہ تو مسلمان ہیں۔

حضرت عائشہ اپنے بھانجے حضرت عبدﷲ بن زبیر سے بہت محبت کرتی تھیں اوران کے لیے بہت دعا کرتی تھیں۔ جنگ جمل میں حضرت عبدﷲ بن زبیر شدید زخمی ہوئے۔ انھوں نے اس شخص کو دس ہزار درہم دیے جس نے ان کے بچ جانے کی خبر سنائی اور سجدۂ شکر ادا کیا۔حضرت عبدﷲ زخمی ہونے کے بعد وزیر ازدی کے گھر میں تھے۔ انھوں نے حضرت عائشہ کو خبر کرنے کے لیے وزیر کوبھیجا ،ساتھ ہی تاکید کی کہ محمد بن ابوبکر کو نہ بتانا۔پھر بھی حضرت عائشہ نے محمد ہی کو بھیجا کہ حضرت عبدﷲ کو عبدﷲ بن خلف کے گھر لے آؤ۔دونوں ایک دوسرے کو گالیاں دیتے اور برا بھلا کہتے ہوئے آئے۔ حضرت عائشہ نے جنگ میں طرفین کی طرف سے شہادت پانے والوں کی تفصیل دریافت کی اور سب کے لیے دعائے مغفرت کی۔

جنگ کے اختتام پراشتر نے حضرت عائشہ کو سات سو درہم کا اونٹ خرید کر بھیجااور کہا: یہ آپ کے اونٹ عسکرکے عوض میں ہے۔حضرت عائشہ نے اونٹ واپس کر دیا اور کہا: تو نے محمد بن طلحہ کو قتل کیا اور میرے بھتیجے عبدﷲ کو زخمی کیا۔ اشتر نے کہا: وہ میری جان لینے کے درپے تھے، میں کیا کرتا۔ مروان حضرت عائشہ کے ساتھ اسی گھر میں ٹھیرا، پھر انھی کے ساتھ بصرہ سے نکلا اور مدینہ روانہ ہو گیا۔

یکم رجب ۳۶ھ، سنیچرکا دن تھاجب حضرت علی نے سیدہ عائشہ کوسواریاں،سازوسامان دے کر بڑے اہتمام کے ساتھ مکہ کی طرف روانہ کیا۔ان کے بھائی محمد بن ابوبکر اور بصرہ کی چالیس معززعورتوں کو ان کے ساتھ چلنے کو کہا۔ بوقت رخصت حضرت علی دروازے پر کھڑے تھے ۔حضرت عائشہ باہرنکلیں، حاضرین کو الوداع کہا، ان کے لیے دعائے خیر کی اور نصیحت فرمائی: بچو! ایک دوسرے سے رنجور نہ ہونا۔علی سے میری رنجش اتنی ہی تھی، جتنی ایک عورت کی سسرال والوں سے ہوتی ہے۔وہ میری خفگی کے باوجود بہت خیر رکھنے والے ہیں۔حضرت علی ان کے ساتھ کئی میل تک چلے اور ان کے بیٹوں نے دن بھر ان کا ساتھ دیا۔حضرت عائشہ بصرہ سے مکہ پہنچیں اور حج کرنے کے بعد مدینہ واپس روانہ ہو گئیں۔

حضرت عائشہ نے شیخین کے عہد ہاے خلافت میں کبھی سیاسی امور میں حصہ نہیں لیا۔حضرت عثمان کے پہلے چھ سال بھی امن و سکون سے گزرے، لیکن بعد میں جب کچھ لوگوں کو خلیفۂ سوم سے شکایات پیدا ہوئیں تو وہ ام المومنین ہونے کی حیثیت سے اپنا نقطۂ نظر حضرت عائشہ کے گوش گزار کرتے۔حضرت عائشہ سب کو صبر وتحمل کی تلقین کرتیں اور کسی گروہ بندی میں حصہ نہیں لیا۔ جنگ جمل میں حصہ لینے کو اپنی اجتہادی غلطی سمجھتی تھیں جس کا انھیں عمربھرقلق رہا۔ جب وہ ’وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ‘، ’’اے ازواج نبی! اپنے گھروں میں ٹک کر رہو‘‘(الاحزاب ۳۳: ۳۳)کی آیت تلاوت کرتیں تو رونے لگتیں، حتیٰ کہ ان کی اوڑھنی بھیگ جاتی۔

حضرت علی کو معلوم ہوا کہ دو شخص حضرت عائشہ کو گالیاں نکال رہے ہیں تو انھوں نے ان کو سو سو کوڑے لگانے کا حکم دیا۔

حضرت عائشہ حج کے بعد مکہ سے لوٹیں تو حضرت اسید بن حضیر ان کے ساتھ تھے۔حضرت اسید کواپنی بیوی کی موت کی خبرملی تو رنجیدہ ہوگئے۔حضرت عائشہ نے کہا: ابویحیےٰ، ﷲ آپ پر رحم کرے ۔آپ ایک عورت کی وفات پر اس قدر غم زدہ ہو گئے ہیں، حالاں کہ آپ کے چچا زاد سعد بن معاذ پر ایسی موت آئی ہے کہ عرش الٰہی ہل گیا ہے۔

مطالعۂ مزید: السیرۃ النبوےۃ(ابن ہشام)،الطبقات الکبریٰ (ابن سعد)،الجامع المسند الصحیح المختصر (بخاری، شرکۃ دار الارقم) المسند الصحیح المختصر من السنن (مسلم، شرکۃ دار الارقم)، تاریخ الامم والملوک (طبری)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب(ابن عبدالبر)، المنتظم فی تواریخ الملوک و الامم (ابن جو زی)، الکامل فی التاریخ (ابن اثیر)، اسدالغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ (ابن اثیر)، سیر اعلام النبلاء (ذہبی)، البداےۃ والنہاےۃ (ابن کثیر)، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ (ابن حجر)، اردو دائرۂ معارف اسلامیہ (مقالہ، امین ﷲ وثیر)، Wikipedia, the free encyclopedia۔

[باقی]

 

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت جون 2018
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی
Uploaded on : Sep 14, 2019
6111 View