مقاصد شریعت کے ابدی اور احکام وقوانین کے عارضی ہونے کا نظریہ (2) - عمار خان ناصر

مقاصد شریعت کے ابدی اور احکام وقوانین کے عارضی ہونے کا نظریہ (2)

 شرعی قوانین واحکام کی اصولی حیثیت کے حوالے سے مذکورہ نصوص کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھیے کہ خاندانی قوانین میں مرد اور عورت کے مابین امتیاز اور معاشرتی جرائم پر شریعت کی مقرر کردہ جن سزاوں کو محض ایک مخصوص سماجی صورت حال کا تقاضا قرار دیا جاتا ہے، خود قرآن وسنت کے نصوص ان احکام کو ایک بالکل مختلف زاویے سے پیش کرتے ہیں۔
مثال کے طور پر قرآن مجید نے الرجال قوامون علی النساء اور وللرجال علیھن درجۃ کے الفاظ میں خاندانی رشتے میں بیوی کے مقابلے میں شوہر کی جو بالاتر حیثیت بیان کی ہے، زیر بحث زاویہ نگاہ کی رو سے تاریخی سیاق کی روشنی میں اس کی وجہ محض یہ تھی کہ خواتین اس وقت کسب معاش کے میدان میں مردوں سے مسابقت کی پوزیشن میں نہیں تھیں اور ان کی کفالت کی ذمہ داری شوہروں پر ہی عائد ہوتی تھی، اس لیے اگر جدید تمدن میں خواتین کے لیے اپنی معاشی کفالت خود کرنے کے مواقع پیدا ہو گئے ہیں تو اس کے نتیجے میں حق طلاق، وراثت کے حصوں اور دیگر امور میں بھی میاں بیوی کے مابین مساوات پیدا کرنا ضروری ہو گیا ہے۔ تاہم قرآن کا زاویہ نگاہ اس سے بالکل مختلف ہے۔
اولاً، قرآن مجید نے الرجال قوامون عَلَی النِّسَآء‘ کی اصل وجہ معاشی کفالت نہیں، بلکہ یہ بیان کی ہے کہ بما فضل اللہ بعضہم علی بعض، یعنی مردوں کو اللہ تعالیٰ نے بعض خلقی صفات کے لحاظ سے عورتوں پر برتری عطا کی ہے اور اس برتری کی بنا پر خواتین کے تحفظ اور کسب معاش کی ذمہ داری بھی فطری طور پر انھی پر عائد ہوتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں شوہر کا بیوی کی کفالت کرنا محض ایک واقعے کا بیان نہیں، بلکہ ایک ذمہ داری کا بیان ہے اور سماجی وتمدنی تبدیلی خواتین کے لیے معاشی میدان میں مسابقت کے دروازے کتنے ہی کھول دے، کفالت کی یہ ذمہ داری مرد پر ہی عائد رہے گی۔ عقل وانصاف کے زاویے سے بھی اس امر پر زیادہ استدلال کی ضرورت نہیں کہ طبعی و خلقی نزاکتوں اور بچوں کی ولادت اور پرورش کی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ اپنی معاشی کفالت کی ذمہ داری بھی خواتین پر ڈال دینا ان کے ساتھ صریح بے انصافی ہے اور قرآن دراصل انھیں اسی سے محفوظ رکھنا چاہتا ہے۔ گویا معاشی کفالت میاں بیوی کے مابین فرق مراتب کی اصل وجہ نہیں، بلکہ اصل وجہ پر متفرع ہونے والا ایک نتیجہ ہے اور اپنی اساس کے ابدی ہونے کی بنا پر اس کو نظر انداز کرکے حقوق وفرائض کی کوئی نئی تقسیم قائم کرنا علم وعقل اور انصاف کے تقاضوں کو پامال کیے بغیر ممکن نہیں۔
ثانیاً، قرآن مجید نے اس سے آگے بڑھ کر فرق مراتب کی بنیاد پر ہی خاوند کو یہ حق دیا ہے کہ اگر بیوی شوہر کی اس بالاتر حیثیت کو چیلنج کرے اور سرکشی کر کے خاندان کے نظم کو بربادی کے گڑھے میں دھکیلنا چاہے تو وعظ ونصیحت کے بعد شوہر اپنی بیوی کو مناسب جسمانی تادیب کا اختیار بھی رکھتا ہے۔ اگر شوہر کو حاصل برتری محض ایک مخصوص سماجی صورت حال کی پیداوار تھی تو قرآن کو اس کے خاتمے کی ترغیب دینے کے بجائے اس کو برقرار رکھنے کے لیے ازخود اس طرح کے اقدامات تجویز کرنے کی آخر کیا ضرورت تھی؟ یہ بات اس تناظر میں بالخصوص قابل توجہ ہے کہ غلاموں اور لونڈیوں کے معاملے میں اس سے مختلف رویہ اختیار کرنے کی تلقین کی گئی ہے، چنانچہ ایک شخص نے اپنے غلام کو اس کی کسی غلطی پر تھپڑ مار دیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر اسے تنبیہ فرمائی اور پھر جب اس شخص نے اس پر نادم ہو کر غلام کو آزاد کر دیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم ایسا نہ کرتے تو جہنم کی آگ تمھیں اپنی لپیٹ میں لے لیتی۔
ثالثاً، مرد کے لیے تسلیم کی جانے والی برتری کو ایک وقتی سماجی ضرورت کی پیداوار قرار دینا اس لیے بھی ناقابل فہم ہے کہ قرآن براہ راست طلاق دینے کے حق کو صرف شوہر کے لیے بیان کرتا ہے جس کی توجیہ معاشی کفالت کے اصول پر نہیں کی جا سکتی، اس لیے کہ شادی سے پہلے لڑکی کی کفالت کے ذمہ دار اس کے اہل خاندان ہوتے تھے اور شادی کے بعد شوہر، لیکن اس کے باوجود ان میں سے کسی کو بالغ عورت کا نکاح اس کی مرضی کے بغیر کرنے کا حق نہیں دیا گیا، جس کا مطلب یہ ہے کہ معاشی انحصار فی نفسہ عورت کو اپنی ذات کے بارے میں فیصلہ کرنے کے حق سے محروم نہیں کرتا۔ پس اگر معاشی انحصار رشتہ نکاح کو وجود میں لانے کے معاملے میں عورت سے اس کے اختیار کو سلب کرنے کی وجہ نہیں بن سکتا تو اسے اس رشتے کو ختم کرنے کے حق کی نفی کی بنیاد بھی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ نکتہ بھی اس امر کو واضح کرتا ہے کہ شوہر کو بیوی پر ایک درجہ زیادہ دینے کی توجیہ، جس کا ایک اظہار حق طلاق کی صورت میں بھی ہوتا ہے، محض معاشی کفالت کے اصول پر نہیں کی جا سکتی۔
رابعاً، خاندانی رشتے میں شوہر کی بالادستی کے کم از کم ایک اور نہایت بنیادی پہلو کی غالباً زیر بحث نقطہ نظر کے ترجمان اہل فکر بھی نفی نہیں کرتے۔ میری مراد بچے کے نسب سے ہے۔ اگر شوہر کو حاصل ایک درجے کی بالادستی مخصوص سماجی صورت حال پر مبنی تھی اور قرآن دراصل معاشرتی ارتقا کو اس رخ پر آگے بڑھانا چاہتا ہے جس کا نتیجہ میاں بیوی کے یکساں اور مساوی حقوق کی صورت میں نکلے تو ظاہر ہے کہ اس بالادستی کے تمام مظاہر اور نتائج کو اس صورت حال میں تبدیلی کے ساتھ ختم ہو جانا چاہیے۔ چنانچہ یہ ماننا پڑے گا کہ جیسے ہی میاں بیوی کے مابین مساوات کے موانع ختم ہو جائیں اور اس مساوات کو عملاً قائم کرنا ممکن ہو، اس کے بعد بچے کے نسب کو باپ کے ساتھ وابستہ رکھنا ضروری نہیں رہے گا۔ جب میاں اور بیوی، دونوں خاندانی رشتے میں مساوی حیثیت کے حامل ہیں تو بچے کے نسب اور اس کی شناخت میں بنیادی حوالہ باپ کا کیوں ہو اور اس نسب کی حفاظت کے لیے شریعت میں جو بعض دیگر احکام دیے گئے تھے، مثلاً عدت گزارنا اور بیوی کے لیے بیک وقت ایک سے زائد شادی کا حق تسلیم نہ کرنا وغیرہ، وہ بھی قانون کی بنیاد ختم ہو جانے کے بعد کیوں باقی رہیں؟ اور اگر یہ نتیجہ قابل قبول نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ معاشی کفالت کے جس اصول کو شوہر کی بالادستی کی واحد بنیاد قرار دیا گیا تھا، وہ بجائے خود ناقص اور محل نظر ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید میاں بیوی کے رشتے اور اس سے قائم ہونے والے حقوق وفرائض اور فرق مراتب کو سماجی ومعاشی صورت حال سے پیدا ہونے والی ایک ضرورت کے طور پر بیان نہیں کرتا، بلکہ اسے مخصوص مذہبی مفہوم میں ’تقدس‘ کا درجہ عطا کرتا ہے۔ قرآن کے نزدیک دنیوی زندگی کے معاملات کو دیکھنے کا صحیح زاویہ نگاہ مابعد الطبیعیاتی، اخلاقی اور روحانی ہے اور وہ انسانی تعلقات کے دوسرے دائروں کی طرح خاندان کے دائرے میں بھی اس پہلو کو خاص طور پر اجاگر کرتا ہے، چنانچہ وہ خاوند کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کی جانے والی فضیلت اور اس سے پیدا ہونے والی حقوق وفرائض کی تقسیم کو تسلیم کرنے اور عملاً اس کی پابندی قبول کرنے کو نیکی، تقویٰ اور اطاعت کی لازمی شرط قرار دیتا ہے۔ سورئہ نساءکی آیت ’اَلرِّجَالُ ّقوامون علی النساء سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اس حکم کی تمہید کے طور پر میاں اور بیوی کے مابین فرق مراتب کو دنیا میں خدا کی اسکیم کا حصہ قرار دیتے ہوئے یہ تلقین کی ہے کہ جو فضیلت اللہ نے اپنی حکمت کے تحت تم میں سے بعض کو بعض پر دی ہے، اس کے خواہش مند نہ بنو۔ آگے چل کر نیک بیویوں کی علامت یہ بتائی گئی ہے کہ وہ اپنے شوہروں کی فرماں بردار اور مطیع ہوتی ہیں اور پھر شوہروں کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ اگر بیویاں اس سے مختلف رویہ اختیار کریں تو وہ آخری چارئہ کار کے طور پر ان کی جسمانی تادیب بھی کر سکتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعدد ارشادات اسی حقیقت کو واضح کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ عورت اگر پانچ وقت کی نماز ادا کرے، رمضان کے روزے رکھے اور اپنے خاوند کی اطاعت کرے تو جنت میں داخل ہونے کی مستحق بن جاتی ہے۔آپ نے یہ بھی فرمایا کہ اگر میں خدا کے علاوہ کسی کو سجدہ کرنے کی اجازت دیتا تو بیوی سے کہتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔
شوہر اور بیوی کے رشتے کی یہ نوعیت اگر جدید مغربی فکر کے لیے قابل قبول نہیں تو یہ تاریخی سیاق اور سماجی ضروریات کے بدلنے کا مسئلہ نہیں، بلکہ مابعد الطبیعیات کا سوال ہے۔ انسانی حقوق اور مساوات کے جدید مغربی تصور کے لیے یہ بات اس لیے ناقابل فہم ہے کہ یہ تصور انسان کی عظمت ومرکزیت اور انفرادیت پسندی کے اس گمراہ کن فلسفے سے پھوٹا ہے جو انسان کو اس کے گرد وپیش میں پھیلی ہوئی کائنات اور اس کے خالق سے بے نیاز کر کے اس کے اندر یہ احساس پیدا کرتا ہے کہ فرد کی شخصی انا، احساسات، خواہشات اور مفادات اصل اور اساس کی حیثیت رکھتے ہیں اور تمام اخلاقی ومعاشرتی ضابطے دراصل سماج میں رہنے والے افراد کے انفرادی حقوق اور خواہشات کے تحفظ اور تکمیل کی خدمت انجام دینے کے علاوہ اپنے اندر کوئی معنویت نہیں رکھتے۔ حب ذات کا یہ بے لگام جذبہ ہی ان تمام مذہبی، روحانی اور اخلاقی قدروں کی تباہی کا سبب ہے جو نہ صرف انسان کی شخصیت، بلکہ خاندان اور سماج کی پاکیزہ نشوو نما کے لیے بھی ضروری ہیں۔ یہ فکر وفلسفہ انسانوں میں پائے جانے والے بعض نفسیاتی احساسات کو نامعقول حد تک انگیخت کر کے انھیں اعلیٰ روحانی ، اخلاقی اور سماجی قدروں سے بغاوت پر آمادہ کرتا ہے اور اس طرح رشتوں، ناتوں اور تعلقات میں تناو اور کشاکش کی ایسی فضا پیدا کر دیتا ہے کہ پورا سماج، مختلف طبقات کے مابین شدید بداعتمادی اور بد گمانی کے ماحول میں ’انسانی حقوق‘ کے میدان جنگ کی تصویر پیش کرنے لگتا ہے جس میں خدا کے حکم کی اطاعت میں اس کی قائم کردہ تقسیم کو قبول کرنا اور حیات انسانی کو ایک اخلاقی آزمایش سمجھتے ہوئے اپنے اپنے دائرے میں اللہ کی مقرر کردہ حدود کی پاس داری کرنے اور فرائض کو بجا لانے کا تصور ایک بالکل اجنبی تصور قرار پاتا ہے۔
یہی معاملہ مختلف معاشرتی جرائم کے حوالے سے قرآن مجید کی مقرر کردہ سزاوں کا بھی ہے۔ ان سزاوں میں کوڑے لگانے، ہاتھ کاٹنے، سولی دینے اور عبرت ناک طریقے سے قتل کر دینے جیسی سزائیں شامل ہیں۔ قرآن مجید ان سخت سزاوں کو محض ایک سماجی ضرورت کے طور پر بیان نہیں کرتا، بلکہ اس میں خود خدا کو بھی ایک فریق قرار دیتا ہے۔ چنانچہ وہ چوری کرنے پر ہاتھ کاٹنے کو ’نَکَالاً مِّنَ اللّٰہِ‘ یعنی اللہ کی طرف سے عبرت کا نمونہ۔ اور محاربہ اور فساد فی الارض کے مجرموں کے لیے عبرت ناک طریقے سے قتل کرنے، سولی دینے یا ہاتھ پاوں الٹے کاٹ دینے کو دنیا میں ان کے لیے رسوائی قرار دیتا ہے۔ زنا کی سزا کے بارے میں اس نے فرمایا ہے کہ یہ خدا کے دین پر عمل درآمد کا معاملہ ہے، اس لیے نہ صرف مجرم پر ترس کھانے یا نرم دلی کا کوئی جذبہ سزا کے نفاذ کی راہ میں حائل نہیں ہونا چاہیے، بلکہ اس سزا کو کھلے بندوں مجرم پر نافذ کرنے کا اہتمام ہونا چاہیے۔ اب دور جدید میں ان سزاوں سے مختلف سزائیں تجویز کرنے کی وجہ محض کوئی سماجی مصلحت نہیں، بلکہ فکر ونظر کے زاویے میں واقع ہونے والا ایک نہایت بنیادی اختلاف ہے۔ جدید ذہن کو یہ سزائیں سنگین،متشددانہ اور قدیم وحشیانہ دور کی یادگار دکھائی دیتی ہیں اور وہ انھیں انسانی عزت اور وقار کے منافی تصور کرتا ہے اور زاویہ نگاہ کی یہ تبدیلی محض قانون کی سماجی مصلحت کے دائرے تک محدود نہیں، بلکہ یہ سوال قانون کی مابعد الطبیعیاتی اور اعتقادی بنیادوں کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ اسلام خدا کے سامنے مکمل تسلیم اور سپردگی کا نام ہے۔ یہ سپردگی مجرد قسم کے ایمان واعتقاد اور بعض ظاہری پابندیوں کو بجا لانے تک محدود نہیں، بلکہ انسانی جذبات واحساسات بھی اس کے دائرے میں آتے ہیں۔ محبت، نفرت، ہمدردی اور غصے جیسے جذبات اور حب ذات، آزادی اور احترام انسانیت جیسے احساسات وتصورات نفس انسانی میں خدا ہی کے ودیعت کردہ اور اس اعتبار سے بجائے خود خدا کی امانت ہیں، چنانچہ اسلام کے نزدیک ان کا اظہار اسی دائرئہ عمل میں اور اسی حد تک قابل قبول ہے جب تک وہ خدا کے مقرر کردہ حدود کے پابند رہیں۔ اس سے تجاوز کرتے ہوئے اگر ان کو کوئی مقام دیا جائے گا تو یہ خدا کی امانت کا صحیح استعمال نہیں، بلکہ اس میں خیانت کے مترادف ہوگا۔ شیطان اسی لیے راندئہ درگاہ ٹھہرا تھا کہ اس نے ’خودی‘ کو حکم خداوندی سے بھی بلند کر لیا تھا اور یہی وجہ ہے کہ قرآن نے مجرموں کے لیے اپنی بیان کردہ سزاوں کے نفاذ کے معاملے میں مجرم پر کوئی ترس نہ کھانے کو ان کنتم تومنون باللہ والیوم الآخر کہہ کر براہ راست ایمان کے ساتھ جوڑ دیا ہے۔ پس جدید انسانی نفسیات اگر جرم وسزا سے متعلق قرآنی احکام سے نفور محسوس کرتی ہے تو یہ محض قانون کی مصلحت یا اس کے سماجی تناظر کے بدل جانے کا مسئلہ نہیں، بلکہ اس کی جڑیں قانون کی مابعد الطبیعیاتی اساسات میں پیوست ہیں اور اس معاملے میں جدید فکر کے ساتھ کمپرومائز کا جواز فراہم کرنے کے لیے معاشرتی مصالح کے تناظر میں قانون میں تبدیلی کرنے کا اصول کافی نہیں، بلکہ اس کے لیے ’اجتہاد‘ کے دائرے کو ایمان واعتقاد تک وسیع کرنا پڑے گا۔
(جاری)

بشکریہ مکالمہ ڈاٹ کام، تحریر/اشاعت 24 اکتوبر 2016
مصنف : عمار خان ناصر
Uploaded on : Dec 01, 2016
2415 View