قطعی الدلالۃ - جاوید احمد غامدی

قطعی الدلالۃ

قرآن قطعی الدلالۃ ہے۔ چنانچہ اُس کے مخاطبین جب اُس کے کسی دعوے کو نہیں مانتے تو پوری شان کے ساتھ کہتا ہے کہاَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّکَ فَلَا تَکُنْ مِّنَ الْمُمْتَرِیْنَ۱؎(تمھارے پروردگار کی طرف سے یہی حق ہے ، لہٰذا تم کسی شبہے میں نہ رہو)۔اور انکار پر اصرار کریں تو اِسی بنا پر اُنھیں یہ کہہ کر مباہلے کا چیلنج دے دیتا ہے کہ یہ العلمہے جو تمھارے پروردگار کی طرف سے آگیا ہے۔اِس کے مقابلے میں ہر چیز محض کذب و افترا یا ظن و گمان ہے اور حق کے مقابلے میں ظن کوئی حیثیت نہیں رکھتا: اِنَّ الظَّنَّ لَا یُغْنِیْ مِنَ الْحَقِّ شَیًٔا۲؎۔

اُس کی یہی حیثیت آج بھی ہے، اِس لیے کہ اُس کے الفاظ جس تواتر کے ساتھ نقل ہوئے ہیں، اُن کے مفاہیم بھی اُسی طرح نقل کیے گئے ہیں۔ قرآن کے علما جس چیز میں اختلاف کرتے ہیں، وہ الفاظ کے مفاہیم نہیں، بلکہ کسی خاص موقع و محل کے لیے اُن مفاہیم میں سے کسی مفہوم کا انتخاب ہے۔ یہ مفاہیم کتابوں میں ثبت ہوئے ہیں، اِنھیں علما، فقہا، ادبا اور مفسرین نے جگہ جگہ بیان کیا ہے۔ یہ مسلمانوں کے مدرسوں، خانقاہوں اور علم و ادب کی مجالس میں پڑھے پڑھائے اور سمجھے سمجھائے گئے ہیں۔ زمانۂ رسالت سے لے کر آج تک یہ سلسلہ اِسی تواتر کے ساتھ جاری ہے، اِس میں کبھی کوئی انقطاع نہیں ہوا۔ یہی معاملہ اُس کی زبان کے قواعد و اسالیب کا ہے۔ اُنھیں بھی اِسی تواتر کے ساتھ نقل کیا گیا اور پڑھا اور پڑھایا گیا ہے۔ اِس میں شاذ اگر کوئی استثنا کہیں بیان کیا جا سکتا ہے تو اپنی دلالت سے یہی متواترات اُس کو بھی درجۂ یقین میں لے آتے ہیں۔ چنانچہ قرآن کے متعلق یہ بات آج بھی پورے اطمینان کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ انسان اُس کے الفاظ کی رہنمائی قبول کر لے تو وہ قطعیت کے ساتھ اُسے ٹھیک اُس مدعا تک پہنچا دیتے ہیں جس کے لیے استعمال کیے گئے ہیں۔

زبان کی نقل و روایت اور لفظ و معنی کے باہمی ربط سے متعلق جو مسائل لوگوں کے لیے اِس باب میں مزلۂ قدم ثابت ہوئے ہیں، اُن میں سے بعض کی غلطی ہم اپنی کتاب ’’میزان‘‘ کے مقدمے میں واضح کر چکے ہیں اور بعض پر کسی تبصرے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ سو فسطائی نظریات حیات و کائنات کی سنگین حقیقتوں کے مقابلے میں جس طرح اِس سے پہلے قصۂ پارینہ بنے ہیں، یہ نئی سوفسطائیت بھی عنقریب اِسی طرح قصۂ پارینہ بن جائے گی۔ اِس کی تردید و تغلیط میں اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ اِسی طرح بعض نئے قلم کاروں کی یہ بات بھی قابل توجہ نہیں ہے کہ عام قطعی الدلالۃ نہیں ہوتا اور قرآن کی زیادہ تر آیتیں چونکہ اِسی طرح کے الفاظ پر مشتمل ہیں ، لہٰذا قرآن بھی قطعی الدلالۃ نہیں ہو سکتا۔ اہل علم خود سمجھ سکتے ہیں کہ یہ بات کیسی طفلانہ اور علم و دانش سے کتنی بعید ہے جس کے کہنے والے الفاظ کی وضع لغوی اور وضع استعمالی کا فرق بھی نہیں جانتے۔

ایک اعتراض، البتہ مستحق ہے کہ اُس سے تعرض کیا جائے۔ بعض علما کہتے ہیں کہ قرآن کی بیش تر آیات کے سمجھنے میں لوگوں نے اختلاف کیا ہے، اِس لیے وہ محتمل الوجوہ ہیں اور کوئی محتمل الوجوہ کلام قطعی الدلالۃ نہیں ہو سکتا۔ قطعی الدلالۃ اُسی کلام کو کہیں گے جس کی تاویل میں کوئی اختلاف نہ ہو۔

اِس اعتراض میں اتنی بات بالکل صحیح ہے کہ کوئی محتمل الوجوہ کلام قطعی الدلالۃ نہیں ہو سکتا، لیکن کیا ہر وہ کلام جس کی تاویل میں اختلافات ہوں، محتمل الوجوہ ہوجاتا ہے؟ ہمارا جواب ہے کہ ہرگز نہیں۔ محتمل الوجوہ ہونا کلام کی مستقل صفت ہے، یہ اُسے عارض نہیں ہوتی۔ آپ کسی کلام کو محتمل الوجوہ قرار دینا چاہتے ہیں تو ثابت کیجیے کہ اُس کی تاویل میں جو اختلافات بیان کیے جا رہے ہیں، وہ ہمیشہ سے قائم ہیں اور ہمیشہ قائم رہیں گے۔ علم و استدلال کسی حال میں اُس کے وجود سے اُنھیں منفک نہ کر سکیں گے۔ ایک شخص کسی کلام کو سنتا یا پڑھتا ہے اور اُس کے کسی لفظ، کسی محاورے یا کسی تالیف کے معنی غلط سمجھ لیتا ہے۔ دوسرا جملے کے دروبست کو نظر انداز کرکے اُس کا ایک مفہوم بیان کر دیتا ہے۔ تیسرا ہر جملے کو منفرد خیال کرتا ہے اور سیاق و سباق اور نظم کلام کی پروا کیے بغیر اُس کا ایک مدعا بیان کرتا ہے۔ کیا یہ سب وجوہ کلام ہیں اور اِن کی بنا پر اُسے محتمل الوجوہ کہا جائے گا؟ قرآن کی تاویل میں جتنے اختلافات ہوئے ہیں، سب کی نوعیت یہی ہے۔ چنانچہ اُس کی کوئی ایک آیت بھی نہیں ہے جس کے بارے میں یہ کہا جا سکے کہ اصلاً محتمل الوجوہ ہے اور سلف سے خلف تک تمام علما متفق رہے ہیں کہ اُس میں ایک سے زیادہ معنی کا احتمال ماننا ضروری ہے۔ اِس کے برخلاف صورت حال یہ ہے کہ جتنے اقوال کسی آیت کے بارے میں نقل ہوئے ہیں، اُن میں سے بعض اختیار کیے گئے اور بعض چھوڑ دیے گئے ہیں۔ پھر جو چھوڑ دیے گئے ہیں، اُنھیں دوسرے اہل علم نے اختیار کر لیا ہے اور جو اختیار کیے گئے ہیں، اُنھیں چھوڑ دیا ہے۔ علما اِس ترک و اختیار کے وجوہ بھی بیان کرتے ہیں۔ کہیں بتایا جاتا ہے کہ لغت اُس معنی کی تائید نہیں کرتی جو کسی قول میں اختیار کیے گئے تھے، کہیں تالیف کو سمجھنے کی غلطی واضح کی جاتی ہے ، کہیں دروبست کو نظر انداز کرنے کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے اور کہیں سیاق و سباق اور نظم کلام سے استدلال کیا جاتا ہے۔ فقہ و کلام اور تفسیر کی کتابیں اِن مباحث سے بھری پڑی ہیں۔ ابن جریر لوگوں کے اقوال نقل کرنے میں سب سے زیادہ فیاض ہیں، لیکن تفسیر کا مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں کہ جگہ جگہ مختلف اقوال پر تنقید بھی کرتے ہیں۔ ابن کثیر اُنھی کا خلاصہ ہے، مگر یہ خلاصہ خود اصول ترجیح کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔ زمخشری، قرطبی ، آلوسی، طباطبائی، ابوالاعلیٰ مودودی، سب کی تفسیریں اِس کی شہادت دیتی ہیں۔ دنیا کی دسیوں زبانوں میں قرآن کے ترجمے ہوئے ہیں۔ اُنھیں دیکھ لیجیے کسی مترجم نے قرآن کی کسی ایک آیت کو بھی محتمل الوجوہ قرار دے کر اُس کا ترجمہ نہیں کیا، بلکہ ہر جگہ اپنی ترجیح قائم کی ہے اور اُسی کے مطابق ترجمہ کیا ہے۔ اِس کا منتہاے کمال امام فراہی کی تفاسیر اور استاذ امام امین احسن اصلاحی کی ’’تدبر قرآن‘‘ ہے، جن میں ترجمہ ہی نہیں، تفسیرمیں بھی ہر جگہ ایک ہی قول کو ترجیح دی گئی ہے۔ اِس ترجیح سے اختلاف بھی کیا جا سکتا ہے، مگر یہ اختلاف خود اِس بات کی دلیل ہوگا کہ اختلاف کرنے والا کلام کو محتمل الوجوہ نہیں مانتا۔ وہ اصرار کر رہا ہے کہ جو معنی سمجھے گئے ہیں، وہ فلاں اور فلاں وجوہ سے صحیح نہیں ہیں۔

لوگوں کی غلطی یہ ہے کہ وہ تاویل کے اختلافات اور کلام کے احتمالات میں فرق نہیں کرتے۔ یہ دونوں الگ الگ چیزیں ہیں۔تاویل کے اختلافات قلت علم سے بھی پیدا ہو جاتے ہیں اور قلت تدبر سے بھی۔ پھر قلت تدبر کے بھی وجوہ ہیں۔ لوگوں کی ذہنی تربیت، اُن کی خواہشات، تعصبات، عجلت پسندی، اشتغال بالادنیٰ اور اِس نوعیت کی بہت سی چیزیں اِس کا باعث بن جاتی ہیں۔ اِن میں سے کوئی بات بھی نہ ہو تو قرآن جیسی مقدس کتاب کے بارے میں تنہا یہ احتیاط نقد و جرح سے گریز کا باعث بن جاتی ہے کہ معنی کی ترجیح میں کوئی غلطی نہ ہو جائے۔ اِس کے برخلاف کلام کے احتمالات اُس کی پیدایش کے وقت سے اُس میں ودیعت ہوتے ہیں۔ پڑھنے یا سننے والا اُنھیں دریافت کر لے تو کبھی کلام سے الگ نہیں کر سکتا۔ چنانچہ وہ جب بیان کیے جاتے ہیں تو ہر شخص ماننے کے لیے مجبور ہو جاتا ہے کہ یہ کلام کا پیدایشی عیب ہے، اِسے دور کرنا ممکن نہیں ہے۔

قرآن مجید اِس عیب سے بالکل مبرا ہے۔اِس طرح کی کوئی چیز اُس کے بارے میں ثابت نہیں کی جا سکتی۔ وہالْعِلْمہے، الْحَقّہے، میزان اور فرقان ہے، عربی مبین میں نازل ہوا ہے،نَذِیْرًا لِّلْعٰلَمِیْن ہے، لہٰذا پوری دنیا کے لیے خدا کی حجت ہے۔ اُس کا دعویٰ ہے کہ خدا کی کسی کتاب میں تضادات اور احتمالات نہیں ہوتے، وہ ہمیشہ قطعی الدلالۃ ہوتی ہے:لَوْکَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًا۳؎‘۔

[۲۰۱۰ء]

__________

۱؎ آل عمران۳:۶۰۔

۲؎ آل عمران۳:۶۱۔۶۳۔ النجم۵۳:۲۸۔

۳؎ النساء ۴:۸۲۔’’ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اِس میں وہ بہت کچھ اختلاف پاتے۔‘‘

_______________

یہ آرٹیکل جاوید احمد غامدی کی کتاب ’’مقامات‘‘ سے لیا گیا ہے۔
’’مقامات‘‘ پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
مصنف : جاوید احمد غامدی