دین حق: چند منتخب احادیث - محمد رفیع مفتی

دین حق: چند منتخب احادیث

 اسلام، ایمان اور احسان  

۱۔ عَنْ عُمَرَ بنِ الْخَطَّابِ قال: بَیْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رسول اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَاتَ یَوْمٍ إِذْ طَلَعَ عَلَیْنَا رَجُلٌ شَدِیدُ بَیَاضِ الثِّیَابِ شَدِیدُ سَوَادِ الشَّعَرِ لَا یُرَی علیہ أَثَرُ السَّفَرِ ولا یَعْرِفُہُ مِنَّا أَحَدٌ حتی جَلَسَ إلی النبی صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَسْنَدَ رُکْبَتَیْہِ إلی رُکْبَتَیْہِ وَوَضَعَ کَفَّیْہِ علی فَخِذَیْہِ وقال یا محمد أَخْبِرْنِی عن الْإِسْلَامِ فقال رسول اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:الْإِسْلَامُ أَنْ تَشْہَدَ أَنْ لَا إِلَہَ إلا اللہ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رسول اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَتُقِیمَ الصَّلَاۃَ وَتُؤْتِیَ الزَّکَاۃَ وَتَصُومَ رَمَضَانَ وَتَحُجَّ الْبَیْتَ إن اسْتَطَعْتَ إلیہ سَبِیلًا ، قال: صَدَقْتَ، قال: فَعَجِبْنَا لہ یَسْأَلُہُ وَیُصَدِّقُہُ قال: فَأَخْبِرْنِی عن الْإِیمَانِ قال: أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّہِ وَمَلَاءِکَتِہِ وَکُتُبِہِ وَرُسُلِہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَتُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَیْرِہِ وَشَرِّہِ، قَالَ: صَدَقْتَ، قال: فَأَخْبِرْنِی عن الْإِحْسَانِ قال:أَنْ تَعْبُدَ اللَّہَ کَأَنَّکَ تَرَاہُ فَإِنْ لم تَکُنْ تَرَاہُ فإنہ یَرَاکَ.(مسلم، رقم 93)

عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن جب کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک انتہائی سفید کپڑوں اور نہایت سیاہ بالوں والا شخص نمودار ہوا ہے، اُس پر نہ سفر ہی کے کوئی آثار تھے اور نہ ہم میں سے کوئی اُسے پہچانتا تھا۔ (وہ آگے بڑھا )یہاں تک کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنوں سے گھٹنے ملا کر بیٹھ گیا اور اُس نے اپنے دونوں ہاتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زانوں پر رکھ دیے اور بولا اے محمد مجھے بتائیے کہ اسلام کیا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسلام یہ ہے کہ تم اِس بات کی گواہی دو کہ اللہ کے علاوہ کوئی الہ نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں، نماز کا اہتمام رکھو، زکوٰۃ ادا کرو، رمضان کے روزے رکھو اور اگر استطاعت حاصل ہو تو بیت اللہ کا حج کرو۔ وہ بولا آپ نے صحیح کہا۔ عمررضی اللہ عنہ کہتے ہیں ہمیں اُس پر تعجب ہوا کہ وہ آپ نے پوچھتا بھی ہے اور آپ کے جواب کی تصدیق بھی کرتا ہے۔ پھر اُس نے پوچھا مجھے بتائیے کہ ایمان کیا ہے؟ آپ نے فرمایا:ایمان یہ ہے کہ تم اللہ، اُس کے فرشتوں، اُس کی کتابوں ، اُس کے رسولوں اور یومِ آخرت کو مانو اور تم (خداکی جانب سے) اچھی اور بری تقدیر کو مانو۔ وہ (پھر) بولا، آپ نے صحیح کہا۔ پھراُس نے پوچھا مجھے بتائیے کہ احسان کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: (احسان یہ ہے) کہ تم اللہ کی عبادت ایسے کرو گویا تم اُسے دیکھ رہے ہو، اس لیے کہ اگر تم اسے نہیں بھی دیکھ رہے تو وہ تو تمہیں دیکھ ہی رہا ہے۔

یہ حدیثِ جبریل ہے، اس میں جبرئیل علیہ السلام نے لوگوں کو تعلیم دینے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بعض سوالات کیے ہیں۔ یہ سوال انھوں نے انسانی روپ میں ظاہر ہو کر لوگوں کی موجودگی میں آپ سے کیے تھے۔ حدیث کے ابتدائی حصے میں اسی بات کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے اور پھر جبرئیل علیہ السلام کے سوالات کا ذکر ہے۔
پہلا سوال یہ ہے کہ اسلام کیا ہے؟
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں اسلام کو درجِ ذیل پانچ چیزوں پر مشتمل قرار دیا۔
۱۔ اِس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی الہ نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں۔
۲۔ نماز کا اہتمام کرنا۔
۳۔ زکوٰۃ ادا کرنا۔
۴۔ رمضان کے روزے رکھنا۔
۵۔ اگر استطاعت حاصل ہو تو (زندگی میں ایک دفعہ) بیت اللہ کا حج کرنا۔
یہ پانچ چیزیں ارکان اسلام کہلاتی ہیں، جو شخص ان پر کاربند ہے وہ اسلام کا حامل ہے، یعنی یہی وہ چیزیں ہیں جو کسی شخص کے اسلام کو ثابت کرتی ہیں۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ ایمان کیا ہے؟
اس کے جواب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان کو درجِ ذیل باتوں پر مشتمل قرار دیا۔
۱۔ اللہ کو ماننا
۲۔ اُس کے فرشتوں کو ماننا
۳۔ اُس کی کتابوں کو ماننا
۴۔ اُس کے رسولوں کو ماننا
۵۔ یومِ آخرت کو ماننا
۶۔ اچھی اور بری تقدیر کو خداکی جانب سے ماننا۔
ان میں سے پانچ چیزیں تو بالکل وہی ہیں جو قرآن مجید کی درج ذیل آیت میں بیان ہوئی ہیں:

 ’’یہ سب اللہ پر ایمان لائے ، اور اُس کے فرشتوں اور اُس کی کتابوں اور اُس کے پیغمبروں پر ایمان لائے۔ (اِن کا اقرار ہے کہ) ہم اللہ کے پیغمبر وں میں سے کسی کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتے اور اِنھوں نے کہہ دیا ہے کہ ہم نے سنا اور سر اطاعت جھکا دیا۔ پروردگار، ہم تیری مغفرت چاہتے ہیں اور (جانتے ہیں کہ) ہمیں لوٹ کر تیرے ہی حضور میں پہنچنا ہے ۔‘‘(البقرۃ۲: ۲۸۵)

چھٹی چیز یعنی اچھی اور بری تقدیر کا خدا کی طرف سے ہونا۔ یہ دراصل اللہ تعالیٰ کی دو صفات علیم (ان اللہ بکل شیء علیم) یعنی وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔ اور قدیر (ان اللہ علی کل شیء قدیر) یعنی وہ سب کچھ کر سکتا ہے کو ماننے کا لازمی نتیجہ ہے، جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان کے چھٹے جزو کے طور پر بیان فرمایا ہے۔
کسی چیز کو ماننا انسان کے دل کا عمل ہے۔ دل کا یہ عمل ہی وہ چیز ہے جس کا ظہور اُن پانچ باتوں کی صورت میں ہوتا ہے جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے سوال (اسلام کیا ہے؟) کے جواب میں بیان فرمایا ہے۔ چنانچہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اسلام کے تحت جو باتیں آپ نے بیان فرمائی ہیں وہ دین کا ظاہر ہیں اور یہ چھ باتیں جو انسان کے دل کا عمل ہیں اور جنھیں آپ نے ایمان کے تحت بیان فرمایا ہے، یہ دین کا باطن ہیں۔
تیسرا سوال یہ ہے کہ احسان کیا ہے؟
اس کے جواب میں آپ نے فرمایا کہ احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت ایسے کرو گویا کہ تم اُسے دیکھ رہے ہو، اس لیے کہ اگر تم اسے نہیں بھی دیکھ رہے تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے، جب کہ تمھیں یہ حقیقت معلوم ہے کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔
دین پر عمل کرنے میں مطلوب رویے کا نام ’احسان‘ ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں اپنے جواب سے یہ بات بالکل واضح کر دی ہے کہ یہ مطلوب رویہ اس حقیقت کو مستحضر رکھنے سے پیدا ہوتا ہے کہ خدا ہمیں دیکھ رہا ہے۔

 

دین سراپا خیر خواہی

۲۔ عن تَمِیمٍ الدَّارِیِّ أَنَّ النبی صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قال الدِّینُ النَّصِیحَۃُ قُلْنَا لِمَنْ؟ قال لِلَّہِ وَلِکِتَابِہِ وَلِرَسُولِہِ وَلِأَءِمَّۃِ الْمُسْلِمِینَ وَعَامَّتِہِمْ.(مسلم، رقم ۵۵، رقم مسلسل ۱۹۶)

تمیم داری سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دین خیر خواہی ہے ۔ اللہ کے لیے ،اُس کی کتاب کے لیے، اُس کے رسول کے لیے، مسلمانوں کے حکمرانوں کے لیے اور اُن کے عوام کے لیے۔

توضیح

اس حدیث میں یہ بتایا گیا ہے کہ دین انسان میں جو روح پیدا کرتا ہے وہ نصح و خیر خواہی ہے۔ سچے دین دار آدمی کا وجود اپنے سے متعلق ہر شخص کے لیے سراپا خیر خواہی ہوتا ہے۔ وہ جیسے اپنے لیے خیر کی تمنا اور بھلائی کی آرزو رکھتا ہے اسی طرح وہ دوسروں کا خیر خواہ ہوتا ہے۔ آپ نے یہ بتایا کہ اُس کی خیر خواہی کے دائرے میں خدا، اُس کا رسول اور اُس کی کتاب بھی آتی ہے اور مسلمانوں کے عوام اور اُن کے حکمران بھی آتے ہیں۔
خدا اور رسول کی خیر خواہی سے مراد یہ ہے کہ دنیا کی اِس رزمِ گاہ خیر و شر میں انسان طاغوت کی مخالفت اور خدا اور اُس کے رسول کی نصرت کرے۔ کتاب اللہ کی خیر خواہی یہ ہے کہ وہ اِس پر ایمان لائے، خود بھی اس پر کار بند ہو اور دوسروں کو بھی اس پر کاربند ہونے کی دعوت دے۔ عام مسلمانوں اور اُن کے حکمرانوں کی خیر خواہی یہ ہے کہ انسان ہر پہلو سے اور ہر حال میں اُن کا بھلا چاہے۔

_______________

 تاریخ: جنوری 2012ء
بشکریہ: محمد رفیع مفتی

مصنف : محمد رفیع مفتی
Uploaded on : Feb 12, 2016
3400 View