نبی موعود کی آمد (2) - خالد مسعود

نبی موعود کی آمد (2)

[’’سیر و سوانح ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]

(جناب خالد مسعود صاحب کی تصنیف ’’حیات رسول امی‘‘ سے انتخاب

  (۲)

رشتۂ ازدواج

زبیر بن عبدالمطلب کے انتقال کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا گھر بسانے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اس وقت آپ کی عمر ۲۲ یا ۲۳ برس کی تھی۔ آپ نے ابوطالب سے ان کی بیٹی ام ہانی ہند کا رشتہ مانگا۔ اس کے ساتھ ہی ہند کے لیے دوسرا پیغام ہبیرہ بن ابی وہب مخزومی کا آیا، جو ابوجہل کے خاندان سے تھا۔ ابوطالب نے دوسرے رشتہ کو ترجیح دی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اس کا شکوہ کیا کہ آپ نے اپنے حقیقی بھتیجے کے مقابلہ میں بنو مخزوم کے ایک نوجوان کو دامادی کے لیے منتخب کیا تو انھوں نے جواب دیا کہ معزز شرفا کے کفو (ہم مرتبہ) معزز شرفا ہی ہوتے ہیں۔۸؂
مطلب یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یتیمی اور مالی اعتبار سے بہت اچھی حالت نہ ہونا اس رشتہ میں رکاوٹ بن گیا۔ ابوطالب نے زور آور اور با اثر خاندان میں ام ہانی کا رشتہ کر دیا۔ اس کا شوہر ہبیرہ عمر بھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمن رہا اور آخر دم تک اسلام قبول نہ کیا۔ فتح مکہ کے بعد اس نے اپنے گھر سے فرار ہونے کو ترجیح دی اور ساحل سمندر کی طرف کہیں نکل گیا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر جب ۲۵ برس ہوئی تو آپ کے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہونے کے اسباب پیدا ہو گئے۔ خدیجہ بنت خویلد بن اسد بن عبدالعزی بن قصی قریش کے خانوادہ بنو اسد کی ایک معزز خاتون تھیں۔ ان کا پہلا نکاح عتیق بن عائذ مخزومی سے ہوا جس سے کوئی اولاد نہ تھی۔ اس کے بعد دوسرا نکاح ابوہالہ ہند بن نیاش تمیمی سے ہوا۔ اس سے تین بیٹے ہالہ، طاہر اور ہند پیدا ہوئے جو صحابی ہیں۔ ۹؂
خدیجہ رضی اللہ عنہا اپنا سرمایہ تجارت میں لگایا کرتی تھیں۔ کوئی بھی قافلہ شام یا یمن جانے والا ہوتا تو وہ کسی تاجر کو سرمایہ فراہم کرتیں۔ جب وہ واپس آتا تو منافع میں اپنا حصہ وصول کر لیتیں۔ چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ذریعۂ معاش بھی تجارت تھی، خدیجہ نے ان سے درخواست کی کہ وہ ان کا مال لے کر منڈیوں میں جائیں اور منافع میں سے اپنا حصہ وصول کر لیں۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خدیجہ کے سرمایہ سے جو کاروبار کیا اس میں آپ کے حسن معاملت کے باعث منافع کی شرح پہلے کے مقابلہ میں بہت اچھی اور خدیجہ کی توقع سے بڑھ کر رہی اور وہ اس سے بے حد مطمئن ہوئیں۔ عین ممکن ہے کہ یہ واقعہ صرف ایک بار پیش نہ آیا ہو، بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کئی بار خدیجہ کا مال لے کر گئے ہوں۔ ایک سفر میں خدیجہ نے اپنا غلام میسرہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم راہ بھیجا جس نے واپسی پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ اخلاق اور عمدہ عادات و خصائل کی تعریف کی۔ روایات کے مطابق وہ اس رپورٹ سے اتنی متاثر ہوئیں کہ انھوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا رفیق حیات بنانے کا عزم کر لیا اور سلسلۂ جنبانی کے لیے اپنے اعتماد کی ایک خاتون نفیسہ کو آپ کے پاس بھیجا تو آپ نے اس پیش کش کو قبول کر لیا۔
سیرت نگاروں کے بیان سے یہ تاثر ملتا ہے جیسے خدیجہ کوئی اجنبی خاتون ہوں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شہرت سن کر آپ کو تجارت کے لیے بھیجا ہو اور اپنے غلام میسرہ کی شہادت پر انحصار کر کے پیغام نکاح دیا ہو۔ حالانکہ یہ بات نہیں۔ قریش کے مختلف خانوادوں کے مابین رشتے ہوتے رہتے تھے اور باہم آمد و رفت بھی رہتی تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی صفیہ بنت عبدالمطلب خدیجہ کی بھاوج تھیں۔ ان کی شادی عوام بن خویلد سے ہوئی تھی۔ اس لیے یہ رشتہ دیکھا بھالا تھا۔ ہو سکتا ہے اس کی تحریک صفیہ کی جانب سے ہوئی ہو جس کو خدیجہ نے قبول کر لیا ہو اور پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کرنے کے لیے نفیسہ کو بھیجا ہو۔ نکاح ہوا تو خدیجہ کے ولی عمرو بن اسد تھے، کیونکہ خویلد بن اسد کا پہلے انتقال ہو چکا تھا۔ ابوطالب نے خطبۂ نکاح پڑھا۔ اس موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حمزہ بن عبدالمطلب بھی موجود تھے۔
سیرت نگاروں کے عمومی بیان کے مطابق نکاح کے وقت خدیجہ کی عمر ۴۰ سال تھی۔ لیکن اس پر اتفاق نہیں ہے۔ ابن کثیر نے اسے ۳۵ سال اور بقول بعض ۲۵ برس بتایا ہے۔ خدیجہ کی وفات کے وقت انھوں نے ان کی عمر ۵۰ برس بتائی ہے اور اسے صحیح ترین قول قرار دیا ہے۔ ۵۰ سال کے حساب سے نکاح کے وقت یہ عمر ۲۵ سال نکلتی ہے۔ اس کے حق میں ابن کثیر نے بیہقی کی روایات کاحوالہ دیا ہے۔ ڈاکٹر حمیداللہ نے عمر بوقت نکاح ۲۸ برس بتائی ہے۔۱۰؂ ۴۰ برس کی روایت کے مقابلہ میں ۲۵ یا ۲۸ برس کی روایت درست معلوم ہوتی ہے۔ عرب میں بلوغت کے جلد بعد لڑکیوں کی شادی کر دینے کا رواج تھا، جیسا کہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اولادوں کے معاملہ میں اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کے معاملہ میں ہوا۔ تین بچوں کی پیدایش کے بعد شوہر کے وفات پانے کی صورت میں کوئی شریف خاتون ۴۰ سال کی عمر تک بلا نکاح بیٹھی نہیں رہتی تھی۔ کثرت ازواج کے اس معاشرہ میں بہت جلد رشتے مل جاتے تھے۔ عورتوں کے مطلقہ یا بیوہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ صحابۂ کرام میں بلا امتیاز مطلقہ یا غیر مطلقہ بکثرت شادیاں ہوتی تھیں۔
علاوہ ازیں یہ بات ثابت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدیجہ سے اولاد دو بیٹوں اور چار بیٹیوں پر مشتمل تھی۔ چھ بچوں کی پیدایش کا لحاظ رکھا جائے تو ۲۵ یا ۲۸ برس کی عمر ہی قرین قیاس نظر آتی ہے۔ ۴۰ برس کی عمر کے بعد عورت کی بچہ جننے کی صلاحیت بہت محدود ہوتی ہے۔ قاضی سلیمان کی تحقیق کے مطابق حضور کے چھوٹے بیٹے عبداللہ کی ولادت بعثت کے بعد ہوئی تھی۔ بوقت نکاح ۴۰ برس کی عمر مانی جائے تو گویا عبداللہ کی ولادت ۵۶ سال کی عمر میں ہوئی جو طبی نقطۂ نظر سے قابل فہم نہیں۔ ہمارے نزدیک بیہقی کی روایت اور ڈاکٹر حمیداللہ کی رائے درست ہے۔
روایات کے مطابق نکاح کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے والد عبداللہ کی لونڈی ام ایمن کو آزاد کر دیا اور خدیجہ نے اپنا غلام زید بن حارثہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دیا جس کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آزاد کر کے اپنا منہ بولا بیٹا بنا لیا۔ یہ زید بن حارثہ اب زید بن محمد کہلانے لگے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ بڑی شفقت کا معاملہ فرماتے۔ زید کوئی نسلی غلام نہ تھے، بلکہ قبیلۂ بنوکلب کے فرزند تھے۔ ان کو بچپن میں گرفتار کر کے غلام بنا کر مکہ میں بیچ دیاگیا۔ ان کے اعزہ کو کسی نے خبر دی کہ زید مکہ میں بنو ہاشم میں ہیں۔ زید کے والد اور دوسرے عزیز بچے کو حاصل کرنے کے لیے مکہ پہنچے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا کہ بچہ اگر جاناچاہے تو میں اس کے جانے میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں کروں گا۔ جب زید سے پوچھا گیا تو انھوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سایۂ عاطفت میں رہنے کو ترجیح دی اور اعزہ کو واپس بھیج دیا۔

تعمیر کعبہ

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر جب ۳۵ برس تھی تو سیلابوں نے بیت اللہ کی عمارت کو نقصان پہنچایا۔ قریش نے فیصلہ کیا کہ عمارت کو ازسر نو تعمیر کیاجائے۔ سیلابوں سے محفوظ رکھنے کے لیے اس کی کرسی بلند کر دی جائے۔ پہلی عمارت چھت کے بغیر تھی اور دیواریں زیادہ اونچی نہ تھیں۔ اب طے ہوا کہ بیت اللہ کو بلند کر کے مسقف کر دیا جائے۔ قریش نے یہ فیصلہ بھی کیا کہ تعمیر نو کے اس کام میں تمام خانوادے شرکت کریں اور اپنی حلال کمائی میں سے حصہ ڈالیں۔ اس میں کسی ایسے مال کی آمیزش نہ ہو جو حق تلفی یا ظلم سے حاصل کیا گیا ہو۔ جب یہ منصوبہ تیار ہوا تو اتفاق سے کوئی غیر ملکی جہاز، جس پر تعمیراتی سامان لدا ہوا تھا، جدہ کے ساحل پر ریت میں دھنس گیا۔ اس کو نکال کرواپس گہرے پانیوں میں لے جا نے کی کوئی تدبیر کارگر نہ ہوئی تو جہازوالوں نے سامان سے نجات حاصل کرنا چاہی۔ قریش کے علم میں یہ بات آئی تو انھوں نے لکڑی اور دوسرا ضروری سامان خرید لیا اور مکہ لے آئے۔ پرانی عمارت کے انہدام کا کام قریش کے مختلف خانوادوں پر تقسیم کر دیاگیا۔ اس کے بعد ابراہیمی بنیادوں پر دوبارہ تعمیر شروع ہوئی۔ جب دیواریں چند فٹ بلند ہو گئیں تو حجر اسود کے نصب کرنے کا مرحلہ آیا۔ ہر قبیلہ کی خواہش تھی کہ یہ شرف اس کو حاصل ہو، لیکن ایسا ہونا ممکن نہ تھا۔ جھگڑا بڑھا تو اس کو نمٹانے کے لیے کئی تجاویز پیش ہوئیں، لیکن وہ کسی بھی خانوادے کو مطمئن نہ کر سکیں۔ خطرہ پیدا ہو گیا کہ اس مسئلہ پر تلواریں نیاموں سے نہ نکل آئیں۔ اتنے میں قریش کے ایک بزرگ ابو امیہ بن مغیرہ نے تجویز پیش کی کہ معاملہ کو خدا پر چھوڑ دیا جائے اور مسجد حرام کے باب بنو شیبہ سے جو قرشی سب سے پہلے داخل ہو اس کو ثالث مان کر فیصلہ اس پر چھوڑ دیا جائے اور تمام لوگ اس کو قبول کریں۔ لوگوں نے اس تجویز کاخیر مقدم کیا اور سب کی نگاہیں باب بنوشیبہ پر لگ گئیں۔ اس دروازے سے جو پہلا شخص مسجد میں داخل ہوا وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تھے جن کو سب لوگ صادق اور امین کہتے اور ان پر اعتماد کرتے تھے۔ آپ کودیکھتے ہی سب لوگوں کے چہروں پر مسرت و اطمینان کی لہر دوڑ گئی کہ اب یہ مسئلہ خوش اسلوبی سے طے ہو جائے گا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صورت حال کاجائزہ لینے کے بعد ایک چادر بچھائی۔ اس کے وسط میں حجر اسود رکھا اور قریش کے تمام خانوادوں کے سرداروں کو ہدایت کی کہ وہ چادر کو چاروں طرف سے تھام کر اونچا کریں۔ آپ خود دیوار پر چڑھ گئے۔ چادر اونچی کی گئی تو آپ نے حجر اسود کو اٹھا کر اس کے مقام پر نصب کر دیا۔ اس طرح ایک ایسا مسئلہ جس نے سنگین صورت اختیار کر لی تھی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دانش مندی سے بخوبی حل ہو گیا۔
ابراہیمی تعمیر میں کعبہ کی جنوبی دیوار میں دو کونے تھے اور شمالی دیوار نصف دائرہ کی شکل میں تھی۔ قریش کے پاس جمع شدہ رقم اس پوری تعمیر کے لیے ناکافی تھی۔ لہٰذا شمالی دیوار کو بنیادیں بھر کر چھوڑ دیا گیا۔ باقی چوکور حصہ کو مسقف کر کے ایک کمرہ کی شکل دے دی گئی۔ اس کا دروازہ فرش کی کرسی کے برابر بلند کر دیاگیا۔ وہ نیم دائرہ حصہ جو چھوڑ دیا گیا تھا آج تک غیر مسقف ہے۔ اس کو حطیم کہتے ہیں۔ زائرین بیت اللہ آج بھی اس حصہ میں نوافل ادا کر کے خانہ کعبہ کے اندر نماز پڑھنے کے احساس سے شادکام ہوتے ہیں۔
 

۸؂ الطبقات الکبریٰ، محمد بن سعد ۶/ ۱۱۲۔
۹؂ رحمۃ للعالمین، قاضی سلیمان ۲/ ۱۷۳۔ ۱۷۶۔
۱۰؂ رسول اکرم کی سیاسی زندگی۔ ڈاکٹر محمد حمیداللہ۶۵۔

-------------------------------

 

بشکریہ ماہنامہ اشراق

تحریر/اشاعت فروری 2007
مصنف : خالد مسعود
Uploaded on : Sep 08, 2016
2208 View