’’الرسالہ‘‘ میں ماخذ دین کی بحث: جناب جاوید احمد غامدی سے ایک گفتگو (۲) - سید منظور الحسن

’’الرسالہ‘‘ میں ماخذ دین کی بحث: جناب جاوید احمد غامدی سے ایک گفتگو (۲)

 [یہ سوال و جواب استاذ گرامی جناب جاوید احمد غامدی کے ساتھ میری ایک گفتگو سے ماخوذ ہیں۔۲۰۱۳ء میں امام شافعی کی کتاب ’’الرسالہ‘‘کی تدریس کے دوران میں ایک مبتدی طالب علم کے اشکالات کو رفع کرنے کے لیے استاذ گرامی نے جوگفتگو فرمائی، اسے میں نے اپنے فہم کے لحاظ سے مرتب کیا ہے۔امید ہے کہ ماخذ دین کی بحث میں دل چسپی رکھنے والے طالب علموں کے لیے یہ افادیت کا باعث ہوگی۔]

     سوال: گذشتہ نشست میں آپ نے جو گفتگو فرمائی تھی، اس سے ماخذ دین کی بحث کو سمجھنے میں بہت مدد ملی ہے۔ یہ بھی واضح ہوا ہے کہ اخبار آحاد کے معاملے کو ہمارے جلیل القدر علما کیسے دیکھتے ہیں۔ لیکن جہاں تک خبر واحد کے محفوف بالقرائن ہو کر درجۂ اطمینان کو پہنچنے کا تعلق ہے تو اس پر ذہن مطمئن نہیں ہو سکا۔ سوال یہ ہے کہ عقلی اطمینان کے بغیر محض نفسیاتی اطمینان کی بنا پر کیسے کسی بات کو صحیح قرار دیا جا سکتا ہے؟ یعنی ہمارے اہل علم سے اس بات کا صدور کیسے ہوا ہے کہ ظنی کو قطعی کے متوازی، حتیٰ کہ اس پر حاکم سمجھ لیا گیا ہے؟ پھر ہمارے ائمہ کے زمانے تک علم حدیث باقاعدہ سائنس بھی نہیں بنا تھا ۔تحقیق کے، تدلیس کے، وضع کے، روایت بالمعنیٰ کے اور تناقض وغیرہ کے مسائل غیر معمولی تھے۔ ان کے ہوتے ہوئے محض قرائن اور نفسیاتی اطمینان کی بنیاد پر کسی خبر واحد کو علماً یا عملاً درجۂ یقین تک پہنچا دینا کیسے ممکن ہوا ہے؟ 

     جواب: اگر آپ اصل واقعے سے صرف نظر کریں گے تو بات کو سمجھنا مشکل ہو جائے گا۔ واقعہ یہ ہوا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے کچھ باتیں نقل ہو کر سامنے آگئی ہیں۔ یعنی اِن کی نسبت اُس ہستی کے ساتھ ہے جو دین کا تنہا ماخذ ہے، جس کا علم بے خطا ہے اور جس کے بارے میں یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ گفتۂ او گفتۂ اللہ بود۔ مزید یہ کہ اِن باتوں کے الفاظ، اِن کا علم ، اِن کی حکمت، اِن کی شان کلام ، اِن کی عالمانہ بلندی، اِن کی قرآن و سنت سے موافقت، سب گواہی دے رہے ہیں کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ہو سکتی ہیں ۔اب کیا اِنھیں صرف اِس لیے رد کر دیا جائے کہ یہ ہم تک انفرادی ذرائع سے پہنچی ہیں؟ ہر سلیم الفطرت انسان کہے گا کہ ایسا کرنا علم و عقل کے صریحاً خلاف ہو گا۔ 
انسان کے پاس جب کسی مسئلے کا واضح حل نہیں ہوتا یا وہ اس کا حل نہیں کرپاتا تو اس کے پاس دو راستے ہوتے ہیں: ایک یہ کہ وہ ردو قبول کے سادہ منطقی اصول پر کھڑا ہو جائے ۔ دوسرا یہ کہ وہ اپنی نفسیاتی قوت کے سہارے کھڑا ہوکر فیصلہ کرے۔ زیادہ تر لوگ یہی دوسرا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ اس نفسیاتی قوت کے پیچھے بالعموم وہ دلائل ہوتے ہیں جن کے لیے ہمارے ہاں محفوف بالقرائن کی تعبیر اختیار کی جاتی تھی۔ آپ دیکھیے کہ بہت سے واقعات ایسے ہوتے ہیں کہ جنھیں عدالت میں ثابت نہیں کیا جا سکتا، مگر ان کے وقوع کا ہمیں پورا یقین ہوتا ہے۔ یعنی بے شمار معاملات میں ہم اپنے نفسیاتی ایقان کی بنیاد پر فیصلہ کر رہے ہوتے ہیں۔ ہمارا یہ فیصلہ حقیقت کے اعتبار سے غلط بھی ہو سکتا ہے اور صحیح بھی۔ لیکن، جب ہم یہ فیصلہ کررہے ہوتے ہیں تو تردد کے بغیر اور صحت کے یقین کے ساتھ کر رہے ہوتے ہیں۔ مثلاً جب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کرنے کی روایتیں پڑھتا ہوں تو سرشار ہوجاتا ہوں۔ کوئی ذہنی تردد پیدا ہی نہیں ہوتا ، وہ اگر مستند نہ بھی ہوں، تب بھی میری نفسیات، میرا ضمیر اور میرے علم و عقل پکار اٹھتے ہیں کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے ہی وضو کیا ہو گا۔
تاہم، یہ بھی ذہن نشین رکھیے کہ نفسیاتی اطمینان دو دھاری تلوار ہے۔ بعض اوقات یہ علم کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ بن جاتا ہے اور بارہا ایسا ہوتا ہے کہ عقلی استدلال وہ اطمینان نہیں بخشتا جو نفسیاتی اطمینان بخشتا ہے ۔ ان دونوں پہلوؤں کو ملحوظ رکھتے ہوئے سابقہ علم کا بھی جائزہ لینا چاہیے اور اپنے ذہن کو بھی ٹٹولتے رہنا چاہیے۔
اس نفسیاتی ایقان کی مثالیں اگر آپ، مثلاً مولانا مودودی صاحب کے ہاں دیکھنا چاہیں تو دو جگہوں کا مطالعہ باعث بصیرت ہو گا:
۱۔ ’’رسائل و مسائل‘‘ جلد ۳ میں ہے کہ کسی نے ان سے یہ سوال کیا ہے کہ قرا ء توں کے اختلاف کی موجودگی میں یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ قرآن مجید کے کسی شوشے میں بھی تبدیلی نہیں ہوئی؟مولانا مودودی نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ قرآن ابتدا میں نقطوں اور اعراب کے بغیر تھا۔اس صورت میں ایک آیت کے کئی کئی معنی ہو سکتے اور معنوی اختلافات کا دائرہ بہت وسیع ہو سکتا تھا ، مگر آپ اس کو خدا کی رحمت سمجھیے کہ اس نے چند قرا ء تیں متعین کر کے ان اختلافات کو انتہائی محدود کر دیا ہے۔ 
۲۔ ’’تفہیم القرآن‘‘ میں رجم کی بحث میں انھوں نے جودو تین پیرا گراف لکھے ہیں، انھیں بھی پڑھ لیجیے۔ 
یعنی جب ایک چیز کو آپ بنیادی طور پر ٹھیک مان لیتے ہیں اور اس کے بارے میں فی الجملہ مطمئن ہو جاتے ہیں تو اس کے بعد اگر کہیں جھول یا خلا نظر بھی آئیں تو آپ انھیں اپنے یقین کی روشنی میں رد کر دیتے ہیں۔ آپ کا جو ذہنی اسٹرکچر بنا ہے، اس میں یہ رد کرنا بالکل بجا ہوتا ہے۔ انسانی نفسیات ایسے ہی کام کرتی ہے۔
میں ایک طویل عرصے تک سورۂ نحل کی اس آیت کو جس میں اللہ نے رسول اللہ کو تبیین کا اختیار دیا ہے، ۱؂ امام شافعی کے ہاں، شاطبی کے ہاں ، آمدی کے ہاں ، مودودی صاحب کے ہاں پڑھتا رہا، مگرکوئی تردد نہیں ہوا، بلکہ میں نے اس آیت کو بنیاد بنا کر پورے زور کے ساتھ ایک مضمون بھی لکھ دیا۔لیکن جب قرآن میں رکھ کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ آیت کا تو یہ مطلب ہی نہیں ہے۔ اصل میں دیکھا ہی نہیں پچیس تیس سال تک۔ اتنے بڑے لوگوں کی عظمت کے سحر نے یہ خیال ہی پیدا نہیں ہونے دیا کہ اس کے فہم میں ان سے غلطی ہو سکتی ہے۔ایسے موقع پر انسان کو اپنی عاجزی اور بے بسی کا احساس ہوتا ہے، لیکن انسان ایسا ہی ہے۔ اس طرح کی اوربے شمار چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو انسان کے اندر بعض اوقات کسی غلطی پر بھی اعتماد پیدا کر دیتی ہیں،کوئی دوسرا توجہ دلاتا ہے تو پھر راستہ کھلتا ہے۔
اس کو دوسرے زاویے سے بھی دیکھ لیجیے۔ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ میں ایک آیت کے معنی پر بالکل مطمئن ہوتا ہوں ، لیکن میری سمجھ میں نہیں آ رہا ہوتا کہ میں سوال کرنے والے کو یہ کیسے بتاؤں کہ اس کے معنی یہ ہیں۔ اصل میں میں اپنے قرآن اورزبان کے علم کی بنیاد پر وجدانی طور پر مطمئن ہو گیا ہوتا ہوں اور اس پر مجھے کوئی ادنیٰ تردد بھی نہیں ہوتا، لیکن میں اسے سمجھا اس لیے نہیں پاتا کہ میرا اطمینان ابھی بیان کی منطق میں نہیں ڈھلا ہوتا۔
اب دیکھیے، امام شافعی کیسے اپروچ کرتے ہیں۔ وہ اس کومانتے ہی نہیں کہ کچھ ہوا ہے ۔ ان کے نزدیک اخبار آحاد نے نہ نسخ کیا ہے، نہ اضافہ کیا ہے، نہ تبدیلی کی ہے۔ وہ پورا اصرار کرتے ہیں کہ یہ قرآن کا بیان ہیں۔ — اسی مقدمے کو بعد میں ان کے شاگرد امام احمد بن حنبل نے بھی اختیار کر لیا۔ — اب جب آپ ان سے پوچھیں گے کہ یہ بیان کیسے ہیں تو وہ آپ کو آیات قرآنی کی کچھ اسٹیبلش مثالیں دے کر کہیں گے کہ جب آپ ان آیات کو بیان مان رہے ہیں تو اخبا ر آحاد کو کیوں نہیں مان رہے۔’’الرسالہ‘‘ کی اصل بحث یہی ہے۔ اما م شاطبی نے بھی جب اس مسئلے کو لیا ہے اور اخبار آحاد سے حاصل ہونے والے علم کو قرآن مجید سے ماخوذ بتایا ہے تو اصل میں انھوں نے کم و بیش شافعی زاویۂ استدلال ہی کو اختیار کیا ہے۔
امام شافعی کے استدلال کا تانا بانا بہت سادہ ہے ۔ اس کو سمجھنا چاہیں توگویاوہ یہ کہتے ہیں کہ میں نے جب سورۂ نور میں پڑھا کہ ’اَلزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا مِائَۃَ جَلْدَۃٍ‘ ۲؂ ، (زانی عورت ہو یا زانی مرد، تو دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو)تو میں نے سمجھا کہ زانی مرد و عورت کی سزا سو کوڑے ہے۔ لیکن جب میں نے سورۂ نساء (۴: ۲۵) کو دیکھا تو پتا چلا کہ یہ حکم لونڈیوں کے لیے تو نہیں ہے ،اب میرا یہ اعتماد ختم ہو گیا کہ میں حتمی حکم لگاؤں۔ چنانچہ جب ایک روایت نے یہ بتایا کہ یہ حکم شادی شدہ کے لیے بھی نہیں ہے تو میں اس کا کیسے انکار کر سکتا ہوں۔ لہٰذااگر سورۂ نساء کی لونڈیوں کو استثنا دینے والی آیت سورۂ نور کے حکم کا بیان ہو سکتی ہے تو شادی شدہ زانی کو رجم کرنے والی روایت کیوں اس کا بیان نہیں ہو سکتی!
احناف نے دوسرا طریقہ اختیار کیا۔ — واضح رہے کہ احناف زیادہ عقلی ہیں، یعنی وہ منطقی اور عقلی مقدمات کے بارے میں زیادہ حساس ہیں۔ — انھوں نے کہا کہ جس کو آپ بیان قرار دے رہے ہیں، اس کو بیان قرار دینے کو تو عقل قبول نہیں کرتی۔ یہ اصل میں نسخ ہے جسے آپ بیان سے تعبیر کر رہے ہیں۔ تاہم، ہم حدیث کی اس حیثیت کو قبول کرتے ہیں کہ وہ قرآن کے کسی حکم کو منسوخ کر سکتی ہے۔ لیکن ہم اس نسخ کو فلاں موقع پر مانتے ہیں اور فلاں موقع پر نہیں مانتے۔ مانتے وہاں ہیں جہاں وہ خبر متواتر یا خبرمشہور سے ہوتا ہے، کیونکہ پھر وہ یقین کے ہم پلہ ہو جاتا ہے اور جہاں اخبار آحاد کے ذریعے سے ہو تو ہم اسے نہیں مانتے، کیونکہ اس صورت میں اس کی حیثیت یقین کے مقابلے میں ظن کی ہوتی ہے۔ اس پر میں نے ایک مرتبہ تبصرہ کیا تھا کہ اصول میں امام شافعی کی بات ٹھیک ہے اورعمل میں احناف کی۔
اس سے واضح ہوا کہ اصحاب علم کے استدلال کی ایک ترتیب ہوتی ہے۔ وہ ایک لائن میں آگے بڑھتا ہے۔ ابتدا بالعموم نفسیاتی اطمینان ہی سے ہوا کرتی ہے اور پھر جب دلائل فراہم ہو جائیں توعقلی اطمینان بھی حاصل ہو جاتا ہے۔ بہر حال ہر صاحب علم کو یہ کوشش کرنی چاہیے کہ اسے اپنے علم کے بارے میں نفسیاتی اطمینان بھی حاصل ہواور عقلی اطمینان بھی۔ یعنی ہمیں مسلسل تگ و دو کرتے رہنا چاہیے کہ ہمارا نفسیاتی اطمینان اور ہمارا عقلی اطمینان، دونوں ایک پیج پر آ جائیں۔ یہ ایک جدو جہد ہے۔ اس میں انسان کو اتنا دیانت دار ہونا چاہیے کہ اگر کسی جگہ نفسیاتی اطمینان عقلی اطمینان میں نہیں ڈھلا تو وہاں اس فرق کو واضح کر دینا چاہیے۔ یہ چیز دوسروں کو مہمیز دے گی اور وہ بھی علم کے سفر میں آپ کے ساتھ شامل ہو جائیں گے۔

________

۱؂ ’وَاَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الذِّکْرَ لَتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَانُزِّلَ اِلَیْھِمْ‘ (۱۶: ۴۴)۔ 
۲؂ ۲۴: ۲۔

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت دسمبر 2018
مصنف : سید منظور الحسن
Uploaded on : Dec 05, 2018
2085 View