مردوں کی شادیاں - ابو یحییٰ

مردوں کی شادیاں

 پچھلے دنوں ایک بہن نے اپنا یہ مسئلہ مجھ سے ڈسکس کیا کہ ان کا شوہر دوسری شادی کرنا چاہتا ہے۔ پہلی بیوی سے کئی بچے ہیں، وہ خوش بھی ہیں، مگر چونکہ خوشحال ہیں اس لیے دوسری شادی کا سودا بری طرح سوار ہو گیا ہے اور اس کے بغیر باز آنے کو تیا رنہیں۔

ہمارے سماجی پس منظر میں عام طور پر دوسری شادی کو پسندیدہ نہیں سمجھا جاتا۔ چنانچہ جب مردوں کو یہ کرنا ہوتا ہے تو وہ مذہب اور شریعت کو اپنی حمایت میں پیش کرتے ہیں۔ اتفاق سے پچھلے دنوں بعض ایسی مشہور شخصیات کی حادثاتی موت یا قتل کا سانحہ پیش آیا جو مذہبی طور پر معروف تھے اور شوبز سے متعلق بھی تھے۔ ان کاجہاں اور پہلوؤں سے میڈیا پر تذکرہ رہا وہیں ان کی دو تین شادیوں کی خبریں بھی عام ہوئیں۔ جس سے لوگوں میں یہ تاثر قوی ہوا کہ اسلام ایک سے زیادہ شادیوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ ایک سے زیادہ شادیاں زمانہ قبل از اسلام سے عرب کا ایک رواج تھیں۔ جنگ احد کے موقع پر جب مدینے کی چھوٹی سی بستی میں ستر لوگ شہید ہوگئے اور ہر چوتھے گھر میں کوئی خاتون بیوہ اور بچے یتیم ہو گئے تو اسلام نے اس رواج سے فائدہ اٹھا کر یتیم و بیواؤں کی سرپرستی کا راستہ دکھایا۔ اس میں بھی بیویوں کے درمیا ن عدل اور زیادہ سے زیادہ چار شادیوں کی حد مقرر کر دی گئی۔

یہ اسلام کی تعلیم ہے۔ جبکہ پیغمبر اسلام کا معاملہ یہ ہے کہ آپ نے 51 برس تک حضرت خدیجہ کے سوا کسی خاتون سے نکاح نہ کیا۔ اس کے علاوہ آپ نے باقی ساری شادیاں بیواؤں اور یتیموں کو سہارا دینے یا کسی دینی مصلحت سے کی تھیں اور سب کی سب بیوہ مطلقہ عورتوں سے کیں۔ آپ کی واحد کنواری بیوی حضرت عائشہ تھیں جن سے آپ نے اللہ کے حکم پر شادی کی (بخاری، 5078)۔ اس شادی کی حکمت یہ تھی کہ سیدہ ایک غیر معمولی ذہین ٹین ایجر خاتون تھیں۔ اللہ کی مرضی یہ تھی کہ وہ ایک دہائی تک رسالتمآب کے ساتھ رہ کر دین سیکھتی رہیں اور اپنی کم عمری کی بنا پر حضور کے بعد بھی اگلی کئی دہائیوں تک امت کو تعلیم دیتی رہیں۔

آج بھی ہم اجازت کو اپنے متعدد سماجی مسائل کے حل کے لیے استعمال کرسکتے ہیں ۔ ہمارے ہاں بڑی تعداد میں جوان لوگ حادثات ، جرائم اور بیماریوں میں مارے جاتے اور اپنے پیچھے بیوائیں اور یتیم چھوڑ جاتے ہیں۔ اسی طرح گھروں میں ایک بڑی تعداد ان لڑکیوں کی ہے جن کی شادی کی عمر مختلف اسباب سے نکل گئی ہے ۔ ہمارے معاشرے میں ایسی خواتین اور بچے بے سہارا رہ جاتے ہیں۔ ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا اور اکثروہ نفسیاتی مریض بن کر رہ جاتے ہیں۔

ایسے میں صاحب حیثیت مرد اگر ان خواتین اور بچوں کو سہارا دینے کے لیے آگے بڑھیں تو یہ بہت بڑی نیکی ہو گی اور اس کا اجر وہ اللہ کے ہاں پائیں گے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں دوسری تیسری شادی کا خیال صرف اس خوشحال شخص کوآتا ہے جس کے سامنے کوئی خوبصورت اور جوان عورت آجائے اور وہ عورت بھی اس کے مال و شہرت سے متاثر ہوکر اس سے شادی کرنے پر تیار ہوجائے۔ اس کے بعد سماجی دباؤ کا مقابلہ کرنے کے لیے لوگ اسلام اور پیغمبر اسلام کو بیچ میں لاتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ اسلام میں دوسری شادی ممنوع نہیں لیکن ہم اسلام اور پیغمبر اسلام کی زندگی سے یہ بتا چکے ہیں کہ اسلام میں دوسری شادی کی تلقین اصلاً یتیموں اور بیواؤں کی مدد کے لیے کی گئی ہے۔ بدقسمتی سے کوئی شخص دوسری، تیسری اور چوتھی شادی کے اس پہلو پر توجہ نہیں دلاتا۔ بلاشبہ جس مقصد کے لیے اسلام نے دوسری شادی کی تلقین کی ہے وہ ایک عظیم خدمت ہے۔ وہ ایک عظیم قربانی ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس کو نمایاں ہوکر سامنے آنا چاہیے۔

بشکریہ ماہنامہ انذار، تحریر/اشاعت فروری 2017
’’انذار فروری 2017‘‘ پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
مصنف : ابو یحییٰ
Uploaded on : Feb 14, 2017
2716 View