[’’سیر و سوانح ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں، ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]

(جناب خالد مسعود صاحب کی تصنیف ’’حیات رسول امی‘‘ سے انتخاب)

 
مسلمانوں پر تشدد کادور

قریش کے اکابر نے دیکھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو کلام پیش کر رہے ہیں وہ بے حد متاثر کرنے والا ہے، لسانی طور پر پرکشش ہے اور اس میں عقل کے لیے بھی اپیل ہے۔ یہ کلام نت نئے تقاضے اور مطالبے سامنے لا رہا ہے اور اب اس نے مشرکانہ نظام زندگی کی بنیادوں پر تیشہ چلانا شروع کر دیا ہے۔ چونکہ لوگ اس کی طرف متوجہ ہو کر اس کی تعلیم کو قبول کر رہے تھے، اس لیے انھیں اپنے خلاف عام بغاوت پیدا ہو جانے کا خطرہ محسوس ہوا۔ اس کو روکنے کی فوری تدبیر یہی اختیار کی جا سکتی تھی کہ اسلام قبول کرنے والوں پر سختی کر کے ان کے لیے زندگی گزارنا اجیرن کر دیا جائے۔ اس میں بڑی رکاوٹ قبائلی نظام تھا جس میں کوئی شخص کسی دوسرے خاندان کے فرد پر ہاتھ ڈالنے کی جسارت نہیں کر سکتا تھا۔ لہٰذا یہ فیصلہ ہوا کہ ہر خاندان اپنے افراد پر خود ہی ہاتھ ڈالے۔ اس میں بھی پہلا ہدف غلاموں اور لونڈیوں کو بنایا گیا۔ سیرت کی کتابوں میں یاسر، ان کی بیوی سمیہ، عمار بن یاسر، بلال، خباب بن ارت، عامر بن فہیرہ، ابوفکیہہ، لبینہ، زنیرہ رضوان اللہ علیہم پر تشدد کے واقعات پڑھیے تو آج بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ان کو بھوکے پیاسے رکھنا، دھوپ میں گھنٹوں کھڑا رہنے پر مجبور کرنا، گرم ریت پر لٹانا، زدوکوب کرنا ایک معمول کی کارروائی تھی۔ لیکن دلوں میں ایمان کی جو شمع روشن ہو چکی تھی، وہ اس ظلم سے بجھنے نہیں پائی۔ حضرت یاسر رضی اللہ عنہ اور ان کی زوجہ سمیہ رضی اللہ عنہا نے جام شہادت نوش کیا۔ حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ نے متعدد غلاموں کو ان کے آقاؤں سے خرید کر آزاد کر کے ان کو ظلم و ستم سے نجات دلائی اور اس میں اپنے والد ابوقحافہ کی ناراضی مول لی۔
سابقون اولون کی عمروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ زیادہ تر نوجوان طبقہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت سے متاثر ہوا۔ بعثت کے وقت حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی عمر چالیس برس تھی۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آپ سے تین سال چھوٹے تھے، لیکن مسلمانوں کے بڑے بوڑھے کہلاتے تھے۔ گویا باقی مسلمانوں کی عمریں ان سے کم تھیں۔ زیادہ قرشی نوجوان بیس یا تیس کے پیٹے میں تھے۔ اکابرین قریش نے جب سربراہان خاندان کو یہ ہدایت کی کہ وہ اپنے ان نوجوانوں کو قابو میں لائیں جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دے رہے ہیں تو ظلم و تشدد کے دھارے کا رخ ان نوجوانوں کی طرف بھی مڑا۔ تاریخ میں عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ، زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ ، مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ، خالد بن سعید بن العاص رضی اللہ عنہ وغیرہ کے نام محفوظ ہیں۔ ان کو اتنی ایذائیں دی گئیں کہ معاملہ ان کی برداشت سے باہر ہو گیا۔ یہی حال باقی مسلمانوں کا تھا۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جیسے فرزانہ ، ہمدرد و غم گسار شخص کو بھی نہ بخشا گیا۔ ابن ہشام کی روایت کے مطابق انھوں نے بھی راہ خدا میں زخم کھایا۔
مسلمانوں کے لیے ان حالات کا مقابلہ طاقت سے کرنا ممکن نہ تھا۔ کوئی چیز اگر ان کا حوصلہ قائم رکھ سکتی تھی تو وہ اللہ پر توکل، دین پر ثابت قدمی کے اچھے انجام اور آخرت کی کامرانی کا یقین تھا۔ اس موقع کی مناسبت سے متعدد آیات قرآنی نازل ہوئیں۔ چونکہ آدمی دوسرے کی مثال سے سبق حاصل کرتا ہے، اس لیے اہل ایمان کی تربیت کی خاطر بنی اسرائیل کے ان نوجوانوں کا حوالہ دیاگیا جو فرعون کے تشدد کے اندیشہ کے باوجود حضرت موسیٰ کاساتھ دینے والے بنے۔ انھوں نے جب اپنے رسول سے فرعونوں کے ظلم کا تذکرہ کیا تو انھوں نے ان کو اللہ پر بھروسا کرنے اور اسی سے مدد مانگنے کی ہدایت کی۔ قرآن میں بتایا گیا:

فَمَآ اٰمَنَ لِمُوْسٰٓی اِلَّا ذُرِّیَّۃٌ مِّنْ قَوْمِہٖ عَلٰی خَوْفٍ مِّنْ فِرْعَوْنَ وَمَلَاءِھِمْ اَنْ یَّفْتِنَھُمْ. وَاِنَّ فِرعَوْنَ لَعَالٍ فِی الْاَرْضِ وَاِنَّہٗ لَمِنَ الْمُسْرِفِیْنَ. وَقَالَ مُوْسٰی یٰقَومِ اِنْ کُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللّٰہِ فَعَلَیْہِ تَوَکَّلُوْآ اِنْ کُنْتُمْ مُّسْلِمِیْنَ. فَقَالُوْا عَلَی اللّٰہِ تَوَکَّلْنَا رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَۃً لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِینَ. وَنَجِّنَا بِرَحْمَتِکَ مِنَ الْقَوْمِ الْکٰفِرِینَ. وَاَوْحَیْنَآ اِلٰی مُوْسٰی وَ اَخِیْہِ اَنْ تَبَوَّاٰ لِقَوْمِکُمَا بِمِصْرَ بُیُوْتًا وَّاجْعَلُوْا بُیُوْتَکُمْ قِبْلَۃً وَّ اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ. وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ.(یونس۱۰: ۸۳۔۸۷)
’’موسیٰ کی بات نہ مانی، مگر اس کی قوم کے تھوڑے سے نوجوانوں نے، فرعون اور اپنے بڑوں سے ڈرتے ہوئے کہ مبادا وہ ان کو کسی فتنہ میں ڈال دے۔ بے شک فرعون ملک میں نہایت سرکش اور حد سے بڑھ جانے والوں میں سے تھا۔ اور موسیٰ نے کہا: اے میری قوم کے لوگو، اگر تم اللہ پر ایمان لائے ہو تو اسی پر بھروسا کرو ، اگر تم اپنے آپ کو اس کے حوالہ کر چکے ہو۔ وہ بولے کہ ہم نے اللہ پر بھروسا کیا۔ اے ہمارے رب، ہمیں ظالموں کے ظلم کی آماجگاہ نہ بنا اور ہمیں اپنے فضل سے کافروں کے پنجۂ ستم سے چھڑا۔ اور ہم نے موسیٰ اور اس کے بھائی کی طرف وحی کی کہ اپنی قوم کے لیے مصر میں کچھ گھر ٹھہرا لو اور اپنے گھروں کو قبلہ بناؤ اور نماز کا اہتمام کرو۔ اور ایمان لانے والوں کو خوش خبری دے دو۔‘‘

معلوم ہوتا ہے کہ عبادت کے لیے بعض گھر مخصوص کر لینے کی اسی ہدایت کی روشنی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلمنے حضرت ارقم بن عبد مناف رضی اللہ عنہ کے گھر کا انتخاب فرمایا، جہاں مسلمان جمع ہوتے، نماز باجماعت ادا کرتے، قرآن سیکھتے اور آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت و موعظت سے حالات کا مقابلہ کرنے کی قوت حاصل کرتے۔ اس طرح دار ارقم مکہ میں اہل ایمان کی تعلیم و تربیت کا پہلا مرکز بن گیا۔
دار ارقم کے انتخاب کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ یہ بیت اللہ سے کوہ صفا کی طرف یعنی جانب جنوب میں تھا۔ اس گھر میں نماز پڑھتے ہوئے خانہ کعبہ (ابراہیمی قبلہ) اور بیت المقدس (اہل کتاب کا قبلہ)، دونوں کو بیک وقت قبلہ بنانا ممکن تھا۔ چونکہ قبلہ کے بارے میں ابھی تک کوئی واضح حکم نازل نہیں ہوا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل کتاب کے معروف قبلہ کو اپنے اجتہاد سے اختیار کر لیا۔ آپ کو ابراہیمی قبلہ سے علیحدگی بھی ناگوار تھی، اس لیے آپ دونوں قبلوں کو جمع کرتے۔ آپ کا طریقہ مسجد حرام کے اندر بھی یہی تھا کہ آپ رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان کی دیوار کو سامنے رکھ کر نماز ادا کرتے تھے تاکہ دونوں قبلے جمع ہو جائیں۔
دوسرے موقع پر قرآن کا ارشاد یوں ہے:

قُتِلَ اَصْحٰبُ الْاُخْدُوْدِ النَّارِ ذَاتِ الْوَقُوْدِ اِذْ ھُمْ عَلَیْھَا قُعُوْدٌ وَّ ھُمْ عَلٰی مَا یَفْعَلُوْنَ بِالْمُؤمِنِیْنَ شُھُوْدٌ. وَمَا نَقَمُوْا مِنْھُمْ اِلَّا اَنْ یُّؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ الْعَزِیْزِ الْحَمِیْدِ الَّذِیْ لَہ‘ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ. وَاللّٰہُ عَلٰیکُلِّ شَیْءٍ شَھِیْد. اِنَّ الَّذِیْنَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَتُوْبُوْا فَلَھُمْ عَذَابُ جَھَنَّمَ وَلَھُمْ عَذَابُ الْحَرِیْقِ.(البروج ۸۵: ۴۔۱۰)
’’ہلاک ہوئے ایندھن بھری آگ کی گھاٹی والے، جبکہ وہ اس پر بیٹھے ہوں گے اور جو کچھ وہ اہل ایمان سے کرتے رہے، اس کو دیکھیں گے اور انھوں نے ان پر محض اس وجہ سے غصہ نکالا کہ وہ ایمان لائے اس خدائے عزیز و حمید پر، جس کی بادشاہی آسمانوں اور زمین میں ہے۔ اور اللہ ہر چیز کو دیکھ رہا ہے۔ جن
لوگوں نے مومن مردوں اور مومنہ عورتوں کو ستایا، پھر توبہ نہ کی، ان کے لیے لازماً جہنم کی سزا اور جلنے کا عذاب ہے۔‘‘

جب نوجوانوں کو ان کے کافر باپوں یارشتہ داروں نے سختیاں کر کے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دین چھوڑنے پر مجبور کیا تو اس صورت حال میں قرآن نے ان کو واضح ہدایات دیں کہ اللہ نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کی ہدایت ضرور کی ہے، لیکن والدین کو یہ حق نہیں دیا ہے کہ وہ اولاد کو اللہ کے شریک ماننے پر مجبور کریں۔ اس معاملہ میں ان کی اطاعت کی ضرورت نہیں۔ یہ بزرگان خاندان یہ بھی کہتے کہ ہم لوگ تم نوجوانوں سے زیادہ خیروشر اور نیک و بد کو سمجھنے والے ہیں۔ اس وجہ سے تم ہمارے طریقہ پر چلتے رہو۔ فرمایا:

وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ حُسْنًا. وَ اِنْ جَاھَدٰکَ لِتُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْھُمَا. اِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ فَاُنَبِّءُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ. وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَنُدْخِلَنَّھُمْ فِی الصّٰلِحِیْنَ. (العنکبوت ۲۹: ۸۔۹)
’’اور ہم نے انسان کو اس کے والدین کے ساتھ نیک سلوک کی ہدایت کی اور اگر وہ تجھ پر دباؤ ڈالیں کہ تو کسی چیز کو میرا شریک ٹھہرا جس کے بارے میں تجھے کوئی علم نہیں تو ان کی بات نہ مان۔ میری ہی طرف تم سب کی واپسی ہے، تو جو کچھ تم کرتے رہے ہو، میں اس سے تمھیں آگاہ کروں گا۔ اور جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے تو ہم ان کو صالحین کے زمرہ میں داخل کریں گے۔‘‘

اسلام قبول کرنے والے قریش کے ہاتھوں ظلم ہی نہیں سہ رہے تھے، بلکہ قریش کے دوسرے گھٹیا ہتھکنڈوں کا مقابلہ بھی کر رہے تھے۔ ان میں جو لوگ تجارت پیشہ تھے، ان سے لین دین نہیں کرنے دیا جاتا تھا۔ جو لوگ محنت مزدوری کرتے تھے، ان کو ان کا حق خدمت دینے میں لیت و لعل سے کام لیا جاتا۔ مثال کے طور پر حضرت خباب رضی اللہ عنہ نیزے بھالے بنانے کا کام کرتے تھے۔ قرشی لیڈر عاص بن وائل کے ذمہ ان کی مصنوعات کی قیمت نکلتی تھی۔ عاص نے ان کی ادائیگی روک لی۔ خباب رضی اللہ عنہ اس کے پاس تقاضا کرنے گئے تو وہ کہنے لگا کہ جب تک محمد کا انکار نہیں کرو گے، اس وقت تک میں کچھ نہیں دوں گا۔ خباب رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: جب تک اللہ تجھے موت نہ دے دے یہ کام تو میں کرنے کا نہیں، بلکہ اس وقت تک بھی نہیں کروں گا جب مرنے کے بعد تمھارے جی اٹھنے کا وقت آئے گا۔ وہ بولا: ٹھیک ہے، مجھے میرے حال پر چھوڑو، یہاں تک کہ میں مر جاؤں، پھر اٹھایا جاؤں، پھر مجھے مال و اولاد ملے۔ جب ایسا ہو گا تو میں تیرا قرض ادا کر دوں گا۔۱؂
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شرک کے خلاف قرآن کا یہ موقف پیش کیا کہ یہ ایک من گھڑت نظام ہے جس کی کوئی گنجایش دین ابراہیمی میں ہے اور نہ اس کے حق میں کوئی عقلی دلیل ہے، یہ گمراہی پچھلے دور کے لوگوں نے بے دلیل اختیار کر لی تو قریش کو یہ بات سخت ناگوار گزری۔ ان کے خیال میں اگر یہ تصور عوام الناس میں پھیل جاتا تو ان کے اقتدار کی ساری عمارت زمین بوس ہو سکتی تھی۔ اس لیے انھوں نے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملہ میں مزید خاموشی کو خلاف مصلحت سمجھا اور آپ کی راہ روکنے کے لیے موثر طریقے اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔
اشراف قریش کاایک وفد بنوہاشم کے سردار ابوطالب کے پاس گیا اور شکایت کی کہ آپ کا بھتیجا ہمارے معبودوں کو برا بھلا کہتا ہے، ہمارے مذہب کو غلط قرار دیتا ہے، ہمارے آبا و اجداد کو گمراہ سمجھتا ہے اور اپنے اس خیال کا برملا اظہار کرنے لگا ہے۔ اب یا تو آپ اس کو ایسا کرنے سے باز رکھیں یا اس کے اور ہمارے درمیان میں سے نکل جائیں تاکہ ہم خود اس سے نمٹ لیں۔ ابوطالب نے نرمی سے ان کو ٹھنڈا کیا اور خوش اسلوبی سے معاملہ کو ٹال دیا۔
جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت اسی طرح زور و شور سے جاری رہی تو اشراف قریش دوبارہ وفد کی صورت میں ابوطالب کے پاس پہنچے اور اب یہ دھمکی دی کہ اگر آپ نے بھتیجے کو نہ روکا تو ہم سمجھیں گے کہ آپ کی اور اس کی رائے ایک ہی ہے اور یہ چیز ہمارے درمیان لڑائی کاباعث بن جائے گی۔ ابوطالب کو اس الٹی میٹم سے سخت فکر لاحق ہوئی ۔ انھوں نے رسول اللہ کو بلا بھیجا اور کہا کہ بھتیجے: اپنے اوپر اور میرے اوپر رحم کرو۔ مجھ پر اتنابوجھ مت ڈالو جس کو میں برداشت نہ کر سکوں۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اندازہ لگایا کہ چچا شاید اب میرا ساتھ چھوڑ جائیں، کیونکہ ان کی باتوں سے کمزوری کا اظہار ہوتا ہے۔ آپ نے فرمایا: چچا جان، میں اس کام کو نہیں چھوڑوں گا، یہاں تک کہ اللہ مجھے غلبہ عطا فرمائے گا یا میں اس جدوجہد میں ختم ہو جاؤں گا۔ ابوطالب نے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا جب یہ عزم دیکھا تو کہا: بھتیجے، جاؤ جو تبلیغ چاہو کرو ۔ میں تمھیں ان لوگوں کے حوالے کبھی نہیں کروں گا۔
قریش نے ابوطالب کو یہ پیشکش بھی کی کہ آدمی کے بدلے آدمی لے کر تصفیہ کر لیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے حوالہ کر دیں۔ مطعم بن عدی، جو عبد مناف ہی کے خاندان بنو نوفل سے تھا، اس تجویز پر قریش کا ہم نوا ہو گیا۔ ابوطالب کو یہ تجویز ہتک آمیز لگی کہ بنوہاشم کا بہترین فرد قریش کے حوالے کر دیاجائے کہ وہ اس کو قتل کر سکیں، لہٰذا انھوں نے اس کو قبول نہیں کیا۔ اس سے بنو عبد مناف بھی تقسیم ہو گئے۔ صرف بنوہاشم (سوائے ابولہب کے) اور بنو مطلب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہ گئے۔
قریش کی پیدا کردہ دہشت اور خوف کی حالت میں بھی جب اسلام قبول کرنے والے نوجوان اور لونڈی غلام ثابت قدم رہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دعوت کے نئے نئے پہلو اجاگر کرتے رہے تو قریش کے اکابر کی تشویش مزید بڑھ گئی۔ انھیں یہ بات سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ وہ اس دعوت کا مقابلہ کیسے کریں۔ ہر لیڈر اپنی سی کوشش کرتا، لیکن ناکام ہو جاتا۔ اس سلسلہ کی ایک کوشش ایک بڑے لیڈر عتبہ بن ربیعہ نے بھی کی۔ اس نے دوسرے ساتھیوں سے کہا کہ اگر تم اجازت دو تو میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) سے گفت و شنید کرتا اور کچھ پیش کش کرتا ہوں۔ ممکن ہے یہ منصوبہ کام کر جائے اور وہ کوئی بات قبول کر کے اپنی جدوجہد سے باز آ جائے۔ قریش نے اجازت دی تو وہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا۔
عتبہ نے کہا: بھتیجے، ہمارے خاندان میں تمھیں جو شرف اور عزت کا مقام حاصل ہے، وہ تم اچھی طرح جانتے ہو۔ لیکن تم نے اپنی قوم کو بڑی مشکل میں ڈال رکھا ہے۔ ان کی وحدت کو پارہ پارہ کر دیا ہے۔ ان کے معبودوں اور دین کو عیب لگا کر ان کی عقلوں کو ماؤف کر دیا ہے۔ تم ان کے آبا کو کافر کہتے ہو۔ اگر تم اس جدوجہد سے مال و دولت چاہتے ہو توہم تمھیں مال اکٹھا کر کے دے سکتے ہیں۔ اگر شرف چاہتے ہو تو ہم تمھیں اپنا سردار تسلیم کر لیتے ہیں۔ تمھارے بغیر ہم کوئی فیصلہ نہیں کریں گے۔ اگر بادشاہت چاہتے ہو تو تمھیں اپنا بادشاہ بنانے کو تیار ہیں۔ اگر تم پر کسی جن کا اثر ہے تو ہم کسی ماہر جھاڑ پھونک کرنے والے کو طلب کر لیتے ہیں۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم سنتے رہے۔ جب اس نے بات ختم کی تو آپ نے سورہ حٰم السجدہ کی تلاوت کی۔ اس کے بعد فرمایا: تمھارا معاملہ اس تعلیم سے ہے۔ عتبہ واپس اپنے ساتھیوں کے پاس گیا اور ان کو بتایا کہ میں نے محمد سے جو کلام سنا ہے، اس کی نظیر موجود نہیں۔ نہ یہ شعر ہے، نہ جادو، نہ کہانت۔ اے قریش، میری مانو تو اس شخص کو اس کے حال پر چھوڑ دو۔ یہ کلام کسی بڑے انجام تک پہنچنے والا ہے۔ اگر عرب محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو کسی مصیبت میں ڈالیں گے تو تمھارا مقصد اس میں حصہ لیے بغیر بھی پورا ہو جائے گا۔ اگر یہ شخص غلبہ پا گیا تو اس کی حکومت تمھاری حکومت اور اس کی عزت تمھاری عزت ہو گی۔ اس پر قریش نے کہا: اے ابو الولید، اس شخص نے اپنے کلام سے آپ پر جادو کر دیا ہے۔ عتبہ نے کہا: میں نے اپنی رائے دے دی، اب جو چاہو کرو۔
جب ہشام بن الولید کے بھائی الولید بن الولید مسلمان ہوئے تو بنو مخزوم کے کچھ لوگ ہشام کے پاس پہنچے۔ وہ یہ تجویز لے کر گئے تھے کہ ان کے خاندان کے نوجوان مثلاً سلمہ بن ہشام، عیاش بن ابی ربیعہ اور الولید بن الولید مسلمان ہو چکے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ نئے دین میں شامل ہونے والوں کو سزا دیں۔ لہٰذا الولید کو ہمارے حوالے کیاجائے۔ ہشام نے کہا کہ الولید کو لے جاؤ، لیکن اس کو بچا کر رکھنا۔ اللہ کی قسم، اگر تم نے اس کو قتل کیا تو میں تمھارے خاندان کے اشراف میں سے کسی بڑے آدمی کو بدلے میں قتل کر دوں گا۔ جب بنو مخزوم کے لوگوں نے یہ جواب سنا تو کان لپیٹ کر واپس چلے گئے۔۲؂
اب تک قریش مسلمان ہونے والوں کو اذیتیں دیتے تھے، لیکن اب انھوں نے خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نشانہ بنانا شروع کیا۔ آپ کسی کو لا الٰہ الا اللہ کی تلقین فرماتے تو لوگ آپ کو برا بھلا کہتے اور آپ پر خاک پھینکتے۔ ایک مرتبہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم مسجد حرام میں نماز ادا کر رہے تھے تو ایک شقی القلب لیڈر عقبہ بن ابی معیط نے آپ کی گردن میں کپڑا ڈال کر اتنے زور سے کسا کہ آپ کا گلا گھٹنے لگا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے دیکھ لیا اور عقبہ کو دھکا دے کر علیحدہ کیا۔ ایک مرتبہ آپ طواف کر رہے تھے۔ اس وقت عقبہ بن ابی معیط، ابوجہل اور امیہ بن خلف حطیم میں مجلس آرا تھے۔ ہر شوط پر جب آپ ان کے پاس سے گزرتے تو وہ آوازے کستے۔ تین شوط کے بعد آپ نے رک کر ان کو اللہ کے عذاب سے ڈرایا۔ اس پر وہ لوگ دہشت زدہ ہو گئے اور مزید جملے کسنے سے باز رہے۔

سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کا اسلام

ایک مرتبہ ابوجہل حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صفا کے پاس الجھ گیا۔ آپ کو برا بھلا کہا اور گالیاں دیں۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے خاموشی سے سب کچھ برداشت کیا اور ابوجہل کو کوئی جواب نہ دیا۔ ابوجہل مسجد میں جا کر لیڈروں کی محفل میں بیٹھ گیا۔ عبداللہ بن جدعان کی آزاد کردہ ایک لونڈی نے یہ سارا ماجرا دیکھا۔ اتنے میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حمزہ بن عبدالمطلب کمان لیے ہوئے مسجد میں طواف کے لیے داخل ہوئے تو اس خاتون نے ابوجہل کی حرکت سے ان کو مطلع کیا۔ وہ اپنے عزیز بھتیجے کے ساتھ اس غیر شریفانہ سلوک سے مشتعل ہو گئے۔ مسجد میں جا کر کمان ابوجہل کے سر پر دے ماری اور کہا: میرے بھتیجے کو گالی دیتے ہو ۔ میں بھی اس کے دین پر ہوں۔ وہ جو کچھ کہتا ہے، میں بھی وہی کہتا ہوں۔ اگر ہمت ہے تو مجھ سے دو دو ہاتھ کر لو۔ اس صورت حال کو دیکھ کر بنو مخزوم نے بیچ بچاؤ کرا دیا۔ لیکن حمزہ رضی اللہ عنہ کے اندر اس واقعہ سے جو انسان جاگا وہ اسلام کا بہت بڑا شیدائی اور جاں نثار ثابت ہوا۔ ادھر قریش کے لیے حمزہ رضی اللہ عنہ کا اسلام ایک غیر معمولی صدمہ تھا، کیونکہ یہ نہایت جری اور شجاع آدمی تھے۔
ایک دن ابوجہل نے ڈینگ مارتے ہوئے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ میں کل محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) پر اس کی نماز کے دوران میں حملہ کروں گا۔ جب وہ مسجد میں جائے گا تو میں ایک نہایت بھاری پتھر اس کے سر پر دے ماروں گا۔ بنو عبد مناف اس کے بعد جو کچھ کریں، مجھے اس کی پروا نہیں ہو گی۔ اگلے دن وہ بہت بڑا پتھر مسجد حرام میں لے گیا اور حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کرنے لگا۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو حسب معمول نماز کے لیے کھڑے ہو گئے۔ قرشی سرداروں کی نظریں اب ابوجہل پر تھیں کہ وہ کیا کرتا ہے۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم جب سجدہ میں گئے تو وہ اٹھا اور بھاری پتھر لے کر حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بڑھا۔ ابھی حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ فاصلہ پر تھا تو وہ دہشت زدہ ہو کر پلٹا ۔ اس کا رنگ فق ہو گیا ۔ اس کے ہاتھوں میں طاقت نہ رہی اور پتھر اس کے ہاتھ سے گر پڑا۔ قرشی سرداروں نے بھاگ کر اسے سہارا دیا اور پوچھا: ابوالحکم، کیا ہوا؟ اس نے بتایا کہ جونہی میں محمد کے قریب ہوا ایک عظیم الجثہ اونٹ آڑے آ گیا۔ میں نے اس جیسی کوہان، اس جیسے دانت اور گردن کسی اونٹ کے نہیں دیکھے۔ وہ لپک کر مجھے کھانے کو آیا جس سے میری حالت متغیر ہو گئی۔
دوسری روایت میں اونٹ کے بجائے آگ کی ایک کھائی کا ذکر ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ اونٹ ہو یا آگ کی کھائی ، یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس شیطان سے محفوظ رکھنے کا الٰہی انتظام تھا۔
ایک مرتبہ عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ نے ارادہ کیا کہ میں حرم میں جا کر بلند آواز سے تلاوت کروں گا۔ لوگوں نے منع کیا، لیکن وہ باز نہ آئے اور حرم میں جا کر سورۂ رحمن پڑھنا شروع کی۔ کفار ان پر ٹوٹ پڑے اور مارنا شروع کیا۔ وہ زخمی ہو گئے، لیکن تلاوت ختم نہ کی۔ واپس ہوئے تو چہرہ زخمی تھا۔

منافقین

پیغمبر کی دعوت کا جب چرچا ہوتا ہے تو اس کے اولین مخاطبوں کے علاوہ عوام الناس میں بھی اس کی بات سننے کا اشتیاق پیدا ہو جاتا ہے۔ جو لوگ پہلے سے حق کے متلاشی ہوتے ہیں، ان کے لیے پیغمبر کی دعوت اجنبی نہیں ہوتی۔ وہ اس کو اپنے دل کی آواز سمجھتے، اس کو لپک کر قبول کرتے اور پھر ہر قیمت پر اس دولت کی حفاظت کرتے ہیں، خواہ اس راہ میں انھیں قربانیاں ہی دینی پڑیں۔ عقلیت پسند لوگ پیغمبر کے دلائل پر غور کرتے، اس کے ماضی و حال کا مطالعہ کرتے اور اس کو قبول کرنے کے نتائج و عواقب پر سوچ بچار کر کے کوئی فیصلہ کرتے ہیں، اور جب فیصلہ کر لیتے ہیں تو اس پر قائم رہنا بھی ضروری سمجھتے ہیں۔ ایک قسم ان لوگوں کی ہوتی ہے جو کسی خارجی اثر کے تحت پیغمبر کے قریب تو آ جاتے ہیں، لیکن وہ پیغمبر کی دعوت کے تقاضوں سے ناواقف ہوتے ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ آگے چل کر حالات کیا رخ اختیار کریں گے، معاشرہ حق کو قبول کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے یا نہیں، اور جو لوگ اسلام قبول کر رہے ہیں ان کو آیندہ کن احوال سے گزرناپڑے گا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت جب مکہ میں پھیلی تو کئی ایسے نوجوان بھی اس سے متاثر ہوئے جنھوں نے قبول اسلام کی ذمہ داریوں کے پیش و عقب کو نہیں سمجھا۔ وہ مسلمان ہوئے تو ابتدا میں انھیں کوئی مشکل پیش نہ آئی، لیکن جب آبا و اجداد اور اعزہ و اقربا کی طرف سے سختی شروع ہوئی تو وہ گھبرا گئے۔ والدین ان کو سمجھاتے کہ اس نئے دین کو چھوڑو۔ ایسا کرنے سے تمھیں کوئی نقصان نہیں ہو گا۔ اگر یہ گناہ کا کام ہے تو اس کا وبال ہماری گردن پر ہو گا۔ جب وہ اس طرح کی چکنی چپڑی باتوں میں نہ آتے تو بڑے اپنی اولادوں کو اذیتیں دیتے اور زدوکوب کرتے۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اگرچہ شادی شدہ اور اپنے پاؤں پر کھڑے ہو چکے تھے، اس کے باوجود ان کا چچا ان کو رسی سے باندھ کر مارتا۔ زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ کا چچا ان کو چٹائی میں لپیٹ کر ان کی ناک میں دھواں دیتا۔ جب نوجوانوں کو اس صورت حال سے گزرنا پڑتا تو خام ذہن کے لوگوں میں شبہات پیدا ہونے لگتے کہ جب ہم نے اللہ کا سیدھا راستہ اختیار کر لیا ہے تو اس پر چلنا اس قدر دشوار کیوں ہے؟ رسول اللہ پر ایمان لانا جان جوکھم کا کام کیوں ہے؟ ظاہر ہے کہ یہ سوالات راہ حق کے تقاضوں سے بے خبری کے باعث پیدا ہوتے تھے۔ لہٰذا قرآن نے بڑی وضاحت سے بتایا کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے اپنے نام لیواؤں کو آزمایشوں کی بھٹی میں سے گزارتا رہا ہے۔ جو لوگ انسانوں کی پہنچائی ہوئی اذیت سے اس طرح گھبراتے ہیں جس طرح خدا کے عذاب سے ڈرنا اور گھبرانا چاہیے تو وہ جان لیں کہ دنیا کا دکھ تو چند روزہ ہے، لیکن اگر امتحان سے گھبرا کر یہ اپنے دین اور اللہ واحد کی عبادت سے دستبردار ہو جائیں گے تو خدا کی پکڑ ابدی ہو گی۔ انھیں یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ایمان لانے والوں سے ان لوگوں کو ممیز کرتا رہے گا جو منافق ہوں گے۔

وَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَلَیَعْلَمَنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ.(العنکبوت ۲۹: ۱۱)
’’اور اللہ ایمان لانے والوں کو بھی ممیز کر کے رہے گا اور منافقوں کو بھی ممیز کر کے رہے گا۔‘‘

انھی کمزور ایمان والوں کے بارے میں دوسری جگہ فرمایا کہ جس حد تک حالات سازگار رہتے ہیں، وہ اہل ایمان کاساتھ دیتے ہیں ۔ جونہی کوئی آزمایش پیش آتی ہے، لڑکھڑا جاتے اور خدا سے مایوس اور بدگمان ہو کر دوسروں کو مولیٰ و مرجع بنا لیتے ہیں۔ تاہم مکہ کی پر محن زندگی میں نفاق کا فتنہ ابھر نہ سکا۔ قرآن مجید کا چونکہ یہ طریقہ ہے کہ وہ لوگوں کے رویوں کے بعید نتائج کو بھی سامنے لاتا ہے تاکہ لوگ شروع ہی سے اخلاقی امراض سے اپنے آپ کو بچا سکیں، اس لیے یہاں بھی نمایاں کر دیا کہ یہ روش منافقین کی ہوتی ہے۔

قریش کی نئی منصوبہ بندی

بنو ہاشم کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حمایت سے دستبردار کرنے میں جب قریش کو کوئی کامیابی نہ ہوئی ، ابوطالب بحیثیت سربراہ خاندان حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی پشت پناہی پر مصر رہے اور ان کے بھائیوں نے اگرچہ اسلام قبول نہیں کیا، لیکن اپنے بھتیجے کو برابر تحفظ فراہم کرتے رہے ، اسی طرح جو نوجوان حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے وہ ظلم و تشدد سہنے کے باوجود اپنے موقف پر قائم اور اختیار کردہ دین پر ثابت قدم رہے تو انھوں نے پیش آمدہ چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے دوسرے طریقوں پر غور شروع کیا۔ صورت حال یہ تھی کہ روز بروز مسلمان قوی تر ہوتے جا رہے تھے۔ ان کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا تھا۔ مکہ کے بہت سے گھروں میں یہ مسئلہ پیدا ہو گیا کہ آبائی مذہب کو خیرباد کہہ کر کہیں کوئی باپ ، کہیں بیٹا یا بھائی ، کہیں شوہر اور کہیں بیوی، اسلام کی تعلیم قبول کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی بن گئے اور ہر گھرانے میں ایک ایسی بحث چل نکلی جس سے پیچھا چھڑانا کسی کے لیے ممکن نہ رہا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت اور اسلام قبول کرنے والوں کی استقامت نے جو صورت حال پیدا کر دی تھی، اس سے نکلنے کا ایک طریقہ تو یہ تھا کہ قریش اپنے منصب کے اصل تقاضوں، اپنے طرز عمل اور کمزوریوں کا جائزہ لے کر اصلاح پر آمادہ ہو جاتے، ان کی نگاہ مکہ کے ابراہیمی مرکز توحید کی ذمہ داریاں ادا کرنے میں اپنی کوتاہیوں کی طرف اٹھتی اور وہ اپنے غیر فطری اور غیر اخلاقی نظام میں تبدیلی لاتے جو ان کے معاشرہ میں عوام الناس کے لیے مشکلات کا باعث بنا ہوا تھا۔ لیکن یہ طریقہ قریش کے متکبرانہ رویہ سے مطابقت نہیں رکھتا تھا۔ اس سے ان کی انا مجروح ہوتی اور مفادات پر ضرب پڑتی تھی۔ اس لیے انھوں نے یہ طریقہ اختیار نہیں کیا۔ دوسرا طریقہ، جس سے وہ صورت حال کا مقابلہ کر سکتے تھے، یہ تھا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے پیغام کی مخالفت کی راہیں تلاش کرتے۔ بدقسمتی سے انھوں نے اسی راستہ کا انتخاب کیا۔ حالات کا تجزیہ کرنے پر وہ اس نتیجہ تک پہنچے کہ لوگ دو اسباب کی بنا پر نئے دین کو اختیار کر رہے ہیں۔ ایک یہ کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے کلام میں غیر معمولی تاثیر ہے۔ جو نوجوان اس کو سن لیتا ہے وہ اس کا گرویدہ ہو جاتا ہے۔ جب کلام بار بار کسی کو سنایا جاتا ہے تو وہ اس کا اتنا شیدائی ہو جاتا ہے کہ نہ کسی سختی کو خاطر میں لاتا اور نہ کسی ترغیب و تحریص کااثر قبول کرتا ہے۔ چونکہ محمد اس کو وحی الٰہی قرار دیتے ہیں تو یہ چیز عوام کو مرعوب کر دیتی ہے۔ دوسرا یہ کہ لوگ محمد کے اس دعویٰ سے متاثر ہو گئے ہیں کہ وہ خدا کا نمائندہ ہے اور اس کی طرف سے اس کو جو پیغامات ملتے ہیں ان کے پہنچانے پر وہ اللہ کی طرف سے مامور ہے۔ ان دونوں باتوں کا توڑ ان کو اس میں نظر آیا کہ ایک طرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش کردہ کلام کو ساقط الاعتبار ٹھہرائیں تاکہ لوگ اس کو اللہ کی جانب سے نازل شدہ کلام کی حیثیت نہ دیں، بلکہ ایک انسانی کاوش کے درجہ میں رکھیں۔ دوسری طرف ان کے اس دعویٰ کو جھٹلایا جائے کہ وہ خدا کے منتخب رسول ہیں تاکہ لوگ ان کو اپنے جیسا انسان ہی سمجھیں اور ان کے نبی ہونے کے دعویٰ سے مرعوب نہ ہوں۔ اگلے دو ابواب میں ہم قریش کے ان اعتراضات کاجائزہ لیں گے جو انھوں نے قرآن پر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت پر کیے۔
 

۱؂ صحیح بخاری: کتاب البیوع باب ذکر القین والحداد۔
۲؂ السیرۃ النبویہ، ابن ہشام ۱/ ۳۲۱۔

-------------------------------

 

بشکریہ ماہنامہ اشراق

تحریر/اشاعت جنوری 2008