دہشت گردی: علما کی اصل ذمہ داری - سید منظور الحسن

دہشت گردی: علما کی اصل ذمہ داری

 مذہب کے نام پر دہشت گردی کے واقعات روز افزوں ہیں ۔ اس دہشت گردی کے بارے میں یہ تصور عام ہے کہ یہ دینی علوم کی درس گاہوں میں جنم لیتی ، مسجدوں اور امام بارگاہوں میں پروان چڑھتی اور پھر متشدد مذہبی تنظیموں کی شکل میں ملک کے کونے کونے میں پھیل جاتی ہے ۔ منبروں اور جلسہ گاہوں سے کفرکے فتوے صادر ہوتے ہیں ، واجب القتل کے نعرے لگتے ہیں اور مخالف نظریات کو ان کے حاملیں سمیت صفحۂ ہستی سے مٹا دینے کے عزائم ظاہر کیے جاتے ہیں ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عبادت گاہیں اللہ کی یاد میں کھڑے ہونے والوں کے لہو سے رنگین ہوتی اور مذہبی رہنماؤں کے ساتھ عام شہری بھی بموں کا ایندھن بن جاتے ہیں۔
اس اندوہ ناک صورت حال کا ایک بڑا محرک بعض مذہبی علما کا تشدد پسندانہ رویہ ہے ۔ فرقہ پرستی ، مخالف مکتب فکر کے حاملین کی تکفیر کے فتوے اور ان کے وجود کو برداشت نہ کر سکنے کے جذبات اس متشدد رویے کا باعث بنتے ہیں۔ چنانچہ اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ اس صورت حال کی ذمہ داری بنیادی طور پر علما ے دین پر عائد ہوتی ہے تو اس کی بات کو غلط نہیں کہا جا سکتا ۔ بظاہر ایسے معلوم ہوتا ہے کہ دین نے علما پر جو ذمہ داری عائد کی تھی ، وہ اس سے نہ صرف دست بردار ہو گئے ہیں ، بلکہ اس سے انحراف کی سطح پر آ کر کھڑے ہو گئے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ نے علما پر جو ذمہ داری عائد کی ہے ، وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ وہ لوگوں کو ’’انذار‘‘ کریں ، یعنی آخرت کے عذاب سے خبردار کریں ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
’’اور سب مسلمانوں کے لیے تو یہ ممکن نہ تھا کہ وہ اس کام کے لیے نکل کھڑے ہوتے ،لیکن ایسا کیوں نہ ہوا کہ ان کے ہر گروہ میں سے کچھ لوگ نکل کر آتے تاکہ دین میں بصیرت حاصل کرتے اور اپنی قوم کے لوگوں کو انذار کرتے، جب (علم حاصل کر لینے کے بعد) اُن کی طرف لوٹتے ، اس لیے کہ وہ بچتے۔‘‘ (التوبہ ۹:۲۲ ۱)
انذار کی اس عظیم ذمہ داری کا تقاضا ہے کہ علما لوگوں کو شرک کی آلایشوں سے بچا کر توحید کی صراطِ مستقیم پر گامزن کرنے کی کوشش کریں ، انھیں نبوت و رسالت کے حقائق سے آگاہ کریں اور پیغمبر آخر الزماں کے اسوۂ حسنہ کی پیروی کے لیے ان کی تربیت کا اہتمام کریں ۔ آخرت پر ان کے ایمان کو مستحکم کرنے کی سعی کریں اور انھیں دوزخ کے عذاب سے ڈرائیں ۔ انھیں بتائیں کہ یہ دنیا محض ایک آزمایش گاہ ہے ، جسے ایک روز ختم ہو جانا ہے۔ اس دنیا میں انسان کو اس لیے بھیجا گیا ہے کہ اللہ کی بنائی ہوئی ابدی دنیا کے لیے صالح نفوس کو تیار کیا جا سکے ، اللہ کی قائم کردہ حدود کا پاس کرنے والوں اور ان کو توڑنے والوں میں امتیاز کیا جا سکے ۔ اس کے فرماں برداروں اور اس سے سرکشی کرنے والوں کو الگ الگ کیا جا سکے اور پھر پاک نفس والے مطیع انسانوں سے جنت کو بسایا جائے اور آلودہ نفس والے سرکش انسانوں کو دوزخ کا ایندھن بنا دیا جائے ۔ ان حقائق کی مسلسل تذکیر و نصیحت کے ساتھ ساتھ قرآن و سنت کی جملہ تعلیمات سے لوگوں کو آگاہی علما کی اصل ذمہ داری ہے ۔
اس ذمہ داری کو ادا کرتے وقت انھیں اس معاملے میں اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ حدود کا لازماً پاس کرنا چاہیے ۔ اس ضمن میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو تذکیر و نصیحت اور یاد دہانی ہی تک محدود رکھیں ، اس سے آگے بڑھ کر دھونس اور زبردستی کی اللہ تعالیٰ نے کوئی گنجایش نہیں دی ۔ اللہ تعالیٰ نے یہ گنجایش اگر دینی ہی ہوتی تو ان ہستیوں کو دیتے جو اپنی ذات کے تزکیے میں سب سے اعلیٰ مقام پر فائز تھیں ۔ لوگوں کی اخروی نجات کے لیے جن کی تڑپ بے کراں تھی ،جن کی بات بلاغ مبین تھی اور جن سے خدا براہِ راست کلام کرتا تھا ، ان برگزیدہ ہستیوں کو تو واضح طور پر یہ کہہ دیا گیا کہ :
’’تم یاد دہانی کیے جاؤ۔ تم بس یاد دہانی کرنے والے ہو ۔ تم ان پر کوئی داروغہ نہیں ہو ۔‘‘( الغاشیہ ۸۸:۲۱۔ ۲۲)
’’تم جن کو چاہو انھیں ہدایت نہیں دے سکتے ،بلکہ اللہ ہی جنھیں چاہتا ہے (اپنے قانون کے مطابق )ہدایت دیتا ہے ۔ اور وہی بہتر جانتا ہے ان کو جو ہدایت پانے والے ہیں ۔‘‘( القصص ۲۸:۵۶)
’’تم اگر ان کی ہدایت کے لیے حریص ہو تو اللہ ان کو ہدایت نہیں دیا کرتا ، جنھیں وہ (اپنے قانون کے مطابق) گمراہ کر دیتا ہے، اور اس طرح کے لوگوں کاکوئی مدد گار نہیں ہوتا ۔‘‘ (النحل ۱۶:۳۷)
ظاہر ہے کہ اگر انبیا کا کام محض تذکیر و یاد دہانی تک محدود ہے تو ان کی اتباع میں کھڑے علما اس سے آگے کیونکر بڑھ سکتے ہیں، ان کا کام تو بس یہی ہے کہ قرآن و سنت کے پیغام کو اپنی بہترین صلاحیتیں صرف کرتے ہوئے لوگوں تک پہنچا دیں ۔ ان کی زبان شیریں ہو ، ان کا استدلال مضبوط ہو ، ان کا انداز خیر خواہانہ ہو ، ان کی تنقید شایستہ ہو۔ دعوت کا یہ اسلوب ہی دلوں میں گھر کرتا اور بنجر زمینوں میں بھی روئیدگی کے آثار پیدا کر دیتا ہے ۔ یہ اسلوب اختیار کر لینے کے بعد پھر اس کی ضرورت نہیں رہتی کہ نظریاتی مخالفین کے وجود کو مٹا دیا جائے ، بلکہ اگر اللہ کو منظور ہو تو مخالفین کا وجودآہستہ آہستہ ان کے لیے سراپا نصرت و تعاون بن جاتا ہے۔
لیکن یہ شاید پوری امت کاالمیہ ہے کہ دین کے علم بردار اپنی اصل ذمہ داری سے گریز پا نظر آتے ہیں ۔ ایسے معلوم ہوتا ہے کہ دین کی تعلیم و تربیت اور آخرت کی جواب دہی کے لیے لوگوں کو انذار اب ان کا مسئلہ ہی نہیں رہا ۔ اس کے بجائے انھوں نے اپنے لیے جو کام منتخب کیے ہیں ، وہ سر تاسر یہی ہیں کہ اپنے نظریاتی مخالفین کے خلاف سادہ لوح لوگوں کو مشتعل کیا جائے ۔ ان کی تکفیر کے فتوے صادر کیے جائیں اور انھیں واجب القتل ٹھہرایا جائے۔
اس سارے رویے میں علما ، دین کی اس حقیقت کو بالکل نظر انداز کر دیتے ہیں کہ اس دنیا میں کسی شخص یا گروہ کے بارے میں زیادہ سے زیادہ یہ فیصلہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ قانونی اعتبار سے مسلمان ہے یا غیر مسلم ، لیکن جہاں تک حقیقی ایمان کا تعلق ہے تو اس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ ہی کر سکتے ہیں۔ دلوں میں جھانکنے کی نہ ہم صلاحیت رکھتے ہیں اور نہ ہمیں اس کی سعی کرنی چاہیے ۔ چنانچہ قرآن مجید کی رو سے قانونی اعتبار سے ہر وہ شخص مسلمان قرار پائے گا جو زبان سے اسلام کے عقائد کا اقرار کرتا ، نماز قائم کرتا اور زکوٰۃ ادا کرتا ہے ۔ علما اگر کسی شخص یا گروہ کے نظریات کو غلط سمجھتے ہیں تو انھیں چاہیے کہ وہ نظریات کی غلطی کوعلمی سطح پر واضح کریں اور دردمندانہ تذکیر و نصیحت سے اسے راہ راست پر لانے کی کوشش کریں۔ ان کے لیے صحیح لائحۂ عمل یہی ہے ۔

-------------------------------

 

بشکریہ ماہنامہ اشراق

تحریر/اشاعت فروری 2008
مصنف : سید منظور الحسن
Uploaded on : Aug 23, 2016
2134 View