حقوق باری تعالیٰ:حج ،عمرہ اور قربانی - ابو یحییٰ

حقوق باری تعالیٰ:حج ،عمرہ اور قربانی

 قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کے حوالے سے بیان ہونے والے مطالبات کی بحث کے آغاز میں یہ واضح کیا گیا تھا کہ قرآن مجید ان مطالبات کو عبادت یا بندگی کے جامع عنوان سے بیان کرتا ہے۔ اس بندگی کے تین بنیادی اجزا ہیں۔ یعنی اپنے معبود کی پرستش، اس کی اطاعت اور اس کی حمیت و حمایت کا جذبہ۔ دین کی تمام عبادات انھی تین چیزوں کا علامتی اظہار ہیں۔ نماز اور زکوٰۃ پرستش اور روزہ اور اعتکاف اطاعت کا علامتی اظہار ہیں۔ جبکہ حج، عمرہ اور قربانی اپنے مالک کی حمیت و حمایت، اس کے لیے خود کو نذر کر دینے یہاں تک کہ اس کے لیے اپنی جان دے دینے کا بھی علامتی اظہار ہیں۔

حج، عمرہ، قربانی: مقصد و حقیقت
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ انسانوں کو یہ صاف طور پر بتاتے ہیں کہ شیطان انسان کا دشمن ہے۔ وہ اس دشمنی کی تاریخ بھی بیان کرتے ہیں کہ تخلیق آدم کے وقت ابلیس نامی جن نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے باوجود حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ یہ انکار نہ صرف اللہ تعالیٰ سے کھلی بغاوت تھا بلکہ خدا کی اس اسکیم کے خلاف اعلان جنگ بھی تھا جس کے تحت اس دنیا میں انسانوں کو امتحان کے لیے بھیجا جارہا تھا۔ شیطان نے اپنی اس جنگ کے لیے اللہ تعالیٰ سے مہلت مانگ لی تھی ۔شیطان نے یہ مہلت اس لیے مانگی تھی کہ اسے انسانوں کو گمراہ کرنے کا موقع دے کر یہ ثابت کرنے کی اجازت دی جائے کہ انسان خدا کے شکر گزار نہیں ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے نہ صرف اسے یہ مہلت دے دی بلکہ اسے یہ موقع بھی دیا کہ اس کی ذریت، اس کا قبیلہ اور اس کے لشکر پوری آزادی سے انسانوں کو راہِ خدا سے بھٹکائیں اور اس طرح جہنم کی اسی سزا کے حقدار بنیں جس کا مستحق ابلیس ملعون ٹھہرا ہے۔ البتہ ان کو صرف وسوسہ انگیزی کی اجازت دی گئی تھی۔ یہ اختیار نہیں دیا گیا تھا کہ انسان کے ارادے کے برخلاف جبر کرکے اسے راہ حق سے ہٹا سکیں۔

حضرت آدم کو ایک عارضی مقام پر رکھ کر انھیں یہ تجربہ کرا دیا گیا تھا کہ کس طرح شیطان وسوسہ انگیزی کرکے انسانوں کو بہکانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ بعد کے زمانوں میں بھی شیطانوں کے لشکروں کی طرف سے انسانیت کو بہکانے کا یہ سلسلہ جاری رہا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے تک صورتحال یہ ہوچکی تھی کہ شیطان نے اپنے مقصد میں بھرپور کامیابی حاصل کر لی تھی۔ ہر طرف شرک کا دور دورہ تھا اور توحید کے نام لیوا خال خال ہی پائے جاتے تھے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کو یہ حکم دیا کہ اپنے اکلوتے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اس خدمت کے لیے وقف کر دیں کہ وہ بیت اللہ میں صرف ایک اللہ کی عبادت، اسی کی پرستش اور اسی کے لیے قربانی کا ایک نظام قائم کریں۔ تاکہ دنیا بھر میں جو بھی خدا پرست ہیں وہ بیت اللہ کے حج و عمرہ کے لیے آئیں اور اپنی عبادت اور قربانی کو خداکے لیے خاص کرکے اپنے عمل سے پوری دنیا کو یہ پیغام دیں کہ شیطان کو اس جنگ میں خالی میدان نہیں ملے گا بلکہ زبردست مزاحمت پیش آئے گی۔

چنانچہ اسی زمانے سے حج و عمرہ کی عظیم عبادت باقاعدہ ادا کی جانے لگی۔ عرب کے مخصوص بدامنی کے ماحول میں رجب کا مہینہ عمرے کی ادائیگی اور ذی القعدہ، ذی الحجہ اور محرم کے مہینے حج کی عبادت کے لیے حرام قرار دیے گئے تھے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ان مہینوں کااحترام ملحوظ رکھا جائے گا اور ہر قسم کی جنگ و جدل اور خونریزی سے پرہیز کیا جائے گا۔ تاہم عمرہ سال میں کسی بھی وقت ادا کیا جاسکتا ہے۔ لوگ کسی بھی وقت عمرہ کا احرام باندھ کر دور دراز سے مشقت اٹھا کر اور دنیوی زینتوں سے قطع تعلق کرکے کر مکہ مکرمہ حاضر ہوتے ہیں اور حرم پاک کے پھیرے لگا کر خدا سے اپنی وفاداری کا اعلان کرتے ہیں۔ پھر اپنے بال مونڈھ کر زمانہ قدیم کے دستور کے مطابق یہ اعلان کرتے ہیں کہ وہ خدا کے غلام ہیں اور خود کو اس کی بندگی اور اطاعت کے لیے نذر کرچکے ہیں۔

عمرہ کے برخلاف جو ایک نفل عبادت ہے، حج کی عبادت ہر اس مسلمان پر زندگی میں ایک دفعہ فرض ہے جو حرم تک جانے کی استطاعت رکھتا ہو۔ حج کی یہ عظیم عبادت سال میں ایک دفعہ مخصوص ایام یعنی 8 سے 13 ذوالحجہ کے دوران میں مکہ، منی، مزدلفہ اور عرفات میں ادا کی جاتی ہے۔ حاجی اپنے اپنے ملکوں اور شہروں سے نکلتے ہیں اور میقات پر پہنچ کر احرام کی پابندیاں اختیار کرلیتے ہیں۔ حج میں عمرے کی طرح خود کو خدا کے لیے نذر کرنے کے ساتھ ساتھ وہ حقیقت بھی پوری طرح ممثل ہوجاتی ہے جس کے لیے خود کو نذر کیا جارہا ہوتا ہے۔ یعنی خدا کی حمیت و حمایت کے جذبے سے سرشار انسانوں کی شیطان کے خلاف جنگ۔

اس جنگ کا علامتی اظہار منیٰ سے عرفات، عرفات سے مزدلفہ اور مزدلفہ سے واپس منیٰ تک وہ سعی و جہد ہے جو ایک لشکرِ جہاد کی نقل و حرکت کے مماثل ہے۔ یہ لشکر منی میں جمع ہوتا ہے اور اگلی صبح عرفات میں پہنچ کر خطبہ حج سن کر گویا جنگ کے لیے اپنے امام سے رہنمائی لیتا ہے۔ پھر دن بھر دعا و زاری کرکے اس جنگ میں اپنے رب کی مدد مانگتا ہے۔ سر شام یہ لشکر مزدلفہ کے لیے روانہ ہوجاتا ہے۔ اس سفر میں جہاد کی تمثیل کے مطابق ہی ہر موقع پر نمازیں جمع و قصر کی جاتی ہیں۔ مزدلفہ میں شب بسری کے بعد یہ لشکر صبح دم منیٰ لوٹتا ہے اور رمی جمار یا شیطان کی علامت پر سنگباری کرتا، اپنا سر منڈوا کر خود کو اپنے رب کی نذر کر دینے کا اعلان کرتا اور آخر میں کعبہ کا طواف اور صفا مروہ کی سعی کرکے خدا سے وفاداری اور اس کی شکر گزاری کا اظہار کرتا ہے۔ پھر اس کے بعد اگلے دو یا تین دن منیٰ میں رک کر خدا کی یاد اور شیطان پر سنگباری کا عمل جاری رہتا ہے۔ یہ پورا عمل علامتی طور پر اس بات کا اظہار ہے کہ انسان نے خود کو اپنے رب کی نذر کر دیا ہے اور اس نذر کا اصل مقصد شیطان کے خلاف جنگ ہے۔ حج و عمرہ کی عبادت میں قربانی ایک نفل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے عید الاضحی کے تہوار کے موقع پر بھی جو حج کی مناسبت سے اسی موقع پر باقی سارے مسلمان مناتے ہیں بطور ایک عبادت جاری کیا ہے۔ یہ قربانی سیدنا ابراہیم اور سیدنا اسماعیل کے اس بے مثال واقعے کی یادگار ہے جس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ حضرت ابراہیم کو خواب میں یہ دکھایا گیا کہ وہ اپنے بیٹے کو اپنے ہاتھوں سے ذبح کر رہے ہیں۔ مگر خلیل اللہ اور ان کے جلیل القدر صاحبزادے نے اللہ تعالیٰ سے اس خواب کی کوئی تعبیر یا توجیہ دریافت کرنے یا کسی مزید خدائی حکم کا انتظار کرنے کے بجائے بعینہٖ اس پر عمل کرنے کا فیصلہ کیا۔ اللہ تعالیٰ کو باپ بیٹے کی یہ ادا اتنی پسند آئی کہ جس طرح اسماعیل علیہ السلام کی جگہ جانور کو قربان کرنے کا حکم دیا گیا تھا، اسی طرح ان کے پیروکاروں کو یہ حکم دیا گیا کہ وہ جانور کی قربانی کرکے اپنی جان خدا کے لیے نذر کرنے کی اس آخری مثال کی یادگار کو قائم و دائم رکھیں۔ چنانچہ آج جب مسلمان جانور قربان کرتے ہیں تو زبال حال سے وہ یہی پیغام دیتے ہیں کہ ان کی زندگی خدا کے لیے نذر ہے اور اسی راہ میں ان کی موت بھی آئے گی۔ یہ گویا کہ اس شیطان کے منہ پر ایک چانٹا لگانے کا عمل ہے جس نے کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ انسانوں کو اپنا شکر گزار نہیں پائیں گے۔

عمرہ، حج اور قربانی تینوں میں نذر کی تمثیل اور خدا کی حمیت و حمایت کا یہ جذبہ کہ انسان اپنی زندگی اور حتیٰ کہ موت بھی خدا کے لیے کر دے شکر گزاری اور بندگی کا ایسا اظہار ہے جس کی کوئی مثال پیش نہیں کی جاسکتی۔

قرآن مجید اور حج، عمرہ اور قربانی
نزول قرآن کے وقت مشرکین عرب ان تینوں عبادات سے نہ صرف اچھی طرح واقف تھے بلکہ ان کو پورے اہتمام سے اختیار کیے ہوئے تھے۔ البتہ انھوں نے ان میں بہت سے توہمات اور مشرکانہ بدعات کو شامل کرلیا تھا۔ چنانچہ قرآن مجید میں ان عبادات کے حوالے سے زیادہ تر بحث اسی پس منظر میں ہوئی ہے کہ عرب میں رائج ان توہمات اور مشرکانہ بدعات کی تردید کی جائے اور ان عبادات کو ہر قسم کے اضافوں اور خرابیوں سے پاک کرکے اُس خالص شکل میں جاری کیا جائے جو اللہ تعالیٰ کو مطلوب تھی۔ ضمناً اس میں شریعت کے احکام، تاریخ، حکمت و مصالح سب کا بیان بھی آگیا ہے۔ ان میں سے تاریخ اور مصالح پر ہم قرآن مجید کی روشنی میں اوپر بات کرچکے ہیں جبکہ احکام اور اصلاحات شریعت کے بیان میں زیر بحث آئیں گے۔

حج و عمرہ اور قربانی کے حوالے سے یہ مضامین اصلاً سورۃ الحج اور سورۃ البقرہ میں اور ضمنی طور پر سورۃ آل عمران، سورۃ المائدہ اور سورۃ التوبہ میں بیان ہوئے ہیں۔ سورۃ الحج وہ سورت ہے جس میں ہجرت کے بعد پہلی دفعہ مسلمانوں کو جہاد کی اجازت دی گئی۔ اس کے پس منظر میں یہ حقیقت تھی کہ کفار کے ظلم و ستم نے مسلمانوں کو نہ صرف جان وایمان بچانے کے لیے ہجرت پر مجبور کر دیا بلکہ حرم میں ان کی حاضری کی راہ بھی مسدود کر دی تھی۔ چنانچہ ایک طرف کفار کی مشرکانہ بدعات تھیں اور دوسری طرف حرم کی راہ روکنے کا وہ جرم تھا جس کی بنا پر مسلمانوں کو اجازت دی گئی کہ اتمام حجت کے بعد ان کے خلاف جہاد کا آغاز کیا جاسکتا ہے۔ جبکہ سورۃ البقرہ میں کفار کے مذکورہ بالا جرائم کی بنا پرمسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ وہ ان سے جنگ کریں اور ان مشرکین سے سرزمین عرب کو پاک کردیں۔ چنانچہ دونوں سورتوں میں جہاد کے ان احکام کے ساتھ ساتھ ہی حج کے سارے احکام بیان کیے گئے ہیں۔

قرآن مجید نے اپنی اس بے مثال ترتیب سے حج اور جہاد کا تعلق نہ صرف پوری طرح واضح کر دیا بلکہ حج و عمرہ کی اس اسپرٹ کو بھی پوری طرح نمایاں کیا ہے کہ یہ حمیت حق کے جذبے کی ایک تمثیل ہے جس میں بندہ مومن اپنے آپ کو راہ خدا کے لیے نذر کر دیتا اور اس راہ میں اپنی جان دینے کے لیے بھی تیار رہتا ہے۔

’’(تمھاری سرگذشت یہ ہے کہ) ہم نے تمھیں پیدا کیا تھا، پھر تمھاری صورتیں بنائی تھیں، پھر فرشتوں سے کہا تھا:آدم کے سامنے سجدہ ریز ہو جاؤ۔ سو ابلیس کے سوا سب سجدہ ریز ہوگئے۔ وہ سجدہ کرنے والوں میں شامل نہیں ہوا۔ فرمایا: تجھے کس چیز نے سجدہ کرنے سے روک دیا، جبکہ میں نے تجھے حکم دیا تھا؟ بولا:میں اُس سے بہتر ہوں، تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اُس کو مٹی سے۔ فرمایا: اچھا تو یہاں سے اتر، تجھے یہ حق نہیں ہے کہ یہاں بڑائی کا گھمنڈ کرے، سو نکل جا، یقینا تو ذلیل ہے۔ بولا: مجھے اُس دن تک مہلت دے، جب لوگ اٹھائے جائیں گے۔ فرمایا:تجھے مہلت ہے۔ بولا: تو مجھے تو نے گمراہی میں ڈالا ہے، اِس لیے اب میں بھی اولاد آدم کے لیے ضرور تیری سیدھی راہ پر گھات میں بیٹھوں گا۔ پھر اِن کے آگے اور پیچھے، دائیں اور بائیں، ہر طرف سے اِن پر تاخت کروں گا اور تو اِن میں سے اکثر کو اپنا شکرگزار نہ پائے گا۔ فرمایا: نکل جا یہاں سے، ذلیل اور راندہ۔ (یاد رکھ کہ) اِن میں سے جو تیری پیروی کریں گے، میں تم سب سے اکٹھے جہنم کو بھر دوں گا۔ اے آدم، تم اور تمھاری بیوی، دونوں اِس باغ میں رہو اور اِس میں سے جہاں سے چاہو، کھاؤ۔ ہاں، البتہ تم دونوں اِس درخت کے پاس نہ جانا، ورنہ ظالم ٹھیرو گے۔ پھر شیطان نے اُنھیں بہکایا کہ اُن کی شرم گاہوں میں سے جو چیز اُن سے چھپائی گئی تھی، وہ اُن کے لیے کھول دے۔ اُس نے اُن سے کہا: تمھارے رب نے تمھیں اِس درخت سے صرف اِس وجہ سے روکا ہے کہ کہیں تم فرشتے نہ بن جاؤ یا تمھیں ہمیشہ کی زندگی حاصل نہ ہو جائے۔اُ س نے قسمیں کھا کر اُن سے کہا کہ میں تمھارا سچا خیرخواہ ہوں۔ اِس طرح فریب دے کر اُس نے دونوں کو رفتہ رفتہ مائل کر لیا۔ پھر جب اُنھوں نے درخت کا پھل چکھا تو اُن کی شرم گاہیں اُن پر کھل گئیں اور وہ اُس باغ کے پتوں سے اپنا جسم ڈھانکنے لگے۔ (اُس وقت) اُن کے پروردگار نے اُنھیں پکارا کہ کیا میں نے تمھیں اِس درخت سے روکا نہیں تھا اور تم سے کہا نہیں تھا کہ شیطان تمھارا کھلا دشمن ہے؟ دونوں بول اٹھے: پروردگار، ہم نے اپنے اوپر ظلم کیا ہے، اب اگر تو ہماری مغفرت نہ فرمائے گا اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو ہم ضرور نامراد ہو جائیں گے۔ فرمایا:(یہاں سے) اتر جاؤ، تم ایک دوسرے کے دشمن ہو اور تمھیں ایک خاص وقت تک زمین پر ٹھیرنا ہے اور وہیں گزر بسر کرنی ہے۔‘‘، (الاعراف11-24 :7)

’’اِس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں: ابراہیم کا مسکن ہے، جو اِس میں داخل ہوجائے، وہ مامون ہے اور جو لوگ وہا ں تک پہنچنے کی استطاعت رکھتے ہوں، اُن پر اللہ کے لیے اِس گھر کا حج ہے۔ (یہ اِس کی نشانیاں ہیں)، اور جو (اِس کے بعد بھی) انکار کریں (اللہ کو اُن کی کچھ پروا نہیں)، اِس لیے کہ اللہ تمام دنیا والوں سے بے نیاز ہے۔‘‘،(آل عمران 97:3)

’’یہ حقیقت ہے کہ جن لوگوں نے (خدا کے پیغمبر کو) ماننے سے انکار کر دیا ہے اور اب وہ خدا کی راہ سے روک رہے ہیں اور مسجد حرام سے بھی جسے ہم نے لوگوں کے لیے یکساں بنایا ہے، خواہ وہ وہاں کے رہنے والے ہوں یا باہر کے، (اُنھوں نے بڑے ظلم کا ارتکاب کیا ہے۔ اِس لیے کہ اِس مسجد کا معاملہ تو یہ ہے کہ) جو اِس میں کسی انحراف، کسی ظلم کے ارتکاب کا ارادہ کرے گا، اُس کو ہم دردناک عذاب کا مزہ چکھائیں گے۔ (اِنھیں یاد دلاؤ)، جب ہم نے ابراہیم کے لیے اِس گھر کی جگہ کو ٹھکانا بنایا تھا، (اِس ہدایت کے ساتھ) کہ کسی چیز کو میرا شریک نہ کرنا اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور قیام کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے پاک رکھنا۔ اور (حکم دیا تھا کہ) لوگوں میں حج کی منادی کرو، وہ تمھارے پاس پیدل بھی آئیں گے اور ہر طرح کی اونٹنیوں پر سوار ہوکر بھی کہ (سفر کی وجہ سے) دبلی ہوگئی ہوں گی۔ وہ (قافلوں کی آمد و رفت سے) گہرے ہوچکے ہر دور دراز پہاڑی راستے سے آئیں گی۔ اِس لیے (آئیں گے) کہ اپنی منفعت کی جگہوں پر حاضر ہوں اور چند متعین دنوں میں اُن مواشی جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے اُنھیں بخشے ہیں۔ (تم اُن کو ذبح کرو) تو اُن سے خود بھی کھاؤ اور برے حال فقیروں کو بھی کھلاؤ۔ پھر چاہیے کہ لوگ اپنا میل کچیل دور کریں، اپنی نذریں پوری کریں اور اِس قدیم گھر کا طواف کریں۔ یہ باتیں ہیں (جو ابراہیم کو بتائی گئی تھیں۔ اِن کو اچھی طرح سمجھ لو)اور (یاد رکھو کہ) جو اللہ کی قائم کی ہوئی حرمتوں کی تعظیم کرے گا تو اُس کے پروردگار کے نزدیک یہ اُس کے حق میں بہتر ہے۔ اور (یہ بھی کہ جانوروں کے بارے میں اِن مشرکین کے توہمات بالکل بے بنیاد ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ) تمھارے لیے چوپاے حلال ٹھیرائے گئے ہیں، سواے اُن کے جو تمھیں (قرآن میں) بتائے جا رہے ہیں۔ سو بتوں کی گندگی سے بچو اور جھوٹی بات سے بھی (جو اُن کے حوالے سے کسی چیز کو حلال اور کسی کو حرام ٹھیرا کر اللہ پر باندھتے ہو اور اُس کے شعائر کی تعظیم کرو)۔ اللہ کی طرف یک سو ہوکر، کسی کو اُس کا شریک کرکے نہیں۔ اور (یاد رکھو کہ) جو اللہ کے شریک ٹھیراتا ہے تو گویا وہ آسمان سے گر پڑا ہے۔ اب پرندے اُس کو اچک لے جائیں گے یا ہوا اُس کو کسی دور دراز جگہ پر لے جا کر پھینک دے گی۔ یہ باتیں ہیں، (اِنھیں اچھی طرح سمجھ لو) اور (یاد رکھو کہ) جو اللہ کے مقرر کردہ شعائر کی تعظیم کرے گا تو یہ دلوں کی پرہیزگاری میں داخل ہے۔ (یہ ہدی کے جانور بھی اللہ کے شعائر میں سے ہیں، لیکن اللہ کا حکم یہ ہے کہ) اِن میں تمھارے لیے ایک مقرر وقت تک طرح طرح کی منفعتیں ہیں، پھر اِن کو (قربانی کے لیے) خدا کے قدیم گھر کی طرف لے جانا ہے۔ ہم نے ہر امت کے لیے قربانی کی عبادت مشروع کی ہے تاکہ اللہ نے جو مواشی جانور اُن کو بخشے ہیں، اُن پر وہ اللہ کا نام لیں، (کسی اور کا نہیں)، اِس لیے کہ تمھارا معبود ایک ہی معبود ہے تو اپنے آپ کو اُسی کے حوالے کرو اور اُنھیں خوش خبری دو جن کے دل اُس کے آگے جھکے ہوئے ہیں۔ جن کا حال یہ ہے کہ جب اُن کے سامنے خدا کا ذکر آتا ہے تو اُن کے دل کانپ اٹھتے ہیں۔ اُن پر جو مصیبت آتی ہے، اُس پر صبر کرنے والے اور نماز کا اہتمام رکھنے والے ہیں اور جو کچھ ہم نے اُن کو بخشا ہے، اُس میں سے وہ (ہماری راہ میں) خرچ کرتے ہیں۔ (اونٹ کی قربانی میں بھی تم میں سے کسی کو تردد نہیں ہونا چاہیے، اِس لیے کہ قربانی کے) اونٹوں کو ہم نے تمھارے لیے شعائر الٰہی میں شامل کیا ہے۔ اُن میں تمھارے لیے بڑے خیر ہیں۔ سو اُن کو صف بستہ کرکے اُن پر بھی اللہ کا نام لو۔ پھر جب (قربانی کے بعد) وہ اپنے پہلوؤں پر گر پڑیں تو اُن میں سے خود بھی کھاؤ اور اُن کو بھی کھلاؤ جو(محتاج ہیں، مگر) قناعت کیے بیٹھے ہیں اور اُن کو بھی جو مانگنے کے لیے آجائیں۔ اِن جانوروں کو ہم نے اِسی طرح تمھارے لیے مسخر کر دیا ہے تاکہ تم شکر ادا کرو۔ اللہ کو نہ اِن کا گوشت پہنچتا ہے نہ اِن کا خون، بلکہ اُس کو صرف تمھارا تقویٰ پہنچتا ہے۔ اِسی طرح اللہ نے اُن کو تمھارے لیے مسخر کر دیا ہے تاکہ اللہ نے جو ہدایت تمھیں بخشی ہے، اُس پر تم اللہ کی بڑائی بیان کرو۔ (یہی طریقہ ہے اُن کا جو خوبی کا رویہ اختیار کریں) اور (اے پیغمبر)، اُن لوگوں کو بشارت دو جو خوبی کا رویہ اختیار کرنے والے ہیں۔‘‘،(الحج 25-37: 22)

’’اور یاد کرو ،جب ہم نے کہا کہ اِس بستی میں داخل ہو جاؤ ،پھر اِس میں سے جہاں سے چاہو، مزے سے کھاؤ اور (یاد رکھو کہ) اِس کے دروازے میں (عجز کے ساتھ) سر جھکائے ہوئے داخل ہونا اور دعا کرنا کہ (پروردگار)، ہمارے گناہ بخش دے، ہم تمھارے گناہ بخش دیں گے اور (تم میں سے) وہ لوگ جو اچھا رویہ اختیار کریں گے، اُن پر ہم اور بھی عنایت فرمائیں گے۔ پھر جو بات اُن سے کہی گئی تھی، ظالموں نے اُسے ایک دوسری بات سے بدل دیا۔ چنانچہ اِن ظلم کرنے والوں پر ہم نے اُن نافرمانیوں کے باعث جو وہ کر رہے تھے، آسمان سے عذاب اتارا۔‘‘(البقرہ58-59 :2)

’’(بیت الحرام ہی کی طرح صفا و مروہ کی حقیقت بھی اِن یہودیوں نے ہمیشہ چھپانے کی کوشش کی ہے۔ لہٰذا تحویل قبلہ کے اِس موقع پر یہ بات بھی واضح ہونی چاہیے کہ) صفا اور مروہ یقیناً اللہ کے شعائر میں سے ہیں۔ چنانچہ وہ لوگ جو اِس گھر کا حج یا عمرہ کرنے کے لیے آئیں، اُن پر کوئی حرج نہیں کہ وہ اِن دونوں کا طواف بھی کر لیں، (بلکہ یہ ایک نیکی کا کام ہے) اور جس نے اپنے شوق سے نیکی کا کوئی کام کیا، اللہ اُسے قبول کرنے والا ہے، اُس سے پوری طرح باخبر ہے۔‘‘، (البقرہ158:2)

’’وہ تم سے حرام مہینوں کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ کہہ دو: یہ لوگوں کی بہبود اور حج کے اوقات ہیں، (اِس لیے اِن کی یہ حرمت اِسی طرح قائم رکھی جائے گی)۔ اور (تم نے یہ سوال کیا ہے تو اب یہ بھی جان لو کہ ) یہ ہرگز کوئی نیکی نہیں ہے کہ (احرام کی حالت میں اور حج سے واپسی پر) تم گھروں کے پیچھے سے داخل ہوتے ہو۔ بلکہ نیکی تو اصل میں اُس کی ہے جو تقویٰ اختیار کرے۔ اور (یہ بھی کہ اب) تم گھروں میں اُن کے دروازوں ہی سے آؤ اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تمھیں فلاح نصیب ہوجائے۔‘‘، (البقرہ189:2)

’’اور حج و عمرہ کو اللہ کے لیے پورا کرو۔ پس اگر تم گھِر جاؤ تو جو ہدی میسر ہو وہ پیش کر دو اور اپنے سر نہ مونڈو جب تک ہدی اپنی جگہ نہ پہنچ جائے۔ جو تم میں سے بیمار ہو یا اس کے سر میں کوئی تکلیف ہو تو اس کے لیے روزے یا صدقہ یا قربانی کی شکل میں فدیہ ہے۔ جب اطمینان کی حالت ہو تو جو کوئی حج تک عمرہ سے فائدہ اٹھائے تو وہ قربانی پیش کرے جو میسر آئے۔ جس کو میسر نہ آئے تو وہ تین دن کے روزے دوران حج میں رکھے اور سات دن کے روزے واپسی کے بعد۔ یہ کل دس دن ہوئے۔ یہ ان کے لیے ہے جن کا گھر در جوار حرم میں نہ ہو اور اللہ سے ڈرتے رہو اور اچھی طرح جان رکھو کہ اللہ سخت پاداش والا ہے۔ حج کے متعین مہینے ہیں تو جو کوئی ان میں حج کا عزم کر لے تو پھر اس کے لیے حج تک نہ شہوت کی کوئی بات کرنی ہے، نہ فسق و فجور کی، نہ لڑائی جھگڑے کی۔ اور نیکی کے جو کام بھی کرو گے اللہ اس کو جانتا ہے اور اس کے لیے تقویٰ کا زاد راہ لو۔ بہترین زاد راہ تقویٰ کا زاد راہ ہے اور مجھ سے ڈرتے رہو، اے عقل والو۔
اس امر میں کوئی گناہ نہیں ہے کہ تم اپنے رب کے فضل کے طالب بنو۔ پس جب عرفات سے چلو تو خدا کو یاد کرو مشعرِ حرام میں ٹھہر کر اور اس کو اس طرح یاد کرو جس طرح خدا نے تم کو ہدایت کی ہے۔ اس سے پہلے بلاشبہ تم گمراہوں میں تھے۔ پھر تم بھی وہیں سے چلو جہاں سے لوگ چلیں اور اللہ سے گناہوں کی معافی مانگو، بے شک اللہ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔ پھر جب تم حج کے مناسک ادا کر چکو تو اللہ کو یاد کرو، جس طرح تم پہلے اپنے باپ دادا کو یاد کرتے رہے ہو بلکہ اس سے بھی بڑھ چڑھ کر۔ لوگوں میں سے کچھ ایسے ہیں جن کی دعا یہ ہوتی ہے کہ اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں کامیابی عطا کر، حالانکہ آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے۔‘‘، (البقرہ196-200 :2)

’’اور گنتی کے چند دنوں میں اللہ کو یاد کرو۔ سو جو دو ہی دنوں میں اٹھ کھڑا ہو اس پر کوئی گناہ نہیں اور جو ٹھہرا رہے اس پر بھی کوئی گناہ نہیں۔ یہ رعایت ان کے لیے ہے جو تقویٰ کو ملحوظ رکھیں۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو اور خوب جان رکھو کہ تم اسی کے حضور میں اکٹھے کیے جاؤ گے۔‘‘، (البقرہ203:2)

’’اللہ نے کعبہ، حرمت والے گھر کو، لوگوں کے لیے مرکز بنایا اور حرمت کے مہینوں، قربانی کے جانوروں اور گلے میں پٹے پڑے جانوروں کو شعیرہ ٹھہرایا۔ یہ اس لیے کہ تم جانو کہ اللہ جانتا ہے جو کچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے اور اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔ خبردار ہو جاؤ، اللہ سخت سزا دینے والا بھی ہے اور بڑا بخشنے والا اور مہربان بھی ہے۔‘‘، (المائدہ 97-98 :5)

’’بے شک مہینوں کی تعداد، اللہ کے ہاں، نوشتۂ الٰہی میں، جس دن سے اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا بارہ مہینے ہیں جن میں چار حرمت والے ہیں۔ یہی دین قیم ہے تو تم ان میں اپنی جانوں پر ظلم نہ ڈھانا۔ اور مشرکوں سے جنگ کرو من حیث الجماعت، جس طرح وہ تم سے جنگ کرتے ہیں من حیث الجماعت۔ اور جان رکھو کہ اللہ خدا ترسوں کے ساتھ ہے۔‘‘، (التوبہ 36:9)

بشکریہ ماہنامہ انذار، تحریر/اشاعت اکتوبر 2018
’’انذار اکتوبر2018‘‘ پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
مصنف : ابو یحییٰ
Uploaded on : Jul 26, 2019
2754 View