طلاق کا حق - جاوید احمد غامدی

طلاق کا حق

نکاح محض اِس چیز کا نام نہیں ہے کہ مردوعورت کا جنسی تعلق قانون کے دائرے میں آجائے۔ یہ ایک معاہدہ ہے جس سے خاندان کا ادارہ وجود میں آتا ہے۔ یہ ادارہ انسانیت کی ناگزیر ضرورت ہے۔ اِس کے بغیر انسان کی حیاتی، نفسیاتی اور معاشرتی ضرورتیں کسی طرح پوری نہیں کی جاسکتیں۔ یہ عورت کے اِس فیصلے سے قائم ہوتا ہے کہ وہ برابری کی سطح پر اور ایک دوست کی حیثیت سے نہیں، بلکہ بیوی کی حیثیت سے اپنے آپ کو ایک مرد کے حبالۂ عقد میں دے رہی ہے۔ اِس کے معنی یہ ہیں کہ مرد کو اُس نے اُس ادارے کا سربراہ تسلیم کر لیا ہے جو اُن کے باہمی تعلق سے وجود میں آنے والا ہے۔ اِس سے جس طرح یہ ذمہ داری مرد پر عائد ہوجاتی ہے کہ عورت اور اُس کے بچوں کی تمام معاشی ضرورتیں اب وہ پوری کرے گا، اِسی طرح عورت بھی پابند ہو جاتی ہے کہ اگر خدانخواستہ نباہ نہ ہو سکے تو علیحدگی کا کوئی اقدام وہ مرد سے معاملہ کیے بغیر نہ کرے۔ چنانچہ طلاق کی نوبت آجائے تو وہ طلاق دے گی نہیں، بلکہ طلاق کا مطالبہ کرے گی۔عام حالات میں توقع یہی ہے کہ ہر شریف النفس آدمی نباہ کی کوئی صورت نہ پاکر یہ مطالبہ مان لے گا، لیکن اگر ایسا نہ ہو تو عورت کیا کرے؟ اِس سوال کا کوئی جواب شریعت نے نہیں دیا، بلکہ زندگی کے بعض دوسرے معاملات کی طرح اِسے ہمارے اجتہاد کے لیے چھوڑ دیا ہے۔ زمانۂ رسالت سے لے کر اب تک جو طریقہ اِس کے لیے اختیار کیا گیا ہے، وہ یہ ہے کہ عورت اِس طرح کی صورت حال میں عدالت سے رجوع کرتی ہے۔ اِس زمانے میں یہ بہت کچھ باعث زحمت ہو جاتا ہے۔ اِس کا ایک حل یہ سوچا گیا کہ مرد سے منوالیا جائے کہ اُس نے طلاق کا حق عورت کو تفویض کر دیا ہے۔ ہمارے معاشرے میں اِس طرح کا تقاضا خاص کر نکاح کے موقع پر آسان نہیں ہوتا۔ پھر یہ چیز اُس حکمت کو بھی باطل کر دیتی ہے جس کے لیے طلاق کا حق عورت کو نہیں دیا گیا ،اِس لیے ہمارا خیال ہے کہ ریاست کی سطح پر یہ قانون بنا دینا چاہیے کہ مطالبۂ طلاق کے بعد اگر شوہر نوے دن کے اندر طلاق نہیں دیتا تو نکاح آپ سے آپ فسخ ہو جائے گا اور اموال و املاک سے متعلق اگر کوئی نزاع ہے تو فریقین عدالت سے رجوع کریں گے۔ دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ اِس وقت جو نکاح نامہ رائج ہے، اُس میں سے حق طلاق کی تفویض کا کالم ختم کر کے درج ذیل عبارت نکاح نامہ کی ابتدا میں درج کر دی جائے:

’’یہ نکاح اِس شرط کے ساتھ منعقد ہوا ہے کہ بیوی اگر کبھی تحریری طور پر طلاق کا مطالبہ کرے گی تو شوہر نوے دن کے اندر اُسے طلاق دینے کا پابند ہوگا۔ وہ اگر ایسا نہیں کرے گا تو یہ مدت گزر جانے کے بعد اُس کی طرف سے بیوی پر آپ سے آپ طلاق واقع ہو جائے گی۔ اِس طلاق کے بعد شوہر کے لیے رجوع کا حق نہیں ہوگا اور بیوی پابند ہوگی کہ مہر اور نان و نفقہ کے علاوہ اگر کوئی اموال و املاک شوہر نے اُسے دے رکھے ہیں اور طلاق کے موقع پر وہ اُنھیں واپس لینا چاہتا ہے تو فصل نزاع کے لیے عدالت سے رجوع کرے یا اُس کا مال اُسے واپس کر دے۔‘‘
یہ طریقہ اگر اختیار کر لیا جائے تو عورت اور اُس کے گھر والوں کو کوئی ایسا مطالبہ نہیں کرنا پڑے گا جو نکاح کے موقع پر کسی بدمزگی کا باعث بن جائے۔
شوہر کو نوے دن کی مہلت مل جائے گی جس میں وہ عورت کو یہ مطالبہ واپس لینے کے لیے آمادہ کر سکتا ہے۔
طلاق شوہر کی طرف سے ہوگی، اِس لیے وہ تمام حکم و مصالح اپنی جگہ قائم رہیں گے جو اللہ تعالیٰ کے قانون میں ملحوظ ہیں۔

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت دسمبر 2008
مصنف : جاوید احمد غامدی