بنی اسرائیل میں ایک عظیم رسول کی آمد کی خبر (1) - خالد مسعود

بنی اسرائیل میں ایک عظیم رسول کی آمد کی خبر (1)

[جناب خالد مسعود صاحب کی تصنیف ’’حیات رسول امی‘‘ سے انتخاب]

 

اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام سے وعدہ فرمایا تھا کہ ان کی نسل کو بڑھاتے بڑھاتے آسمان کے تاروں اور سمندر کے کنارے کی ریت کی مانند کر دے گا تو یہ وعدہ پورا ہوا۔ ان کی نسل ان کے دونوں بیٹوں، اسماعیل اور اسحاق، سے خوب پھیلی اور دو عظیم شاخیں بنی اسماعیل اور بنی اسرائیل کے نام سے وجود میں آئیں۔

بنی اسرائیل

حضرت اسحاق کے دو بیٹے عیسو اور یعقوب ہوئے۔ یعقوب، جن کا اصل نام اسرائیل تھا، کے بارہ بیٹے تھے۔ ان کی نسل بارہ قبیلوں کی شکل میں پھیلی اور بنی اسرائیل کہلائی۔ یعقوب کے بیٹے یوسف سوتیلے بھائیوں کی زیادتی کے نتیجہ میں غلام بن کر مصر میں بکے۔ وہاں طویل آزمایش سے گزرنے کے بعد ان کو بادشاہ کے دربار میں رسوخ حاصل ہوا تو انھوں نے اپنے والدین اور تمام بھائیوں کو کنعان کی کٹھن زندگی چھوڑ کر مصر میں آباد ہونے کی پیش کش کی۔ حضرت یعقوب نے اسے قبول کر لیا۔ چنانچہ یہ پورا خاندان مصر کو نقل مکانی کر گیا۔ ابتدائی ادوار میں تو ان کو وقار اور عزت کی زندگی ملی، لیکن زمانہ گزرنے کے ساتھ مصریوں کی اگلی نسلوں میں یوسف سے عقیدت بھی کم ہو گئی اور بادشاہت بھی ایک ایسے خاندان میں چلی گئی جو ان کا نقاد اور بنی اسرائیل کے وجود کو مصر پر ایک بوجھ سمجھتا تھا۔ اس خاندان نے بنی اسرائیل کو غلاموں کی حیثیت دے دی اور ان سے بیگار لی جانے لگی۔ کنعان سے آنے کے چند سو سال بعد ان کے اندر موسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے جن کو اللہ تعالیٰ نے رسالت کے منصب پر فائز کیا۔ انھوں نے اپنی قوم کو منظم کیا، ان کو فراموش کردہ آبائی دین کی ازسر نو تعلیم دی اور ایمان کے تقاضے بتائے۔ انھوں نے مصر کے حکمران فرعون سے مطالبہ کیا کہ وہ بنی اسرائیل پر ظلم نہ ڈھائے اور ان کو اپنے قدیم وطن کو لوٹنے کی اجازت دے دے۔ برس ہا برس کی کش مکش کے بعد فرعون نے بنی اسرائیل کو اجازت تو دے دی، لیکن پھر وعدہ خلافی کر کے اپنے لاؤ لشکر سمیت ان کے تعاقب میں نکلا۔ اس وعدہ خلافی اور اللہ کے رسول کی نافرمانی کی سزا کے طور پر فرعون اور اس کا لشکر سمندر میں غرق ہو گئے اور اہل مصر کے باغ و چمن آسمانی آفت سے تباہ ہو گئے۔

حضرت موسیٰ کی پیشین گوئی

عبور دریا کے بعد بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ نے برگزیدہ کیا۔ تمام جہان والوں میں سے ان کو اپنی ہدایت کا پرچار کرنے کے لیے منتخب کیا۔ موسیٰ علیہ السلام کو انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ آسمانی کتاب، جو واضح احکام پر مبنی تھی، تحریری شکل میں عطا ہوئی اور انھوں نے بنی اسرائیل سے بار بار اس بات پر عہد لیا کہ وہ اس کتاب کو اپنی رہنما کتاب کی حیثیت دیں گے اور اس پر عمل کریں گے۔ اپنی وفات سے قبل انھوں نے بطور وصیت ایک بار پھر قوم کو جمع کر کے تمام احکام پر عمل کرنے کا عہد لیا۔ اس موقع پر انھوں نے بطور خاص آیندہ آنے والے ایک نبی کے مبعوث ہونے کی خبر دی، اس کی خصوصیات و علامات بتائیں اور اس کی بعثت کے وقت اس پر ایمان لانے کی تلقین فرمائی۔ تورات میں اس کا تذکرہ حسب ذیل الفاظ میں ہے:

’’خداوند تیرا خدا تیرے لیے تیرے ہی درمیان سے، یعنی تیرے ہی بھائیوں میں سے، میری مانند ایک نبی برپا کرے گا۔ تم اس کی سننا۔‘‘ ( استثنا ۱۸ :۱۵)

حضرت موسیٰ کو جب تورات کے احکام ملے تو وہ بنی اسرائیل کے لیڈروں کی ایک جماعت کو بھی کوہ طور پر ساتھ لے گئے تھے تاکہ وہ بھی ان احکام کے عہد میں شریک ہو سکیں۔ تورات کے بیان کے مطابق وہاں بنی اسرائیل نے ایک بہت بڑی آگ کے بیچ میں سے خداوند کی آواز سنی تو دہشت زدہ ہو گئے۔ انھوں نے حضرت موسیٰ سے مطالبہ کیا کہ آیندہ انھیں اس طرح کی صورت حال سے دوچار نہ کیا جائے۔ اسی موقع کا حوالہ دیتے ہوئے حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی وفات کے قریب بنی اسرائیل کو خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’تم کہنے لگے کہ خداوند ہمارے خدا نے اپنی شوکت اور عظمت ہم کو دکھائی اور ہم نے اس کی آواز آگ میں سے آتی سنی۔ آج ہم نے دیکھ لیا کہ خداوند انسان سے باتیں کرتا ہے تو بھی انسان زندہ رہتا ہے۔ سو اب ہم کیوں اپنی جان دیں، کیونکہ ایسی بڑی آگ ہم کو بھسم کر دے گی۔ اگر ہم خداوند اپنے خدا کی آواز پھر سنیں تو مر ہی جائیں گے کیونکہ ایسا کون سا بشر ہے جس نے زندہ خدا کی آواز ہماری طرح آگ میں سے آتی سنی ہو اور پھر بھی جیتا رہا۔ سو تو ہی نزدیک جا کر جو کچھ خداوند ہمارا خدا کہے اسے سن لے اور تو ہی وہ باتیں جو خداوند ہمارا خدا تجھ سے کہے ہم کو بتانا اور ہم اسے سنیں گے اور اس پر عمل کریں گے۔‘‘ (استثنا ۵: ۲۴۔۲۷)

معلوم ہوا کہ اس موقع پر بنی اسرائیل کو شریعت دینے کے ساتھ ساتھ خدا کے جلال کا مشاہدہ کرایا گیا اور انھوں نے ’سمعنا واطعنا‘کا اقرار کیا۔ البتہ، خوف زدہ ہو کر انھوں نے موسیٰ علیہ السلام سے التجا کی کہ احکام عطا کرنے کا یہ انداز نہایت ہیبت ناک ہے، لہٰذا ہمیں اس میں شریک نہ کیاجائے اور موسیٰ خود ہی احکام حاصل کر کے بتا دیا کریں تو بنی اسرائیل ان کی اطاعت کیا کریں گے۔
بنی اسرائیل کے عہد کی باقاعدہ تقریب بھی حورب کے مقام پر منائی گئی تاکہ وہ ان کے ہاں یادگار رہے۔ کتاب خروج میں ہے:

’’اور موسیٰ نے خداوند کی سب باتیں لکھ لیں اور صبح کو سویرے اٹھ کر پہاڑ کے نیچے ایک قربان گاہ اور بنی اسرائیل کے بارہ قبیلوں کے حساب سے بارہ ستون بنائے۔ اور اس نے بنی اسرائیل کے جوانوں کو بھیجا جنھوں نے سوختنی قربانیاں چڑھائیں اور بیلوں کو ذبح کر کے سلامتی کے ذبیحے خداوند کے لیے گزرانے ۔ اور موسیٰ نے آدھا خون لے کر باسنوں میں رکھا اور آدھا قربان گاہ پر چھڑک دیا۔ پھر اس نے عہد نامہ لیا اور لوگوں کو پڑھ کر سنایا۔ انھوں نے کہا کہ جو کچھ خداوند نے فرمایا ہے اس سب کو ہم کریں گے اور تابع رہیں گے۔ تب موسیٰ نے اس خون کو لے کر لوگوں پر چھڑکا اور کہا دیکھو یہ اس عہد کا خون ہے جو خداوندنے اب سب باتوں کے بارے میں تمھارے ساتھ باندھا ہے۔‘‘ ( ۲۴ :۴۔۸)

گویا معاہدہ کے وقت ذبیحہ کا خون ایک طرف بنی اسرائیل پر چھڑکا گیا اور دوسری طرف قربان گاہ پر، جو خداوند تعالیٰ کی قائم مقام تھی۔ یہ حلف کی ایک قسم تھی۔ اس کا مطلب اس بات کا اظہار تھا کہ بنی اسرائیل اس عہد کی حفاظت میں اپنا خون بہانے سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل کے اس عہد میں کون سے احکام شامل تھے۔ کتاب خروج میں مشہور و معروف احکام عشرہ (Ten Commandments)کا ذکر بھی ہے اور مزید احکام کا بھی جو چند ابواب میں پھیلے ہوئے ہیں۔ البتہ، کتاب استثنا میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا وہ خطبہ شامل ہے جو انھوں نے وفات سے قبل بطور وصیت بنی اسرائیل کو دیا۔ اس کا آغاز یوں ہوتا ہے:

’’اے اسرائیلیو! تم ان آئین اور احکام کو سن لو جن کو میں آج تم کو سناتا ہوں تاکہ تم ان کو سیکھ کر ان پر عمل کرو۔ خداوند ہمارے خدا نے حورب میں ہم سے ایک عہد باندھا۔ خداوند نے یہ عہد ہمارے باپ دادا سے نہیں، بلکہ خود ہم سب سے جو یہاں آج کے دن جیتے ہیں، باندھا۔ خداوند نے تم سے اس پہاڑ پر روبرو آگ کے بیچ میں سے باتیں کیں۔ اس وقت میں تمھارے اور خداوند کے درمیان کھڑا ہوا، تاکہ خداوند کاکلام تم پر ظاہر کروں، کیونکہ تم آگ کے سبب سے ڈرے ہوئے تھے اور پہاڑ پر نہ چڑھے۔‘‘ (استثنا ۵ :۱۔۵)

یاد رہے کہ حورب کوہ سینا کے دامن میں واقع اس مقام کا نام ہے، جہاں بنی اسرائیل عہد کے لیے جمع ہوئے تھے اور پہاڑ پر زلزلہ طاری کر دیاگیا تھا۔ اوپر بیان ہو چکا ہے کہ بنی اسرائیل نے یہ التجا کی تھی کہ ان تک احکام پہنچانے کی یہ ہیبت ناک شکل آیندہ اختیار نہ کی جائے۔ وہ موسیٰ علیہ السلام پر اعتماد کریں گے اور وہ جو احکام دیں گے ، ان کو قبول کریں گے۔
اپنے اس خطاب میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کے پچھلے چالیس برس کے رویوں پر تبصرہ کیا، ان کو دیے گئے خاص خاص احکام کی یاددہانی کرائی اور تلقین فرمائی کہ وہ خداوند کے عہد پر پورا اتریں۔ انھی احکام میں سے حسب ذیل حکم بھی ہے:

’’خداوند تیرا خدا تیرے لیے تیرے ہی درمیان سے، یعنی تیرے ہی بھائیوں میں سے، میری مانند ایک نبی برپا کرے گا۔ تم اس کی سننا۔ یہ تیری اس درخواست کے مطابق ہو گا جو تونے خداوند اپنے خدا سے مجمع کے دن حورب میں کی تھی کہ مجھ کو نہ تو خداوند اپنے خدا کی آواز پھر سننی پڑے اور نہ ایسی بڑی آگ ہی کا نظارہ ہو تاکہ میں مر نہ جاؤں۔ اور خداوند نے مجھ سے کہا کہ وہ جوکچھ کہتے ہیں سو ٹھیک کہتے ہیں۔ میں ان کے لیے انھی کے بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا۔ اور جو کچھ میں اسے حکم دوں گا، وہی وہ ان سے کہے گا۔ اور جو کوئی میری ان باتوں کو جن کو وہ میرا نام لے کر کہے گا، نہ سنے گا تو میں ان کا حساب اس سے لوں گا۔ ‘‘(استثنا ۱۸: ۱۵۔۱۹)

معلوم ہوا کہ حورب کے مقام پر کچھ بنیادی احکام حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بنی اسرائیل کی موجودگی میں دیے گئے، لیکن جب وہ گھبرا گئے اور یہ درخواست پیش کی کہ باقی احکام حضرت موسیٰ کو دے دیے جائیں تو وہ بے چون و چرا ان کو تسلیم کر لیں گے تو اللہ تعالیٰ نے باقی احکام و فرامین موسیٰ علیہ السلام کی وساطت سے نازل فرمائے۔ ایک پیغمبر کے برپا ہونے کا وعدہ اور اس کی ہدایت پر عمل کرنے کا حکم، معلوم ہوتا ہے، بعد میں دیا گیا، لیکن یہ بنی اسرائیل کے قول و قرار کے مطابق ان کے عہد ہی میں شامل تھا۔ لہٰذا موسیٰ علیہ السلام نے حورب کے عہد ہی کے حوالہ سے اس حکم کی یاددہانی اپنی وصیت میں بنی اسرائیل کو کرائی۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اس خطاب میں وہ علامات و خصوصیات بیان کر دی گئی ہیں جن کی مدد سے اس پیغمبر کو پہچاننا ممکن ہو سکے جب اس کی بعثت ہو۔ وہ علامات حسب ذیل ہیں:
۱۔وہ پیغمبر ’بنی اسرائیل کے بھائیوں‘ میں سے ہو گا۔ یہ اس پیغمبر کے نسب کی اطلاع دی گئی ہے کہ وہ بنی اسرائیل کا فرد نہیں ہو گا، بلکہ ان کے بھائیوں میں سے ہو گا۔ بنی اسرائیل حضرت اسحاق علیہ السلام کی اولاد ہیں۔ ان کے بھائی حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اولاد ابراہیم میں سے اس پیغمبر کو بنی اسماعیل میں پیدا کیا جائے گا۔
۲۔وہ ’حضرت موسیٰ علیہ السلام کی مانند‘ ہو گا۔ ظاہر ہے کہ ا س سے مراد شکل و صورت کی مماثلت نہیں، بلکہ منصب رسالت کی مماثلت ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نمایاں ترین خصوصیات تین ہیں۔ اولًا آپ رسول تھے۔ ثانیاً آپ قانون و شریعت لائے اور ثالثاً آپ کی دعوت کامیابی سے ہم کنار ہوئی۔ گویا موعود رسول قانون و شریعت لائے گا اور وہ اپنے دعوت دین کے مشن میں کامیاب ہو گا۔
۳۔ اس کی نبوت میں وحی کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے کسی پہاڑ پر دہشت ناک مناظر نہیں دیکھنے پڑیں گے جن کے اندر سے لوگ خدا کاکلام سنیں، بلکہ اللہ تعالیٰ اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالے گا اور وہ اسے پڑھ کر سنائے گا۔
۴۔ وہ اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق ہر کام کرے گا۔
۵۔ جو شخص اس رسول کی بات نہ مانے گا ، اللہ تعالیٰ اس کا محاسبہ فرمائے گا۔
ان خصوصیات و علامات پر غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ ان میں اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا میں کامل مطابقت ہے۔ یہ خبر بنی اسماعیل میں پیدا ہونے والے ایک رسول کی ہے جو لوگوں کو اللہ کاکلام سنائے گا اور ان کو احکام یعنی کتاب و حکمت کی تعلیم دے گا۔ گویااس موقع پر حضرت موسیٰ نے بنی اسرائیل کو اپنے جد امجد حضرت ابراہیم کی دعاکے حوالہ سے تلقین فرمائی کہ جب وہ رسول پیدا ہوں تو بنی اسرائیل ان کی تعلیم پر کان دھریں اور ان کی اطاعت کریں، ورنہ وہ خدا کے غضب کے مستحق ٹھہریں گے۔ قرآن کے مطابق حضرت موسیٰ کے بعد آنے والے تمام انبیا بنی اسرائیل کو اس عہد کی یقین دہانی کراتے رہے کہ وہ اس موعود رسول کی بعثت پر اس پر ایمان لائیں گے اور اس کی نصرت کریں گے۔ اس عہد کو میثاق النبیین کا نام دیا گیا ہے، یعنی نبیوں کا لیا ہوا عہد۔

حضرت داؤد کی پیشین گوئی

حضرت موسیٰ کے بعد بنی اسرائیل کو تورات پر قائم رکھنے اور ان کے فرائض کی یاددہانی کے لیے ان کے اندر پے در پے نبی مبعوث ہوئے۔ یہ لوگ کنعان میں حکومت بھی کرنے لگے۔ ان کے حکمرانوں میں حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہما السلام کو اقتدار کے ساتھ ساتھ نبوت بھی حاصل تھی اور وہ اپنے ہم عصر حکمرانوں پر مادی و روحانی فوقیت رکھتے تھے۔ حضرت داؤد کو آسمانی کتاب زبور عطا ہوئی۔ اس کے اندر بھی آیندہ پیدا ہونے والے ایک عظیم رسول کی خبر ان الفاظ میں دی گئی:

’’جس پتھر کو معماروں نے رد کیا
وہی کونے کے سرے کا پتھر ہو گیا
یہ خداوند کی طرف سے ہوا
اور ہماری نظروں میں عجیب ہے
یہ وہی دن ہے جسے خداوند نے مقرر کیا
ہم اس میں شادمان ہوں گے اور خوشی منائیں گے
آہ! اے خداوند، بچا لے
آہ! اے خداوند، خوش حالی بخش
مبارک ہے وہ جو خداوند کے نام سے آتا ہے
ہم نے تم کو خداوند کے گھر سے دعا دی ہے۔ ‘‘(زبور ۱۱۸: ۲۲۔۲۶)

اس اقتباس سے بھی چند باتیں ایسی نمایاں ہوتی ہیں جو آنے والے نبی کی علامت ہیں۔ مثلاً:
۱۔قصر نبوت کی تعمیر میں جو لوگ نظر انداز ہوئے ، ان میں یہ پیغمبر آئے گا۔ دیکھا جائے تو بنی اسماعیل میں حضرت اسماعیل کے بعد کوئی رسول مبعوث نہیں ہوا تھا، جبکہ بنی اسرائیل میں پے درپے بہت سے نبی آئے۔
۲۔ جو نبی مبعوث ہو گا وہ قصر نبوت کے کونے کاپتھر ہو گا۔ یعنی وہ آخری پیغمبر ہو گا جس پر نبوت کامل ہو جائے گی اور اس کے بعد کسی نبی کی بعثت کی ضرورت نہیں ہو گی۔
۳۔اللہ تعالیٰ کے فیصلہ پر بنی اسرائیل کو حیرت ہو گی کہ نظر انداز ہونے والے لوگوں کو کیوں یہ شرف بخشا گیا ہے۔ حضرت داؤد دعا کرتے ہیں کہ بنی اسرائیل اس رسول کی مخالفت سے باز رہیں۔
۴۔اس پیغمبر کے حق میں دعا خداوند کے گھر سے یعنی بیت اللہ میں کی گئی۔ یہ حضرت ابراہیم اور اسماعیل علیہماالسلام کی دعا کا حوالہ ہے۔
۵۔وہ پیغمبر خداوند کے نام سے آ کر برکت دے گا۔ دوسرے الفاظ میں خدا کا کلام اس کے پاس ہو گا اور قومیں اس سے برکت حاصل کریں گی۔
بعد میں بنی اسرائیل اپنی ذمہ داریوں کو بھلا بیٹھے۔ تورات کو انھوں نے ضائع کر دیا اور مشرک قوموں کے اطوار سیکھ لیے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ایسے دشمنوں کو مسلط کر دیا جنھوں نے قوم کی قوم کو غلام بنا لیا اور یروشلم کے معبد کو تاراج کر دیا۔ طویل عرصہ کے بعد اس قوم کو اپنی غلطیوں کا احساس ہوا۔ ان میں مصلحین پیداہوئے جن کی باتوں پر انھوں نے عمل کیا۔ تورات کو یادداشت کی مدد سے دوبارہ مرتب کیاگیا۔ قوم میں شعور پیدا ہوا تو اللہ تعالیٰ نے بھی ان پر نظر عنایت فرمائی اور ان کو آزادی بخشی۔ معبد دوبارہ تعمیر ہوا۔ بنی اسرائیل میں پھر سے دین کا چرچا ہوا۔ لیکن یہ تبدیلی عارضی ثابت ہوئی۔ سابقہ غلط رویے پھر سے غالب آ گئے۔ تورات کے حصے بخرے کر کے ان میں تحریف کی جانے لگی۔ بنی اسرائیل کی اصلاح کے لیے اب جو نبی یا مصلحین آئے تو قوم نے ان کو خوش آمدید نہیں کہا، بلکہ اصلاح کے لیے تنقید کرنے والی ہر زبان گنگ کرنے کی ٹھان لی۔ چنانچہ تاریخ میں کئی نبیوں کے قتل کے واقعات ملتے ہیں۔ اس قوم نے دین کاحلیہ بگاڑ دیا اور نئے دین کو یہودیت (Judaism) کا نام دیا گیا۔ بالآخر اللہ تعالیٰ نے ان میں اتمام حجت کے لیے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو رسول بنا کر مبعوث کیا۔ انھوں نے یہود کو تجدید ایمان کی دعوت دی۔ پھر سے دین کے تقاضوں کی وضاحت کی اور تورات کو اس کی اصل روح کے مطابق پیش کیا۔ انھوں نے نئے نئے اسالیب اور پیرایوں میں ان کو تعلیم دی، لیکن یہودی علما نے ان کی کسی بات کو نہیں مانا، بلکہ ان کی راہ میں روڑے اٹکانے کے درپے رہے۔ بالآخر سازش کر کے ان کی جان لینے کے لیے ان کو رومی حکومت کے حوالہ کر دیا۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جو بات بڑے شدومد سے پیش کی اور اس کو اپنی بعثت کامقصدقرار دیا، وہ یہ تھی کہ ’آسمان کی بادشاہی نزدیک آ چکی ہے اور میں اس کی راہ صاف کرنے آیا ہوں‘۔ وہ مختلف شہروں میں جاتے تو اسی حقیقت کو بیان فرماتے۔ لہٰذا یہ ضروری ہے کہ آگے بڑھنے سے پہلے ان کے خاص مقصد بعثت کو متعین کیا جائے۔
[باقی]

-------------------------------

 

بشکریہ ماہنامہ اشراق

تحریر/اشاعت فروری 2006
مصنف : خالد مسعود
Uploaded on : Sep 08, 2016
3165 View