ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا (5) - ڈاکٹر وسیم مفتی

ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا (5)

 سوتاپا

حضرت عائشہ فرماتی ہیں: مجھے خدیجہ کے علاوہ نبی صلی ﷲ علیہ وسلم کی کسی زوجہ سے سوتاپا محسوس نہیں ہوا حالاں کہ وہ میری شادی سے تین سال پہلے وفات پا چکی تھیں۔ میں نے ان کو نہیں دیکھا، آپ اکثر ان کا ذکر خیر کیا کرتے تھے، انھیں جنت میں موتیوں کے گھر کی بشارت دی۔آپ جب بکری ذبح کرتے تو اس کے اعضا خدیجہ کی سہیلیوں کو بھیجتے۔ بسا اوقات میں کہتی: کیا خدیجہ کے علاوہ دنیا میں کوئی عورت نہیں؟ آپ ان کی تعریفیں کرتے کہ وہ ایسی تھیں،وہ ایسی تھیں۔انھی سے میرے بچے ہوئے (بخاری، رقم ۳۸۱۷۔ مسلم، رقم ۶۳۵۸)۔ ایک بار حضرت خدیجہ کی بہن حضرت ہالہ آں حضرت صلی ﷲ علیہ وسلم سے ملنے آئیں تو آپ بہت خوش ہوئے اور فرمایا: یاﷲ! ہالہ بنت خویلد۔ حضرت عائشہ کو بہت جلن ہوئی اور کہا: آپ کیاقریش کی سرخ گالوں والی بوڑھی عورتوں کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔ﷲ نے آپ کو ان کا بہتر بدل دے دیا ہے۔یہ سن کر (دوسری روایت: غصے سے) آپ کا چہرے کا رنگ متغیر ہو گیا، اس قدرجتنا نزول وحی یا آندھی، طوفان کے آنے پر ہوتا تھا (بخاری، رقم ۳۸۱۸۔ مسلم، رقم ۶۳۶۳۔ موسوعۂ مسند احمد، رقم ۲۵۲۱۰)۔ حضرت عائشہ کہتی ہیں: میں نے سوچا ،اب کبھی خدیجہ کی برائی نہیں کروں گی۔ ایک سیاہ فام عورت آں حضور صلی ﷲ علیہ وسلم سے ملنے آئی تو آپ نے بہت اچھی طرح اس کا استقبال کیا۔ حضرت عائشہ نے کہا: یا رسول ﷲ، ایک حبشیہ کی اس قدر آؤبھگت؟ فرمایا: یہ خدیجہ کے پاس بہت آتی تھی۔ اچھی طرح میل ملاقات کرنا ایمان کا حصہ ہے۔آں حضور صلی ﷲ علیہ وسلم کے پاس بہ یک وقت نو ازواج رہیں۔آپ ہر بیوی کے پاس ایک دن رہتے۔باقی ازواج مطہرات، البتہ باری والی زوجہ کے پاس اکٹھی ہو جاتیں۔ ایک دفعہ حضرت عائشہ کی باری تھی، جب حضرت زینب (ابن ماجہ کی روایت کے مطابق )بلا اجازت ان کے حجرے میں داخل ہوئیں۔ (آپ کو معلوم نہ تھا کہ حضرت زینب موجود ہیں، اندھیرے میں)آپ نے ان کی طرف ہاتھ بڑھایاتھاکہ حضرت عائشہ بولیں: یہ زینب ہیں۔ آپ نے ہاتھ کھینچ لیا،اس پران دونوں میں تکرار ہونے لگی اور ان کی آوازیں بلند ہو گئیں۔ادھر نماز کھڑی ہونے لگی تو حضرت ابوبکر نے آپ کوبلا لیا۔ حضرت عائشہ بولیں: ابھی نماز ادا کرنے کے بعد میرے والد مجھے خوب ڈانٹیں گے۔ایسا ہی ہوا،حضرت ابوبکر نے انھیں سختی سے ڈانٹا، تم آں حضرت صلی ﷲ علیہ وسلم کے سامنے اس طرح بولتی ہو؟ (مسلم، رقم ۳۸۱۶)۔ایک بار رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم حضرت عائشہ کے پاس آئے تو انھوں نے پوچھا: آج کہاں رہے؟ فرمایا: اے حمیرا! ام سلمہ کے پاس تھا۔ کہا: ام سلمہ سے آپ کا جی نہیں بھرتا؟مجھے بتائیں، اگر آپ ایک وادی کے دو کناروں پر اتریں، ایک سے گھاس چرا لی گئی ہو اور دوسرے کنارے پر کوئی گھاس کھانے والا نہ آیا ہو ،آپ جانور کہاں چرانا چاہیں گے؟ فرمایا: وہ جس کا سبزہ چکھا نہ گیا ہو۔میں آپ کی دوسری عورتوں کی طرح نہیں۔میرے علاوہ ہر عورت دوسرے مرد کے پاس رہی ہے۔حضور صلی ﷲ علیہ وسلم مسکرا دیے (بخاری، رقم ۵۰۷۷)۔شاہ روم مقوقس نے رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کو ایک قبطی باندی ہدیہ کی ۔حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ وہ حاملہ ہوئی تو مجھے پریشانی لگ گئی۔ ابراہیم کی ولادت ہوئی، لیکن ماریہ کو دودھ نہ آتا تھا۔ آپ نے بچے کے لیے دودھ دینے والی بھیڑ خریدی جس کا دودھ پی کر وہ موٹا اور سرخ وسفید ہو گیا۔ ایک دن آپ ابراہیم کو اپنی گردن پر اٹھا کر لائے اور پوچھا: عائشہ، بچے کی (مجھ سے) مشابہت کے بارے میں کیا خیال ہے؟میں نے سوتاپے کی وجہ سے کہا: مجھے تو (آپ سے) کوئی مشابہت نظر نہیں آتی۔ فرمایا: بچے کی صحت کے بارے میں کیا کہتی ہو؟میں نے کہا: جو بھیڑوں کا دودھ پیتا ہو ، پنپ ہی جاتا ہے۔حضرت عائشہ فرماتی ہیں: میں ان عورتوں سے چڑتی تھی جو اپنا آپ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کو ہبہ کر دیتی تھیں۔ میں کہتی تھی: بھلا کوئی عورت اپنے تئیں ہبہ کر سکتی ہے؟ جب ﷲ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری: ’تُرْجِیْ مَنْ تَشَآءُ مِنْھُنَّ وَتُـٔۡوِیْٓ اِلَیْکَ مَنْ تَشَآءُ وَمَنِ ابْتَغَیْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْکَ‘، ’’اے نبی، اپنی بیویوں میں جس کو چاہیں، الگ رکھیں اور جسے چاہیں، اپنے پاس رکھیں۔اور جسے چاہیں، الگ کرنے کے بعدواپس بلا لیں، اس میں بھی کوئی حرج نہیں‘‘ (الاحزاب ۳۳: ۵۱) تو میں نے کہا: مجھے لگتا ہے ،آپ کا رب آپ کی خواہش پوری کرنے میں جلدی کرتا ہے (بخاری، رقم ۴۷۸۸۔ مسلم، رقم ۳۶۲۱)۔ ابن حجر کہتے ہیں: کئی صحابیات نے اپنی جان رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کو بخشی، مگر آپ کسی ایک کونکاح میں نہ لائے، کیونکہ یہ آپ کے منشا پر موقوف تھا۔ ’اِنْ اَرَادَ النَّبِیُّ اَنْ یَسْتَنْکِحَھَا‘، ’’بشرطیکہ نبی اس کو اپنے نکاح میں لانا چاہیں‘‘ (الاحزاب ۳۳: ۵۰)۔ ابن حجر نے حضرت میمونہ کے واہبہ ہونے کا بھی رد کیا ہے۔ام المومنین حضرت سودہ بنت زمعہ نے اپنی باری کا دن حضرت عائشہ کو دے دیا تھا۔چنانچہ آں حضور صلی ﷲ علیہ وسلم حضرت عائشہ کے ہاں دو دن قیام فرماتے۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں: سودہ کے علاوہ کوئی عورت ایسی نہیں کہ میرااس جیسے طور طریقے اختیار کرنے کو دل چاہے، مگر ان میں بھی تندی تھی (مسلم، رقم ۳۶۱۹)۔ایک بار حضرت صفیہ بنت حیی اور حضرت عائشہ میں جھگڑا ہوا۔دونوں نے ایک دوسرے کے باپ کو برا بھلا کہا۔ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے سنا تو فرمایا: صفیہ، تم ابوبکر کو گالی دے رہی ہو۔حضرت عمر فرماتے ہیں: نبی صلی ﷲ علیہ وسلم کی ازواج آپس کے رشک و رقابت کی وجہ سے آپ سے روٹھ گئیں تو میں نے ان سے کہا: نبی صلی ﷲ علیہ وسلم تمھیں طلاق دیں توبڑی امید ہے کہ ان کا رب انھیں،بدلے میں تم سے بہتر بیویاں دے دے، تو اسی مضمون کی آیت (التحریم ۶۶: ۵) نازل ہو گئی (بخاری، رقم ۴۹۱۶)۔ایک سفر میں نبی صلی ﷲ علیہ وسلم کے ساتھ جانے کے لیے حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ کے نام قرعہ نکلا۔ رات کے سفر میں گفتگو کرنے کے لیے آپ حضرت عائشہ کو اپنے ساتھ رکھتے تھے۔حضرت حفصہ کو اس پر رشک آیا، انھوں نے حضرت عائشہ سے کہا: تم میرے اونٹ پر سوار ہو جاؤ اور میں تمھارا اونٹ پکڑ لیتی ہوں۔دیکھتی جاؤ!کیا بنتا ہے؟رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم حضرت عائشہ کے اونٹ کے پاس گئے اور حضرت حفصہ کو سلام کیا۔رات بھر کے سفر کے بعد پڑاؤ کا وقت آیا توحضرت عائشہ آپ سے دور رہ گئیں۔وہ نبی صلی ﷲ علیہ وسلم سے شکوہ تو نہ کر سکتی تھیں۔اس لیے زمین پر اترتے ہی اپنے پاؤں اذخر گھاس میں ڈال دیے جس میں سانپ بچھوؤں کا بسیرا ہوتا ہے اور رنج کے باعث دعا کرنے لگیں: اے رب، ڈسنے کے لیے مجھ پرکوئی سانپ بچھو ہی مسلط کر دے (بخاری، رقم ۵۲۱۱۔ مسلم، رقم ۶۳۷۹)۔نبی صلی ﷲ علیہ وسلم اپنی ایک زوجہ (حضرت عائشہ )کے پاس تھے۔اتنے میں ایک دوسری بی بی (حضرت زینب یا حضرت صفیہ )نے کھانے سے پر رکابی بھیجی۔اس اہلیہ (حضرت عائشہ ) نے جس کے ہاں نبی صلی ﷲ علیہ وسلم تھے، لانے والے خادم کے ہاتھ پر ایک ضرب لگائی تو رکابی گر کر ٹوٹ گئی ۔آپ نے رکابی کے ٹکڑے اور گرا ہواکھانا اکٹھا کیا اور فرمایا: تمھاری اماں(ام المومنین )کو رشک آگیا تھا۔خادم کو روک کر آپ نے گھر سے نئی رکابی دے کر رخصت کیا (بخاری، رقم ۵۲۲۵)۔

نماز کسوف

۱۰ھ (جون ۶۳۱ء)میں نبی صلی ﷲ علیہ وسلم کے صاحب زادے حضرت ابراہیم نے اٹھارہ(یاسولہ) ماہ کی عمر میں وفات پائی۔اتفاق سے اس موقع پر سورج کو گرہن لگ گیاتو لوگوں نے اسے حضرت ابراہیم کا سوگ قرار دیا۔ آپ نے فرمایا: چاند سورج ﷲ کی نشانیاں ہیں ، کسی کی موت یا زندگی کی وجہ سے ان پر گرہن نہیں آتا۔جب تم گرہن دیکھو تو ﷲ سے دعا مانگو،تکبیریں کہو، نماز پڑھو اور صدقہ کرو (بخاری، رقم ۱۰۴۴۔مسلم، رقم ۲۰۴۶)۔ پھرآپ نے نماز کسوف کی دو رکعتیں پڑھائیں، ہر رکعت میں تین رکوع (دوسری روایات: دو رکوع،چار رکوع)اور دو سجدے کیے۔ رکوع و قیام کو خوب لمبا کیا۔ نماز کے دوران میں پیچھے ہٹے، پھر آگے بڑھے۔ حضرت اسماء بنت ابوبکر بتاتی ہیں کہ میں اپنی بہن حضرت عائشہ کے پاس گئی،وہ بھی کھڑی نماز پڑھ رہی تھیں۔ میں نے پوچھا: لوگ کون سی نماز پڑھ رہے ہیں؟ انھوں نے سر اونچا کر کے سورج کی طرف اشارہ کیا اور سبحان ﷲ کہا۔ میں نے کہا: یہ ایک آیت ہے؟ انھوں نے سر کی جنبش سے ہاں کا اشارہ کیا۔ نماز کے بعدمیں نے پوچھا: آپ نے کیا ارشاد فرمایا؟ حضرت عائشہ نے آپ کا یہ فرمان سنایا: مجھے یہاں سے جنت و دوزخ دکھائی گئی اور عذاب قبر اور مسیح دجال کے فتنہ کے بارے میں وحی کی گئی (بخاری، رقم ۹۲۲، ۱۰۴۶۔ مسلم، رقم ۲۰۵۷) ۔

۱۰ھ کا حج

اس برس رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر کو امیر حج مقرر فرمایا۔حضرت عائشہ فرماتی ہیں: میں نے اپنے ہاتھوں سے اپنے پاس پڑی اون سے نبی صلی ﷲ علیہ وسلم کی قربانی کے اونٹوں کے ہار بٹے ، آپ نے بذات خود یہ ہار ان کو پہنائے، ان کی کوہانیں داہنی جانب سے چیرکر قربانی کی علامت لگائی، انھیں میرے والد ابوبکر کے ساتھ مکہ کی طرف روانہ کیا اور خود مدینہ میں تشریف فرما رہے (بخاری، رقم ۱۶۹۶)۔ مسروق نے حضرت عائشہ سے مسئلہ دریافت کیا، ایک شخص (زیاد بن ابو سفیان)مصر میں بیٹھ کر قربانی کا جانور کعبہ بھیجتا ہے، اس کے گلے میں ہار ڈلواتا ہے ۔اسی دن وہ احرام باندھ لیتا ہے اورحلال نہیں ہوتا، یہاں تک کہ حاجی مکہ میں احرام کھول لیتے ہیں۔حضرت عائشہ نے (تعجب سے) تالی بجائی اور کہا: میں رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کے قربانی کے جانوروں کے ہار بٹتی، آپ ہدی کعبہ کو بھیجتے اور حاجیوں کے واپس آنے تک آپ پرتعلقات زن و شو میں سے کچھ حر ام نہ ہوتا (بخاری، رقم ۵۵۶۶۔ مسلم، رقم ۳۱۸۵)۔

نبی صلی ﷲ علیہ وسلم کا مرض وفات

حضرت عبدﷲ بن مسعود فرماتے ہیں: نبی صلی ﷲ علیہ وسلم کی وفات سے ایک ماہ قبل ہم حجرۂ عائشہ میں جمع تھے کہ آپ نے فرمایا: میرا وقت قریب آ گیا ہے ۔آپ نے نماز جنازہ اور تدفین کے بارے میں ہدایات دیتے ہوئے فرمایا: میرے قریبی اہل خانہ مجھے غسل دیں گے۔مجھے میرے ہی کپڑوں ،مصر کی سفید چادریایمنی کپڑے کا کفن دیا جائے۔ میری میت کو چارپائی پر لٹا کر قبر کے کنارے رکھ دیا جائے اورکچھ دیر کے لیے سب باہر نکل جائیں تاکہ جبریل، اسرافیل ، میکائیل ، ملک الموت اور باقی فرشتے دعا کر سکیں ۔میرے اہل خانہ اور میری ازواج کے بعد عامۃ المسلمین گروہوں کی صورت میں حجرہ کے اندر آئیں، میرے لیے دعا کریں اور مجھے سلام بھیجیں۔چیخ چلا کر مجھے تکلیف نہ دی جائے۔صفر ۱۱ ھ: رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کے مرض وفات کی ابتدا ہوئی تو آپ حضرت زینب بنت جحش کے گھر میں تھے۔ اواخر صفر کی ایک نصف شب آپ نے اپنے غلام ابو مویہبہ کو جگاکر جنت البقیع چلنے کے لیے کہا اور فرما یا : مجھے اہل بقیع کے لیے دعاے مغفرت کرنے کا حکم ہوا ہے ۔دعا کرنے کے بعد فرمایا: مجھے اختیار دیا گیا ہے کہ اس وقت تک زندہ ر ہوں، جب میری قوم کو فتوحات حاصل ہوںیا جلدی اپنے رب کے پاس بلا لیا جاؤں۔ میں نے تعجیل پسند کی ہے (مسند احمد، رقم ۱۵۹۹۷۔ مستدرک حاکم، رقم ۴۳۸۳)۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں: جس وقت آپ بقیع سے واپس آئے، میرے سر میں درد ہو رہا تھا۔میں نے ہائے میرا سر! کہا تو فرمایا: نہیں عائشہ! میرا سر بھی دکھ رہا ہے۔آپ نے ازراہ مزاح فرمایا: اگر تو مجھ سے پہلے فوت ہو گئی تو میں تمھیں کفن دے کر ،جنازہ پڑھ کر دفنا دوں گا۔ حضرت عائشہ نے جواب دیا: تب تو آپ میرے ہی گھر میں اپنی دوسری اہلیہ لے آئیں گے (بخاری، رقم ۵۶۶۶۔ موسوعۂ مسند احمد، رقم ۲۵۹۰۸)۔ آپ مسکرائے، لیکن سر کادرد برقرار رہا ۔یہ آپ کے مرض وفات کی ابتدا تھی ،جس روز تکلیف بڑھی، آپ سیدہ میمونہ کے گھرمیں تھے۔ آپ بار بار پوچھتے: میں کل کہاں رہوں گا؟ (بخاری، رقم ۵۲۱۷۔ مسلم، رقم ۳۶۷۳)۔ آخرکار، تمام ازواج مطہرات کو بلا کرکہا: میرے لیے باری باری تم سب کے گھر جانا مشکل ہو گیا ہے، اس لیے اجازت دو کہ ایام علالت ایک کے گھر گزار لوں۔ حضرت ام سلمہ نے کہا: ہمیں سمجھ آ گیا ہے کہ آپ عائشہ کے پاس رہنا چاہتے ہیں۔ ہماری طرف سے اجازت ہے (بخاری، رقم ۳۰۹۹)۔ حضرت علی اور حضرت فضل بن عباس کا سہارا لیتے ہوئے آپ حجرۂ سیدہ عائشہ میں تشریف لائے (بخاری، رقم ۴۴۴۲)۔ حضرت ام سلمہ اور حضرت میمونہ آپ کی تیمارداری میں بعد میں بھی شریک رہیں۔ اسی مرض کے دوران میںآپ نے فرمایا: اے عائشہ، میں خیبر میں کھائے ہوئے زہریلے کھانے کی تکلیف برابر محسوس کرتا رہا ہوں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ اس زہر کے اثر سے مجھے اپنی شہ رگ کٹنے کا احساس ہو رہا ہے (بخاری، رقم ۴۴۲۸)۔درد میں اضافہ ہوا تو فرمایا: مجھ پر سات منہ بندبھری ہوئی مشکوں کا پانی بہاؤ،ہو سکتا ہے، میں لوگوں سے کچھ بات کروں۔حضرت عائشہ فرماتی ہیں: ہم نے حفصہ کے طشت میں آپ کو بٹھا کر پانی بہایا، حتیٰ کہ آپ نے فرمایا: بس! کافی ہے(بخاری، رقم ۱۹۸)۔ پھرسر باندھ کر حجرے سے باہر گئے ۔نماز پڑھا کر منبر پر تشریف فرما ہوئے، پہلے اصحاب احد کے لیے دیر تک دعاے مغفرت کی، پھر فرمایا: ﷲ کے بندوں میں سے ایک بندے کو ﷲ نے اختیار دیا ہے کہ دنیا میں رہے یا اس کے پاس آجائے تو اس نے ﷲکا قرب پسند کر لیا ہے۔ حضرت ابوبکر آپ کی بات سمجھ کر رونے لگ گئے تو ان کو تسلی دی اور فرمایا: مسجد میں کھلنے والے سب دروازوں کو بند کردو، سوائے دریچۂ ابوبکر کے (بخاری، رقم ۶۶۵)۔نبی صلی ﷲ علیہ وسلم مسجد سے واپس آئے تو حضرت عائشہ کی گود میں لیٹ گئے اور معوذات پڑھ کر اپنے دست مبارک سے دم کرنے لگے۔ یہ آپ کا پہلے سے معمول تھا۔ جب مرض شدید ہو گیا تو سیدہ عائشہ معوذتین پڑھتیں اور آپ کا ہاتھ پکڑ کے آپ کے جسم مبارک پر پھیرتی رہیں (بخاری، رقم ۴۴۳۹۔ مسلم، رقم ۵۷۶۶)۔ افاقہ ہوتا تو آپ اپنی چادر منہ پر اوڑھ لیتے اور جب تکلیف ہوتی تو اسے چہرے سے ہٹا دیتے۔ اسی کیفیت میں آپ نے فرمایا: ﷲ یہود و نصاریٰ پر لعنت کرے، انھوں نے اپنے انبیا کی قبروں کو مسجدیں بنا لیا (بخاری، رقم ۴۳۵۔ مسلم، رقم ۱۱۲۴)۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں: ہم نے نبی صلی ﷲ علیہ وسلم کو (جب آپ ہوش میں نہ تھے) دوا پلائی تو آپ اشارہ کرتے رہے کہ مجھے دوا نہ پلاؤ۔ ہم نے یہی سمجھا کہ ہر بیمار آدمی دوا پینے سے کراہت محسوس کرتا ہے، جب آپ کو ہوش آیا تو فرمایا: میں نے تمھیں دوا پلانے سے روکا نہ تھا۔ ہم نے کہا: سب مریض دوا پینے سے انکار کرتے ہیں ۔ فرمایا: میری آنکھوں کے سامنے گھر میں موجود ہر فرد کو (تادیباً) دوا پلائی جائے۔ عباس کو رہنے دیا جائے، کیونکہ وہ تمھارے ساتھ موجود نہ تھے (بخاری، رقم ۴۴۵۸۔ مسلم، رقم ۵۸۱۳)۔ دوسری روایت میں آپ کا یہ ارشاد نقل ہوا: یہ ان عورتوں کا کام ہے جو وہاں (حبشہ) سے آئی ہیں۔(مصنف عبدالرزاق:) وفات سے پہلے آپ کا سر مبارک حضرت عائشہ کی چھاتی اور گردن کے درمیان ٹکا ہوا تھا اوردہن مبارک حضرت عائشہ کے منہ کے ساتھ لگا ہوا تھا۔فرماتی ہیں: آخری لمحات میں آپ اپنے پاس پڑے پانی کے برتن میں ہاتھ ڈالتے اور چہرے پر پھیر لیتے اور فرماتے: ’’لا الٰہ الا ﷲ! بے شک موت کی بہت سختیاں ہیں‘‘ (بخاری، رقم ۴۴۴۹۔ ترمذی، رقم ۹۷۸۔ سنن الکبریٰ، نسائی، رقم ۱۷۰۱)۔ آپ نے فرمایا: میری شدت تکلیف کو اس بات نے کم کردیاکہ میں نے جنت میں عائشہ کی ہتھیلی کی چمک دیکھی (موسوعۂ مسند احمد، رقم ۲۵۰۷۶)۔ وفات سے کچھ دیر پہلے میرے بھائی عبدالرحمن بن ابوبکر ہاتھ میں تر مسواک پکڑے آئے۔ آپ کی نظر مسواک پر پڑی تو مجھے خیال آیاکہ آپ مسواک کرنا بہت پسند کرتے ہیں۔ میں نے پوچھا: کیا مسواک دوں؟ آپ نے سر کے اشارے سے ہاں کیا تو میں نے مسواک لے کر اسے دانتوں سے کاٹا پھر چبا کر نرم کیا اور آپ کودے دی ۔ آپ نے اسی حالت میں،میرے سینے سے لگے ،اچھی طرح مسواک کی۔ مسواک واپس دینے لگے تھے کہ وہ آپ کے ہاتھ سے گر گئی (بخاری، رقم ۴۴۵۱۔ موسوعۂ مسند احمد، رقم ۲۵۶۴۰)۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں: نبی صلی ﷲ علیہ وسلم نے اس حال میں جان، جان آفریں کے سپر د کی کہ آپ کا سر میری ہنسلیوں اور ٹھوڑی کے مابین ٹکا ہوا تھا۔ آپ کی بیماری کے دوران میں جبریل جو دعا کرتے تھے، میں بھی وہ دعا کرتی رہی ۔ آپ نے آسمان کی طرف نگاہ اٹھائی، انگشت شہادت بلند کی اور فرمایا: ’في الرفیق الأعلٰی، اللّٰہم الرفیق الأعلٰی‘، ’’اعلیٰ رفیق کی معیت میں، اے ﷲ، اعلیٰ ہم راہی‘‘! یہ آپ کی زبان مبارک سے ادا ہونے والا آخری کلمہ تھا (بخاری، رقم ۳۶۶۹۔ موسوعۂ مسند احمد، رقم ۲۴۲۱۶)۔ دوسری روایت کے الفاظ ہیں: ’اللّٰہم اغفر لي وارحمني وألحقني بالرفیق‘، ’’اے ﷲ مجھے بخش دے، مجھ پر رحم کر اور مجھے اپنے رفیق سے ملا دے‘‘ (بخاری، رقم ۴۴۴۰۔ مسلم، رقم ۶۳۷۴)۔ نسائی اور بیہقی کی روایات میں آپ کی دعا اس طرح ہے: ’اللّٰہم اغفرلي وارحمني، في الرفیق الأعلٰی الاسعد مع جبریل ومیکائیل وإسرافیل‘، ’’اے ﷲ مجھے بخش دے اور مجھ پر رحم کر۔ اعلیٰ، خوش بخت ہم راہی کے ساتھ، جبریل، میکائیل اور اسرافیل علیہم السلام کی معیت میں‘‘ (السنن الکبریٰ، نسائی، رقم ۷۱۰۴، ۱۰۹۳۶۔ دلائل النبوۃ، بیہقی: ۷/ ۲۰۹)۔ آپ کے آخری سانس نکلے تو مجھے ایسی عمدہ خوشبو آئی جو میں نے پہلے کبھی محسوس نہ کی تھی(موسوعۂ مسند احمد، رقم ۲۴۹۰۵)۔
الرفیق الأعلٰی‘ کی وضاحت حضرت عائشہ کی اس روایت سے ہوتی ہے،رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم جب تندرست تھے، فرمایا کرتے تھے: کسی نبی کی جان اس وقت تک قبض نہیں کی جاتی، جب تک اسے جنت میں اس کا مقام دکھا نہیں دیا جاتا، پھر اسے اختیار دیا جاتا ہے، زندہ رہے یا آخرت کو اختیار کر لے۔ آخری مرض میں جب آپ کی آواز بھاری ہو چکی تھی، میں نے آپ کو یہ آیت تلاوت کرتے سنا: ’مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّھَدَآءِ وَالصّٰلِحِیْنَ وَحَسُنَ اُولٰٓـِٔکَ رَفِیْقًا‘، ’’ان لوگوں کی معیت میں جن پر ﷲ نے انعام کیا ہے، یعنی انبیا، صدیقوں کا گروہ، شہدا اور صالحین،ساتھی ہونے میں یہ لوگ کتنے ہی اچھے ہیں‘‘ (النساء ۴: ۶۹) تو سمجھ آگیا کہ آپ کا اختیار دریافت کر لیا گیا ہے(بخاری، رقم ۴۴۳۷۔ مسلم، رقم ۶۳۷۸۔ مسند طیالسی، رقم ۱۴۵۶)۔ نبی صلی ﷲ علیہ وسلم سے بڑھ کر کسی پر تکلیف نہ آئی ہو گی (بخاری، رقم ۵۶۴۶۔ مسلم، رقم ۶۶۴۹)۔ آپ کے بعداب مجھے کسی کی موت کی سختی محسوس نہیں ہوتی (بخاری، رقم ۴۴۴۶)۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں: میری نادانی اور کم عمری دیکھو،میں نے آپ کا سر تکیے پر رکھ دیا اور عورتوں سے مل کر سینہ کوبی کرنے اور اپنا چہرہ پیٹنے لگی۔حضرت عائشہ سے پوچھا گیا: کیا رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے حضرت علی کے حق میں وصیت کی؟انھوں نے کہا: وفات کے وقت آپ کا سر میری گود میں تھا تو آپ نے کس وقت وصیت فرمائی؟آپ نے طشت منگوایا اور میری گود میں جھک کر لٹک گئے ۔مجھے آپ کی جان نکلنے کی خبر بھی نہ ہو سکی تو آپ نے علی کووصی کس وقت بنایا؟ (بخاری، رقم ۲۷۴۱۔ مسلم، رقم ۴۲۴۰۔ موسوعۂ مسند احمد، رقم ۲۴۰۳۹)۔ آپ کا آخری حکم تھا: جزیرۂ عرب میں دو دین نہ رہنے دیے جائیں۔ ایسی روایات بھی پائی جاتی ہیں کہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے آخری وقت میں حضرت علی کو بلایا ۔ انھوں نے آپ کو سینے سے لگایاہی تھا کہ آپ کی وفات ہو گئی۔آں حضور صلی ﷲ علیہ وسلم کی قبر مبارک حجرۂ عائشہ میں اسی مقام پر بنائی گئی، جہاں آپ نے وفات پائی تھی۔ آپ کا بستر اٹھا کر اس کے نیچے قبر کھودی گئی۔ مرض وفات کے دوران میں آپ نے فرمایا تھا: ﷲ یہود پر لعنت کرے، انھوں نے اپنے انبیا کی قبروں کو مساجد بنا لیا۔حضرت عائشہ فرماتی ہیں: اگر یہ ڈر نہ ہوتا کہ آپ کی قبر کو سجدہ گاہ بنا لیا جائے گا،آپ کی تدفین حجرۂ مبارکہ سے باہر کی جاتی (بخاری، رقم ۴۴۴۱۔ مسلم، رقم ۱۱۲۱)۔ حضرت عائشہ ہی کی روایت ہے کہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کو غسل دینے کا موقع آیا تو صحابہ باہم مشورہ کرنے لگے۔آپ کے کپڑے اتار کر غسل دیا جائے یا کپڑوں سمیت؟ اسی اثنا میں سب پر نیند طاری ہو گئی اورغیبی متکلم نے آواز دی کہ نبی کو کپڑوں سمیت غسل دو۔ حضرت عائشہ بتاتی ہیں کہ ہمیں رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کی تدفین کی خبر بدھ کی نصف رات کو ہوئی، جب ہم نے بیلچوں کے چلنے کی آواز سنی۔ابوبردہ کہتے ہیں کہ میں حضرت عائشہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو انھوں نے مجھے ایک موٹا یمنی تہ بند اور ایک اونی چادر (ملبدہ) دکھائی اور بتایاکہ آں حضور صلی ﷲ علیہ وسلم کی وفات ان کپڑوں میں ہوئی تھی (بخاری، رقم ۳۱۰۸۔ مسلم، رقم ۵۴۹۳۔ ابوداؤد ، رقم ۴۰۳۶)۔ حضرت عائشہ کے پاس ایرانی سبز چادرکا ایک جبہ تھا جس کے کالر (گریبان) اور دامن پر موٹا ریشم لگا ہوا تھا۔نبی صلی ﷲ علیہ وسلم اسے پہنا کرتے تھے۔ حضرت عائشہ کی وفات کے بعد یہ حضرت اسماء بنت ابوبکر کو مل گیا (مسلم، رقم۵۴۶۰)۔

حضرت ابو بکر کا متوقع خلیفۂ رسول ہونا

حضرت عائشہ سے روایت ہے،رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے اپنے مرض وفات میں فرمایا: ابوبکر اورا ن کے بیٹے کو بلا لوتاکہ کوئی طمع کرنے والا امر خلافت میں طمع نہ کرے اور کہے کہ میں زیادہ حق دار ہوں، پھر فرمایا: ﷲ اور اہل ایمان ایسا نہ کرنے دیں گے (بخاری، رقم ۵۶۶۶۔ مسلم، رقم ۶۲۵۷۔ موسوعۂ مسند احمد، رقم ۲۴۷۵۱)۔ یہ روایات ایسے ہی مضمون پر مشتمل دوسری کئی روایات کے برعکس ہیں جن میں حضرت علی کا وصی ہونا بتایا گیا ہے۔ حضرت بلال نبی صلی ﷲعلیہ وسلم کو نماز کی اطلاع دینے آئے تو فرمایا: ’’ ابو بکر کو کہو، لوگوں کو نماز پڑھائیں۔‘‘ حضرت عائشہ نے کہا: ’’یا رسول ﷲ! ابوبکر رقیق القلب ہیں۔ جب آپ کی جگہ (نماز پڑھانے) کھڑے ہوں گے، گریہ کی وجہ سے لوگوں کو (تلاوت) سنا نہ پائیں گے۔ آپ عمر سے کیوں نہیں کہتے؟‘‘ پھر حضرت عائشہ نے حضرت حفصہ سے کہا: یہ بات آپ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کے گوش گزار کریں۔حضرت حفصہ سے یہ مشورہ دوبارہ سننے پر آپ نے فرمایا: ’’تم تو بالکل یوسف کی ساتھی عورتوں جیسی ہو (اپنے دل کی بات چھپا کر رکھتی ہو۔ جس طرح زلیخا نے عورتوں کی ضیافت بظاہر ان کی عزت افزائی کے لیے کی ،مقصد انھیں حسن یوسف سے مرعوب کر کے اپنی محبت کی صفائی پیش کرنا تھا ایسے ہی حضرت عائشہ نے حضرت ابو بکر کی نرم دلی کا ذکر کرکے امامت حضرت عمر کو سونپنے کی تجویز دی ،مقصد ان کو بار خلافت سے بچانا تھا)۔ ابوبکر کو کہو ،لوگوں کو نماز پڑھائیں۔‘‘ حضرت حفصہ کو ڈانٹ پڑی تو حضرت عائشہ سے گلہ کیا: مجھے تم سے بھلائی ملنے والی نہیں (بخاری، رقم ۷۳۰۳)۔ حضرت عائشہ نے ا س معاملے کی وضاحت اس طرح کی کہ میں نہ سمجھتی تھی کہ جو شخص آپ کا قائم مقام ہو گا، لوگ اس سے ہمیشہ محبت ہی کریں گے۔ میرا خیال تھا کہ لوگ آپ کے جانشین کو سبزقدم سمجھنا شروع ہو جائیں گے، اس لیے چاہا کہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم ابوبکر کا خیال چھوڑ دیں (بخاری، رقم ۴۴۴۵۔ مسلم، رقم ۴۱۸،۹۳)۔ دوسری روایت میں ہے کہ حضرت عمر نے ایک نماز پڑھائی تو آپ نے حضرت ابوبکر کو بلانے کا حکم دیا (ابوداؤد، رقم ۴۶۶۰)۔ حضرت ابوبکر نماز پڑھا رہے تھے کہ آں حضرت صلی ﷲ علیہ وسلم کو کچھ افاقہ محسوس ہوا۔ آپ حضرت عباس اور ایک صحابی کا سہارا لیتے ہوئے مسجد میں آئے۔حضرت ابوبکر نے پیچھے ہٹنا چاہا، لیکن آپ نے انھیں اپنی جگہ پر رہنے کا اشارہ کیا۔ آپ ان کے پہلو میں بیٹھ گئے۔حضرت ابوبکر آپ کی اقتدا کرنے لگے اور لوگ حضرت ابوبکر کی امامت میں نماز پڑھنے لگے (بخاری، رقم ۶۸۶)۔ پیر کے دن صحابہ فجر کی نماز پڑھ رہے تھے کہ آپ نے حجرۂ عائشہ کا پردہ ہٹا کر دیکھا اور اہل ایمان کو صفوں میں دیکھ کر مسکرائے۔ حضرت ابوبکر یہ سمجھ کر کہ آپ آنے لگے ہیں،پہلی صف کی طرف ہٹنے لگے، لیکن آپ نے نماز جاری رکھنے کا اشارہ کیا اور پردہ گرا کر حجرے میں واپس تشریف لے گئے۔یہ آپ کی حیات دنیوی کا آخری دن تھا (بخاری، رقم ۶۸۰)۔

وراثت رسول اور امہات المومنین

آں حضور صلی ﷲ علیہ وسلم کی وفات کے وقت حضرت عائشہ کی عمر اٹھارہ برس تھی۔جس طرح حضرت فاطمہ آپ کی وارث تھیں، اسی طرح حضرت عائشہ بھی وراثت نبوی میں حصہ رکھتی تھیں۔حضرت ابو بکر نے آپ کے اس فرمان پر عمل کرتے ہوئے کہ شریعت اسلامی میں انبیا کی وراثت جائز نہیں، دونوں کو کوئی حصہ نہ دیا۔البتہ مال فے سے ان کا نفقہ اور خرچہ اسی طرح نکالتے رہے، جیسے رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نکالا کرتے تھے (ترمذی، رقم ۱۶۰۸)۔حضرت عائشہ خود روایت کرتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعدآپ کی ازواج نے حضرت عثمان کو خلیفۂ اول حضرت ابوبکر کے پاس حصول وراثت کے لیے بھیجنا چاہا تو حضرت عائشہ نے یہ کہہ کر منع کر دیا کہ آپ کو رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کا فرمان یاد نہیں، ہم گروہ انبیا وراثت نہیں چھوڑتے۔ ہمارا ترکہ صدقہ شمار ہوتا ہے (بخاری، رقم ۶۷۳۰۔ مسلم، رقم ۴۶۰۰)۔حضرت فاطمہ اور حضرت عباس میراث نبوی میں سے فدک اور خیبر کا حصہ مانگنے حضرت ابوبکر کے پاس گئے (بخاری، رقم ۶۷۲۵۔ مسلم، رقم ۴۶۰۲)تو انھوں نے فرمایا: آل محمد کے لیے ﷲ کے مال میں سے کھانے پینے کے خرچ سے زیادہ لینا جائز نہیں۔ نبی صلی ﷲ علیہ وسلم کا فرمان ہے: میری ازواج کے نان و نفقہ کے بعد جو بچ رہے، صدقہ کر دیا جائے (مسلم، رقم ۴۶۰۴)۔ وﷲ!میں عہد نبوت میں ان کو دیے جانے والے وظائف میں ہر گزتبدیلی نہ کروں گااور وہی طریقہ جاری رکھوں گا جس پر آپ نے عمل فرمایا۔مجھے خدشہ ہے کہ آپ کے کسی بھی عمل کو چھوڑا تو بھٹک جاؤں گا (بخاری، رقم ۳۷۱۲۔ مسلم، رقم ۴۶۰۳)۔ حضرت فاطمہ اس بات پر ناراض ہو گئیں اوران سے بول چال ترک کر دی۔ نبی صلی ﷲ علیہ وسلم کی وفات کے چھ ماہ بعد ان کا انتقال ہواتو حضرت علی نے حضرت ابوبکر کو اطلاع دیے بغیر راتوں رات ان کی تدفین کر دی (بخاری، رقم ۴۲۴۰۔ مسلم، رقم ۴۶۰۱)۔ عامر شعبی کی روایت ہے کہ سیدہ فاطمہ کے مرض وفات میں حضرت ابوبکر ان کے گھر گئے اور یہ کہہ کر انھیں منا لیا کہ میں نے جو فیصلہ کیا ،اس سے ﷲ، رسول اور اہل بیت کی رضا جوئی مقصود تھی (السنن الکبریٰ، بیہقی، رقم ۱۲۷۳۵)۔ یعقوبی کا بیان ہے کہ جب سیدہ عائشہ نے اعتراض کیا: آپ تو اپنے باپ کی وراثت حاصل کر سکتے ہیں اور میں نہیں کر سکتی تو حضرت ابو بکر زار و قطار رونے لگے، گویا اس اعتراض پر محض ہم دردی ہی کی جا سکتی تھی۔ایسی روایت بھی پائی جاتی ہے کہ جب حضرت ابوبکر نے وراثت سے متعلق رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کا ارشادبتایا تو حضرت علی نے ﷲ کا یہ فرمان ’وَوَرِثَ سُلَیْمٰنُ دَاوٗدَ‘، ’’اور سلیمان نے داؤد کی وراثت پائی‘‘ (النمل ۲۷: ۱۶) سنایا اور حضرت زکریا کی دعا پر مشتمل یہ آیت ’یَرِثُنِیْ وَیَرِثُ مِنْ اٰلِ یَعْقُوْبَ‘، ’’جو میرا وارث ہو اوراولاد یعقوب کی وراثت پائے‘‘ (مریم ۱۹: ۶) پڑھ دی۔ تب وہ خاموش ہو گئے۔مطالعۂ مزید: السیرۃ النبویۃ (ابن ہشام)، الطبقات الکبریٰ (ابن سعد)، الجامع المسند الصحیح المختصر (بخاری، شرکۃ دار الارقم) المسند الصحیح المختصر من السنن (مسلم، شرکۃ دار الارقم)، تاریخ الامم والملوک (طبری)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (ابن عبدالبر)، احکام القرآن (ابن عربی)، المنتظم فی تواریخ الملوک والامم (ابن جوزی)، الکامل فی التاریخ (ابن اثیر)، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ (ابن اثیر)، تہذیب الکمال فی اسماء الرجال (مزی)، سیر اعلام النبلاء (ذہبی)، البدایۃ و النہایۃ (ابن کثیر)، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ (ابن حجر)، اردو دائرۂ معارف اسلامیہ (مقالہ، امین ﷲ وثیر)، Wikipedia, the free encyclopedia ۔

[باقی]
بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت مئی 2018
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی
Uploaded on : Aug 03, 2019
7820 View