حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور دعوت کی قوت

حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور دعوت کی قوت

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں ۱۰ محرم کو یہودیوں کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیروی میں بنی اسرائیل کی فرعون سے آزادی کی خوشی میں روزہ رکھتے دیکھا تو فرمایاکہ ہم بھی موسی علیہ السلام کومانتے ہیں، چنانچہ ہم بھی روزہ رکھیں گے۔

اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی ہمارے نبی ہیں۔آپ اور آپ کی کتاب کو مانے بغیر تو ہمارے ایمان کی تکمیل ہی نہیں ہوتی۔مذہبی لحاظ سے اسلام کے قریب ترین مذہب بھی مسیحیت ہی ہے۔ابتدائے اسلام کے وقت جب مکہ میں مشرکین کے مظالم حد سے بڑھنے لگے تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو حبشہ کی جانب ہجرت کرنے کی ہدایت فرمائی جہاں ایک عیسائی بادشاہ(نجاشی ) کی حکومت تھی۔اور جس نے صحیح معنوں میں ان مظلوم مسلمانوں کی مدد بھی کی۔اسی طرح جب عرب سے متصل رومی مقبوضات( اردن،شام اور فلسطین) پر ایرانی مجوسیوں کی فتح ہوئی تو عرب کے مسلمان اس پربہت غمگین ہوئے اور مشرکین خوش۔اس پر اللہ تعالیٰ نے سورۂ روم میں پیشین گوئی فرمائی کہ ۱۰ برس سے پہلے پہلے عیسائی رومیوں کو پھر فتح نصیب ہوگی جس سے مسلمانوں کو حوصلہ ملا۔ اسلام نے مسلمانوں کو مسیحی خواتین کے ساتھ شادی کرنے کی بھی اجازت دی ہے۔ایک زاویے سے سوچیں تو مسلمان اور عیسائی،دونوں حضرت ابراہیم علیہ السلام ہی کی اولاد ہونے کے باعث آپس میں کزن ہیں۔
چند ہفتے قبل پوری دنیا میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یوم پیدایش منایا گیا۔آپ کو یاد کیا گیا ۔آپ کی تعلیمات کی تذکیر کی گئی۔ چنانچہ ہم بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یاد کرتے ہیں او ران کی زندگی سے روشنی پاکر اپنی زندگی اور اپنے ملک کے حالات سنوارنے کی کوشش کرتے ہیں۔
حضرت مریم علیہاالسلام،بنی ہارون کی ایک زاہدہ، پاک باز دوشیزہ جوحضرت زکریا علیہ السلام کے زیر تربیت تھیں، بیت المقدس میں معتکف تھیں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک فرشتہ آیا اور انھیں ایک پاکیزہ فرزند کی بشارت دی۔حضرت مریم علیہاالسلام بولیں:’’میرے ہاں لڑکا کس طرح پیدا ہو سکتا ہے، مجھے توکسی مرد نے چھوا تک نہیں۔‘‘فرشتے نے جواب دیا:’’اللہ تعالیٰ جس طرح چاہتا ہے ،پیدا کر تاہے۔ اللہ تعالیٰ جب کسی شے کے لیے حکم کرتا ہے تو کہہ دیتا ہے کہ ’’ہو جا‘‘ اور وہ ہوجاتی ہے۔‘‘
چنانچہ معجزے کا صدور ہوا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدایش ہو گئی تو آپ ان کو لے کر اپنی بستی کی طرف چلی گئیں۔ لوگوں نے جب حضرت مریم علیہا السلام کی گود میں بچہ دیکھا تو طعنہ دیا۔حضرت مریم اللہ کے حکم کے مطابق خاموش رہیں اور بچے (حضرت عیسیٰ)کی طرف اشارہ کر دیا۔ اسی وقت حضرت عیسیٰ بول اٹھے:

’’میں اللہ کا بندہ ہوں۔ اس نے مجھے کتاب عطا فرمائی، پیغمبر بنایا اور میں جہاں کہیں بھی موجود ہوں مجھے اللہ نے خیر و برکت کا ذریعہ ٹھہرایا۔‘‘ (مریم: ۳۰۔۳۱)

جب لوگوں نے دودھ پیتے بچے کی زبان سے یہ الفاظ سنے تو ان کو بڑی حیرت ہوئی اوران کی حضرت مریم کے حوالے سے غلط فہمی بھی رفع ہوگئی۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے بہت سے معجزات عطا کیے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بنی اسرائیل کی طرف نبی بنا کر بھیجا ۔ آپ گلی گلی میں جا کر لوگوں کو اللہ کے اس بے آمیز دین کی طرف بلاتے جسے بنی اسرائیل کے علما نے بگاڑ دیا تھا۔ لیکن تمام معجزات اور ان کی تبلیغ کا کوئی اثر نہ ہوا۔ بنی اسرائیل جو اس وقت کی بڑی ہی نافرمان اور سرکش قوم تھی، آپ کے سخت خلاف ہوگئی اور آپ کے لیے مسائل پیدا کرنا شروع کر دیے۔ لیکن آپ نے ان کی مخالفت کی کوئی پروا نہ کی اور اپنا فرض پوری شان کے ساتھ ادا کر تے رہے ۔ جس کی بدولت ان کی قوم میں سے صرف چند لوگ ان پر ایمان لائے۔
اُ س وقت فلسطین پر رومیوں کی حکومت تھی۔لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ان کے خلاف کو ئی تحریک بر پا نہیں کی۔انھوں نے اپنی قوم کے بالادست طبقات کو اپنی دعوت کا پہلا مخاطب بنایا اور ان کے باطل عقائد و اعمال پر سخت تنقیدیں کیں۔جب وہ اصلاح پر آمادہ نہ ہوئے تو آپ نے عام لوگوں کو مخاطب بنایا ۔وہ مچھلیاں پکڑنے والوں کے پاس گئے ۔اور پھر وہی ان کے حواری بنے۔جیسے جیسے دن گزرتے گئے آپ کے ماننے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتاگیا۔آپ کے مخالفین یہ سب دیکھ کر حسد میں مبتلا ہو گئے اور ان کو خطرہ محسوس ہوا کہ آپ کی بڑھتی ہوئی مقبولیت ان کے لیے کسی وقت خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ چنانچہ انھوں نے آپ کے خلاف مختلف قسم کی سازشیں کرنا شروع کر دیں۔
بنی اسرائیل کی گہری سازشوں کی وضاحت کرتے ہوئے سید ابوالاعلیٰ مودودی لکھتے ہیں:

’’تورات میں زنا کی سزا موجود تھی۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے عہد میں یہودی علما فقہاامرا اور عوام اس قانون کو عملاً منسوخ کرچکے تھے۔ حضر ت عیسیٰ کی دعوت کو روکنے کے لیے علماے یہود نے ایک چا ل چلی ۔ وہ ایک زانیہ عورت کو پکڑ لائے کہ اس کافیصلہ کریں۔ان کا مقصد یہ تھااس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کنویں میں نہیں تو کھائی میں ضرور گریں۔یعنی اگر حضرت عیسیٰ سنگ ساری کے سوا کوئی اور سزا تجویز کریں گے تو آپ کو یہ کہہ کر بدنام کیا جائے کہ لیجیے نرالے نبی تشریف لائے ہیں جنھوں نے دنیوی مصلحت کی خاطر خدائی قانون بدل ڈالا۔اگر سنگ ساری کاحکم دیں گے تو باغی بنا کر رومی قانون کے ساتھ آپ کو ٹکرا دیا جائے اور دوسری طرف قوم سے کہا جائے گا کہ مانو اس نبی کو، دیکھ لینااب تورات کی پوری شریعت تمھاری پیٹھوں اور جانوں پر برسے گی۔لیکن حضرت عیسیٰ نے ایک ہی فقرے میں ان کی چال کو انھی پر الٹ دیا۔آپ نے فرمایا تم میں سے جو خود پاک دامن ہو وہ آگے بڑھ کر اسے پتھر مارے۔یہ سنتے ہی فقیہوں کی ساری بھیڑ چھٹ گئی۔ایک ایک منہ چھپا کر وہاں سے نکلنے لگا۔اور اس طرح ان فقہا کی اخلاقی حالت بھی برہنہ ہوگئی۔جب عورت تنہا کھڑی رہ گئی توحضرت عیسیٰ نے اسے نصیحت فرمائی اورتوبہ کر ا کر رخصت کر دیا۔کیونکہ نہ آپ قاضی تھے کہ مقدمے کا فیصلہ کرتے نہ اس پر کوئی شہادت قائم ہوئی تھی اور نہ کوئی اسلامی حکومت قانون الٰہی نافذ کرنے کے لیے موجود تھی۔‘‘ (تفہیم القرآن، ۳/ ۳۲۲)

دلیل و برہان کے میدان سے شکست کھانے کے بعدبنی اسرائیل کی قیادت رومی بادشاہ کو گمراہ کرنے میں کامیاب ہوگئی کہ یہ عیسیٰ (علیہ السلام) صرف ہمارے لیے ہی نہیں، بلکہ آپ کی حکومت کے لیے بھی خطرہ بن سکتے ہیں۔اگر آپ نے ابھی سے ان کو نہ روکا تو نہ صرف یہ کہ ہمارا دین مٹ جائے گا، بلکہ وہ آپ کی حکومت پر بھی قبضہ کر لیں گے۔ اور پھر رومی بادشاہ بھی حضرت عیسیٰ کی جان کے درپے ہوگیااور اپنی طرف سے انھیں صلیب دے دی۔لیکن دلیل وبرہان ، دعوت و تبلیغ اورایثار وقربانی نے اپنی قوت کومنوالیا، بعد میں حضرت عیسیٰ کے حواریوں کی تبلیغ سے رومی حکومت نے بھی عیسائیت قبول کر لی۔بلکہ پھر رومی خود عیسائیت کے مبلغ بن گئے۔برطانیہ میں بھی عیسائیت رومی مبلغین نے پھیلائی اور آج ویٹی کن، عیسائیوں کے سب سے بڑے رومن کیتھولک مذہبی پیشوا پوپ کی بہت بڑی اقامت گاہ ، روم ہی کے قریب ایک پہاڑی پر واقع ہے۔
حضر ت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے مشن کی تکمیل میں ہر طرح کے اشتعال کے باوجودکبھی مخالفین کے خلاف طاقت کا استعمال نہیں کیا۔ہر ظلم پر صبر کیا۔طاقت سے دوسرے کا جسم جیتنے کے بجاے دلیل اور تعلیم سے دل جیتنے کی کوشش کی، بلکہ یہاں تک فرمایا کہ ظالم ایک گال پر تھپڑ مارے تودوسرا گال بھی حاضر کر دو۔اس حکمت عملی کی وجہ یہ تھی کہ حضرت عیسیٰ کے پاس سیاسی اقتدار نہ تھا اس لیے آپ نے مخالفین کے خلاف کوئی جنگ نہیں کی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی مکہ میں ہجرت مدینہ سے قبل سیاسی اقتدار میسر نہ تھا۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس وقت کوئی جنگ کی اور نہ طاقت کا استعمال کیا ۔ مخالفین کے مظالم کے باوجود صبر کیا اور خود کو دلیل اور تعلیم تک محدود رکھا۔وہ تما م انبیا جن کو سیاسی اقتدار نہیں ملا انھوں نے یہی طرزعمل اختیار کیا او ربرائی کو طاقت سے ختم کرنے کی کوشش نہیں کی۔
آج ہمارے ملک میں جو مذہبی عناصردین کو ریاست کی سطح پر نافذ کرنا چاہتے ہیں انھیں بھی یہ کام انبیاے کرام کے طریقے ہی پر چل کر کرنا ہوگا۔یعنی دلیل اور تعلیم سے لوگوں کے دلوں کو فتح کرنا ہوگا۔ جب دلوں میں تبدیلی آئے گی تو رویوں میں بھی تبدیلی آئے گی۔ اس کے بعد ریاست کی سطح پر بھی دین آپ سے آپ ظاہر ہوجائے گا۔ اس نفاذ میں کوئی منافقت نہیں ہوگی بلکہ گہرا خلوص ہوگا۔اور پوری دنیا میں اس کے اثرات و ثمرات پھیلیں گے۔ بصورت دیگر اس معاملے میں طاقت اور بارود کے استعمال سے صرف تباہی ملے گی صرف تباہی۔

------------------------------

 

بشکریہ ماہنامہ اشراق

تحریر/اشاعت فروری 2013
Uploaded on : Nov 18, 2016
4027 View